Sunday 25 January 2015

قریش کا وفد ابو طالب کے سامنے


رسول اللہﷺ کو شروع سے ابو طالب کی حمایت وحفاظت حاصل تھی اور ابوطالب مکہ کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جو اپنی ذاتی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے اتنے باعظمت تھے کہ کوئی شخص بڑی مشکل سے ان کے عہد توڑ نے اور ان کے خانوادے پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت کرسکتا تھا۔
اس صورت حال نے قریش کو سخت پریشانی اور کشمکش سے دوچار کر رکھا تھا جو تقاضا کر رہی تھی کہ کسی ناپسند یدہ دائرے میں پڑے بغیر اس مشکل سے نکلنے کے لیے سنجیدگی سے غور کریں۔ بالآخر انہیں یہ راستہ سمجھ میں آیا کہ سب سے بڑے ذمہ دار ابوطالب سے بات چیت کریں لیکن خاصی حکمت اور واقعیت پسندی کے ساتھ اور ایک گونہ چیلنج اور پوشیدہ دھمکی لیے ہوئے ، تاکہ جو بات کہی جائے اسے وہ تسلیم کر لیں۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اشراف قریش سے چند آدمی ابو طالب کے پاس گئے اور بولے : ابو طالب ! آپ کے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہا ہے۔ ہمارے دین کی عیب چینی کی ہے۔ ہماری عقلوں کو حماقت زدہ کہا ہے اور ہمارے باپ دادا کو گمراہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا یا تو آپ انہیں اس سے روک دیں ، یا ہمارے اور ان کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ کیونکہ آپ بھی ہماری طرح ان سے مختلف دین پر ہیں۔ ہم ان کے معاملے میں آپ کے لیے بھی کافی رہیں گے۔
اس کے جواب میں ابوطالب نے نرم بات کہی اور روادارانہ لب ولہجہ اختیار کیا۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور رسول اللہﷺ اپنے سابقہ طریقہ پر رواں دواں رہتے ہوئے اللہ کا دین پھیلانے اور اس کی تبلیغ کرنے میں مصروف رہے۔( ابن ہشام ۱/۲۵۶)
لیکن جب قریش نے دیکھا کہ آپ دعوت الیٰ اللہ کے کام میں حسب سابق مصروف عمل ہیں تو زیادہ دیر تک صبر نہ کر سکے۔ بلکہ آپس میں خاصی چہ میگوئی کی اور ناگواری کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ ابوطالب سے دوبارہ زیادہ سخت اور سنگین لہجے میں گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا۔
سرداران قریش ابوطالب کے پاس پھر حاضر ہوئے اور بولے: ابو طالب ! آپ ہمارے اندر سن وشرف اور اعزاز کے مالک ہیں ، ہم نے آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کو روکیے لیکن آپ نے انہیں نہیں روکا۔ آپ یاد رکھیں ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے اباء واجداد کو گالیاں دی جائیں۔ ہماری عقل وفہم کو حماقت زدہ قرار دیا جائے اور ہمارے معبودوں کی عیب چینی کی جائے۔ آپ روک دیجیے ورنہ ہم آپ سے اور ان سے ایسی جنگ چھیڑ دیں گے کہ ایک فریق کا صفایا ہو کر رہے گا۔
ابو طالب پر اس زور دار دھمکی کا بہت زیادہ اثر ہوا اور انہوں نے رسول اللہﷺ کو بلا کر کہا : بھتیجے ! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے اور ایسی ایسی باتیں کہہ گئے ہیں۔ اب مجھ پر اور خود اپنے آپ پر رحم کرو۔ اوراس معاملے میں مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میرے بس سے باہر ہے۔
یہ سن کر رسول اللہﷺ نے سمجھا کہ اب آپ کے چچا بھی آپ کا ساتھ چھوڑدیں گے اور وہ بھی آپ کی مدد سے کمزور پڑ گئے ہیں۔ اس لیے فرمایا : چچا جا ن ! اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں کہ میں اس کام کو اس حد تک پہنچائے بغیر چھوڑ دوں کہ یا تواللہ اسے غالب کردے یا مَیں اسی راہ میں فنا ہو جاؤں تو نہیں چھوڑ سکتا۔
اس کے بعد آپ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ، آپ روپڑے۔ اور اٹھ گئے۔ جب واپس ہونے لگے تو ابوطالب نے پکارا اور سامنے تشریف لائے تو کہا : بھتیجے ! جاؤ جو چاہو کہو۔ اللہ کی قسم! میں تمہیں کبھی بھی کسی بھی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔ (ابن ہشام۱/۲۶۵، ۲۶۶) اور یہ اشعار کہے :
واللّٰہ لن یصلوا الیک بجمعہم
حتی أوسد فی التراب دفیناً
فاصدع بآمرک ما علیک غضاضۃ
وابشر وقر بذاک منک عیونًا
''واللہ! وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کردیا جاؤں۔ تم اپنی بات کھلم کھلا کہو۔ تم پر کوئی قدغن نہیں ، تم خوش ہوجاؤ اور تمہاری آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہو جائیں۔'' (مختصر السیرۃشیخ محمد بن عبد الوھاب ص ۶۸)
قریش کی ابو طالب کو ایک آفر:
پچھلی دھمکی کے باوجود جب قریش نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ اپنا کام کیے جارہے ہیں تو ان کی سمجھ میں آگیا کہ ابو طالب رسول اللہﷺ کو چھوڑ نہیں سکتے۔ بلکہ اس بارے میں قریش سے جدا ہونے اور ان کی عداوت مول لینے کو تیار ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ ولید بن مغیرہ کے لڑکے عُمَارَہ کو ہمراہ لے کر ابوطالب کے پاس پہنچے اور ان سے یوں عرض کیا :
اے ابو طالب ! یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے ، آپ اسے لے لیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حق دار ہوں گے، آپ اسے اپنا لڑکا بنالیں ، یہ آپ کا ہوگا اور آپ اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالے کردیں جس نے آپ کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے۔ آپ کی قوم کا شیرازہ منتشر کر رکھا ہے اور ان کی عقلوں کوحماقت سے دوچار بتلایاہے ، ہم اسے قتل کریں گے۔ بس یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔
ابو طالب نے کہا : اللہ کی قسم ! کتنا بُرا سودا ہے جو تم لوگ مجھ سے کر رہے ہو۔ تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے کھلاؤں پلاؤں۔ پالوں پوسوں اور میرا بیٹا مجھ سے طلب کرتے ہو کہ اسے قتل کردو۔ اللہ کی قسم ! یہ نہیں ہوسکتا۔
اس پر نوفَل بن عبد مناف کا پوتا مُطْعِم بن عَدِی بولا : اللہ کی قسم ! اے ابوطالب ! تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے اور جو صورت تمہیں ناگوار ہے اس سے بچنے کی کوشش کی ہے ، لیکن دیکھتا ہوں کہ تم ان کی کسی بات کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔
جواب میں ابوطالب نے کہا : واللہ !تم لوگوں نے مجھ سے انصاف کی بات نہیں کی ہے بلکہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر میرے مخالف لوگوں کی مدد پر تُلے بیٹھے ہو تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو۔ (ابن ہشام ۱/۲۶۶، ۲۶۷)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔