Saturday 24 January 2015

واقعہِ کربلا اور تاریخی روایات


سانحہ کربلا کے موضوع پر بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں اس واقعے سے متعلق جیسا جھوٹ گھڑا گیا ہے، شاید ہی کسی اور واقعے سے متعلق گھڑا گیا ہو۔ ایک فرقہ نے اپنے مذہب کی بنیاد اس سانحہ پر رکھی اور ماتم کرنا، رونا اور رلانا انکے ہاں مذہبی شعار قرار پایا ، پھر اس کے لیے ہزاروں مرثیے لکھے گئے اور اس انتہاء درجے کی مبالغہ آرائی کے ساتھ اس سانحہ کو ایک افسانے کا رنگ دے دیا گیا۔ 
چنانچہ محرم الحرام میں انکے واعظ اور ذاکرین عجیب و غریب من گھڑت قصوں ، کہانیوں اور اشعار میں سانحہ کربلا کی داستانیں سناتے ہیں اور ایک ایک بات کی ایسی منظر نگاری کی جاتی ہے جیسے انہوں نے واقعہ کربلا کی ویڈیو فلم کہیں سے دیکھ لی ہو۔ ۔ یہاں کسی فرقے کی توہین مقصود نہیں بلکہ حقیقت کچھ ایسی ہی ہے، جو لوگ ماتم کی مجلس میں کبھی گئے ہیں وہ بخوبی جانتے ہونگے۔

تاریخی کتابوں کو دیکھیں تو اولین کتب تاریخ میں اس واقعے کو صرف ایک شخص نے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کا نام ہے ابو مخنف لوط بن یحیی۔ ان سے بالعموم جو صاحب روایت کرتے ہیں، ان کا نام ہشام کلبی ہے۔ 
ان دونوں راویوں کے متعلق ہم تاریخی روایات پر تحقیقی سلسلے کے دوران دو تین تحاریر پیش کرچکے ۔ جنگ صفین کی روایات پر تحقیق کے دوران ان کی روایات پر بھی تفصیلی تبصرہ آچکاکہ یہ سبائی راوی انتہاء کے جھوٹے ، دروغ گو اور نہایت ہی متعصب مورخ ہیں اور مخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں انکا بغض مشہور ہے۔ تاریخ طبری میں سوائے چند ایک کے، سانحہ کربلا کی تقریباً سبھی روایات انہی دونوں سے مروی ہیں۔ 
ابو مخنف کا نام لوط بن یحیی تھا اس نے کئی کتب لکھیں جن میں سب سے مشہور "مقتل الحسین" ہے، امام طبری نے ابو مخنف پر بہت اعتماد کیا ہے اور اس کی تاریخی کتابچوں کی روایتوں اور مقتل ابیِ مخنف کا کل مواد قآلِ ابو مخنف کی تکرار سے اپنی تاریخ میں درج کیا۔
تاریخ طبری سے کچھ روایات جمع کرکے اسکی مقتل حسین کے نام سے جو کتاب قم سے چھاپی گئی اس میں اسکی ایسی عجیب و غریب روایات ہیں جن کو عقل بھی تسلیم نہیں کرتی۔
مثلاً لکھتا ہے :
حضرت حسین رضی اللہ عنہ جس روز شہید ہوئے آسمان سے خون کی بارش ہوئی۔ (مقتل الحسین رضی اللہ عنہ ص : 119 )

خود ایک شِیعہ مصنف نے بھی اپنی کتاب “مجاہدِ اعظم “میں داستانِ کربلاء کی وضعی روایتوں کے ذکر میں مقتل ابو مخنف کے نسخوں کا مختلف البیان ہونے کا بھی اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
اس میں صد ہا باتیں طبع زاد و تراشی گئیں۔ واقعات کی تدوین عرصہ دراز کے ہوئی رفتہ رفتہ اختلافات کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ سچ کو جھوٹ سے، جھوٹ سے سچ کو علیحدہ کرنا مشکل ہو گیا۔ ابو مخنف لوط بِن یحیی ازدمی کربلاء میں خود موجود نہ تھے اس لئے یہ سب واقعات انہوں نے بھی سمعی لکھے ہیں لہذا مقتل ابو مخنف پر بھی پورا وثوق نہیں پھر لطف یہ کہ مقتل ابو مخنف کہ چار نسخے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف البیان ہیں اور ان سے صاف پایا جاتا ہے کہ خود ابو مخنف واقعات کے جامع نہیں بلکہ کسی اور شخص نے ان کے بیان کردہ سماعی واقعات کو قلمبند کر دیا ہے۔
مختصر یہ کہ شہادتِ اِمام حسین ؓسے متعلق تمام واقعات ابتدا سے انتہا تک اس قدر اختلافات سے پر ہیں کہ اگر ان کو فرداً فرداً بیان کیا جائے تو کئی ضخیم دفتر فراہم ہو جائیں۔ یہی مصنف ایک جگہ لکھتے ہیں۔
"اکثر واقعات مثلاً اہلِ بیت پر تین شبانہ روز پانی کا بند رہنا، مخالف فوج کا لاکھوں کی تعداد میں ہونا۔ شمر کا سینہ مطہر پر بیٹھ کر سر جدا کرنا، آپ کی لاش مقدسہ سے کپڑوں تک کا اتار لینا، نعش مطہر کا لکد کوب سم اسپان کیا جانا، سر اوقات اہلِ بیت کی غارت گری، نبی زادیوں کی چادر تک چھین لینا وغیرہ وغیرہ نہایت مشہور اور زبان زد خاص و عام ہیں حالانکہ ان میں سے بعض سرے سے غلط، بعض مشکوک، بعض ضعیف، بعض مبالغہ آمیز اور بعض من گھڑت ہیں"(صفحہ 178)

حادثۂِ کربلا کی مشہور روایتوں کو جو زبان زد خاص و عام ہیں کس وضاحت سے سرے سے غلط، مشکوک و مبالغہ آمیز و من گھڑت کہتے ہیں اور اسی کے ساتھ مقتل ابیِ مخنف کے قلمی و مطبوعہ نسخوں کو مختلف البیان بتاتے ہیں چنانچہ مطبوعہ نسخہ کے سرسری مطالعے ہی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بہت کچھ تصرف اس میں کیا گیا ہے بعض ایسی روایتوں کو جن کی ساختگی کتب بلدان و جغرافیہ کے ٹھوس حقائق سے عیاں ہو جاتی ہے ترک و حذف کر کے مزید واہی روایتوں کا الحاق کر دیا ہے۔ 

تاریخ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی شخص یا واقعے کے بارے میں متعصب راوی کی روایت کو قبول نہ کیا جائے۔ اس وجہ سے اہلسنت کے بڑے علماء نے ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایات سے اجتناب کیا۔ ان دونوں کے علاوہ ایک اور مورخ محمد بن عمر الواقدی کی بعض روایتیں سانحہ کربلا سے متعلق ہیں، اس کے علاوہ ایک راوی عمار الدھنی ہیں ، یہ قابل اعتبار مانے جاتے ہیں ہیں ۔ واقعہ کربلا کے متعلق اہل سنت کے ہاں منقو ل اکثر روایات انہی کی ہیں ۔ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ ” صدوق یتشیع “ عمار الدھنی بہت سچا راوی ہے اور شیعہ عقیدہ رکھتا ہے۔ (تقریب التہذیب ص : 152 )
صاحب تنقیح المقال بھی لکھتے ہیں۔” کان شیعا ثقۃ “ عمار الدھنی شیعہ عقیدہ رکھتا ہے لیکن قابل اعتبار تھا۔ (تنقیح المقال ص : 317 ج : 2 ) عمار الدھنی راوی شیعہ و سنی دونوں کے نزدیک قابل اعتبار ہے۔ عمار الدھنی کی روایت تاریخ طبری ، تہذیب التہذیب ، الاصابہ میں موجود ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔