Sunday 25 January 2015

صادق الامین کا خطاب


نبیﷺ اپنی قوم میں شیریں کردار ، فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ عادات کے لحاظ سے ممتاز تھے۔ چنانچہ آپ سب سے زیادہ بامروت ، سب سے خوش اخلاق ، سب سے معزز ہمسایہ ، سب سے بڑھ کر دُور اندیش ، سب سے زیادہ راست گو، سب سے نرم پہلو ،سب سے زیادہ پاک نفس ، خیر میں سب سے زیادہ کریم ، سب سے نیک عمل، سب سے بڑھ کر پابندِ عہد اور سب سے بڑے امانت دار تھے۔ حتیٰ کہ آپ کی قوم نے آپ کا نام ہی ''امین '' رکھ دیا تھا۔ کیونکہ آپ احوالِ صالحہ اور خصالِ حمیدہ کا پیکر تھے اور جیسا کہ حضرت خدیجہ ؓ کی شہادت ہے۔ 
''آپﷺ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے تھے۔ تہی دستوں کا بندوبست فرماتے تھے ، مہمان کی میزبانی کرتے تھے اور مصائبِ حق میں اعانت فرماتے تھے۔ '' (صحیح بخاری ۱/۳۔)
نہ صرف مکہ معظمہ ؛بلکہ تمام ملک عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیکی خوش اطواری،دیانت،امانت اورراست بازی کی اس قدر شہرت ہوگئی تھی کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نام لے کر نہیں ؛بلکہ الصادق یا الامین کہہ کر پکارتے تھے،تمام ملکِ عرب میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی جو الصادق یا الامین کی مشارُ الیہ سمجھی جاتی تھی اورانہیں ناموں سے لوگ آپ کو پہچانتے اوریاد کرتے تھے.
مسزاینی بیسنٹ ہندوستان میں تھیو سوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اوربڑی مشہور انگریز عورت ہے وہ لکھتی ہے کہ:
پیغمبر اعظم(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی جس بات نے میرے دل میں اُن کی عظمت وبزرگی قائم کی ہے وہ اُن کی وہ صفت ہے جس نے اُن کے ہم وطنوں سے الامین (بڑادیانت دار) کا خطاب دلوایا،کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اورکوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لئے قابلِ اتباع نہیں،ایک ذات جو مجسم صدق ہو اُس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے،ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغامِ حق کا حامل ہو۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔