Sunday 25 January 2015

ایامِ طفلیت اور سانحات


رسول اللہﷺ مدت رضاعت ختم ہونے کے بعد بھی بنو سعد ہی میں رہے یہاں تک کہ ولادت کے چوتھے یا پانچویں سال شَقّ ِ صَدر (سینہ مبارک چاک کیے جانے) کا واقعہ پیش آیا۔ عام سیرت نگاروں کا یہی قول ہے۔ دیکھئے: ابن سعد ۱/۱۱۲ ، مروج الذہب للمسعودی ۲/۲۸۱ ، دلائل النبوہ لابی نعیم ۱/۱۶۱، ۱۶۲ ، 
اس کی تفصیل حضرت انسؓ سے صحیح مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضرت جبریل نے آپ کو پکڑ کر پٹخا اور سینہ چاک کر کے دل نکالا، پھر دل سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے، پھر دل کو طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر اسے جوڑکر اس کی جگہ لوٹا دیا۔ ادھر بچے دوڑ کر آپ کی ماں، یعنی دایہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: محمد قتل کر دیا گیا۔ ان کے گھر کے لوگ جھٹ پٹ پہنچے ، دیکھا تو آپ کا رنگ اترا ہوا تھا۔ (صحیح مسلم، باب الاسراء ۱/۹۲)
اس واقعے سے حلیمہ ؓ کو خطرہ محسوس ہوا اور انھوں نے آپ کو آپ کی ماں کے حوالے کردیا۔ چنانچہ آپ چھ سال کی عمر تک والدہ ہی کی آغوشِ محبت میں رہے۔ (تلقیح الفہوم ص ۷ ، ابن ہشام ۱/۱۶۸)
آمنہ کا ارادہ ہوا کہ وہ اپنے متوفی شوہر کی یادِ وفا میں یثرب جاکر ان کی قبر کی زیارت کریں۔ چنانچہ وہ اپنے یتیم بچے محمدﷺ اپنی خادمہ اُمِّ ایمن اور اپنے سر پرست عبد المطلب کی معیت میں کوئی پانچ سو کلو میٹر کی مسافت طے کر کے مدینہ تشریف لے گئیں اور وہاں ایک ماہ تک قیام کر کے واپس ہوئیں۔ لیکن ابھی ابتداء راہ میں تھیں کہ بیماری نے آلیا۔ پھر یہ بیماری شدت اختیار کرتی گئی یہاں تک کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام اَبْوَاء میں پہنچ کر رحلت کر گئیں۔ (ابن ہشام ۱/۱۶۸)
بوڑھے عبد المطلب اپنے پوتے کو لے کر مکہ پہنچے۔ ان کا دل اپنے اس یتیم پوتے کی محبت وشفقت کے جذبات سے تپ رہا تھا۔ کیونکہ اب اسے ایک نیا چرکا لگا تھا جس نے پرانے زخم کرید دیئے تھے۔ عبد المطلب کے جذبات میں پوتے کے لیے ایسی رِقّت تھی کہ ان کی اپنی صُلبی اوّلاد میں سے بھی کسی کے لیے ایسی رقت نہ تھی۔ چنانچہ قسمت نے آپ کو تنہائی کے جس صحرا میں لا کھڑا کیا تھا عبد المطلب اس میں آپ کو تنہا چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ آپ کو اپنی اوّلاد سے بھی بڑھ کر چاہتے تھے اور بڑوں کی طرح ان کا احترام کرتے تھے۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ عبد المطلب کے لیے خانہ کعبہ کے سائے میں فرش بچھایا جاتا۔ ان کے سارے لڑکے فرش کے ارد گرد بیٹھ جاتے۔ عبد المطلب تشریف لاتے تو فرش پر بیٹھتے۔ ان کی عظمت کے پیش نظر ان کا کوئی لڑکا فرش پر نہ بیٹھتا، لیکن رسول اللہﷺ تشریف لاتے تو فرش ہی پر بیٹھ جاتے۔ ابھی آپ کم عمر بچے تھے۔ آپ کے چچا حضرات آپ کو پکڑ کر اتار دیتے لیکن جب عبد المطلب انہیں ایسا کرتے دیکھتے تو فرماتے : میرے اس بیٹے کو چھوڑ دو، اللہ کی قسم ! اس کی شان نرالی ہے، پھر انہیں اپنے ساتھ اپنے فرش پر بٹھا لیتے۔ اپنے ہاتھ سے پیٹھ سہلاتے اور ان کی نقل وحرکت دیکھ کر خوش ہوتے۔ (ابن ہشام ۱/۱۶۸)
آپ کی عمر ابھی ۸ سال دو مہینے دس دن کی ہوئی تھی کہ دادا عبد المطلب کا بھی سایۂ شفقت اُٹھ گیا۔ ان کا انتقال مکہ میں ہوا اور وہ وفات سے پہلے آپﷺ کے چچا ابوطالب کو...جوآپ کے والد عبد اللہ کے سگے بھائی تھے...آپ کی کفالت کی وَصیت کر گئے تھے۔ (تلقیح الفہوم ص ۷ ابن ہشام ۱/۱۴۹)
شفیق چچا کی کفالت میں:
ابو طالب نے اپنے بھتیجے کا حق کفالت بڑی خوبی سے ادا کیا۔ آپ کو اپنی اوّلاد میں شامل کیا۔ بلکہ ان سے بھی بڑھ کر مانا۔ مزید اعزاز واحترام سے نوازا۔ چالیس سال سے زیادہ عرصے تک قوت پہنچائی اپنی حمایت کا سایہدراز رکھا اور آپ ہی کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی کی۔ مزید وضاحت اپنی جگہ آرہی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔