Tuesday 20 January 2015

مغربی اقوام کے مظالم اور سفاکی کی تاریخ

یورپ امریکہ کے لوگ مسلمانوں کو سفاکی کا طعنہ دیتے رہتے ہیں اور اس کے لیے انہوں اسلامی بنیاد پرستی اور انتہاء پسندی جیسی کئی ٹرم ایجاد کی ہوئیں ہیں ، اسلام کے متعلق بھی یہ پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یہ تلوار کے زور سے پھیلا۔ (اس پراپیگنڈے کے اچھے مدلل جواب کتابوں رسالوں اور سائیٹ پر دے جاچکے )۔ 
حالانکہ یہ خود سب سے بڑے سفاک اور ظالم ہیں، خود انکی اپنی حکومتیں اس وقت دنیا میں کس طرح ظالم اور ظلم کی سرپرست بنی ہوئی ہیں یہ تو سب کے سامنے ہیں ، اگر ان کی تاریخ کا بھی جائزہ لیا جائے تو اس سے بڑھ کر ظلم اور سفاکی کا پورا نقشہ دیکھا جاسکتا ہے، آئیے ذرا ان کی تاریخ کے ایسے پہلو پر بھی ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ 
ولیم اول نے ١٠٦٦ء میں انگلستان کو فتح کیا تو اس کے حکم سے مفتوحہ علاقوں کے گھر،کھلیان اور کھیت وغیرہ سب کچھ جلا دیے گئے اور ایک لاکھ سے زیادہ مرد و زن،بچوں اور عورتوں کو قتل کیا گیا،لن گارڈ نے تاریخ انگلستان جلد دوم میں لکھا ہے کہ یارک اور ڈرہم کے علاقے اس طرح برباد کر دیے گئے تھے کہ نو سال تک وہاں کی زمین کھیتی کے لائق نہیں رہی۔ انگلستان کے کچھ مورخین ایسے سفاکانہ واقعات کی تاویل کر کے ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دوسرے ملکوں کے ایسے واقعات میں خوب رنگ آمیزی کرتے ہیں ۔
روس کا حکمران آئیون چہارم (١٥٨٤ئ۔ ١٥٣٠ء )آئیون مہیب (ٹریبل )کہلاتا،وہ اپنے غلاموں کو اپنی نجی ملکیت سمجھتا،اور کہتا کہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہے ان کو ہلاک کر دے اور جب تک چاہے ان کو زندہ رہنے دے،اس کو کلیسا کے پادریوں سے شکایت رہتی کہ وہ کاہل ہیں ،عبادت نہیں کرتے اس لیے کلیسامیں جا کر قیام کرتا اور کبھی کبھی رات رات بھر ان سے عبادت کراتا،ا س نے تو بائبل کو بھی بدل دینے کی کوشش اور اپنی طرف سے اس کا ایک نسخہ تیار کر کے اس کو رائج کرانے کی کوشش کی۔ (روس از ڈبلیو۔آر۔مورفل ص٦٩۔٦٧)
سولہویں صدی میں فرانس کے حکمراں چارلس نہم اور اس کی ماں کیتھرائن نے مل کر سینٹ بار تھیمیلو کے میلے کے موقع پر ساڑھے دس ہزار پروٹسٹنٹ کو قتل کرا دیا،تو کیتھولک چرچ نے خوشی کے شادیانے بجائے۔
(انسائیکلو پیڈیا آف بری ٹانیکا،گیارہواں ایڈیشن ج١٠ ص ٨٣١۔٨٢٩)
لوئی پانزدہم اپنی داشتاؤں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا رہا اس کے زمانہ میں ژان سینی تحریک مذہبی اور سیاسی احکام کے خلاف چلی تو اس کو کچلنے کے لیے ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ (ایضاًص ٨٤٩۔٨٤٧)
روس کا شہنشاہ پیٹر (١٧٢٥ء۔١٦٧٢ء) اپنے کارناموں کی وجہ سے پیٹر اعظم کہلاتا مگر جہاں اس میں بڑی عظمت تھی وہاں اس کے مزاج میں اتنا غصہ تھا کہ پھر ایسے مظالم کرنے پر اُتر آتا کہ لوگ ان کو دیکھ کر تھرا اُٹھتے،اس کے راستے میں جو کوئی رکاوٹ پیدا کرتا اس کو نیست و نابود کر دینے میں تامل نہ کرتا۔وہ اپنی خوبیوں کی وجہ سے معمہ بنا رہا،اس کے قریب ترین ساتھی بھی باخبر نہیں ہوتے کہ وہ کس وقت کیا کر بیٹھے گا اس کے بارہ میں مشہور تھا کہ اس کا غصہ طوفانی ہوتا وہ کسی سے نفرت کرتا تو اس کی پوری بیخ کنی کر کے دم لیتا،اس کی ضیافت میں بڑی سر مستیاں ہوتیں اور اس کی تفریحیں بڑی پیچیدہ ہوتیں اس نے اپنے لڑکے الیکزیسن کو پھانسی کی سزا دلوائی،اس لیے کہ اس کی حرکتیں اس کو پسند نہیں تھیں ،اس نے اپنی ایک بیوی کو خانقاہ میں بند کر کے نن بننے پر مجبور کیا کیونکہ اس شبہہ تھا کہ وہ پادریوں سے مل کر اس کے خلاف باغیانہ سازش میں ملوث ہو گئی تھی،اس نے کلیسا میں اپنی خواہش کے مطابق اصلاحات کیں تو پادریوں نے اس کو قتل کر دینے کی دھمکی دی۔
(روس،از ڈبلیو۔ای مورفل ص ١٧٣۔١٦٢، انسائیکلو پیڈیا بری ٹانیکا،گیارہواں ایڈیشن)
سترہویں صدی میں جرمنی میں پر و ٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں کی جنگ شروع ہوئی تو یہ یورپ کی تیس سالہ جنگ کے نام سے مشہور ہوئی،یورپ کی بہت سی حکومتیں اس میں الجھ گئی تھیں ،مورخین کا بیان ہے کہ اس لڑائی میں بو ہیمیا کے ٣٥ ہزار گاؤں میں صرف ٦ ہزار باقی رہ گئے تھے،بویریا، فرینکونیا اور سوابیا میں غارتگری ایسی کی گئی تھی کہ یہ سارے علاقے قحط اور امراض سے تباہ ہو کر ویرا ن ہو گئے۔جرمنی میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی تھی اس جنگ کے بعد ساٹھ لاکھ رہ گئی،اے جے گرانٹ اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس سے صنعت و حرفت اور علوم و فنون کا فقدان ہو گیا۔ لوگوں کے خیالات اور اعمال میں ایک وحشیانہ انداز پیدا ہو گیا،مذہب،تدبر اور سیاست کا کوئی بلند معیار باقی نہ رہا،آئر لینڈ کے سوا اور کوئی ملک ایسے جہنمی عذاب میں مبتلا نہیں ہوا۔
(تاریخ یورپ از اے۔ جے گرانٹ،اردو ترجمہ ص ٧٧٧)
انیسویں صدی میں ١٨٣١ء میں یونان کے علاقے موریا میں تین لاکھ اور یونان کے شمالی حصہ میں ہزاروں مسلمان مرد،بچے اور عورتیں بڑی بے رحمی سے ہلاک کی گئیں ۔تفصیل مارماڈیوک پکتھال کی کتاب دی کلچرل سائڈ آف اسلام میں پڑھی جا سکتی ہے۔
یورپ میں تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد خوں ریز لڑائیاں ہوتی رہیں ہیں اور ان سے جو غارتگری ہوتی رہی اس کی تاریخ المناکی سے بھری ہوئی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں انسانوں پر جو الم انگیز مصائب آئے اسکی تفصیل بکھری پڑی ہوئی ،دوسری عالمگیر جنگ میں روسیوں کے تیس لاکھ سپاہی جرمن حملہ آوروں کے اسلحہ سے ہلاک ہوئے ان کے ملک کے آٹھ لا کھ مربع میل کے علاقے بالکل تباہ کر دیے گئے،اسی جنگ میں برطانیہ کے چھ لاکھ سپاہی مارے گئے اورچالیس لاکھ مکانات برباد ہوئے،فرانس کو چھبیس ملین ڈالر کا نقصان پہونچا،یہاں کے پانچ لاکھ گھر تہس نہس ہوئے اور ساڑھے سات لاکھ خاندان بے گھر ہو گئے،کہا جاتا ہے کہ اس جنگ کے زمانہ میں پورے یورپ میں ایک کروڑ سے زیادہ سپاہی موت کے گھاٹ اترے،اور دو کروڑ سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے اور خدا جانے کتنے لنگڑے لولے اور بے کار ہو کر زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہوئے،چار سو ملین ڈالر کی املاک تباہ ہوئی۔
(ماڈرن یورپ از سی۔ڈی ہیزن،باب ٣٨۔١٩٧٩ء ایڈیشن)
اسی جنگ کا یہ واقعہ بھی ابھی تک لوگوں کے ذہن میں ہے کہ اخوت،مساوات اور جمہوریت کے علمبردار عیسائیوں نے جاپان کے شہروں میں سے ہیرو شیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرا کران کے لاکھوں مردوں ،عورتوں ،بوڑھوں اور بچوں کو چشم زدن میں موت کے گھاٹ اس طرح اتار دیا گیا کہ چنگیز اور ہلاکو کی سفاکیاں بھلا دی گئیں ۔
اور ابھی چند عشرے پہلے ویت نام میں امریکہ نے تیس سال تک جنگ کی،لندن کے اخبار ٹائمس میں چھپا ہے کہ اس مدت میں امریکی فضائیہ نے اٹھارہ لاکھ ننانوے ہزار چھ سو اڑسٹھ حملے کیے۔ سرسٹھ لاکھ ستائیس ہزارچوراسی ٹن بم گرائے،وہاں کے نباتات کو تباہ کر نے کے لیے ایک کروڑ نوے لاکھ گیلن کے تباہ کن مادے پھینکے،٣٥ لاکھ ایکڑ زمین پر زہریلی دوائیں چھڑکی گئیں ،جن کا زہر خیال ہے کہ ایک سو برس تک کام کرتا رہے گا۔ ایک کروڑ افراد بے گھر ہوئے ان کے بچے یتیم ہوئے،پندرہ لاکھ ساٹھ ہزار شہری مجروح ہوئے،چھتیس لاکھ باسٹھ ہزار آدمی مارے گئے۔

یہ سفاکی،بے دردی اور ستم آرائی بلکہ خونخواری اور درندگی ان عیسائیوں کی طرف سے ہوئی جو مسلمانوں کو وحشی اور تشدد پسند کہتے نہیں تھکتے ۔ ان کی تاریخ نویسی کا طلسمِ سامری بھی ان کے ان جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔

اک ڈاکیومنٹری کا لنک بھی پیش خدمت ہے، اس میں موجودہ دور کے ان انسانی حقوق کے چیمپین اور تہذیب کے مہماروں کی سفاکی کو فیکٹس کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج جو کچھ دنیا میں ہو رہا آج سے پہلے دو تین صدیوں میں ہو چکا ۔ اس کے پیچھے کون ہے؟ وہ ایسا کیوں کررہے ، ؟اورکیسے کیا جارہا ؟؟ اس ڈاکیومینڑی کے علاوہ john pilger کی ایک اور بھی ڈاکومنٹری ہے The War you don’t See کے نام سے ، وہ بھی دیکھنے کے قابل ہے۔


یہاں سے بھی جان کی یہ اور باقی تمام ڈاکومنٹریز دیکھی جاسکتی ہیں. 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔