Monday 22 December 2014

اہل کتاب صحابہ و صحابیات

صحابہ :۔
حضرت ابرہہ
حضرت ادریس
حضرت اسید بن سعید
حضرت اسد بن عبید
حضرت اسد بن کعب
حضرت اسید بن کعب
حضرت اشرف حبشی
حضرت بحیرالحبشی
حضرت بشیر من معاویہ
حضرت تمام
تمیم الحبشی
حضرت تمیم داری
حضرت ثعلبہ بن سعیتہ
حضرت ثعلبہ بن سلام
حضرت ثعلبہ بن قیس
حضرت ثعلبہ بن ابی مالک
حضرت جارود بن عمرو
حضرت جبر
حضرت جبل
حضرت حیر نجرہ
حضرت دریدالراہب
حضرت ذودجن
حضرت ذومخمر
حضرت ذومناحب
حضرت ذومہدم
حضرت رافع القرضی
حضرت رفاعہ بن السموال
حضرت رفاعہ القرضی
حضرت زید بن سعنہ
حضرت سعد بن وہب
حضرت سعنہ
حضرت سعید بن عامر
حضرت سلام
حضرت سلمہ بن سلام
حضرت سلمان فارسی
حضرت سمعان بن خالد
حضرت سیمونہ بلقاوی
حضرت شمعون
حضرت صالح القرضی
حضرت عامر الشامی
حضرت عبدالحارث بن السنی
حضرت عبداللہ بن سلام
حضرت عبدالرحمن بن زبیر
حضرت عداس
حضرت عدی بن حاتم
حضرت عطیہ القرضی
حضرت علی بن رفاعہ
حضرت عمرو بن سعدی
حضرت عمیر بن امیہ
حضرت کثیر بن السائب
حضرت کرز بن علقمہ
حضرت کعب بن سلیم
حضرت محرب
حضرت محمد بن عبداللہ بن سلام
حضرت مخریق
حضرت میمون بن یامین
حضرت مابور
حضرت نافع
حضرت یامین بن عمیر
حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام
حضرت ابو سعید بن وہب
حضرت ابو مالک
بارگاہِ رسالت کے ایک یہودی خادم

صحابیات :۔
حضرت تمیمہ
حضرت خالدہ
حضرت ریحانہ
حضرت سفانہ
حضرت سیرین
حضرت صفیہ
حضرت ماریہ قبطیہ
حضرت ابو ھریرہ کی والدہ
مکمل تحریر >>

تاریخی راویوں کا نشانہ بننے والے ایک مظلوم صحابی رسول

حضرت امیر معاویہ رض کی شخصیت وہ ہے کہ جن پر تاریخ میں سب سے زیادہ گند اچھالا گیا ہے مختار بن عبید ثقفی جیسے مدعی نبوت جسکو حضرت عبدللہ ابن زبیر رض نے جہنم واصل کیا تھا 'کی یاد تو بطور ہیرو اور رہنما منائی جاتی ہے لیکن حضرت امیر معاویہ رض پر دل کھول کر کیچڑ اچھالی جاتی ہے انکے اسلام کو مشکوک قرار دیا جاتا ہے اور ہر وہ برائی انکی شخصیت میں تلاش کی جاتی ہے جو انکے کردار کو اسلام کے منافی ثابت کر سکے لیکن ان مذموم کوششوں سے نہ تو ماضی میں انکی شخصیت و کردار کو گہنایا جا سکا ہے اور نہ ہی دور جدید میں یہ کوششیں رنگ لائینگی ۔ انکی شخصیت پر کئی اعتراضات کیے گئے ہیں اور پھر انکے جواب میں باقاعدہ کتابیں بھی لکھیں گئی ہیں، بہت سی کتابیں نیٹ پر بھی موجود ہیں ۔ ہم فضائل یا اعتراضات کی کسی بحث میں پڑے بغیر انکے بارے میں کچھ مستند سطور پیش کرتے ہیں ۔ان کو کھلے ذہن سے پڑھیے۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
اے لوگو! تم معاويہ رضی اﷲ عنہ کی گورنری اور امارت کو نا پسند مت کرو، کیونکہ اگر تم نے انہیں (معاويہ رضی اﷲعنہ) گم کر دیا تو ديکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے، جس طرح ہنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹو ٹ کر گر تا ہے۔(البدايہ والنہايہ حافظ ابن کثیر ص130)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے کہ ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور شائد اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے‘‘۔
صحیح بخاری۔ جلد:۲/ انتیسواں پارہ/ حدیث نمبر:۶۶۴۳/ حدیث مرفوع

جس شخصیت کی تعریف خود حضرت علی رض نے فرمائی ہو ،جس گروہ کو خود الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کے گروہ میں شامل کیا ہو اور جن لوگوں سے خود حضرت امام حسن رض نے صلح کی ہو آج انکے نام لیوا کس منہ سے حضرت امیر پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔

خالص شیعہ مراجع سے حضرت امیر معاویہ رض کی شخصیت پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں .:

قیس ابن ابی خازم کہتے ہیں کہ ایک شخص معاویہ کے پاس آیا اور اُس سے کوئی مسئلہ پوچھا۔ معاویہ نے جواب دیا کہ جاؤ علی علیہ السلام سے پوچھ لو، وہ سب سے بڑا عالم ہے۔ اُس شخص نے کہا کہ میں نے مسئلہ آپ سے پوچھا ہے اور آپ ہی سے جواب چاہتا ہوں۔
معاویہ نے فوراً جواب دیا: افسوس ہے تم پر! کیا تم اس پر خوش نہیں کہ تمہارے سوال کا جواب تمہیں وہ دے جس کو پیغمبر خدا نے خود اپنی زبان سے علم کی غذا دی ہو اور جس کے بارے میں پیغمبر نے یہ بھی کہا ہو کہ اے علی ! تیری نسبت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ کے ساتھ نسبت تھی۔جس سے خلیفہ دوم حضرتِ عمر ابن خطاب متعدد بار سوال پوچھتے رہے ہوں اور جب بھی مشکل آتی تو حضرتِ عمر یہ پوچھتے کہ کیا علی علیہ السلام یہاں ہیں؟
اس کے بعد معاویہ نے غصے سے اُس شخص کو کہا کہ چلا جا۔ خدا تجھے اس زمین پر پاؤں نہ پھیلانے دے۔ اس کے بعد اُس کا نام بیت المال کی فہرست سے خارج کردیا۔
حوالہ1۔ کتاب”بوستانِ معرفت“،صفحہ305،نقل از حموئی کی کتاب فرائد السمطین،جلد1،
باب68صفحہ371،حدیث302۔
2۔ ابن عساکر، کتاب تاریخ امیر الموٴمنین ،ج1،ص369،370،حدیث410،411
3۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، صفحہ34،حدیث54۔

ماہِ رمضان میں ایک دن احنف بن قیس معاویہ کے دسترخوان پر افطاری کے وقت بیٹھا تھا۔ قسم قسم کی غذا دستر خوان پر چن دی گئی۔ احنف بن قیس یہ دیکھ کر سخت حیران ہوا اور بے اختیار اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ معاویہ نے رونے کا سبب پوچھا۔ اُس نے کہا کہ مجھے علی کے دسترخوان کی افطاری یاد آگئی۔ کس قدر سادہ تھی۔
معاویہ نے جواب دیا:”علی علیہ السلام کی بات نہ کرو کیونکہ اُن جیسا کوئی نہیں“۔
حوالہ کتاب”علی علیہ السلام معیارِ کمال“، تالیف:ڈاکٹر مظلومی۔

وہ سوالات جن کا معاویہ کو جواب معلوم نہ ہوتا تھا ،وہ لکھ کر اپنے کسی آدمی کو دیتا تھا اور کہتا تھا کہ جاؤ ان سوالات کا جواب علی علیہ السلام سے پوچھ کر آؤ۔ شہادتِ علی علیہ السلام کی خبر جب معاویہ کو ملی تو کہنے لگا کہ علی علیہ السلام کے مرنے کے ساتھ فقہ و علم کا در بھی بند ہوگیا۔ اس پر اُس کے بھائی عتبہ نے کہا کہ اے معاویہ! تمہاری اس بات کو اہلِ شام نہ سنیں۔ معاویہ نے جواب دیا:”مجھے( میرے حال پر )چھوڑ دو“۔
حوالہ کتاب”بوستانِ معرفت“، صفحہ659،نقل از ابوعمر کی کتاب استیعاب، جلد3،صفحہ45

شرح حالِ علی علیہ السلام سے۔
معاویہ نے ابوہریرہ سے کہا کہ میں گمان نہیں کرتا کہ زمام داریٴ حکومت کیلئے میں حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ مستحق ہوں۔
حوالہ :کتاب”بررسی مسائل کلی امامت“، تالیف: آیۃ اللہ ابراہیم امینی،صفحہ74،نقل از کتاب”الامامۃ والسیاسۃ“، جلد1،صفحہ28۔

معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے نام
”معاویہ نے اپنے خط بنام علی علیہ السلام میں لکھا کہ میں اپنی جان کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ آپ کے فضائلِ اسلامی اور رسولِ خدا کے ساتھ قرابت داری کا منکر نہیں ہوں“۔

علی علیہ السلام کی تعریف معاویہ کی زبان سے
جب محصن ضبی معاویہ کے پاس پہنچا تو معاویہ نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں سے آرہے ہو؟اُس نے جواب دیا کہ میں(معاذاللہ) کنجوس ترین شخص علی ابن ابی طالب کے پاس سے آرہا ہوں۔ یہ سن کر معاویہ اُس پر چلّایا اور کہا :کیا تم اُس کو بخیل ترین شخص کہہ رہے ہو جس کے پاس اگر ایک گھر سونے(طلاء) سے بھرا ہوا ہو اور دوسرا گھر چاندی سے بھرا ہوا ہو تو وہ بیکسوں کو زیادہ سونا بانٹ دے گا اور پھر طلاء اور چاندی کو مخاطب کرکے کہے گا کہ:
یٰاصَفْرٰاءُ وَیٰا بَیْضٰاءُ غُرِّی غَیْرِی أَبِی تَعَرَّضْتِ اَمْ اِلیَّ
تَشَوَّقْتِ؟ھَیھٰاتَ ھَیھٰاتَ قَدْ طَلَّقْتُکِ ثَلٰثاً لاٰ رَجْعَةَ فِیْکَ۔
”اے طلاءِ زرد اور سفید چاندی! میرے کسی غیر کو دھوکہ دو، کیا اس طرح تم میری مخالفت کررہی ہو یا مجھے حوصلہ دے رہی ہو۔ افسوس ہے، افسوس ہے، میں نے تجھے تین مرتبہ طلاق دے دی ہے جس کے بعد رجوع ممکن نہیں“۔
حوالہ کتاب”چراشیعہ شدم“،صفحہ227۔

جاحظ کتاب المحاسن والاضداد میں لکھتا ہے کہ ایک دن حضرتِ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام معاویہ کی محفل میں گئے۔ اس محفل میں عمروعاص، مروان بن حکم اور مغیرہ بن شعبہ اور دوسرے افراد پہلے سے موجود تھے۔جس وقت امام حسن علیہ السلام وہاں پہنچے تو معاویہ نے اُن کا استقبال کیا اور اُن کو منبر پر جگہ دی۔ مروان بن حکم نے جب یہ منظر دیکھا تو حسد سے جل گیا۔ اُس نے اپنی تقریر کے دوران امام حسن علیہ السلام کی توہین کی ۔ امام حسن علیہ السلام نے فوراً اُس خبیث انسان کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان حالات کو دیکھ کر معاویہ اپنی جگہ سے بلند ہوا اور مروان بن حکم کو مخاطب کرکے کہنے لگا:
”قَدْ نَھَیْتُکَ عَنْ ھٰذا الرَّجُل۔۔۔۔۔فَلَیْسَ اَ بُوْہُ کَاَبِیْکَ وَلَا ھُوَ مِثْلُکَ۔اَنْتَ اِبْنُ الطَّرِیْد الشَرِیْد،وَھُوَ اِبْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ الکریم۔
”میں نے تجھے اس مرد(کی توہین) کے بارے میں منع کیا تھا کیونکہ نہ اُس کا باپ تمہارے باپ جیسا ہے اور نہ وہ خود تمہارے جیسا ہے۔ تم ایک مردود و مفرور باپ کے بیٹے ہو جبکہ وہ رسولِ خدا کا بیٹا ہے“۔
حوالہ کتاب”المحاسن والاضداد“،تالیف:جاحظ(از علمای اہلِ سنت)،صفحہ181۔

گزارش ہے کہ اہل بیت کی محبت کا دم بھرنے والے اصحاب رسول سے مخاصمت چھوڑ دیں کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاۓ گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انکی عاقبت کی سیاہی میں مزید اضافہ ضرور ہوگا اس تبرائی فکر نے اب تک تو اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بجز انتشار کے۔۔۔
یہ دور سینوں کی غلاظت کو اگلنے کا نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا تقاضہ کرتا ہے. ......

اگریہ مشاجرات برپا نہ ہوتے
مورخ اسلام مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی رحمہ اللہ کا اس دور پر تبصرہ انکی کتاب تاریخ اسلام سے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہے۔

"اگریہ مشاجرات برپا نہ ہوتے اگرحضرت امیرمعاویہ اور حضرت علی کی معرکہ آرائیاں نہ ہوتیں توہم آج شریعتِ اسلام کے ایک بڑے اور ضروری حصے سے محروم وتہی دست ہوتے؛ خدائے تعالیٰ خود اس دین کا محافظ ونگہبان ہے، وہ خود اس کی حفاظت کے سامان پیدا کرتا ہے؛ چنانچہ اس نے وہ سامان یعنی حضرت علی اور امیرمعاویہ میں اختلاف پیدا کیا،
اب اسی مذکورہ مدعا کے ایک دوسرے پہلو پرنظر کرو؛ ہرایک حکومت، ہرایک سلطنت اور ہرایک نظامِ تمدن کے لیئے جس جس قسم کی رکاوٹیں دقتیں اور پیچیدگیاں پیدا ہونی ممکن ہیں اور آج تک دنیا میں دیکھی گئی ہیں، ان سب کے نمونے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشاجرات میں موجود ہیں،
ان مشکلات کے پیدا ہونے پرعام طور پرحکمرانوں، حکمراں خاندانوں اور بادشاہوں نے آج تک جن اخلاق اور جن کوششوں کا اظہار کیا ہے ان سب سے بہتر اور قابل تحسین طرزِ عمل وہ ہے جوصحابہ کرام نے ایسی حالتوں میں ظاہر کیا،
سلطنتوں کے بننے اور بگڑنے، قوموں کے گرنے اور ابھرنے، خاندانوں کے ناکام رہنے اور بامراد ہونے کے واقعات سے اس دنیا کی تمام تاریخ لبریز ہے، چالاکیوں، ریشہ دوانیوں اور فریب کاریوں کے واقعات سے کوئی زمانہ اور کوئی عہد حکومت خالی نظر نہیں آتا، ان سب چیزوں کے متعلق ہم جب تلاش کرتے ہیں توحضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفتوں کی روئداد ہمارے سامنے یک جاسب کے نمونے پیش کردیتی ہے اور ہم اپنے لیئے بہترین طرز کار اور اعلیٰ ترین راہ عمل تجویز کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،
یہ ہماری نابینائی اور بدنصیبی ہے کہ ہم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اجتہادی مخالفتوں اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ وحضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشاجرات کو بجائے اس کے کہ اپنے لیے موجب عبرت وبصیرت اور باعثِ خیرونافع بناتے، اپنی نااتفاقی ودرندگی اور اپنی فلاکت ونکبت کا سامان بنالیا "۔
مکمل تحریر >>

تاریخ اسلامی اور جدید فکری مغالطے

کسی بھی قوم کا رابطہ اگر اپنے ماضی سے ٹوٹ جاۓ تو اس قوم کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی گناہ کے نتیجے میں پیدہ ہونے والے بچے کہ کوئی کچرے کے ڈھیر پر پھینک جاۓ اور وہ اپنے حقیقی نام و نسب کی تلاش میں ہمیشہ سر گرداں رہے .....جن لوگوں کا اپنے ماضی سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے انکے اندر نفسیاتی مسائل پیدہ ہوتے ہیں یہ نفسیاتی مسائل مختلف انداز سے شخصیات افراد اور اقوام پر اثر انداز ہوتے ہیں
ایسے لوگ جھوٹے سہاروں کو تلاش کرتے ہیں جیسے جدید استعماری دنیا کا بے تاج بادشاہ امریکہ یہ لوگ کبھی مصر کے اہراموں میں تو کبھی روم و یونان کے مقابر میں اور کبھی دفن شدہ مایا تہذیب میں اپنی اصل کھوجتے پھرتے ہیں اور صرف کھوجتے ہی نہیں بلکہ اسکو پوری دنیا پر رائج کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں یہ جدید استعماری پھندے پوری کی پوری تہذیبوں کو کسی بھوکے عفریت کی طرح نگل رہے ہیں ...
دوسرا اثر ایسی اقوام پر یہ پڑتا ہے کہ انکی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی تاریخی برتری کو ثابت کرنے کیلئے دوسروں کی تاریخ کو بھی مسخ کر دیا جائے اسکو استشراق کہتے ہیں۔ مستشرقین کے متعلق ہمارے ایک دوست پیج پر ایک تفصیلی تحریر لکھی گئی، اس لنک پر ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔
https://www.facebook.com/Religion.philosphy/photos/a.1480251648878129.1073741828.1460029827566978/1530610810508879/?type=1&theater
یہ استشراقی غلاظت صرف مغربی مستشرقین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اسنے اپنی فکر و تہذیب اور تاریخ پر شرمندہ مسلمانوں کو بھی متاثر کیا۔ عالم عرب میں طہٰ حسین اور بر صغیر میں سر سید اس فکر کے شدید متاثرین میں شمار کیے جا سکتے ہیں ۔انکے فکری مغالطوں سے دین کا جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ " تاریخ اسلامی " ہے

اسلاف نے تاریخی روایات سے استفادے کیلئے جو نظام تشکیل دیا اسے " جرح و تعدیل " کے نام سے پہچانا جاتا ہے جسکی بنیاد اس نص قرآنی پر ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:
اے اہل ایمان! اگر آپ لوگوں کے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کسی گروہ کو جہالت میں نقصان پہنچا بیٹھیں اور پھر اپنے فعل پر نادم ہوں۔ الحجرات 49:6
اس جرح و تعدیل کے ماہر حضرات مورخین و محدثین ہیں اسکی نص بھی قرآن سے بیان ہوتی ہے ۔
ترجمہ : اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن یا خوف کی تو اس کو مشہور کرديتے ہیں اور اگر اس کو پہنچا ديتے رسولؐ تک اور اپنے اولو الامر (علماء و حکام) تک تو جان لیتے اس (کی حقیقت) کو جو ان میں قوتِ استنباط (حقیقت نکالنے کی اہلیت) رکھتے ہیں اس کی اور اگر نہ ہوتا فضل ﷲ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو البتہ تم پيچھے ہو ليتے شیطان کے سواۓ چند (اشخاص) کے۔النساء/83؛
علما امت نے مستقل تاریخ اسلامی سے متعلق ایسی کتب لکھی ہیں جن میں تاریخی روایت کے نتیجے میں پیدہ ہونے والے اشکالات کا حل موجود ہے۔ ابن تیمیہ رح کی منہاج السنہ ، ابن العربی رح کی العواصم من القواصم، حضرت شاہ ولی الله دھلوی رح کی ازالة الخفاء عن خلافت الخلفاء وغیرہ۔ اسی طرح ماضی قریب اس موضوعات پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی۔

تاریخ کو اس فہم سلف سے ہٹ کر مستشرقین کے طریقے پر مجرد اخبار و آحاد کی بنیاد پر سمجھنا ایسے علمی مغالطوں میں مبتلاء کرتا ہے کہ فکر و نظر کا رخ ہی تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔جب ہماری میزان ہی ٹیڑھی ہوگی اور ہمارے ماپنے کے آلات ہی غلط ہونگے تو مطالعہ تاریخ کا مقصود ہی فوت ہو جائےگا ....
تاریخ جسکا مقصود ہمیں ہمارے اسلاف کے کارناموں سے آگاہی دلانا ہے۔
تاریخ جسکا مقصود ہمارا تعلق اپنی علمی سیاسی فکری اخلاقی اقدار سے جوڑنا ہے ۔
تاریخ جسکا مقصود اپنی اصلاح اور اپنے مستقبل کی بنیادیں اپنی جڑوں پر استوار کرنا ہے اگر یہ تاریخ سلف کی فکر و نظر سے ہٹ کر دیکھی جاۓ تو نری جاہلیت دکھائی دیگی ...
آپ اپنے باطل پیمانوں کو لیکر پہنچ جائیے اور اسلامی تاریخ کو ماپنا شروع کیجئے نتیجہ ہمیشہ منفی ہی آئے گا کیونکہ آپکے پیمانوں میں شدید کھوٹ ہے وہ باٹ جو آپ نے ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھے ہیں گھسے ہوے ہیں ..
یہ باطل پیمانے ہمیں اپنی تاریخ کے معروف کرداروں کو باطل دکھاتے ہیں جو ظلم کے خلاف کھڑا ہو ان سے وہی ظالم دکھائی دیتا ہے۔
یہ وہ عینک ہے جسے پہن کر محمود غزنوی ڈاکو دکھائی دیتا ہے، شہاب الدین غوری غاصب نظر آتا ہے، عالمگیر جیسا درویش صفت حاکم منافق دکھائی دیتا، ابدالی شر پسند ہوجاتا ہے، ایوبی و زنگی ملوک بیبرس مطلق العنان حاکم غرض یہ سلسلہ یہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ دامن صحابہ رض تک کو تار تار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب جو بھی راستے کی دیوار بننے کی کوشش کرے وہ اسلاف پرست وکیل صفائی ناقابل قبول و غیر مقبول ہوگا ..

یہ فکری مغالطے دو دھاری تلوار ہیں ایک طرف تو یہ اسلامی تاریخ کا وہ چہرہ پیش کرتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جائے تو دوسری طرف اپنے ہی اسلاف پر بد اعتمادی کی فضاء قائم کر دیتے ہیں اور دعوی ہوتا ہے بے لاگ تحقیق .....
پہلے تو مجددین اسلام پر سے اعتماد اٹھایا جاتا ہے اسلام کا سب سے بڑا امر حکومت اسلامی کے قیام کو قرار دیا جاتا ہے اور پھر یہ سوال ہوتا ہے یہ فقہاء ، محدثین ، مورخین ، مجددین کیا کرتے رہے یہاں تک کہ شیخ السلام ابن تیمیہ رح جیسے مجدد کے تمام تجدیدی و احیائی کام پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ وہ بھی ایسی کوئی تحریک بپا کرنے میں ناکام رہے کہ اقتدار جاہلیت کے ہاتھوں سے نکل کر اسلام کے ہاتھوں میں آ جاتا .....
تو دوسری طرف ......
یہ فکر ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی کی عظیم الشان سیاسی قوت صرف تیس سال میں پارہ پارہ ہو گئی اسکے بعد جو اسلام نے دنیا پر حکومت کی وہ نری جاہلیت تھی یعنی اسلامی غالب ہوکر بھی مغلوب تھا حاکم ہوکر بھی محکوم تھا احسن ہوکر بھی اسفل تھا اعلیٰ ہوکر بھی ادنی تھا ......

یہ فکر کتنی تباہ کن ہے اسکا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ ایک طرف تو اسکی کدال اسلامی سیاست کی عظیم الشان عمارت کی جڑیں کھودتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اسلاف کی شخصیات پر مکمل بد اعتمادی پیدہ کر دیتی ہے یہ ایک ایسی روشن خیالی ہے جو اپنی حقیقت میں اندھیرا نہیں اندھیر ہے .....
اس فکر کے اثرات ان نفوس قدسی پر پڑتے ہیں جنہوں نے مکتب نبوت سے براہ راست فیض حاصل کیا تھا
سید ابو الحسن علی ندوی رح ایک جگہ لکھتے ہیں !
لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب اسلامی دعوت اپنے سب سے بڑے داعی کے ہاتھوں اپنے دور عروج میں کوئی دیر پا اور گہرے نقوش مرتسم نہ کر سکی اور جب اس دعوت پر ایمان لانے والے اپنے نبی علیہ سلام کی آنکھ بند ہوتے ہی اسلام کے وفادار اور امین نہ رہ سکے اور رسول الله صل الله علیہ وسلم نے انھیں جس صراط مستقیم پر چھوڑا تھا ان میں سے معدودے چند آدمی ہی اسپر گامزن رہے تو ہم یہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ ان کے اندر نفوس کے تزکیہ کی صلاحیت ہے وہ انسان کو حیوانیت کی پستی سے نکال کر انسانیت کی بلند چوٹی تک پہنچا سکتی ہے اور ہم کس امید پر اس وقت دنیا کی قوموں اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں "

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کیا اسلام کا نظام عالی شان صرف تیس سال چل سکا اس روایت کے راویوں کی چھان پھٹک سلف کی آراء پر بحث تو ایک طرف ذرا عقل ہی استعمال کیجئے اپنی فطرت سلیم کو آواز دیجئے آج دنیا میں اسلام کے غلبے کی بات کرنے والے جب اپنی بنیادوں میں یہ عقیدہ لیے بیٹھے ہونگے کہ امت کی سیاسی عمارت اسلام کے ابتدائی تین ادوار میں ہی ڈھے گئی وہ تین ادوار جنکی تعریف خود زبان نبوی سے ہوئی ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘([23]) (بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر جو ان کے بعد آئيں پھر جو ان کے بعد آئيں)۔
یہی وہ لوگ تھے بے شک یہی وہ لوگ تھے جنکے ہاتھوں فریضہ اقامت دین تکمیل کو پہنچا
امام قاضی احمد القلشانیؒ المتوفی سن 863ھ" فرماتے ہیں :
سلف صالحین سے مراد وہ پہلی نسل ہے کہ جو راسخون فی العلم تھے، ہدایت نبوی کے ساتھ ہدایت یافتہ تھے۔ جو سنت کے محافظ تھے۔ انہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے چن لیا تھا اور ان سے راضی ہوا تھا کہ وہ اس امت میں دین کے امام بنیں۔ انہوں نے امت کی نصیحت چاہنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور انہوں نے رب کی رضا کے لیے اپنے آپ کو قربان کردیا۔
اور یہاں یہ سوال کہ ان اقامت دین کے معماروں نے ہی وہ عمارت ڈھا دی جسکی بنیادوں میں انکا خوں شامل ہے
افسوس صد افسوس
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

لیکن ہمیں کتاب الله کی گواہی کافی ہے

وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَ‌سُولَ اللَّـهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ‌ مِّنَ الْأَمْرِ‌ لَعَنِتُّمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّ‌هَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ‌ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الرَّ‌اشِدُونَ ﴿٧﴾
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وه تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں .

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تاریخ سے اپنی مرضی کا گند چننے کے بجاۓ سلف کے مستقیم راستہ پر چلا جاۓ کیونکہ یہی راستہ ہمیں منزل مقصود کی طرف لے جا سکتا ہے .....
حسیب احمد حسیب
مکمل تحریر >>

سیکولر لابی تاریخ اور اورنگ زیب عالمگیر



تاریخ محض گزرے وقتوں کا بیان نہیں بلکہ یہ ہزاروں واعظوں کا ایک واعظ اور عبرت آموزی کا ایک بہترین ذریعہ ہے ،اس کے مطالعے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی قوم نے معاشرے کی تہذیب کے لیے کیا کردار ادا کیا ، جنگ و امن ، خوشحالی اور تنگی میں اس نے عرصہ حیات کیسے گزارا ۔ تاریخ کے مطالعہ سے دانائی اوربصیرت ترقی کرتی ،دور اندیشی بڑھتی،حزم اوراحتیاط کی عادت پیدا ہوجاتی ہے،دل سے رنج وغم دور ہوکر مسرت وخوشی میسر ہوتی ہے، انسان میں احقاق حق اورابطال باطل کی قوت ترقی کرتی اورقوت فیصلہ بڑھ جاتی ہے، ، تاریخ کے بغیر نہ حال کی تعبیر ممکن ہے اور نہ مستقبل کی صورت گری کا کوئی حوالہ۔ اس لحاظ سے تاریخ ایک امانت ہے جس کے پیغام کو بگاڑنا یا اس کے سیاق و سباق کو مجروع کرنا ایک سنگین جرم ہے۔

ایک عرصہ سے سیکولر حضرات اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ چیدہ چیدہ تاریخی واقعات کو انکے سیاق و سباق سے جدا کرکے مسلمانوں کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھیں تاکہ اس سے من پسند نتائج اخذ کیے جاسکیں ۔ تاریخ کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اپنے تاریخی ورثے سے نفرت پیدا ہو اور یوں انکا اپنے ماضی سے رشتہ کٹ جائے اور انہیں اپنے اسلاف کے تاریخی کارناموں سے کوئی حوصلہ اور امنگ حاصل نہ ہو ۔ وہ ان کی طرح پیچیدہ حالات اور بدلتی دنیا کے چیلنجز کا پورے اعتماد سے سامنا کرنے کے بجائے مایوس ، ناامید اور عزت نفس کے باب میں بالکل کھوکھلے ہوجائیں ۔۔

اس کے لیے انہوں نے ایک طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ مسلم تاریخ کو برا بھلا کہا جائے ، خصوصا ان عظیم لوگوں کو جو اپنی شخصیت اور کارہائے نمایاں کی وجہ سے مسلمانوں کا فخر ہیں ، ایسے لوگ اگر اپنی تمام تر تابندگی کے ساتھ موجود رہیں تو تاریخ ایک زندہ تجربے کی شکل اختیار کرلیتی ہے' ان کو ڈاکو ، غاصب ، ظالم ، خودغرض ، عیاش ثابت کیا جائے ، انکی ذاتی زندگی کے متعلق کہانیاں گھڑی جائیں ۔ اس سلسلہ میں اسلامی تاریخ کی جن نامور شخصیات کو سب سے ذیادہ نشانہ بنایا گیا ان میں محمد بن قاسم ، اورنگ زیب عالمگیر، محمود غزنوی، نمایاں ہیں، انکے علاوہ ماضی قریب کی شخصیات میں علامہ اقبال ، قائدہ اعظم ہیں جنکی سیکولر صورت گری کے لیے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔

ہم فی الحال اورنگ زیب عالمگیر پر بات کریں گے ، ان کو سب سے ذیادہ جس بات پر کوسا جاتا ہے وہ انکا اپنے بھائیوں کے خلاف ظالمانہ طرز عمل اور اپنے باپ شہاب الدین محمد شاہ جہان کو قید میں ڈالنا تھا ۔
یہ بات حقیقت ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے تین بھائی جان سے گئے اور والد شاہ جہان آگرہ قلعہ کی تنہائی میں مقید رہے لیکن ان واقعات کو پورے پس منظر سے جدا کرکے محض ایک منفرد قصہ کے طور پر پیش کرنا اور اورنگ زیب عالمگیر کو تاریخ کے ایسے کردار کے طور پر پیش کرنا کہ جس کے سر پر ظلم و ستم کا بھوت سوار تھا ، یا وہ غیر معمولی طور پر اقتدار کی ہوس میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے اس نے یہ سب کر ڈالا، قطعا غلط اور بے ثبوت مقدمہ ہے۔
اگر سب اسکی بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اورنگ زیب کا کردار باقی ہر لحاظ سے اجلا اور بے داغ تھا تو ہم اس کے دامن پر بظاہر یہ دھبے کیوں دیکھ رہے ہیں ؟ اسے کس بات نے مجبور کیا کہ وہ باپ اور بھائیوں کےساتھ سخت رویہ اپنائے جس کا اسے الزام دیا جاتا ہے ؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب طلب کرنا چاہیے ، لیکن اصل حقیقت تک پہنچنے کی کدوکاوش سیکولر حضرات کا مقصد او ر مدعا ہے ہی نہیں ۔ انکا تو صرف ایک ہدف ہے وہ یہ کہ اس طریقہ واردات سے مطلوبہ نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے ۔ سچ اگر قتل ہوتا ہے تو ہو ۔ ڈاکٹر محمد اقبال اپنی ایک نظم میں انہی یک چشم متنفرین کو ' کورذوقاں' کا نام دیتے ہیں جنہیں اورنگ زیب عالمگیر کے کمالات نظر نہ آئے اور انہوں نے قصے کہانیاں گھڑ لیں :
کورذوقان داستاں ہاسا ختند وسعت ادراک اونشاخسند
(اسرار خودی)
اس موضوع پر تحقیق كے لیے ہم نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا، تاریخی علم رکھنے والے لوگوں کو سنا۔ ہمیں سب سے اچھا جواب طارق جان صاحب کی کتاب ' سیکولرازم مباحث اور مغالطے ' میں ملا ۔ طارق جان انسٹیٹوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد میں سینئر ریسرچ فیلو اور کئی کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں۔ انکی یہ کتاب جدید فلاسفہ ، سیکولروں ملحدوں کے مغالطوں کے رد میں اپنے موضوع پر میرے نظر میں اردو زبان میں موجود سب سے بہترین کتاب ہے ۔ اسی کتاب سے انکے مضمون ' سیکولر لابی ، تاریخ اور اورنگ زیب عالمگیر ' کو میں یہاں پیش کررہا ہوں۔ اسلوب علمی اور عام فہم ہے ، تصنیف اعلی درجے کی تحقیق کے تقاضے پورے کرتی ہے ، دلیل اور حوالے کے ساتھ مصنف نے اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق پھیلائی گئی کنفیوزین کا بہت سیلقے اور خوبی سے تجزیہ کیا ہے ۔

مضمون اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔
https://archive.org/download/SecularLabiTareekhAurAurangzebAlamgir/Secular%20Labi%2C%20Tareekh%20aur%20Aurangzeb%20Alamgir.pdf
مکمل تحریر >>