Sunday 25 January 2015

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم وستم کا سلسلہ جاری


ابو لہب اس کے باوجود کہ رسول اللہﷺ کا چچا اور پڑوسی تھا'یہ ساری حرکتیں کررہا تھا ۔ اس کا گھر آپ کے گھر سے متصل تھا۔ اسی طرح آپ کے دوسرے پڑوسی بھی آپ کو گھر کے اندر ستاتے تھے۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جوگروہ گھر کے اندر رسول اللہﷺ کو اذیت دیا کر تا تھا وہ یہ تھا۔ ابو لہب ، حَکم بن ابی العاص بن امیہ ، عقبہ بن ابی مُعیط ، عَدِی بن حمراء ثقفی ، ابن الاصداء ہذلی۔ یہ سب کے سب آپﷺ کے پڑوسی تھے اور ان میں سے حکم بن ابی العاص (یہ اموی خلیفہ مروان بن الحکم کے باپ ہیں) کے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہ ہوا۔ 
ان کے ستانے کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپﷺ نماز پڑھتے تو کوئی شخص بکری کی بچہ دانی اس طرح ٹکا کر پھینکتا کہ وہ ٹھیک آپﷺ کے اوپر گرتی۔ چولھے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جا گرتی۔ آپﷺ نے مجبور ہوکر ایک گھروندا بنا لیا تاکہ نماز پڑھتے ہوئے ان سے بچ سکیں۔
بہر حال جب آپﷺ پر یہ گندگی پھینکی جاتی تو آپﷺ اسے لکڑی پر لے کر نکلتے اور دروازے پر کھڑے ہو کر فرماتے :
اے بنی عبد مناف ! یہ کیسی ہمسائیگی ہے ؟ پھر اسے راستے میں سائیڈ پر ڈال دیتے۔ 

عُقبہ بن ابی مُعیط اپنی بدبختی اور خباثت میں اور بڑھا ہو ا تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ بیت اللہ کے پاس نماز پڑ ھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے کچھ رفقاء بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں بعض نے بعض سے کہا : کون ہے جو بنی فلاں کے اونٹ کی اوجھڑی لائے اور جب محمد سجدہ کریں تو ان کی پیٹھ پر ڈال دے ؟ اس پر قوم کا بد بخت ترین آدمی...عقبہ بن ابی معیط(ابن ہشام ۱/۴۱۶)...اٹھا اور اوجھ لاکر انتظار کرنے لگا۔ جب نبیﷺ سجدے میں تشریف لے گئے تو اسے آپ کی پیٹھ پر دونوں کندھوں کے درمیان ڈال دیا۔ میں سارا ماجرا دیکھ رہا تھا ، مگر کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ کاش! میرے اندر بچانے کی طاقت ہوتی۔
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعدوہ ہنسی کے مارے ایک دوسرے پر گرنے لگے اور رسول اللہﷺ سجدے میں ہی پڑے رہے، سَر نہ اٹھایا۔ یہاں تک کہ فاطمہؓ آئیں اور آپ کی پیٹھ سے اوجھ ہٹا کر پھینکی، تب آپ نے سَر اٹھایا۔ پھر تین بار فرمایا : ((اللّٰھم علیک بقریش۔)) '' اے اللہ تو قریش کو پکڑ لے۔'' جب آپ نے بد عا کی تو ان پر بہت گراں گزری۔ کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس شہر میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد آپ نے نام لے لے کر بددعا کی : اے اللہ ! ابوجہل کو پکڑ لے اور عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ولید بن عتبہ ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو پکڑ لے ...انہوں نے ساتویں کا بھی نام گنایا لیکن راوی کو یاد نہ رہا...( خود صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں اس کی صراحت آگئی۔ دیکھئے ۱/۵۴۳۔)
ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے دیکھا کہ جن لوگوں کے نام رسول اللہﷺ نے گن گن کر لیے تھے۔ سب کے سب بدر کے کنویں میں مقتول پڑے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب الوضوء باب اذا ألقی علی المصلی قذر أو جیفۃ ۱/۳۷)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔