Sunday 25 January 2015

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور باقی خلفاء کی محبت


مسلمان قوم کی تاریخ فرقوں کی بہتات کی بنا پر شروع سے بےپناہ تحریف کا شکار رہی کیونکہ ان میں ہر فرقہ اس کوشش میں مصروف رہا کہ وہ اپنوں کی شان بڑھائے اور دوسروں کو گرائے۔
اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں بھی شگاف پیدا ہو گئے !

مسلمان قوم میں سے چند لوگوں نے چوتھے خلیفۂ راشد ، داماد اور عمِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے اس قدر غلو آمیز محبت کی کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کا معاملہ مکمل طور پر الجھا کر رکھ دیا۔
اور آپ (رضی اللہ عنہ) کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیں جو اصل واقعات اور تاریخ سے میل نہیں رکھتیں ۔۔۔۔ اور پھر اسی "کھیل" کے دوران دوسرے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی شان گھٹانے کی ناکام کوششیں کیں اور انہیں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا حق غصب کرنے ، ان پر ظلم کرنے ونیز خود اپنے حق میں برا بیج بونے والوں کے روپ میں پیش کیا ، بلکہ ۔۔۔۔ اس محبت نما دشمنی میں اولادِ علی (رضی اللہ عنہ) کو منصوص علیہم ائمہ قرار دیا اور انہیں انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی طرح معصوم قرار دینے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان سے بھی بڑھا دیا۔

صحیح تحقیق کے مطابق تاریخِ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو مسخ کرنے کے اس عمل کی ابتدا تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد ہوئی اور یہی چیز اس بات کی دلیل ہے کہ ۔۔۔
ہمیں کبار صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے احوال اور اُن (رضی اللہ عنہم) کی صحیح روایات میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ :
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کچھ صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ناخوش تھے یا وہ ان سے ناراض تھے جیسا کہ بعض حضرات ان کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں۔
بلکہ اس کے برعکس ۔۔۔۔
تمام مورخین اس خوشگوار حققیت پر متفق ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔

** حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنی لخت جگر سیدہ ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) ، امیرالمومنین حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) سے بیاہ دی تھی۔
{بحوالہ: الکافی ، ج:5 ، ص:346}
** حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوہ اسما بنت عمیس (رضی اللہ عنہا) سے شادی کر لی تھی (یوں محمد بن ابوبکر صدیق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ربیب تھے)۔
** امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بیٹوں کے نام
ابوبکر ، عمر اور عثمان (رضی اللہ عنہم)
کے ناموں پر رکھے۔
{بحوالہ: معرفة الصحابة ، ج:1 ، ص:309}
** حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا اور حضرت علی بن حسین نے اپنے بیٹے کا نام عمر رکھا۔ حضرت موسیٰ بن جعفر الصادق ہاشمی نے اپنے بیٹے کا نام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا۔
{بحوالہ: سیر اعلام النبلاء ، ج:3 ، ص:279}
** حضرت جعفر صادق بن محمد ہاشمی کہتے تھے کہ مجھے ابوبکر صدیق نے دو مرتبہ جنا ہے۔ (کیونکہ ان کی ماں ام فروہ ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق کی بیٹی تھیں اور ان کی نانی حضرت اسماء ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق کی دختر تھیں)۔
{بحوالہ: سیر اعلام النبلاء ، ج:6 ، ص:255}

حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور ان کی اولاد کے یہ اعمال ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پیشرو صحابہ کرام سے یگانگت اور محبت کا ثبوت دیا۔ اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے دورِ امارت میں منصب قضا کو قبول فرمایا تھا اور شیخین کریمین اور دیگر صحابہ کرام کی مدح فرمائی تھی۔

دوسری طرف ایک اور گروہ ہے جو آل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عداوت رکھتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ حضرت علی اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بغض و دشمنی روا رکھتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام کے جو فضائل و مناقب ہیں ، وہ فضائل و مناقب تک انہیں دینا نہیں چاہتے۔

ان دونوں کی درمیانی راہ ہی حق و صواب کی راہ ہے۔
یعنی وہ راہ جو ہمیں سکھائے کہ ۔۔۔۔
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یکساں محبت رکھی جائے ، ان کی نیکیوں اور عظمتوں کا دل سے احترام کیا جائے اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان کی خطاؤں پر سب و شتم سے باز رہا جائے۔
اور
اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت رکھی جائے اور بغیر کسی غلو کے ، انہیں ان کے اسی مقام و مرتبے پر رکھا جائے جو اللہ نے ان کو عطا کیا ہے۔

اہل بیت خود بھی صحابہ کرام کے عمومی گروہ میں شامل ہیں۔
اور صحابہ کرام کا یہ گروہ ایسا مقدس گروہ ہے جس کا ہم مسلمانوں پر تاقیامت احسان ہے۔ اس گروہ کا معاملہ دوسرے گروہوں جیسا نہیں کیونکہ ان کا علم اور عمل اس قدر وسیع اور خالص تھا کہ اولین و آخرین میں سے کوئی امتی ان سے آگے نہ بڑھ سکا اور نہ ہی ان کے برابر ہو سکے گا ۔۔۔۔ کیونکہ یہی تو وہ ہستیاں تھیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ دین کو عزت بخشی اور اسے تمام ادیان و مذاہب پر غلبہ عطا فرمایا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔