Sunday 25 January 2015

خانوادہَ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)


نبیﷺ کا خانوادہ اپنے جَدِّ اعلیٰ ہاشم بن عبد مناف کی نسبت سے خانوادۂ ہاشمی کے نام سے معروف ہے ، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہاشم اور ان کے بعد کے بعض افراد کے مختصر حالات پیش کر دیے جائیں۔
ہاشم:... 
جب عبد مناف اور بنو عبد الدار کے درمیان عہدوں کی تقسیم پر مصالحت ہوگئی تو عبدمناف کی اوّلاد میں ہاشم ہی کو سِقَایہ اور رِفادہ، یعنی حجاج کرام کو پانی پلانے اور ان کی میز بانی کرنے کا منصب حاصل ہوا۔ ہاشم بڑے معزز اور مالدار تھے۔ یہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مکے میں حاجیوں کو شوربا روٹی سالن کھلانے کا اہتمام کیا۔ ان کا اصل نام عَمرو تھا۔ لیکن روٹی توڑ کر شوربے میں ساننے کی وجہ سے ان کو ہاشم کہا جانے لگا۔ کیونکہ ہاشم کے معنی ہیں توڑنے والا۔ پھر یہی ہاشم وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے قریش کے لیے گرمی اور جاڑے کے دو سالانہ تجارتی سفروں کی بنیاد رکھی۔ ان کے بارے میں شاعر کہتا ہے :

عمرو الذی ھشم الثرید لقومہ
قوم بمکۃ مسنتین عجاف
سنت إلیہ الرحلتان کلاھما
سفر الشتاء ورحلۃ الأصیاف
(ابن ہشام ۱/۱۵۷ مع الروض الانف اوروہاں الاصیاف کی جگہ الإیلاف ہے۔)
''یہ عمرو ہی ہیں جنھوں نے قحط کی ماری ہوئی اپنی لاغر قوم کو مکہ میں روٹیاں توڑ کر شوربے میں بھگو بھگو کر کھلائیں اور جاڑے اور گرمی کے دونوں سفروں کی بنیاد رکھی۔ ''
ان کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ وہ تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے گئے۔ راستے میں مدینہ پہنچے تو وہاں قبیلۂ بنی نجار کی ایک خاتون سَلْمیٰ بنت عَمْروسے شادی کر لی اور کچھ دنوں وہیں ٹھہرے رہے۔ پھر بیوی کو حالتِ حمل میں میکے ہی میں چھوڑ کر ملک شام روانہ ہوگئے اور وہاں جاکر فلسطین کے شہر غَزَّہ میں انتقال کر گئے۔ ادھر سَلمیٰ کے بطن سے بچہ پیدا ہوا۔ یہ ۴۹۷ ء کی بات ہے چونکہ بچے کے سر کے بالوں میں سفیدی تھی، اس لیے سلمیٰ نے اس کا نام شَیْبہ رکھا۔ (ابن ہشام ۱/۱۳۷ 3 ایضاً ۱/۱۰۷) اور یثرب میں اپنے میکے ہی کے اندر اس کی پرورش کی۔ آگے چل کر یہی بچہ عبد المُطَّلِبْ کے نام سے مشہور ہوا۔ عرصے تک خاندانِ ہاشم کے کسی آدمی کو اس کے وجود کا علم نہ ہوسکا۔ ہاشم کے کل چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔ جن کے نام یہ ہیں: اسد، ابوصیفی ، نضلہ اور عبد المطلب...شفا ء ، خالدہ، ضعیفہ ، رقیہ اور جنۃ۔ 

عبد المطلب: ...
پچھلے صفحات سے معلوم ہو چکا ہے کہ سِقَایہ اور رِفادہ کا منصب ہاشم کے بعد ان کے بھائی مطلب کو ملا۔ یہ بھی اپنی قوم میں بڑی خوبی واعزاز کے مالک تھے ، ان کی بات ٹالی نہیں جاتی تھی۔ ان کی سخاوت کے سبب قریش نے ان کا لقب فیاض رکھ چھوڑا تھا۔ جب شیبہ یعنی عبد المطلب...سات یا آٹھ برس کے ہوگئے تو مطلب کو ان کا علم ہوا اور وہ انہیں لینے کے لیے روانہ ہوئے۔ جب یثرب کے قریب پہنچےاور شیبہ پر نظر پڑی تو اشکبار ہوگئے انہیں سینے سے لگا لیا اور پھر اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ مگر شیبہ نے ماں کی اجازت کے بغیر ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ اس لیے مطلب ان کی ماں سے اجازت کے طالب ہوئے، مگر ماں نے اجازت نہ دی۔ آخر مُطَّلِب نے کہا کہ یہ اپنے والد کی حکومت اور اللہ کے حرم کی طرف جارہے ہیں ، اس پر ماں نے اجازت دے دی اور مُطَّلِب انہیں اپنے اونٹ پر بٹھا کر مکہ لے آئے۔ مکے والوں نے دیکھا تو کہا یہ عبد المطب ہے یعنی مُطَّلب کا غلام ہے۔ مطلب نے کہا نہیں نہیں ، یہ میرا بھتیجا، یعنی میرے بھائی ہاشم کا لڑکا ہے۔ پھر شَیبہ نے مطلب کے پاس پرورش پائی اور جوان ہوئے۔ اس کے بعد مقام ردمان (یمن) میں مُطَّلِب کی وفات ہوگئی اور ان کے چھوڑے ہوئے مناصب عبدالمطلب کو حاصل ہوئے۔ عبدا لمطلب نے اپنی قوم میں اس قدر شرف واعزاز حاصل کیا کہ ان کے آباء واجداد میں بھی کوئی اس مقام کو نہ پہنچ سکا تھا۔ قوم نے انہیں دل سے چاہا اور ان کی بڑی عزت وقدر کی۔
عبدالمطلب کے کل دس بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں : حارِث ، زُبیر ، ابوطالب ، عبد اللہ ، حمزہ ؓ ، ابو لَہَب ،غَیْدَاق ، مقوم ، صفار اور عباس ؓ بعض نے کہا ہے کہ گیارہ تھے۔ ایک کا نام قثم تھا اور بعض اور لوگوں نے کہا ہے کہ تیرہ تھے۔ ایک کا نام عبدالکعبہ اور ایک کانام حجل تھا۔ لیکن دس کے قائلین کہتے ہیں مقوم ہی کا دوسرا نام عبد الکعبہ اور غیداق کا دوسرا نام حجل تھا اور قثم نام کا کوئی شخص عبدالمطلب کی اوّلاد میں نہ تھا۔ عبد المطلب کی بیٹیاں چھ تھیں۔ نام یہ ہیں : ام الحکیم ان کا نام بیضاء ہے۔ بَرّہ ، عَاتِکہ ، اَروی ٰ اور اُمَیْمَہ۔( سیرت ابن ہشام ۱/۱۰۸ ، ۱۰۹،تلقیح الفہوم ص ۸،۹ 2 تاریخ طبری ۲/۲۳۹)

عَبدُاللہ ..رسول اللہﷺ کے والد محترم: ...
ان کی والدہ کا نام فاطمہ تھا اور وہ عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ کی صاحبزادی تھیں۔ عبد المطلب کی اوّلاد میں عبد اللہ سب سے زیادہ خوبصورت ، پاک دامن اور چہیتے تھے اور ذبیح کہلاتے تھے۔ 
ذبیح کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ جب عبد المطلب کے لڑکوں کی تعداد پوری دس ہوگئی اور وہ بچاؤ کرنے کے لائق ہوگئے۔ تو عبد المطلب نے انہیں اپنی نذر سے آگاہ کیا (اس نذر کا تذکرہ آگے آئے گا) ، سب نے بات مان لی۔ عبد المطلب نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی تو قرعہ عبد اللہ کے نام نکلا۔ وہ سب سے محبوب تھے ، اس لیے عبد المطلب نے کہا کہ یااللہ!وہ یا سو اونٹ ؟ پھر ان کے اور اونٹوں کے درمیان قرعہ اندازی کی تو قرعہ سو اونٹوں پر نکل آیا۔ عبد المطلب نے انہیں عبد اللہ کے بدلے ذبح کیا اور وہیں چھوڑدیا۔ کسی انسان یا درندے کے لیے کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ اس واقعے سے پہلے قریش اور عرب میں خُون بہا (دیت ) کی مقدار دس اونٹ تھی، مگر اس واقعے کے بعد سو اونٹ کر دی گئی۔ اسلام نے بھی اس مقدار کو برقرار رکھا۔ نبیﷺ سے آپ کا یہ ارشاد مروی ہے کہ میں دو ذبیح کی اوّلاد ہوں۔ ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے آپﷺ کے والد عبد اللہ۔ ـ(ابن ہشام ۱/۱۵۱ تا ۱۵۵، تاریخ طبری ۲/۲۴۰-۲۴۳) .
عبد المطلب نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ کی شادی کے لیے حضرت آمنہ کا انتخاب کیا جو وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کی صاحبزادی تھیں اورنسب و رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون شمار ہوتی تھیں۔ ان کے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے بنو زہرہ کے سردار تھے۔ وہ مکہ ہی میں رخصت ہو کر حضرت عبد اللہ کے پاس آئیں مگر تھوڑے عرصے بعدعبد اللہ کو عبد المطلب نے کھجور لانے کے لیے مدینہ بھیجا اور وہ وہیں انتقال کر گئے۔
بعض اہل سِیرکہتے ہیں کہ وہ تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے گئے تھے۔ قریش کے ایک قافلے کے ہمراہ واپس آتے ہوئے بیمار ہو کر مدینہ اترے اور وہیں انتقال کر گئے۔ تدفین نابغہ جَعدی کے مکان میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر پچیس برس کی تھی۔ اکثر مؤرخین کے بقول ابھی رسول اللہﷺ پیدا نہیں ہوئے تھے۔ البتہ بعض اہل سیر کہتے ہیں کہ آپﷺ کی پیدائش ان کی وفات سے دوماہ پہلے ہوچکی تھی۔ (ابن ہشام ۱/۱۵۶ ، ۱۵۸ تاریخ طبری ۲/۲۴۶ ، الروض الانف ۱/۱۸۴)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔