Monday 19 October 2015

غزوہَ حنین پر ایک نظر


غزوۂ حنین میں چونکہ کئی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اس لئے قرآن کریم نے اس کا بھی خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا، یہاں بھی مختصر طور پر ان کا ذکر کرنا مناسب ہے:
۱)پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ مسلمان جب میدان جنگ میں آئیں تو انہیں تعداد کی کمی اور زیادتی کا خیال نہ کرنا چاہیے؛ بلکہ ایمانی قوت اور اﷲ تعالیٰ کی مدد پر بھروسہ کرنا چاہیے،
بدر ، احد ، خندق اور دوسری لڑائیوں میں مسلمان اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں ایک تہائی یا اس سے بھی کم تھے مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنی غیبی مدد سے ان کو فتح عطا فرمائی اور ان سے کئی گنا تعداد کے دشمن ان کے سامنے نہ ٹھہر سکے،
حنین کی لڑائی میں معاملہ اس کے بر عکس ہوا، یہاں مسلمان اپنے دشمنوں سے تین گنا تھے اس لئے اﷲ تعالیٰ پر جو اعتماد پہلی لڑائیوں میں تھا وہ اس لڑائی میں باقی نہ رہا؛بلکہ ان کی نگاہ اپنی قوت کی طرف اٹھ گئی، چنانچہ بعض کی زبان سے یہ الفاظ بھی نکل گئے کہ " آج ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی سے مغلوب نہ ہوں گے" اپنے خاص بندوں کی یہ لاپرواہی اﷲ تعالیٰ کو پسند نہ آئی اور وہ ایک مرحلے پر اس لڑائی میں شکست کھاگئے اور اگر اﷲ تعالیٰ معمولی تنبیہ کے بعد ان کی مدد نہ کرتا تو العیاذ با ﷲ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام بھی نہ ملتا۔
۲)دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ مسلمان مصلحت وقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جنگ و صلح کے اہم معاملات میں بھی غیر مسلموں کو اپنے ساتھ شریک کرسکتے ہیں، یہود مدینہ سے جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کا معاہدہ اور صلح حدیبیہ میں غیر مسلم قبائل عرب کو مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوکر فریق صلح بننے کی اجازت کے واقعات گذر چکے ہیں ، اسی طرح غزوۂ حنین میں بھی مکّہ کے غیر مسلموں سے جانی و مالی مدد لی گئی ، تاہم اس سلسلہ میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ غیر مسلموں ہی کو نہیں بلکہ کچے پکے مسلمانوں کو بھی نازک موقوں پر آگے نہ رکھنا چاہیے، حنین کی لڑائی میں مکّہ کے نو مسلم اور غیر مسلم بھی مقدمتہ الجیش (لشکر کا اگلا دستہ) میں تھے ان ہی کی کمزوری کی وجہ سے آغاز جنگ میں مسلمانوں کو شکست اٹھانی پڑی، کچھ تو اس لئے آگے آگے ہو گئے تھے کہ مسلمانوں سے اپنے اخلاص اور دوستی کا ثبوت دیں اور کچھ کے دل میں پہلے ہی چور تھا اور یہ سونچ کر آئے تھے کہ عین موقع پر لڑا ئی میں بھاگ کھڑے ہونگے تاکہ جب بھگدڑ ہوجائے تو مسلمانوں کے قدم بھی اکھڑ جائیں اور مکّہ کی فتح کی ساری عزت کرکری ہوجائے، چنانچہ ابو سفیان نے بھاگتے ہوئے کہا " آج مسلمانوں کے قدم سمندر سے ادھر نہ رکیں گے" اور شیبہ بن عثمان نے خود حضور اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی کوشش کی
(ابن ہشام)
۳)تیسری بات قابلِ غور حضور اکرم ﷺ کی بہادری اور ثابت قدمی ہے ، ذرا غور فرمائیے دشمن بلندی سے تاک تاک کر تیروں کا مینہ برسارہے ہیں، بارہ ہزار فوج تتر بتر ہوچکی ہے، صرف چند جانثار جن کی تعداد اسّی اور بعض روایتوں کے مطابق صرف تین ہی ہے باقی رہ گئے ہیں مگر محبوب خداﷺ کے دل میں ذرا گھبراہٹ اور آپﷺ کے قدموں میں کوئی ڈگمگاہٹ نہیں، آپﷺپورے سکون و اطمینان کے ساتھ بیچ میدان میں پہاڑ کی طرح جمے کھڑے ہیں اور آپﷺ کی زبان پر یہ ترانہ ہے :
انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کو اپنے پیغمبر ہونے کا ایساہی یقین ہوتا ہے جیسا کہ ہر انسان کو اپنے انسان ہونے کا ، محبوب خدا ﷺ کا دل بھی اس یقین سے لبریز تھا پھر خوف و ہراس آپﷺ کے پاس کیوں پھٹکتا، آپﷺ اپنے چاروں طرف فرشتوں کی فوجیں دیکھ رہے تھے پھر آپﷺ کے قدم کیوں ڈگمگاتے، چنانچہ تیروں کی اس دھواں دھار بارش میں آپﷺ اعلان فرمارہے تھے:
" میں اﷲ کا سچا پیغمبر ہوں ا س میں مطلق جھوٹ نہیں ہے اور جھوٹ بولنا سردار مکّہ عبدالمطلب کے بیٹے کے شایانِ شان بھی نہیں تو جب میں اﷲ کے کام کے لئے اﷲ کا بھیجا ہوا آیا ہوں تو مخلوق کی بڑی سی بڑی طاقت میرا کیا بگاڑ سکتی ہے "
قرآن کریم میں ان حقیقتوں کی طرف اس طرح اشارہ کیا گیاہے:
" اور اے مسلمانو حنین کا دن یا دکرو جب تم کو اپنی کثرت پر نا ز ہوگیاتھا؛لیکن وہ کثرت ذرا تمہارے کام نہ آئی اور زمین میں فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم پیٹھ موڑ کر بھا گ گئے تب اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر خاص اطمینان اور سکون نازل فرمایا اور ایسی فوجیں اتاریں جن کو تم دیکھ نہ سکتے تھے اور کافروں کو عذاب دیا اور یہی کافروں کی سزاہے "
(سورہ توبہ : ۲۵، ۲۶)- (سیرت طیبہ - قاضی سجاد میرٹھی)

مکمل تحریر >>

ہوازن کے وفد کی آمد


اتنے میں ہوازن کے ان حضرات کا ایک وفد حاضر ہوا جو مسلمان ہو چکے تھے، یہ کل چودہ آدمی تھے جن میں حضور اکرم ﷺ کا رضاعی چچا ابو زرقان بھی تھا ، اس وفد کا سربراہ زُہیر بن صُرد تھا ، وفد کے لوگوں نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ ان کے مال اور قیدیوں کو واپس کردیں، یہ درخواست نہایت رخت انگیز لہجہ میں کی گئی تھی، ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے اسلام قبول کیا، بیعت کی اور حضور اکرم ﷺ سے گفتگو کی ، رئیس وفد زُہیر بن صُرد نے عرض کیا … یا رسول اﷲ ! آپﷺ نے جنہیں قید فرمایا ہے ان میں آپﷺ کی مائیں ، بہنیں ، پھوپھیاں اور خالائیں ہیں اور یہی قوم کی رسوائی کا سبب ہوتی ہیں، حضور اکرم ﷺ نے قبیلہ ہوازن میں ہی دودھ پیا تھا اور آپﷺ کی دایہ حضرت حلیمہؓ اسی خاندان کی بیٹی تھیں، وفد والوں نے اس تعلق کو واسطہ بناکر حضورﷺ سے درخواست کی اور کہا ! " اگر ہماری اسیر بیبیوں میں سے کسی نے حارث بن ابو شمر یا نعمان بن منزر کو اپنا دودھ پلایاہوتا اور وہ آپﷺ ہی کی طرح ہم پر غالب آجاتا پھر ہم اس سے اپنی عورتوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے تو ناممکن تھا وہ ہماری استدعا کو مسترد کرتا اور آپﷺ تو دنیا بھر کے مربیوں سے بہتر ہیں"
حضور اکرم ﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا! کہ میرے ساتھ جو لوگ ہیں ان کو تم دیکھ رہے ہو، مجھے سچی بات بہت پسند ہے، تم دو میں سے ایک چیز پسند کرلو، یا اسیر یا مال ، میں نے تمہارا بہت انتظار کیا ؛لیکن تم نہیں آئے ، رسول اﷲ ﷺ نے طائف سے واپس آکر ان کا دس روز سے زیادہ انتظارکیا ، جب ان کو معلوم ہوگیا کہ رسول اﷲ ﷺ صرف ایک چیز لوٹائیں گے تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم اپنے اسیروں کو پسند کرتے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا! اچھا تو جب میں ظہر کی نماز پڑھ لوں تو تم لوگ اٹھ کر کہنا کہ ہم رسول اﷲ ﷺکو مومنین کی جانب سفارشی بناتے ہیں اور مومنین کو رسول اﷲ ﷺ کی جانب سفارشی بناتے ہیں کہ آپﷺ ہمارے قیدی واپس کردیں، بعد فراغت نماز ظہر آپﷺ نے بعد حمد و ثنا لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا! " اما بعد… آپ کے یہ بھائی کفر سے توبہ کرکے آگئے ہیں ، میرا خیال ہے کہ میں ان کے اسیر ان کے حوالے کردوں، جو کوئی اپنی رضامندی سے ایسا کرے بہتر ہے اور جو شخص اپنے حصہ کو نہ دینا چاہے تو ہم اس کو پہلی غنیمت سے اس کا معاوضہ دے دیں گے اور وہ اپنے حصہ کو بہ خوشی دیدے، یہ سن کر لوگوں نے کہا … یا رسول اﷲ! ہماری جانیں آپﷺ پر قربان ، یہ مال کیا چیز ہے، اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ ہم جان سکیں کہ آپ میں سے کون راضی ہے اور کون نہیں؟ لہذا آپ لوگ جاکر اپنے نمائندوں سے مشورہ کے بعد یہ معاملہ پیش کروائیں، چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور یوں آن کی آن میں چھ ہزار قیدی آزاد ہوگئے، صرف عینیہ بن حصن رہ گیا جس کے حصے میں ایک بڑھیا آئی تھی ، اس نے واپس کرنے سے انکار کردیا لیکن آخر میں اس نے بھی واپس کردیا، حضور اکرم ﷺ نے قیدیوں کو آزاد ہی نہیں کیا بلکہ اپنی طرف سے ہر ایک کو "قبطیہ " مصری کپڑے کی پوشاک بھی عطا فرمائی،
ابن اسحاق سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے مالِ غنیمت سے فارغ ہوکر جعرانہ ہی سے عمرہ کا احرام باندھااور مکّہ تشریف لاکر عمرہ ادا کیا، بقیہ مالِ غنیمت کو مجنّہ میں جو مرالظہران کے قریب واقع ہے محفوظ کروادیا، عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺ نے حضرت عتاب ؓ بن اسید کو مکّہ کا والی مقرر فرمایا اور ان کی معاش کے لئے روزانہ ایک درہم مقرر فرمایا(ابن ہشام) حضرت معاذ ؓ بن جبل کو اسلام اور قرآن کی تعلیم دینے کے لئے مکّہ میں رہنے کا حکم دیا اور خود مہاجرین و انصار کی معیت میں مدینہ واپس ہوئے، آپﷺ کی مدینہ کو واپسی ۲۴ذی قعدہ ۸ ہجری کو ہوئی،
( تاریخ ابن خلدون ۲/۴۸ ، فتح مکہ ، حنین اور طائف کے ان غزوات اور ان کے دوران پیش آنے والے واقعات کے لیے دیکھئے: زاد المعاد ۲/۱۰۶ تا ۲۰۱ ، ابن ہشام ۲/۳۸۹ تا ۵۰۱ صحیح بخاری ، مغازی ،غزوۃ الفتح واوطاس والطائف وغیرہ ۲/۶۱۲ تا۶۲۲ ، فتح الباری ۸/۳ تا ۵۸)
مکمل تحریر >>

مالِ غنیمت کی تقسیم پر انصار کا حزن و اضطراب


ابو سعیدؓ الخدری سے مروی ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ نے قریش اور دوسرے قبائل میں تالیف قلب کے لئے مالِ غنیمت کی تقسیم کی اور انصار کو کچھ نہ دیا تو انصار سخت ملول ہوئے اور چہ میگوئیاں کرنے لگے، ان کے بعض نوجوانوں کی زبان سے نکل ہی گیا کہ بخدا رسول اﷲ ﷺ اپنی قوم سے مل گئے ہیں، حضرت سعدؓ بن عبادہ انصاری آپﷺ کے پاس آئے اور کہا… یا رسول اﷲ ﷺجماعت انصار آپﷺ کے اس طرز عمل سے کبیدہ خاطر ہے کہ آپﷺ نے مالِ غنیمت کو صرف اپنی قوم میں تقسیم کردیااور دوسرے قبائل عرب میں بھی بڑے بڑے عطیے تقسیم کئے مگر قبیلہ انصار کو اس میں سے کچھ بھی نہ ملا، رسول اﷲ ﷺ نے پوچھا … تمہارا اپنا کیا خیال ہے؟ سعد ؓ نے کہا … یارسول اﷲ! میں بھی اپنی قوم کا ہمنوا ہوں ، آپﷺ نے فرمایا! اپنی قوم کو اس احاطہ میں بلا لاؤ، حضرت سعد ؓ نے جاکر انصار کو اس احاطہ میں جمع کیا، کچھ مہاجرین بھی آگئے تو انھیں داخل ہونے دیا، پھر کچھ دوسرے لوگ بھی آگئے تو انہیں اندر جانے سے روک دیا، حضرت سعدؓ نے حضور ﷺ کے پاس آکر اطلاع دی کہ قبیلہ انصار مقررہ جگہ پر جمع ہوگیاہے، رسول اﷲﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور انصار سے پوچھا… کیا تم نے ایسا کہا؟ ان لوگوں نے عرض کیاکہ حضور ﷺ ہمارے سربرآوردہ لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا، چند نو خیز نوجوانوں نے یہ فقرے کہے تھے ، صحیح بخاری باب مناقب الانصار وسیرت النبی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے انصار کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا واقعہ ہے تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ نے جو سنا صحیح ہے، اس کے بعد آپﷺ نے اﷲ کی حمد و ثنا کی اور ایک خطبہ دیا جس کی فنِ بلاغت میں نظیر نہیں ملتی، آپﷺ نے فرمایا:
" تم کیوں اپنے دل میں رنجیدہ ہو ، کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ جب میں تمھارے پاس آیا تو تم گمراہ تھے، اﷲ نے تم کو ہدایت دی، تم غریب تھے اﷲ نے تم کو غنی کردیا، تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے اﷲ نے تم کو ایک دوسرے کا دوست بنادیا، انصار نے کہا…بے شک آپﷺ صحیح فرماتے ہیں، یہ اﷲ اور اس کے رسول کا احسان اور فضل ہے، رسول اﷲﷺ نے پھر کہا! تم مجھے جواب کیوں نہیں دیتے، انصار نے کہا… ہم کیا جواب دیں یا رسول اﷲ! اﷲاور اس کے رسول کا ہم پر بڑا احسان اور فضل ہوا ہے، آپﷺ نے فرمایا! کیوں نہیں، اگر تم چاہو تو جواب دے سکتے ہواور اس جواب میں تم سچے ہوگے اور میں بھی تمھاری تصدیق کروں گا، تم مجھے یہ جواب دے سکتے ہو کہ آپﷺ ہمارے پاس آئے جب کہ اوروں نے آپﷺ کی تکذیب کی تھی، ہم نے آپﷺ کی رسالت کی تصدیق کی، آپﷺ کو سب نے چھوڑ دیاتھا، ہم نے آپﷺ کی مدد کی، آپﷺ اپنے گھر سے نکال دئے گئے تھے، ہم نے آپﷺ کو پناہ دی، آپﷺ ضرورت مند تھے، ہم نے آپﷺ کی اعانت کی، اے گروہ انصار! کیا تم دنیا کی یہ حقیر شئے کے لئے مجھ سے کبیدہ خاطر ہوگئے ہو؟ میں نے اس مال سے بعض لوگوں کی تالیف قلوب کرنا چاہی ہے تاکہ اسلام کی طرف سے ان کے دلوں میں کوئی کھوٹ باقی نہ رہے ، تمھارے اسلام پر مجھے پورا بھروسہ ہے، اے گروہ انصار! کیا تم اسے پسند نہیں کرتے کہ اور لوگ بکریاں اور اونٹ ہنکا کر اپنے اپنے گھروں کو لے جائیں اور تم محمدرسول اﷲ کو اپنے گھر لے جاؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میرے جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا، اگر تمام دنیا ایک راستہ اختیار کرے اور انصار دوسرا تو میں انصار کا راستہ اختیار کرتا، اے اﷲ! تو انصار پر رحم فرما اور ان کی اولاد پر اپنی رحمت نازل کر اور ان کی اولاد کی اولاد پر اپنی رحمت مبذول کر"
(طبری)۔
رسول اللہﷺ کا یہ خطاب سن کر لوگ اس قدر روئے کی داڑ ھیاں تر ہوگئیں۔ اور کہنے لگے : ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول اللہﷺ ہوں۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ واپس ہوگئے اور لوگ بھی بکھر گئے۔ (زادلمعاد)۔
(ابن ہشام ۲/۴۹۹ ، ۵۰۰ ، ایسی ہی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔ ۲/۶۲۰، ۶۲۱)
مکمل تحریر >>

نقشہ غزوہَ حنین

مکمل تحریر >>

اموالِ غنیمت کی تقسیم


طائف سے واپس ہوتے ہوئے حضور اکرم ﷺ مقام جعرانہ میں رکے جہاں حنین کی لڑائی کا مالِ غنیمت محفوظ کردیاگیاتھا، وہاں آپﷺ کئی روز تک مالِ غنیمت تقسیم کئے بغیر ٹھہرے رہے جس کا مقصد یہ تھا کہ ہوازن کا وفد تائب ہوکر آپﷺ کی خدمت میں آئے تو ان کا مال اور قیدی واپس کئے جائیں ؛لیکن تاخیر کے باوجود آپﷺ کے پاس کوئی نہ آیاتو آپﷺ نے مالِ غنیمت کی تقسیم شروع کردی جس میں چوبیس ہزار اونٹ ، چالیس ہزار بکریاں ، چار ہزار اوقیہ چاندی اور چھ ہزار قیدی تھے، حضور اکرم ﷺنے اسلامی قانون کے مطابق کل مال کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا، چار حصے لڑنے والوں میں بانٹ دئیے اور ایک حصہ بیت المال کے لئے روک لیا، اس پانچویں حصہ میں سے آپﷺ نے مکّہ اور دوسرے مقامات کے نو مسلموں کو دل کھول کر حصے دئیے،
ابو سفیان بن حرب کو چالیس اوقیہ چاندی اور ایک سو اونٹ عطاکئے، اس نے کہا ! میرا بیٹا یزید؟ آپﷺ نے اتنا ہی یزید کو بھی دیا، اس نے کہا! اورمیرا بیٹا معاویہ؟ آپﷺ نے اتنا ہی معاویہ کو بھی دیا(یعنی تنہا ابوسفیان کو اس کے بیٹوں سمیت تین سو اونٹ اور ایک سو بیس اوقیہ چاندی ملی)
حطیم بن حزام کو ایک سو اونٹ دئیے گئے ، اس نے مزید سو اونٹوں کا سوال کیا تو اسے پھر ایک سو اونٹ دئیے گئے ، اسی طرح صفوان بن اُمیہ کو سو اونٹ ، پھر سو اونٹ اور پھر سو اونٹ (یعنی تین سو اونٹ) دئیے گئے
(الرحیق المختوم)
حارث بن کلدہ کو بھی سو اونٹ دئیے گئے اور کچھ مزید قرشی اور غیر قرشی روساء کو سو سو اونٹ دئیے گئے ، کچھ دوسروں کو پچاس پچاس اور چالیس چالیس اونٹ دئیے گئے یہاں تک کہ لوگوںمیں مشہور ہوگیا کہ محمدﷺ اسی طرح بے دریغ عطیہ دیتے ہیں کہ انھیں فقر کا اندیشہ ہی نہیں ، چنانچہ مال کی طلب میں بدّو آپﷺ پر ٹوٹ پڑے اور آپﷺ کو ایک درخت کی جانب سمٹنے پر مجبور کردیا، اتفاق سے آپﷺ کی چادر درخت میں پھنس گئی، آپﷺ نے فرمایا! " لوگو میری چادر دے دو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد میں بھی چوپائے ہوں تو انہیں بھی تم پر تقسیم کردوں گا، پھر تم مجھے نہ بخیل پاؤ گے نہ بزدل نہ چھوٹا " ۔
اس کے بعد آپﷺ نے اپنے اونٹ کے بازو میں کھڑے ہوکر اس کی کوہان سے کچھ بال لئے اور چٹکی میں رکھ کر بلند کرتے ہوئے فرمایا! " لوگو ! واﷲ میرے لئے تمہارے مال فیٔ میں سے کچھ بھی نہیں حتیٰ کہ اتنا بال بھی نہیں ، صرف خمس ہے اور خمس بھی تم پر ہی پلٹا دیا جاتا ہے ،
حضور اکرم ﷺ نے حضرت زیدؓ بن ثابت کو حکم دیا کہ لوگوں پر مالِ غنیمت کی تقسیم کا حساب لگائیں، انھوں نے ایسا کیا تو ایک فوجی کے حصے میں چار چار اونٹ اور چالیس چالیس بکریاں آئیں، جو شہسوار تھا اسے بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں ملیں(علامہ شبلی نے لکھا ہے کہ سواروں کو تگنا حصہ ملتا تھا اس لئے ہر سوار کے حصے میں بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں آئیں)
یہ تقسیم ایک حکیمانہ سیاست پر مبنی تھی کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی عقل کے راستہ سے نہیں بلکہ پیٹ کے راستے سے حق پر لائے جاتے ہیں ، اس قسم کے انسانوں کے لئے مختلف ڈھنگ کے اسبابِ کشش کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ ایمان سے مانوس ہوکر اس کے لئے پر جوش بن جائیں
(الرحیق المختوم)
مکمل تحریر >>

محاصرے کی طوالت


حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ طائف کے محاصرہ کو جب پندرہ دن گذر گئے تو آنحضرت ﷺ نے نوفل بن معاویہ سے مشورہ کیا کہ محاصرہ کو جاری رکھنے کہ متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اﷲ! ثقیف کی مثال اس لومڑی کی ہے جو اپنے بل میں چھپی بیٹھی ہو، اگر آپﷺ اس کے پیچھے پڑے رہیں گے اسے پکڑ لیں گے اور اگر اسے چھوڑ دیں تب بھی وہ آپﷺ کو کچھ ضرر نہیں پہنچاسکتی،
اسی زمانہ میں حضور ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپﷺ کے سامنے ایک پیالہ مکھن سے بھرا ہوا پیش کیاگیامگر ایک مرغ نے ٹھونگ مار کر بہا دیا، آپﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے خواب کا تذکرہ فرمایا، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا… یا رسول اﷲ! میرا خیال ہے کہ ہم اس جنگ میں اپنا مقصد حاصل نہ کرسکیں گے،
محاصرہ کی طوالت کے دوران حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! اب تو ثقیف کے لئے آپﷺ بددعا فرمائیں، حضورﷺ نے جواب دیا " اے عمر ! مجھے ثقیف کے لئے اﷲ تعالیٰ نے بددعا کی اجازت نہیں دی" ، حضرت عمرؓ نے عرض کیا… یا رسول اﷲ! جس قوم کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو بددعا سے روک دیا ہم اس کے مقابلہ میں اپنی جانیں کیوں گنواتے رہیں، یہ سن کر حضور اکرمﷺ نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ فرمایا اور حضرت عمرﷺ کے ذریعہ لوگوں میں منادی کروادی کہ ہم انشااﷲ کل واپس ہوں گے؛ لیکن یہ اعلان بعض صحابہؓ پر گراں گذرا، وہ کہنے لگے کہ ہم طائف فتح کئے بغیر واپس نہ ہونگے، اس پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا کل لڑائی پر چلنا ہے، چنانچہ دوسرے روز لڑائی پر گئے؛ لیکن دشمن کے تیروں کا نشانہ بننا پڑا اور کئی صحابہؓ زخمی ہوگئے ، اس کے بعد آپﷺنے فرمایا! ہم انشااﷲ کل واپس ہونگے، یہ سن کر صحابہؓ خوش ہوگئے اور کوچ کی تیاری کرنے لگے، آپﷺ نے فرمایا کہ کہو (ہم)لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور حمد کرنے والے ہیں، لیکن بعض صحابہؓ نے روانگی کے وقت پھر عرض کیا… یا رسول اﷲ! ثقیف کے کافروں کے لئے بددعا فرمائیں؛ لیکن حضور ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی!
" اے اﷲ ثقیف کو ہدایت نصیب فرما اورانہیں میرے پاس بھیج دے" یہ دعا قبول ہوئی اور جلد ہی ثقیف کے سردار حضور اکرمﷺ کے قدموں میں آگرے،
واپسی: آنحضرت ﷺ نے محاصرہ کو طول دینا پسند نہ فرمایا اس لئے کہ حُرمت والا مہینہ(ذی قعدہ) قریب آرہا تھا جس میں قتال و جہاد جائز نہیں ، رسول اﷲ ﷺ طائف کا ایک مہینہ یا بیس روز تک محاصرہ کرنے کے بعد مراجعت فرمائی، جعرانہ ہوئے ہی تھے کہ ماہِ ذیقعد شروع ہوگیا اور آنحضرت ﷺنے اپنے لشکر سمیت عمرہ کا احرام باندھا، بعض راوی یہ بھی کہتے ہیں کہ طائف سے واپسی کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے ماہِ محرم ختم ہوجانے کے بعد پھر حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا.
(حیات محمد- محمد حسین ہیکل)

اس غزوہ میں بارہ صحابہؓ شہید ہوئے جن کے نام حسب ذیل ہیں:
قریش میں سے :
۱) سعیدؓ بن عاص بن اُمیہ ۲) عرفطہؓ بن خباب حلیف بنی اُمیہ۳) عبداﷲؓ بن ابوبکر صدیق کو تیر لگا اور وہ اس زخم کی وجہ سے حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد وفات پائے
۴) عبداﷲؓ بن ابی اُمیہ بن مغیرہ مخزومی (ام المومنین اُم سلمہ کے بھائی ) ۵) عبداﷲؓ بن عامر بن ربیعہ حلیف بنی عدی۶) سائبؓ بن حارث بن قیس بن عدی سہمی ۷) عبداﷲؓبن حارث ( سائب کے بھائی )
بنو لیث سے :
۱) جلیحہ ؓ بن عبداﷲ از بنی سعد بن لیث لیثی
خزرج میں سے :
۱) ثابتؓ بن جزع اسلمی
۲) حارث ؓ بن سہل بن ابی صعصعہ مازنی
۳) المنذر ؓ بن عبداﷲ بن عدی
اوس سے :
۱) رقیم ؓ بن ثابت بن ثعلبہ بن زید بن لوازن بن معاویہ اوسی
اس طرح سات قریشی ، ایک لیثی ، ایک اوسی اور تین خزرجی جملہ بارہ صحابہ ؓ شہید ہوئے،
(سیرت النبی ، ابن کثیر)
مولف رحمتہ للعالمین نے شہدائے طائف کی تعداد ( ۳) بتلائی ہے:

ان ایام میں جب کہ طائف کا حضور اکرم ﷺ نے محاصرہ کرلیاتھاطائف کے گرد و نواح کے رہنے والے اکثر لوگ خود اور بعض وفود کی شکل میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لائے.
(سیرت النبی- علامہ ابن خلدون)
مکمل تحریر >>

غزوہَ طائف


یہ غزوہ درحقیقت غزوۂ حنین کا امتداد ہے۔ کیونکہ ہوازن و ثقیف کے بیشتر شکست خوردہ افراد اپنے جنرل کمانڈر مالک بن عوف نصری کے ساتھ بھاگ کر طائف ہی آئے تھے اور یہیں قلعہ بند ہوگئے تھے۔ لہٰذا رسول اللہﷺ نے حنین سے فارغ ہوکر اور جعرانہ میں مال غنیمت جمع فرما کر اسی ماہ شوال ۸ ھ میں طائف کا قصد فرمایا۔
طائف نہایت مضبوط مقام تھا جس کے گرد شہر پناہ کے طور پر چار دیواری بنائی گئی تھی، یہاں ثقیف کا قبیلہ آباد تھا جو نہایت بہادر ، تمام عرب میں ممتاز اور قریش کا گویا ہمسر تھا ، عروہ بن مسعود یہاں کا سردار تھا، ابو سفیان کی لڑکی اس سے بیاہی گئی تھی، کفار مکہ کہتے تھے کہ قرآن اگر اترتا تو مکہ یا طائف کے روساء پر اترتا ، یہاں کے لوگ فن جنگ سے بھی واقف تھے، طبری اور ابن اسحق نے لکھا ہے کہ عروہ بن مسعود اور غیلان بن سلمہ نے جرش (یمن کا ایک ضلع ) میں جاکر قلعۂ شکن آلات یعنی دبابہ ‘ صنّور اور منجنیق کے بنانے اور استعمال کرنے کا فن سیکھا تھا(طبری - سیرت النبی
) اہل شہر اور حنین کی شکست خوردہ فوج نے قلعہ کی مرمت کی، سال بھر کا رسد کا سامان جمع کیااور مسلمانوں سے مقابلہ کی تیاریاں شروع کیں، حنین کی فوجوں کا سپہ سالار مالک بن عوف نضری بھی شکست کے بعد یہیں آکر قلعہ میں محصور ہوگیاتھا،
آنحضرت ﷺ نے حنین کے مال غنیمت اور اسیران جنگ کے متعلق حکم دیا کہ جعرانہ میں محفوظ رکھے جائیں اور خوداسی ماہ شوال ۸ھ میں طائف کے لئے روانہ ہوئے، حضرت خالدؓ مقدمتہ الحبیش کے طور پر پہلے روانہ کردئیے گئے تھے، اُمہات المومنین میں حضرت اُم سلمہؓ اور حضرت زینبؓ ساتھ تھیں،
راستہ میں نخلہ ٔ یمانیہ ، پھر قرن منازل پھر لیہ سے گزرہوا۔ لیہ میں مالک بن عوف کا ایک قلعہ تھا۔ آپ نے اسے منہدم کروادیا۔ پھر سفر جاری رکھتے ہوئے طائف پہنچے اور قلعہ طائف کے قریب خیمہ زن ہو کر اس کا محاصرہ کرلیا۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ حضور اکرم ﷺ طائف کی طرف جاتے ہوئے ایک قبر کے پاس سے گذرے، حضور ﷺ نے فرمایا یہ ابو دغال کی قبر ہے جو ثقیف کا والد ثمودی تھا، حرم میں رہائش کی وجہ سے عذاب سے محفوظ رہا، حرم سے باہر نکلا تو اس کو بھی اسی مقام میں وہی عذاب پہنچا جو اس کی قوم کو لاحق ہواتھااور یہاں دفن ہوا، اس بات کے صحیح ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے ساتھ طلائی چھڑی بھی دفن ہوئی، اگر تم اس کو کھود ڈالو تو وہ حاصل کرسکتے ہو، لوگوں نے جلد ہی قبر کھود ڈالی اور طلائی چھڑی نکال لی۔
(سیرت النبی- ابن کثیر)
مکمل تحریر >>

دشمن کو شکستِ فاش


مٹی پھینکنے کے بعد چند ہی ساعت گذری تھی کہ دشمن کو فاش شکست ہوگئی۔ ثقیف کے تقریباً ستر آدمی قتل کیے گئے اور ان کے پا س جوکچھ مال، ہتھیار ، عورتیں اور بچے تھے مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
یہی وہ تغیر ہے جس کی طرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے اس قول میں ارشادفرمایا ہے :
''اور(اللہ نے ) حنین کے دن (تمہاری مدد کی ) جب تمہیں تمہاری کثرت نے غرور میں ڈال دیا تھا۔ پس وہ تمہارے کچھ کا م نہ آئی۔ اور زمین کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگے، پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر اپنی سکینت نازل کی۔ اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نے نہیں دیکھا۔ اور کفر کرنے والوں کو سزادی اور یہی کافروں کا بدلہ ہے۔''
شکست کھانے کے بعد دشمن کے ایک گروہ نے طائف کا رخ کیا۔ ایک نخلہ کی طرف بھاگا۔ اور ایک نے اوطاس کی راہ لی۔ رسول اللہﷺ نے ابو عامر اشعریؓ کی سرکردگی میں تعاقب کرنے والوں کی ایک جماعت اوطاس کی طرف روانہ کی۔ فریقین میں تھوڑی سی جھڑپ ہوئی۔ اس کے بعد مشرکین بھاگ کھڑے ہوئے، البتہ اسی جھڑپ میں اس دستے کے کمانڈر ابو عامر اشعریؓ شہید ہوگئے۔
مسلمان شہسوار وں کی ایک دوسری جماعت نے نخلہ کی طرف پسپا ہونے والے مشرکین کا تعاقب کیا اور دُرید بن صمہ کو جاپکڑا۔ جسے ربیعہ بن رفیع نے قتل کردیا۔
شکست کھاکر مالک بن عوف میدان سے فرار ہوا اور اثنائے راہ میں ایک گھاٹی میں وہ اپنے ہم قوم سواروں کی ایک جماعت کے ساتھ رکااور اس نے اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ تم ذرا توقف کرو تاکہ ہم میں جو کمزور ہیں وہ اس مقام سے گذر جائیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھی آملیں، یہ اتنی دیر وہاں ٹھہر گیا جتنی دیر کہ اس کی فوج کی شکست خوردہ جماعتیں جو اس کے پاس آگئی تھیں گھاٹی سے گذر گئیں(طبری)
شکست خوردہ مشرکین کے تیسرے اور سب سے بڑے گروہ کے تعاقب میں جس نے طائف کی راہ لی تھی۔ خود رسول اللہﷺ مال غنیمت جمع فرمانے کے بعد انکی طرف روانہ ہوئے۔مالِ غنیمت یہ تھا۔ قیدی چھ ہزار ، اونٹ چوبیس ہزار ، بکری چالیس ہزار سے زیادہ ، چاندی چار ہزار اوقِیہ (یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم جس کی مقدار چھ کوئنٹل سے چند ہی کلو کم ہوتی ہے ) رسول اللہﷺ نے ان سب کو جمع کرنے کا حکم دیا، پھر اسے جِعرانہ میں روک کر حضرت مسعود بن عمرو غفاریؓ کی نگرانی میں دے دیا۔ اور جب تک غزوہ طائف سے فارغ نہ ہوگئے اسے تقسیم نہ فرمایا۔
قیدیوں میں شیماء بنت حارث سعدیہ بھی تھیں۔ جو رسول اللہﷺ کی رضاعی بہن تھیں۔ جب انہیں رسول اللہﷺ کے پاس لایا گیا اور انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو انہیں رسول اللہﷺ نے ایک علامت کے ذریعہ پہچان لیا۔ پھر ان کی بڑی قدر وعزت کی۔ اپنی چادر بچھاکر بٹھا یا اور احسان فرماتے ہوئے انہیں ان کی قوم میں واپس کردیا۔

مکمل تحریر >>

اسلامی لشکر پر تیر اندازوں کا اچانک حملہ


اسلامی لشکر منگل اور بدھ کی درمیانی رات ۱۰/شوال کو حنین پہنچا۔ لیکن مالک بن عوف یہاں پہلے ہی پہنچ کر اور اپنا لشکر رات کی تاریکی میں اس وادی کے اندر اتار کر اسے راستوں ، گزرگاہوں گھاٹیوں ، پوشیدہ جگہوں اور درّوں میں پھیلا اور چھپا چکا تھا۔ اور اسے یہ حکم دے چکا تھا مسلمان جونہی نمودار ہوں انہیں تیروں سے چھلنی کردینا، پھر ان پر ایک آدمی کی طرح ٹوٹ پڑنا۔
ادھر سحر کے وقت رسول اللہﷺ نے لشکر کی ترتیب وتنظیم فرمائی اور پرچم باندھ باندھ کر لوگوں میں تقسیم کیے پھر صبح کے جھٹپٹے میں مسلمانوں نے آگے بڑھ کر وادی حنین میں قدم رکھا۔ وہ دشمن کے وجود سے قطعی بے خبر تھے۔ انہیں مطلق علم نہ تھا کہ اس وادی کے تنگ دروں کے اندر ثقیف وہوازن کے جیالے ان کی گھات میں بیٹھے ہیں۔ اس لیے وہ بے خبری کے عالم میں پورے اطمینان کے ساتھ اُتر رہے تھے کہ اچانک ان پر تیر وں کی بارش شروع ہوگئی۔ پھر فوراً ہی ان پر دشمن کے پَرے کے پَرے فردِ واحد کی طرح ٹوٹ پڑے (اس اچانک حملے سے مسلمان سنبھل نہ سکے اور ان میں ایسی بھگدڑ مچی کہ کوئی کسی کی طرف تاک نہ رہا تھا۔ بالکل فاش شکست تھی۔ یہاں تک کہ ابو سفیان بن حرب نے - جو ابھی نیا نیا مسلمان تھا - کہا : اب ان کی بھگدڑ سمندر سے پہلے نہ رکے گی۔ اور جبلہ یا کلدہ بن جنید نے چیخ کرکہا دیکھو آج سحر باطل ہوگیا، کلدہ کی بات صفوان کے کانوں میں پڑی تو اس نے ڈانٹ کر (کلدہ سے) کہا! " تیرے منہ میں آگ پڑے ، بخدا مجھے خود پر ہوازن کی حکومت سے مردِ قریش کی فرمانروائی زیادہ محبوب ہے" (بہ اضافہ : اور صفوان اس وقت تک مسلمان بھی نہ ہوئے تھے)
( اصابہ بن حجر - حیات محمد)
بہرحال جب بھگدڑ مچی تو رسول اللہﷺ نے دائیں طرف ہوکر پکارا :لوگو! میری طرف آؤ میں عبد اللہ کا بیٹا محمد ہوں۔ اس وقت اس جگہ آپﷺ کے ساتھ چند مہاجرین اور اہل ِ خاندان کے سواکوئی نہ تھا۔ ابن اسحاق کے بقول ان کی تعداد نو یا دس تھی۔ نووی کا ارشاد ہے کہ آپﷺ کے ساتھ بارہ آدمی ثابت قدم رہے۔ امام احمد اور حاکم (مستدرک ۲/۱۱۷) نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ میں حنین کے روز رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا۔ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے مگر آپﷺ کے ساتھ اسی مہاجرین وانصار ثابت قدم رہے۔ ہم اپنے قدموں پر (پیدل ) تھے اور ہم نے پیٹھ نہیں پھیری۔ ترمذی نے بہ حسن ، ابن عمر کی حدیث روایت کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اپنے لوگوں کو حنین کے روز دیکھا کہ انہوں نے پیٹھ پھیر لی ہے اور رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سو آدمی بھی نہیں۔( فتح الباری ۸/۲۹ ،۳۰) نیزدیکھئے: مسند ابی یعلی ۳/۳۸۸، ۳۸۹)
ان نازک ترین لمحات میں رسول اللہﷺ کی بے نظیر شجاعت کا ظہور ہوا۔ یعنی اس شدید بھگدڑ کے باوجود آپﷺ کا رخ کفار کی طرف تھا اور آپﷺ پیش قدمی کے لیے اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے :
أنا النبی لا کذب أنا ابن عبد المطلب
''میں نبی ہو ں، جھوٹا نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔''
لیکن اس وقت ابو سفیان بن حارثؓ نے آپ کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی۔ اور حضرت عباسؓ نے رکاب تھام لی تھی۔ دونوں خچر کو روک رہے تھے کہ کہیں تیزی سے آگے نہ بڑھ جائے۔ اس کے بعد آپﷺ اتر پڑے اپنے رب سے مدد کی دعا فرمائی : اے اللہ! اپنی مدد نازل فرما۔
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کو... جن کی آواز خاصی بلند تھی ...حکم دیا کہ صحابہ کرام کو پکاریں۔ حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے نہایت بلند آواز سے پکارا:
درخت والو...! (بیعت رضوان والو...!) کہاں ہو ؟ واللہ! وہ لوگ میری آواز سن کر اس طرح مڑے جیسے گائے اپنے بچوں پر مڑتی ہے اور جوابا ً کہا : ہاں ہاں آئے آئے۔ (صحیح مسلم ۲/۱۰۰)
حالت یہ تھی کہ آدمی اپنے اونٹ کو موڑنے کی کوشش کرتا اور نہ موڑ پاتا تو اپنی زرہ اس کی گردن میں ڈال پھینکتا۔ اور اپنی تلوار اور ڈھال سنبھال کر اونٹ سے کود جاتا۔ اور اونٹ کو چھوڑ چھاڑ کر آواز کی جانب دوڑتا۔ اس طرح جب آپﷺ کے پاس سو آدمی جمع ہوگئے تو انہوں نے دشمن کا استقبال کیا اور لڑائی شروع کردی۔
اس کے بعد انصار کی پکار شروع ہوئی۔ او ... انصاریو! او ... انصاریو! پھر یہ پکار بنو حارث بن خزرج کے اندر محدود ہوگئی۔ ادھر مسلمان دستوں نے جس رفتار سے میدان چھوڑا تھا اسی رفتار سے ایک کے پیچھے ایک آتے چلے گئے۔ اور دیکھتے دیکھتے فریقین میں دھواں دھار جنگ شروع ہوگئی۔
رسول اللہﷺ نے میدانِ جنگ کی طرف نظر اٹھا کردیکھا تو گھمسان کا رن پڑرہا تھا۔ فرمایا :''اب چولھا گرم ہوگیا ہے۔''پھر آپﷺ نے زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا : شاھت الوجوہ ''چہرے بگڑ جائیں۔''
یہ مٹھی بھر مٹی اس طرح پھیلی کہ دشمن کا کوئی آدمی ایسا نہ تھا جس کی آنکھ اس سے بھر نہ گئی ہو۔ یعلی بن عطا نے بیان کیا کہ مجھ سے ان (مشرکین) کے بیٹوں نے اپنے اپنے والد سے بیان کیا کہ ہم میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کی دونوں آنکھوں اور منہ میں مٹی نہ بھر گئی ہو، پھر ہم نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک آواز مثل اس آواز کے سنی جو لوہے کے (صیقل کے لئے) نئے طشت گزرنے سے پیدا ہوتی ہے۔۔اس کے بعد ان کی دھار کند ہوتی چلی گئی اور دشمن پشت پھیرتا چلاگیا۔
مکمل تحریر >>

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے روانگی


دشمن کی نقل و حرکت سے واقفیت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو حدردؓ اسلمی کو روانہ کیاتھا تاکہ ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرکے اطلاع دیں، چنانچہ وہ وہاں جاکر واپس آئے اور دشمن کے منصوبوں کی اطلاع دی ، حضور اکرم ﷺ نے مجبوراً مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دیں، رسد اور سامانِ جنگ کی ضرورت پیش آئی تو آپﷺ نے عبداﷲ بن ربیعہ سے جو ابو جہل کے بے مات بھائی تھے اور نہایت دولت مند تھے تیس ہزار درہم قرض لئے
(مسند ابن حنبل بحوالہ سیرت النبی)
رسول اﷲ ﷺ کو جب ہوازن و ثقیف کی پیش قدمی کی خبریں ملیں تو آپﷺ ۶شوال ۸ ہجری ہفتہ کو مکّہ سے حنین کی طرف روانہ ہوئے، آپﷺ کے ہمراہ بارہ ہزارکی فوج تھی جس میں دس ہزار اہلِ مدینہ تھے اور دو ہزار اہل مکّہ ، جن میں اکثریت نو مسلموں کی تھی، صفوان بن اُمیہ جو مکّہ کا رئیس اعظم اور مہمان نوازی میں مشہورتھا؛ لیکن اب تک اسلام نہیں لایاتھااس سے حضور اکرمﷺ نے اسلحہ جنگ مستعار مانگے، اس نے سو زرہیں اور ان کے لوازما ت پیش کئے( شبلی نعمانی) اس کے بعد اس سرو سامان سے حنین کی طرف فوجیں بڑھیں کہ بعض صحابہ کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ" آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے" لیکن بارگاہ ایزدی میں یہ نازش نا پسند تھی ، سورۂ توبہ کی آیت ۴ میں اس کا ذکر ہے :
(ترجمہ ) " بجز ان مشرکو ں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے اورانہوں نے تمہیں ذرا سا نقصان پہنچایا نہ کسی کی تمہارے خلاف مددکی ہے تو تم بھی ان کے معاہدہ کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو، اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو دوست رکھتاہے "
( سورہ ٔ توبہ : ۴ )
ابوسفیان بن حرب بھی شریک غزوہ تھے، مسلمان سپاہیوں کی زرہوں کی چمک دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کررہی تھی، مقدمہ فوج میں گھڑسواروں کا دستہ تھاجس کی نگرانی میں رسد کے باربردار اونٹ بھی تھے ، عرب نے اتنا بڑا لشکر آج تک نہیں دیکھا تھا، دوپہر میں ایک سوار نے آکر بتایاکہ میں نے فلاں پہاڑ پر چڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بنو ہوازن پورے کے پورے آگئے ہیں، ان کے بال بچے اور مویشی بھی ساتھ ہیں ، حضور اکرم ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا " انشااﷲ ! یہ سب کل مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوگا" رات میں حضرت انسؓ بن ابی مرثد نے رضاکارانہ طور پر سنتری کے فرائض انجام دئیے،
حنین جاتے ہوئے راستے میں بیر کا ایک بہت بڑا سرسبز درخت نظرآیا جس کو عرب ایام جاہلیت میں ذات انواط کے نام سے یاد کرتے اور وہاں سالانہ ایک روزہ میلہ لگاتے تھے، اس پر اسلحہ لٹکاتے اور جانور ذبح کرتے، لوگوں نے عرض کیا … یا رسول اﷲ! ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقرر فرمادیجیے جیسا کہ ان کے لئے ہے، حضور اکرم ﷺ نے اس سوال سے ناراض ہوکر ارشاد فرمایا: تم نے مجھ سے ویساہی کہاہے جیسا کہ قومِ موسیٰ نے کہا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک معبود بنادیجیے جیسے کہ ان کے معبود ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے مجھ کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم لوگ ان لوگوں کا راستہ اختیار کروگے جو تم سے پیشتر گذر چکے ہیں، خبردار! ایسے خیالات کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو"
(سیرت النبی- ابن کثیر)
ہر ایک قبیلہ کا دستہ اپنا اپنا علم اٹھائے ہوئے تھا، مہاجرین کے ہمراہ ایک لواء (چھوٹا علم) تھا جسے حضرت علیؓ بن ابی طالب اٹھائے ہوئے تھے اور ایک رایت(بڑا علم) تھا جسے حضرت سعد بن ابی وقاص اٹھائے ہوئے تھے، ایک رایت میں(بڑا علم) حضرت عمرؓ بن الخطاب اٹھائے ہوئے تھے،
خزرج کا لواء(چھوٹا جھنڈا )حضرت خباب بن المنذر اٹھائے ہوئے تھے اور کہا جاتاہے کہ خزرج کا ایک دوسرا لواء حضرت سعدؓ بن عبادہ کے ہمراہ تھا، اوس کا لواء حضرت اسیدؓ بن حضیر کے ہمراہ تھا، اوس و خزرج کے ہر بطن (شاخ قبیلہ )میں لواء یا رایت تھا جسے انہیں کا ایک نامزد شخص اٹھائے ہوئے تھا،
مکمل تحریر >>

دشمن کی روانگی اور اوطاس میں پڑاوَ


کفار کا کمانڈر - مالک بن عوف لشکر کے ساتھ ان کے مال مویشی اور بال بچے بھی ہانک لایا۔ اور آگے بڑھ کر وادی اوطاس میں خیمہ زن ہوا۔ یہ حنین کے قریب بنو ہوازن کے علاقے میں ایک وادی ہے۔ لیکن یہ وادی حنین سے علیحدہ ہے۔ حنین ایک دوسری وادی ہے جو ذو المجاز کے بازو میں واقع ہے۔ وہاں سے عرفات ہوتے ہوئے مکے کا فاصلہ دس میل سے زیادہ ہے۔( فتح الباری ۸/۲۷، ۴۲)
وادیٔ اوطاس میں پڑاو ڈالنے کے بعد لوگ اپنے سپہ سالار کے پاس مشورہ کے لئے جمع ہوئے جس میں قبیلہ جشم کے کہنہ مشق اور میدان کارزار کے تجربہ کار سپاہی دُرید بن صمہ کو بھی شریک کیاگیا، وہ بہت بوڑھا ہوچکاتھااور بقول علامہ شبلی اس کی عمر سوسال سے زیادہ تھی، اس لئے مشورہ دینے کے لئے اسے پلنگ پر لایاگیاتھا، بوجہ ضعف وہ مشورہ کے سوا کچھ کرنے کے لائق نہ تھا اس لئے کہ اصلاًوہ بڑا بہادر اور ماہر جنگجو رہ چکا تھا،. اس نے دریافت کیا : تم لوگ کس وادی میں ہو ؟
جواب دیا: اوطاس میں۔ اس نے کہا : یہ سواروں کی بہترین جولان گاہ ہے۔ نہ پتھر یلی اور کھائی دار ہے ، نہ بھربھری نشیب۔ لیکن کیا بات ہے کہ میں اونٹوں کی بلبلاہٹ ، گدھوں کی ڈھینچ ، بچوں کا گریہ اور بکریوں کی ممیاہٹ سن رہا ہوں ؟
لوگوں نے کہا : مالک بن عوف ، فوج کے ساتھ ، ان کی عورتوں ، بچوں اور مال مویشی بھی ہانک لایاہے۔ اس پر دُرَید نے مالک کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیاہے ؟
اس نے کہا : میں نے سوچا کہ ہر آدمی کے پیچھے اس کے اہل اور مال کو لگادوں ، تاکہ وہ ان کی حفاظت کے جذبے کے ساتھ جنگ کرے۔
دُرید نے کہا : اللہ کی قسم ! بھیڑ کے چرواہے ہو۔ بھلا شکست کھانے والے کو بھی کوئی چیزروک سکتی ہے ؟ دیکھو اگر جنگ میں تم غالب رہے تو بھی مفید تو محض آدمی ہی اپنی تلوار اور نیزے سمیت ہوگا اور اگر شکست کھاگئے تو پھر تمہیں اپنے اہل اور مال کے سلسلے میں رسوا ہونا پڑے گا۔ پھر دُرید نے بعض قبائل اور سرداروں کے متعلق سوال کیا۔ اور اس کے بعد کہا: اے مالک! تم نے بنوہوازن کی عورتوں اور بچوں کو سواروں کے حلق میں لاکر کوئی صحیح کام نہیں کیا۔ انہیں ان کے علاقے کے محفوظ مقامات اور ا ن کی قوم کی بالا جگہوں میں بھیج دو۔ اس کے بعد گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر بددینوں سے ٹکر لو۔ اگر تم نے فتح حاصل کی تو پیچھے والے تم سے آن ملیں گے اور اگر تمہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا تو تمہارے اہل وعیال اور مال مویشی بہر حال محفوظ رہیں گے۔
لیکن جنرل کمانڈر ، مالک نے یہ مشورہ مسترد کردیا اور کہا : اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کرسکتا۔ تم بوڑھے ہو چکے ہو اور تمہاری عقل بھی بوڑھی ہوچکی ہے۔ واللہ! یا تو ہوازن میری اطاعت کریں گے یا میں اس تلوار پر ٹیک لگا دوں گا اوریہ میری پیٹھ کے آرپار نکل جائے گی۔ درحقیقت مالک کو یہ گوارا نہ ہواکہ اس جنگ میں درید کا بھی نام یا مشورہ شامل ہو۔ ہوازن نے کہا : ہم نے تمہاری اطاعت کی۔ اس پر درید نے کہا : یہ ایسی جنگ ہے جس میں میں نہ شریک ہوں اور نہ یہ مجھ سے فوت ہوئی ہے۔
یا لیـتـنـی فـیہــا جــذع أخب فیہــا وأضــع
أقــود وطفــاء الـدمــع کأنہــا شــاۃ صـدع
''کاش! میں اس میں جوان ہوتا۔ تگ وتازاور بھاگ دوڑ کرتا۔ ٹانگ کے لمبے بالوں والے اور میانہ قسم کی بکری جیسے گھوڑے کی قیادت کرتا۔ ''
اس کے بعد مالک کے وہ جاسوس آئے جو مسلمانوں کے حالات کا پتہ لگانے پر مامور کیے گئے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ ان کا جوڑ جوڑ ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ مالک نے کہا : تمہاری تباہی ہو تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہم نے کچھ چتکبرے گھوڑوں پر سفید انسان دیکھے ، اور اتنے میں واللہ ہماری وہ حالت ہوگئی جسے تم دیکھ رہے ہو۔
ادھر رسول اللہﷺ کو بھی دشمن کی روانگی کی خبریں مل چکی تھیں۔ چنانچہ آپ نے ابوحَدْرَدْ اسلمیؓ کو یہ حکم دے کر روانہ فرمایا کہ لوگوں کے درمیان گھس کر قیام کریں اور ان کے حالات کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگا کر واپس آئیں اور آپ کو اطلاع دیں تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔
مکمل تحریر >>

غزوہ حنین


اس غزوہ کو غزوۂ ہوازن بھی کہتے ہیں، حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے ، ذو المجاز عرب کا مشہور بازار اور عرفہ سے تین میل ہے، یہ اسی کے دامن میں ہے ، اس مقام کو او طاس بھی کہتے ہیں،
ہجرت کے آٹھویں سال مکّہ فتح ہوا تو مسلمانوں کو موقع ملا کہ مکّہ کی گلیوں اور بازاروں میں آزادی کے ساتھ گھومیں، اپنے عزیز و اقارب سے ملیں جلیں اور خانہ کعبہ کی زیارت کرسکیں، اب مکّہ میں اسلام آزادتھا، پانچ وقت حضرت بلالؓ کی روح پرور اذان کی آواز مکّہ کی فضا میں گونجتی تھی اور مسلمان صحن کعبہ میں آزادی کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے، بہت سے قبائل نے پیش قدمی کرکے اسلام قبول کرنا شروع کردیا؛لیکن بعض طاقتور اور متکبر قبائل پراس کا الٹا اثر ہوا.
ان میں ہوازن اور ثقیف سر فہرست تھے۔ ان کے ساتھ مُضَر ، جُشَم اور سعد بن بکر کے قبائل اور بنوہلال کے کچھ لوگ بھی شامل ہوگئے تھے۔ ان سب قبیلوں کا تعلق قیسِ عیلان سے تھا۔ انہیں یہ بات اپنی خودی اور عزّت ِ نفس کے خلاف معلوم ہورہی تھی کہ مسلمانوں کے سامنے سپر انداز ہو جائیں۔ ابھی فتح مکہ کے دو ہفتے بھی نہ گذرے تھے کہ ہوازن و ثقیف کے جنگجو قبیلوں کے سرداروں نے مالک بن عوف نضری کے پاس جمع ہوکر یہ طئے کیا کہ مسلمانوں پر حملہ کردیاجائے، یہ دونوں قبیلے بڑے بہادر اور لڑائی کے دھنی تھے، ثقیف عزت و شوکت میں قریش کے ہمسر سمجھے جاتے تھے، دولت و ثروت میں بھی ان سے کم نہ تھے، ہوازن تیر اندازی میں بے مثل مہارت رکھتے تھے اور مویشیوں کی کثرت نے بھی ان کا کوئی حریف نہ تھا ، ان قبائل کے ساتھ مضر ، جشم اور سعدبن بکر کے قبیلے تھے ، ان سب کا تعلق قیس عیلان سے تھا ، انھوں نے باہم مشورہ کرکے مالک بن عوف نضری کو سپہ سالار تجویز کیا جس کی عمر اس وقت تیس سال تھی اور مسلمانوں پر عام حملہ کا منصوبہ بنایا.
مکمل تحریر >>

نقشہ فتح مکہ


مکمل تحریر >>

مکہ میں خون ریزی کی حرمت کا اعلان اور بیعت


فتح کے روز تمام مسلمان حضوراکرم ﷺ کے ساتھ عشاء سے فجر تک خانہ کعبہ میں تکبیر و تسبیح اور طواف کعبہ میں مصروف رہے، دوسرے دن حضور ﷺ نے پھر اہل مکہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں نو مسلموں کی بڑی تعداد شامل تھی ، حضور ﷺ کی خدمت میں یہ اطلاع پہنچائی گئی کہ بنو خزاعہ نے انتقامی کارروائی کے طور پر بنی لیث کے ایک آدمی کوقتل کر دیا ہے ، یہ سنتے ہی آپﷺقصویٰ پر سوار ہوئے اور حمدو ثناء کے بعد ارشاد فرمایا :
" اب ہجرت نہیں رہی لیکن جہاد باقی ہے ، ہجرت کی نیت باقی رہے گی ، جب تم کو جہاد کے لئے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہو بے شک اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو اس دن سے حرمت دی ہے جس دن آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا اور وہ قیامت تک کے لئے حرم ہے ، بے شک اللہ نے مکہ سے ہاتھی والوں کو روک دیا تھا؛ لیکن اللہ نے اپنے رسول اور مسلمانوں کو اہل مکہ پر تسلط دے دیا ، خبر دار ہو جاؤ ، نہ مجھ سے پہلے کبھی کسی کے لئے یہاں خونریزی حلال ہوئی اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہو گی ، خبر دار ہو جاؤ میرے لئے بھی کچھ دیر کے لئے حلال ہوئی تھی، اب وہ بدستور قیامت تک کے لئے حرام ہے، نہ یہاں کا کانٹا توڑا جائے نہ درخت کاٹا جائے نہ شکار بھگایا جائے نہ یہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے، البتہ اس کا اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے ، اس شخص کا کوئی عزیز قتل ہو جائے اُسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے ، خواہ وہ بدلہ لے لے یا خوں بہا لے لے ، حضرت عباسؓ نے عرض کیا ! ائے اللہ کے رسول… اذخر گھاس کے کاٹنے کو مستثنیٰ فرمادیجئے؛ کیونکہ وہ ہمارے گھروں لوہاروں اور قبروں کے کام آتی ہے ، یہ سن کرحضوراکرم ﷺ خاموش ہوگئے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آپﷺ کی زبان سے نکلا … " مگر اذخر مگر اذخر "
جب آپ ﷺ کا خطاب ختم ہو ا تو یمن کاایک شخص ابو شاہ آگے بڑھا اور درخواست کی کہ یا رسول اللہ…یہ خطبہ مجھے لکھوا دیجئے ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا ! یہ خطبہ لکھ کر دیدو،
فتح کے دوسرے روز حضوراکرم ﷺ نے خطاب میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا :
" یقیناً مکہ کو اللہ نے حرمت دی ہے نہ کہ ان انسانوں نے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس کے لئے حلا ل نہیں کہ یہاں خون ریزی کرے یا یہا ں کا درخت کاٹے ، اگر کوئی شخص اللہ کے رسول کے قتال کی بنیادپر ( یہاں قتال کرنا ) جائز سمجھے تو اس سے کہو کہ یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دیدی تھی، اب پھر اس کی حرمت بدستور اسی طرح لوٹ آئی جس طرح ( میرے قتال سے پہلے) تھی ، حاضر کو چاہئیے کہ غائب کو یہ حدیث پہنچا دے"
بنو اسد کے لوگوں نے عرض کیا کہ مکہ ولوں سے بیعت لی جائے ، حضوراکرم ﷺ نے قرن مستقبلہ کے قریب تشریف فرما ہو کر ان سے اسلام کی بیعت لی، جب لوگوں کا ہجوم بڑھ گیا تو کوہ صفا پر ان سے بیعت لی، اس وقت حضرت عمرؓ بن خطاب بائیں جانب کھڑے ہو کر ہر شخص سے بیعت کے الفاظ سن رہے تھے ،
مردوں سے بیعت لینے کے بعد عورتوں سے بیعت لینے کی باری آئی تو اُن سے اقرار اسلام کے بعد ایک پانی سے بھرے بر تن میں حضور اکرم ﷺ اپنا دست مبارک ڈبو کر نکال لیتے پھر خواتین اس میں اپنا ہاتھ ڈالتیں، عورتوں کے ہجوم میں حضرت ابو سفیان ؓ کی بیوی ہند نقاب پہن کر آئی، اس لئے کہ اس کو اپنے سابقہ کرتو ت کی بناء پر اپنی جان جانے کا ڈر تھا اور اس کے قتل کو مباح قرار دے دیا گیاتھا ، جب وہ قریب آئی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا عہد کرو کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک نہ بناؤ گی، عرض کیا ، یا رسول اللہ ! آپ میرے پچھلے اعمال پر مواخذہ تو نہیں فرمائیں گے ، فرمایا ان اعمال پر توبہ کرو اللہ معاف کرنے والاہے ، پھر اس نے نقاب الٹ کر کہا کہ میں ہند ہوں، آپﷺ نے فرمایا تو مسلمان ہو گئی بہت اچھا ہوا، عرض کیا کہ میں آپﷺ کے دست مبارک میں ہاتھ دے کر بیعت کرنا چاہتی ہوں، فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے ایک بکری کا بچہ ہدیہ میں بھیجا، اس کے بعد آپﷺ نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ بقیہ عورتوں سے بیعت لیں ، بیعت کے الفاظ یہ تھے :
" اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک نہ بناؤگی ، اپنی اولادکو قتل نہ کروگی ، چوری اور زنا نہ کرو گی"
مکہ سے بتوں کو پاک کرنے کے بعد گرد و نواح میں جتنے بت تھے وہ سب گرا دئے گئے اور اعلان کر دیا گیا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص اپنے گھر میں بت نہ رکھے ،
مکہ ۲۰ رمضان المبارک کو فتح ہوا، اس کے بعد حضور ﷺ پندرہ دن اور وہاں رہے، حضرت عبداللہ ؓ بن عباس کی روایت ہے کہ (۱۹) روز رہے ، جتنے دن رہے قصر نماز پڑھتے رہے، روزوں کی بھی قضاء فرمائی، آپﷺ کے قیام سے انصار کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ اب شائد آپﷺ مکّہ ہی میں رہیں گے اور مدینہ واپس نہ جائیں گے
(تاریخ اسلام- اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)
مکمل تحریر >>

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش سے خطاب


حضوراکرم ﷺ ابھی بیت اللہ کے اندر ہی تھے کہ مسجد حرام میں لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے اور مسجد کھچا کھچ بھر گئی، وہ سب اپنی قسمتوں کا فیصلہ سننے کے لئے منتظر تھے کہ اتنے میں حضوراکرم ﷺکعبہ کے دروازہ سے باہر تشریف لائے اور کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا !
" اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھا یا اپنے بندہ کی مدد کی اور دشمنوں کے تمام جتھوں کو تنہا شکست دی ، سنو اور آگاہ ہو جاؤ ! بجز کلید برداری کعبہ اور سقایت حجاج ( حاجیوں کو پانی پلانا ) ہر موروثی استحقاق ‘ ہر دعویٰ خون و مال دونوں میرے ان دونوں قدموں تلے ہیں"
ائے قریش کے لوگو ! آج اللہ تعالیٰ نے تمہارے جاہلانہ گھمنڈ، غرور اور نسب کے تفاخر کو خاک میں ملا دیا ہے، سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہوئے تھے ، پھر سورۂ حجرات کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
(ترجمہ ) " ائے انسانو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبائل میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرےکو پہچان سکو ، تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ وہی محبوب ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو ، بے شک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے"
( سورۂ حجرات : ۱۳ )

اس کے بعدحضوراکرم ﷺنے مسجد حرام میں جمع ہونے والے افراد سے پوچھا :
اے گروہ قریش ! تمہیں کچھ معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں ، سب نے جواب دیا آپﷺ شریف النفس بھائی اور شریف النفس بھائی کے فرزند ہیں، آپﷺ سے خیر ہی کی توقع ہے،
حاضرین میں ظالم، سفاک و قاتل بھی تھے اور حضور ﷺ کو طرح طرح کی تکا لیف دینے والے بھی تھے ،جو راستہ میں کانٹے بچھا یا کرتے ، بیت اللہ میں عبادت سے روکنے والے بے بس مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے، شعب ابو طالب میں دانہ پانی بند کرنے والے ، دوسروں کو لڑائی پر اکسا کر مدینہ پر حملہ کرنے والے غرض کہ ہر طرح کے بد خواہ اور ظالم موجود تھے جو آج بہ حیثیت مجرم سر جھکائے حضور ﷺ کے سامنے کھڑے تھے اور انہیں توقع تھی کہ ان کے مظالم کا جواب ان کا قتل ہی ہوگا ، لیکن ہمت کر کے انہوں نے جواب دیاکہ آپﷺ سے خیر ہی کی توقع ہے ، یہ جواب سن کر رحمۃ للعالمین نے فرمایا:
" آج تم سب کے سب آزاد ہو ، تم سے کوئی باز پرس نہیں ، اللہ تعالیٰ بھی تم کو معاف فرمائے ، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے، آئندہ کے لئے نہ کوئی قول و قرار نہ حال کے لئے کوئی شرط نہ ماضی کا کوئی مواخذہ "
اس عفو عام سے سولہ بد قسمت مستثنیٰ تھے جن کے جرائم حضوراکرم ﷺ کی نظر میں نا قابل معافی تھے، ان کی دین اسلام کے خلاف مسلسل مجرمانہ سر گرمیوں کے پیش نظر انہیں قابل گردن زدنی قرار دیا گیا، انہیں عفو عام سے مستثنیٰ قرار دے کر ان کا خون مباح کردیا گیا، ارشاد نبوی ہوا کہ انہیں جہاں کہیں ملیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے چاہے وہ غلاف کعبہ ہی سے لپٹے ہوئے کیوں نہ ہوں ۔ مختلف صحابہؓ کی سفارش پر ان میں سے کچھ مردوں اور تین عورتوں کی جان بخشی ہو گئی ، کچھ کو قتل کیا گیا وہ یہ ہیں
1۔ عبدالعزیٰ بن اخطل مشہور دشمن اسلام، یہ پہلے مسلمان ہوگیا تھا، اس کو حضور ﷺ نے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا، اس کے ساتھ ایک انصاری صحابی اور ایک رُومی غلام تھا، راستہ میں رُومی غلام کو اس نے قتل کرڈالا اور مرتد ہوکر مکّہ بھاگ گیاتھا، فتح مکّہ کے موقع پر معافی کے خیال سے کعبہ کا پردہ پکڑ لیاتھا لیکن اس کو وہاں بھی پناہ نہ ملی،سعد ؓبن حریث مخزومی اور ابو بردہ اسلمی ؓ نے اس کو قتل کردیا،
۔2 قرنتی یا اُم سعدہجو گو مغنیہ ابن اخطل کی لونڈیاں ، بعض مورخوں نے دونوں لونڈیا ں لکھی ہیں ، ان کے نام ارنب اور اُم سعد تھے ، یہ دونوں قتل کی گئیں،
3۔مقیس بن صابہ مشہور دشمن اسلام، مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگیاتھا، غزوۂ خندق کے موقع پر آیا اور ایک انصاری کو قتل کرکے بھاگ گیاتھا اس کو حضرت نمیلہؓ بن عبداﷲ لیثی نے قتل کیا،
حُویرث بن نضیل بن وہب مشہور دشمن اسلام جو ہجرت سے قبل حضور ﷺ کو بہت ایذائیں دیتاتھا، حضرت علیؓ نے اسے قتل کیا۔
مکمل تحریر >>

مسجد الحرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا داخلہ اور تطہیرِ کعبہ


اس کے بعدرسول اللہﷺ اُٹھے اور آگے پیچھے اور گرد وپیش موجود انصار ومہاجرین کے جَلو میں مسجد حرام کے اندر تشریف لائے۔ آگے بڑھ کرحجرِ اسود کو چوما اور اس کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا۔ حضرت عبداﷲ ؓ بن مسعود کی روایت ہے کہ فتح مکّہ کے دن جب آپﷺ مکّہ میں داخل ہوئے تو بیت اﷲ میں چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے، آپﷺ نے قصویٰ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف فرمایا ، آپﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپﷺ ہر ایک بت کو ٹھوکر لگاتے جاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے …
جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
(بنی اسرائیل:۸۱)
(ترجمہ ) " حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، باطل تو مٹنے والی شئے ہے"
تمام مکہ نعرہ ٔ تکبیر کی آوازوں سے گونج رہاتھا ،
بتوں کے پیٹ کی طرف اشارہ ہوتا تو اوندھے منہ گرتے اور منہ کی طرف چھڑی ہوتی تو پیٹھ کے بل گر جاتے تھے، ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ اشارہ کے بجائے بتوں کی آنکھوں میں چھڑی ڈال کر گھماتے، سب سے بڑا بت " ہبل " کعبہ کے سامنے تھا ، اسے توڑا گیا ، اس وقت حضرت زبیرؓ بن عوام نے ابو سفیان سے پوچھا! اسی پر تم ناز کر کے اُحد کے دن اَحَل ہُبل ( ہُبل اعلیٰ ہے ) کا نعرہ لگا رہے تھے ، ابو سفیان نے کہا ! یہ کہہ کر اب میری سر زنش نہ کرو ، اساف نامی بت کو ہ صفا پر نصب تھااور نائلہ کوہ مروہ پر، ان دونوں کو بھی مسمار کیا گیا،
اس کے بعد حضوراکرم ﷺ نے مقام ابراہیم پر دوگانہ طواف ادا فرمایا ، پھر مسجد حرام کے ایک کنارہ پر تشریف فرما ہوئے اور حضرت بلالؓ سے اشارہ فرمایا کہ عثمانؓ بن طلحہ سے کہو کہ کلید کعبہ لائے، چابی ان کی والدہ سلامہ بنت سعد کے پاس تھی، انہوں نے دینے سے انکار کیا، فرمایا اگر کلید کعبہ نہ ملی تو تلوار کمر کے آر پار ہو جائے گی ، حضرت عثمانؓ بن طلحہ چابی لے کر حاضر ہوئے اور کعبہ کا دروازہ کھولا، دوسری روایت ہے کہ چابی لے کر اپنے دست مبارک سے کعبہ کا قفل کھولا ، اس موقع پر حضرت عباسؓ نے عرض کیا ! حجاج کو زمزم سے پانی پلانے کی خدمت میرے پاس ہے اس لئے کلید کعبہ مجھے عطا فرمائیے ، ارشاد فرمایا ! آج ایفائے عہد کا دن ہے ، پھر حضرت عثمانؓ بن طلحہ کو طلب فرمایا اور ارشاد ہوا ! ائے عثمان یہ چابی قیامت تک تم سے کوئی نہ لے سکے گا سوائے ظالم کے اور یہ ہمیشہ تمہارے خاندان میں رہے گی ، تمہیں یاد ہوگا کہ میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک دن یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا اسے دوں گا، عرض کیا ! یا رسول اللہ ! بے شک مجھے وہ دن یاد ہے چنانچہ یہ چابی تا عمر ان کے پاس رہی، وہ لا ولد تھے اس لئے بوقت وفات اپنے بھائی کے سپرد کی جن کا نام شیبہ تھا ، اور یہ خاندان بنو شیبہ کہلاتا تھا، آج تک یہ چابی ان کی اولاد کے پاس ہے ،
کعبہ کے اندر بھی بت تھے ، دیواروں پر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعٰیل ؑ کی تصاویر بنی ہوئی تھیں، ان کے ہاتھوں میں فال نکالنے کے تیر تھے، ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کفار کو غارت کرے، انہیں بھی معلوم ہے کہ ان دونوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں نکالی ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ بن طلحہ کو انہیں دھونے کا حکم دیا دوسری روایت یہ ہے کہ اسامہؓ سے چاہ زمزم سے پانی منگواکر خود اپنے دست مبارک سے انہیں دھویا، حضوراکرم ﷺ کے ساتھ کعبہ میں حضرت بلالؓ اور حضرت اسامہؓ داخل ہوئے ، دروازہ بند کر دیا گیا، حضرت عثمانؓ بن طلحہ اور حضرت عبداللہؓ بن عباس باہر دربانی کرنے لگے، کعبہ کے اندر لکڑی کا کبوتر تھا، حضوراکرم ﷺ نے اسے توڑ دیا ، پھر کعبہ کے کونوں میں تکبیر کہی ‘ دعا مانگی اور دو رکعت نماز ادا فرمائی ، بوقت نماز آپﷺ کی دا ہنی جانب دو ستون ‘ بائیں جانب ایک اور پیچھے تین ستون تھے، دروازہ پشت مبارک پر تھا ، سامنے کی دیوار اور آپﷺ کے درمیان تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ تھا، کافی دیر آپﷺ اند ررہے اور پھر باہر تشریف لائے ، یہاں بھی نماز پڑھی اور فرمایا " یہ قبلہ ہے " کعبہ سے باہر آنے کے بعد آپ ﷺ حجر اسود کے پاس گئے اور اسے بوسہ دیا، بڑی دیر تک بیت اللہ کی چوکھٹ پکڑے رہے ، حضرت خالدؓ بن ولید نے لوگوں کو قریب آنے سے روکے رکھا ،
مکمل تحریر >>

حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں


قریش سےکسی بڑی لڑائی کی نوبت نہیں آئی اور حضور ﷺ ۲۰ رمضان کو فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے ، ارشاد فرمایا !
جو اللہ کی شہادت دے کر مسلمان ہوجائے اسے امان ہے، جو صحنِ کعبہ میں پناہ لے اسے امان ہے ، جو ہتھیار پھینک دے اسے امان ہے ، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اسے امان ہے بجز سولہ افراد کے جو امان سے محروم ہیں، حضرت عباسؓ نے عرض کیا… یا رسول اللہ ! ابو سفیان اپنی قوم کے سردار ہیں ان کے لئے بھی کوئی ایسی خصوصیت ہو جو اعزاز و اکرام کا باعث ہو ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا ! جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے اسے امان ہے اور جو شخص حکیم بن حزام کے مکان میں پناہ لے اسے بھی امان ہے ، ابو سفیان کا مکان مکہ کی چوٹی پر اور حکیم بن حزام کا نشیب میں تھا،
حضوراکرم ﷺ نے ممکنہ تدابیر اختیار فرمائیں کہ معاملات بغیر جنگ کے طئے ہو جائیں اور خونریزی نہ ہو ، دراصل حضور ﷺ یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی ہیبت سرداران قریش کے دلوں پر بیٹھ جائے اور وہ اہل مکہ کو سمجھائیں کہ خون خرابے کے بغیر ہتھیار ڈال دیں ، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کسی بڑی جنگ کی نوبت نہیں آئی،
کفار کے ایک گروہ نے جس میں سفیان بن اُمیہ، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابو جہل تھے حضرت خالدؓ بن ولید کی فوج پر تیر برسائے اور معمولی جھڑپ ہوئی، نتیجہ یہ ہواکہ قریش کے چوبیس آدمی اور ہذیل کے چار آدمی قتل ہوئے اور مسلمانوں میں سے تین حضرات یعنی حضرت کر زبن جابری فہری ، حضرت جیش بن اشعر اء اور حضرت سلمہ بن الیلا نے شہادت پائی ، حضرت خالدؓ نے مجبور ہوکر حملہ کیا ، یہ لوگ تیرہ لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے، اشرار کے بھاگ جانے کے بعد مسلمان خاموشی کے ساتھ مکہ کی آبادی میں سے گذرنے لگے ، مشرک عورتیں بال کھولے راستوں پر کھڑی مجاہدوں کے گھوڑوں کے منہ پر اپنی اوڑھنیاں مارنے لگیں ، حضوراکرم ﷺ نے جب یہ منظر دیکھا تو بے اختیار مسکرا کر حضرت ابو بکرؓ صدیق سے فرمایا:
حسّان نے کیا کہا تھا ، حضرت ابو بکرؓ نے حضرت حسّان ؓبن ثابت کا یہ شعر پڑھا جس کا مطلب ہے ، " عنقریب ہمارے گھوڑے دوڑتے چلے آتے ہوں گے اور عورتیں ان کو اوڑھنیوں سے مار رہی ہوں گی"
مکمل تحریر >>

اسلامی لشکر کا مکہ میں داخلہ


ادھر رسول اللہﷺ مر الظہران سے روانہ ہوکر ذی طویٰ پہنچے- اس دوران میں اللہ کے بخشے ہوئے اعزاز ِ فتح پر فرطِ تواضع سے آپ نے اپنا سر جھکا رکھا تھا۔یہاں تک کہ داڑھی کے بال کجاوے کی لکڑی سے جالگ رہے تھے - ذی طویٰ میں آپ نے لشکر کی ترتیب وتقسیم فرمائی۔ خالد بن ولید کو داہنے پہلو پر رکھا - اس میں اسلم ، سُلَیْم، غِفار ، مُزَیْنہ ، جُہَینہ اور کچھ دوسرے قبائل ِ عرب تھے - اور خالد بن ولید کو حکم دیا کہ وہ مکہ میں زیریں حصے سے داخل ہوں ، اور اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے تو اسے کاٹ کررکھ دیں، یہاں تک کہ صفا پر آپ سے آملیں۔
حضرت زبیر بن عوام بائیں پہلو پر تھے۔ ان کے ساتھ رسول اللہﷺ کا پھریرا تھا۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ مکے میں بالائی حصے، یعنی کداء سے داخل ہوں اور حجون میں آپ کا جھنڈا گاڑ کر آپ کی آمد تک وہیں ٹھہرے رہیں۔
حضرت ابو عبیدہ پیادے پر مقرر تھے۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ بطن وادی کا راستہ پکڑیں۔ یہاں تک کہ مکے میں رسول اللہﷺ کے آگے اتریں۔
ان ہدایات کے بعد تمام دستے اپنے اپنے مقررہ راستوں سے چل پڑے۔
حضرت خالد اور ان کے رفقاء کی راہ میں جو مشرک بھی آیا اسے سلادیا گیا۔ البتہ ان کے رفقاء میں سے بھی کرزبن جابر فہری اور خُنَیس بن خالد بن ربیعہ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ وجہ یہ ہوئی کہ یہ دونوں لشکر سے بچھڑ کر ایک دوسرے راستے پر چل پڑے اور اسی دوران انہیں قتل کردیا گیا۔ خندمہ پہنچ کر حضرت خالدؓ اور ان کے رفقاء کی مڈبھیڑ قریش کے اوباشوں سے ہوئی۔ معمولی سی جھڑپ میں بارہ مشرک مارے گئے اور اس کے بعد مشرکین میں بھگدڑ مچ گئی۔ حماس بن قیس جو مسلمانوں سے جنگ کے لیے ہتھیارٹھیک ٹھاک کرتا رہتا تھا بھاگ کر اپنے گھر میں جاگھسا اور اپنی بیوی سے بولا: دروازہ بند کر لو۔ اس نے کہا : وہ کہاں گیا جو تم کہا کرتے تھے ؟ کہنے لگا :
إنک لو شہدت یوم الخندمــہ إذ فــر صـفوان وفر عکرمــۃ
واستقبتنا بالسیوف المسلمــۃ یـقـطعن کل ساعد وجمجمہ
ضرباً فلا یسمع إلا غمغمـــہ لھـم نہیت خلفنـا وہمہمــہ
لـــم تنطقی في اللـوم أدنـی کلمـۃ
''اگر تم نے جنگ خندمہ کا حال دیکھا ہوتا جب کہ صفوان اورعکرمہ بھاگ کھڑے ہوئے اور سونتی ہوئی تلواروں سے ہمارا استقبال کیا گیا ، جو کلائیاں اور کھوپڑیاں اس طرح کاٹتی جارہی تھیں کہ پیچھے سوائے ان کے شور وغوغا اور ہمہمہ کے کچھ سنائی نہیں پڑتا تھا ، تو تم ملامت کی ادنیٰ بات نہ کہتیں۔''
اس کے بعد حضرت خالدؓ مکہ کے گلی کوچوں کو روندتے ہوئے کوہِ صفا پر رسول اللہﷺ سے جاملے۔
ادھر حضرت زبیرؓ نے آگے بڑھ کر حجون میں مسجد فتح کے پاس رسول اللہﷺ کا جھنڈا گاڑ ا۔ اور آپﷺ کے لیے ایک قُبہّ نصب کیا۔ پھر مسلسل وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ تشریف لے آئے۔
مکمل تحریر >>

ابو سفیان کی مکہ واپسی


حضرت ابو سفیانؓ اور حضرت حکیم ؓبن حزام کے مکانوں کو دارالامن بنانے کا فیصلہ بے وجہ نہیں کیا گیا تھا، مکی دور میں ایک مرتبہ مشرکین نے آنحضرت ﷺ کو بہت ستایا تھا، حضرت ابو سفیانؓ حضورﷺ کو ان سے بچا کر اپنے گھر لے گئے اور پناہ دی تھی، یہ اسی احسان کابدلہ تھا جو حضور ﷺ نے دیا اور حضرت ابو سفیانؓ کے گھر کو مامن قرار دیا، ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ غزوۂ بدر کے بعد حضرت زینب ؓ ( حضور ﷺ کی صاحبزادی ) زوجہ حضرت ابو العاصؓ مکہ سے تشریف لے جا رہی تھیں کہ راستہ میں ہباربن اسود نے آپ کے اونٹ کو روک لیا اور کجادے کی رسی کو کاٹ دیا جس کی وجہ سے اونٹ گر گیا اور حضرت زینبؓ کا حمل ساقط ہوگیا، اس وقت بھی ابو سفیانؓ نے ان کی مدد کی اور حضرت زینبؓ کو اپنے گھر لے گئے اور ان کی تیمارداری کی اور جب وہ اس قابل ہوگئیں کہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں تو انہیں مدینہ روانہ کردیا ، ان کے اس احسان کا بدلہ حضور ﷺ نے بہتر طریقہ سے چُکایا،
اسی طرح حضرت حکیمؓ بن حزام نے بھی شعب ابو طالب کی محصوری کے زمانہ میں جبکہ ابو طالب معہ آل بنی ہاشم کے پناہ گزیں تھے اُن سے نہایت ہمدردانہ سلوک کیا تھا، وہ اکثر رات کے وقت اونٹوں پر غلہ لاد کر شعب میں ہانک دیا کرتے تھے، اس کے علاوہ غزوۂ بدر کے موقع پر سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ کو لڑائی سے باز رہنے پرحضرت حکیمؓ بن حزام نے راضی کر لیا تھا، حضرت حکیمؓ بن حزام ، اُم المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بھتیجے تھے اور ان کا مکان حضرت خدیجہؓ کا آبائی مکان تھا ، ان کے ان احسانات کا بدلہ حضور ﷺ نے بہتر طریقہ میں عطا کیا اور ان کے گھر کو دار الامن قرار دیا،
جب رسول اللہﷺ ابو سفیان کے پاس سے گزرچکے تو حضرت عباسؓ نے اس سے کہا : اب دوڑ کر اپنی قوم کے پاس جاؤ۔ ابو سفیان تیزی سے مکہ پہنچا اور نہایت بلندآواز سے پکارا : قریش کے لوگو! یہ محمدﷺ ہیں۔ تمہارے پاس اتنا لشکر لے کر آئے ہیں کہ مقابلے کی تا ب نہیں ، لہٰذا جو ابو سفیان کے گھر گھس جائے اسے امان ہے۔ یہ سن کر اس کی بیوی ہند بنت عتبہ اٹھی اور اس کی مونچھ پکڑ کر بولی : مار ڈالو اس چرب دار، کڑے گوشت والے مشک کو۔ بُرا ہوایسے (لینڈ والے ) پیشتر و خبر رساں کا۔
ابو سفیان نے کہا : تمہاری بربادی ہو۔ دیکھو تمہاری جانوں کے بارے میں یہ عورت تمہیں دھوکا میں نہ ڈال دے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسا لشکر لے کر آئے ہیں جس سے مقابلے کی تاب نہیں۔ اس لیے جو ابو سفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان ہے۔ لوگوں نے کہا :اللہ تجھے مارے ، تیرا گھر ہمارے کتنے آدمیوں کے کام آسکتا ہے ؟ ابو سفیان نے کہا : اور جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے اسے بھی امان ہے۔ اور جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے اسے بھی امان ہے۔ یہ سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں اور مسجد حرام کی طرف بھاگے۔
البتہ اپنے کچھ اوباشوں کو لگادیا اور کہا کہ انہیں ہم آگے کیے دیتے ہیں۔ اگر قریش کو کچھ کامیابی ہوئی تو ہم ان کے ساتھ ہورہیں گے اور اگر ان پر ضرب لگی تو ہم سے جو کچھ مطالبہ کیا جائے گا منظور کرلیں گے۔ قریش کے یہ احمق اوباش مسلمانوں سے لڑنے کے لیے عِکْرَمَہ بن ابی جہل ، صفوان بن اُمیہ اور سُہَیْل بن عَمرو کی کمان میں خندمہ کے اندر جمع ہوئے۔ ان میں بنو بکر کاایک آدمی حماس بن قیس بھی تھا۔ جو اس سے پہلے ہتھیار ٹھیک ٹھاک کرتا رہتا تھا۔ جس پر اس کی بیوی نے (ایک روز ) کہا : یہ کاہے کی تیاری ہے جو میں دیکھ رہی ہوں ؟ اس نے کہا : محمدﷺ اور اس کے ساتھیوں سے مقابلے کی تیاری ہے۔ اس پر بیوی نے کہا : اللہ کی قسم ! محمدﷺ اور اس کے ساتھیوں کے مقابل کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی۔ اس نے کہا :اللہ کی قسم !مجھے امید ہے کہ میں ان کے بعض ساتھیوں کو تمہارا خادم بناؤں گا۔ اس کے بعد وہ کہنے لگا :
إن یقبلوا الیوم فما لي علـۃ ہــذا سـلاح کامـل وألــۃ
وذو غـراریـن سـریع السلـــۃ
''اگر وہ آج مد مقابل آگئے تو میرے لیے کوئی عذر نہ ہوگا۔ یہ مکمل ہتھیار، دراز انی والا نیزہ اور جھٹ سونتی جانے والی دودھاری تلوار ہے ''
خندمہ کی لڑائی میں یہ شخص بھی آیا ہوا تھا۔
مکمل تحریر >>

اسلامی لشکر مکہ کی جانب


اسی صبح -منگل ۱۷/رمضان ۸ ھ کی صبح - رسول اللہﷺ مر الظہران سے مکہ روانہ ہوئے اور حضرت عباس کو حکم دیا کہ ابو سفیان کو وادی کی تنگنائے پر پہاڑکے ناکے کے پاس روک رکھیں تاکہ وہاں سے گزرنے والی الٰہی فوجوں کو ابو سفیان دیکھ سکے۔ حضرت عباس نے ایسا ہی کیا۔ ادھر قبائل اپنے اپنے پھریرے لیے گزر رہے تھے۔ جب وہاں سے کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان پوچھتا کہ عباس ! یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب میں حضرت عباس - بطورِ مثال- کہتے کہ بنو سلیم ہیں۔ تو ابوسفیان کہتا کہ مجھے سلیم سے کیا واسطہ ؟ پھر کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان پوچھتا کہ اے عباس !یہ کون لوگ ہیں ؟ وہ کہتے: مُزَیْنَہ ہیں۔ ابو سفیان کہتا:، مجھے مزینہ سے کیا مطلب ؟ یہاں تک کہ سارے قبیلے ایک ایک کرکے گزر گئے۔ جب بھی کوئی قبیلہ گزرتا توابو سفیان حضرت عباس سے اس کی بابت ضرور دریافت کرتا اور جب وہ اسے بتاتے تو وہ کہتا کہ مجھے بنی فلاں سے کیا واسطہ ؟
یہاں تک کہ رسول اللہﷺ اپنے سبز دستے کے جلو میں تشریف لائے۔ آپ مہاجرین وانصار کے درمیان فروکش تھے۔ یہاں انسانوں کے بجائے صرف لوہے کی باڑھ دکھائی پڑرہی تھی۔ ابو سفیان نے کہا : سبحان اللہ ! اے عباس ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا : یہ انصار ومہاجرین کے جلو میں رسول اللہﷺ تشریف فرماہیں۔ ابو سفیان نے کہا : بھلا ان سے محاذآرائی کی طاقت کسے ہے ؟ اس کے بعد اس نے مزید کہا کہ ابو الفضل ! تمہارے بھتیجے کی بادشاہت تو واللہ بڑی زبردست ہوگئی۔ حضرت عباسؓ نے کہا : ابو سفیان ! یہ نبوت ہے۔ ابو سفیان نے کہا: ہاں ! اب تو یہی کہاجائے گا۔
اس موقع پر ایک واقعہ اور پیش آیا۔ انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس تھا۔ وہ ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو بولے:
الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحل الحرمۃ
''آج خونریزی اور مار دھاڑ کادن ہے۔ آج حرمت حلال کرلی جائے گی۔''
آج اللہ نے قریش کی ذلت مقدر کردی ہے۔ اس کے بعد جب وہاں سے رسول اللہﷺ گزرے تو ابو سفیان نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ نے وہ بات نہیں سنی جو سعد نے کہی ہے ؟ آپ نے فرمایا :سعد نے کیا کہا ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: یہ اور یہ بات کہی ہے۔ یہ سن کر حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں سعد قریش کے اندر مار دھاڑ نہ مچا دیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ آج کا دن وہ دن ہے جس میں کعبہ کی تعظیم کی جائے گی۔ آج کا دن وہ دن ہے جس میں اللہ قریش کو عزت بخشے گا۔ اس کے بعد آپ نے حضرت سعد کے پاس آدمی بھیج کر جھنڈا ان سے لے لیا اور ان کے صاحبزادے قیس کے حوالے کردیا۔ گویا جھنڈا حضرت سعد کے ہاتھ سے نہیں نکلا۔
مکمل تحریر >>

ابو سفیان دربارِ نبوت میں

مر الظہران میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد حضرت عباسؓ رسول اللہﷺ کے سفید خچر پر سوار ہوکر نکلے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ کوئی لکڑہارا یا کوئی بھی آدمی مل جائے تو اس سے قریش کے پاس خبر بھیج دیں تاکہ وہ مکے میں رسول اللہﷺ کے داخل ہونے سے پہلے آپ کے پاس حاضر ہوکر امان طلب کرلیں۔
ادھر اللہ تعالیٰ نے قریش پر ساری خبروں کی رسائی روک دی تھی۔ اس لیے انہیں حالات کا کچھ علم نہ تھا، البتہ وہ خوف اور اندیشے سے دوچار تھے اور ابو سفیان باہر جاجاکر خبروں کا پتہ لگا تا رہتا تھا۔ چنانچہ اس وقت بھی وہ اور حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء خبروں کا پتہ لگانے کی غرض سے نکلے ہوئے تھے۔
حضرت عباسؓ کا بیان ہے کہ واللہ ! میں رسول اللہﷺ کے خچر پر سوار جارہا تھا کہ مجھے ابو سفیان اور بدیل بن ورقاء کی گفتگوسنائی پڑی۔ وہ باہم ردوقدح کررہے تھے۔ ابو سفیان کہہ رہا تھا کہ اللہ کی قسم ! میں نے آج رات جیسی آگ اور ایسا لشکر تو کبھی دیکھا ہی نہیں، اور جواب میں بدیل کہہ رہا تھا : یہ اللہ کی قسم! بنو خزاعہ ہیں۔ جنگ نے انہیں نوچ کر رکھ دیا ہے، اور اس پر ابو سفیان کہہ رہا تھا:خزاعہ اس سے کہیں کمتر اور ذلیل ہیں کہ یہ ان کی آگ اور ان کا لشکر ہو۔
حضر ت عباس کہتے ہیں کہ میں نے ا س کی آواز پہچان لی اور کہا : ابو حنظلہ ؟ اس نے بھی میری آواز پہچان لی اور بولا : ابو الفضل ؟ میں نے کہا : ہاں ، اس نے کہا : کیا بات ہے ؟ میرے ماں باپ تجھ پر قربان ، میں نے کہا: یہ رسول اللہﷺ ہیں لوگوں سمیت۔ ہائے قریش کی تباہی -- واللہ !
اس نے کہا : اب کیا حیلہ ہے ؟ میرے ماں باپ تم پر قربان۔ میں نے کہا: واللہ! اگر وہ تمہیں پاگئے تو تمہاری گردن ماردیں گے۔ لہٰذا اس خچر پر پیچھے بیٹھ جاؤ۔ میں تمہیں رسول اللہﷺ کے پاس لے چلتا ہوں ، اور تمہارے لیے امان طلب کیے دیتا ہوں۔ اس کے بعد ابو سفیان میرے پیچھے بیٹھ گیا اور اس کے دونوں ساتھی واپس چلے گئے۔
حضرت عباسؓ کہتے ہیں کہ میں ابو سفیان کو لے کر چلا۔ جب کسی الاؤ کے پاس سے گزرتا تو لوگ کہتے : کون ہے ؟ مگر جب دیکھتے کہ رسول اللہﷺ کا خچر ہے اور میں اس پر سوار ہوں تو کہتے کہ رسول اللہﷺ کے چچا ہیں اور آپ کے خچر پر ہیں۔ یہاں تک کہ عمر بن خطابؓ کے الاؤ کے پاس سے گزرا۔ انہوں نے کہا : کون ہے ؟ اور اٹھ کر میری طرف آئے۔ جب پیچھے ابو سفیان کو دیکھا تو کہنے لگے : ابو سفیان ؟ اللہ کا دشمن ؟ اللہ کی حمد ہے کہ اس نے بغیر عہدوپیمان کے تجھے (ہمارے ) قابو میں کردیا۔ اس کے بعد وہ نکل کر رسول اللہﷺ کی طرف دوڑے۔ اور میں نے بھی خچر کو ایڑ لگائی۔ میں آگے بڑھ گیا۔ اور خچر سے کود کر رسول اللہﷺ کے پاس جاگھسا۔ اتنے میں عمر بن خطاب بھی گھس آئے اور بولے کہ اے اللہ کے رسول ! یہ ابو سفیان ہے۔ مجھے اجازت دیجیے میں اس کی گردن ماردوں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں نے اسے پناہ دے دی ہے۔ پھر میں نے رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھ کر آپ کا سر پکڑ لیا۔ اور کہا : اللہ کی قسم آج رات میرے سوا کوئی اور آپ سے سرگوشی نہ کرے گا۔ جب ابو سفیان کے بارے میں حضرت عمرؓ نے بار بار کہا تو میں نے کہا : عمر ! ٹھہرجاؤ۔ اللہ کی قسم! اگر یہ بنی عدی بن کعب کا آدمی ہوتا تو تم ایسی بات نہ کہتے۔ عمرؓ نے کہا : عباس ! ٹھہر جاؤ۔ اللہ کی قسم! تمہارا اسلام لانا میرے نزدیک خطّاب کے اسلام لانے سے - اگر وہ اسلام لاتے - زیادہ پسندیدہ ہے اور اس کی وجہ میرے لیے صرف یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے نزدیک تمہارا اسلام لانا خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : عباس ! اسے (یعنی ابوسفیان کو ) اپنے ڈیرے میں لے جاؤ۔ صبح میرے پاس لے آنا۔ اس حکم کے مطابق میں اسے ڈیرے میں لے گیا اور صبح خدمتِ نبویﷺ میں حاضر کیا۔ آپﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا ! ابو سفیان تجھ پر افسوس ہے کیا اب بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، عرض کیا میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان، آپﷺ کتنے حلیم اور کریم ہیں ، کوئی اور الہٰ ہوتا تو آج ہمارے کام نہ آتا ، یہ اقرار ابو سفیان کے لا اِلہٰ الا اللہ کی منزل پر فائز ہونے کی دلیل ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تمہیں اب بھی یقین نہیں آیا کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، عرض کیا بے شک آپﷺ برد بار ‘ شریف النفس اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں ، رہ گئی نبوت تو ابھی اس میں ذرا تردد ہے، حضرت عباسؓ بولے ائے ابو سفیان کیا غضب کر رہے ہو ، اس سے پہلے کہ عمرؓ تیری گردن مارنے آئیں شہادت حق اور رسالت کی گواہی دے دے، یہ گھڑی سعادت کی تھی ؛چنانچہ ابو سفیان نے کلمۂ طیبہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا ، اس وقت ان کا ایمان متزلزل تھا؛لیکن مورخین لکھتے ہیں کہ با لآخر وہ سچے مسلمان بن گئے ،
حضرت عباس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ابوسفیان اعزاز پسند ہے، لہٰذا اسے کوئی اعزاز دے دیجیے۔ آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے۔ جو ابو سفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان ہے اور جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے اسے امان ہے اور جو مسجد ِ حرام میں داخل ہوجائے اسے امان ہے۔
مکمل تحریر >>

اسلامی لشکر مکہ کی راہ میں


۱۰ رمضان المبارک ۸ ھ کو رسول اللہﷺ نے مدینہ چھوڑ کر مکے کا رخ کیا۔ آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام تھے، مدینہ پر ابو رھم غفاریؓ کی تقرری ہوئی۔
جحفہ میں یااس سے کچھ اوپر آپ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب ملے۔ وہ مسلمان ہوکر اپنے بال بچوں سمیت ہجرت کرتے ہوئے تشریف لارہے تھے۔ پھر اَبوَاء میں آپﷺ کے چچیرے بھائی ابو سفیان بن حارث اور پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن اُمیہ ملے۔ آپ نے ان دونوں کو دیکھ کر منہ پھیر لیا۔ کیونکہ یہ دونوں آپ کو سخت اذیت پہنچایا کرتے اور آپ کی ہجو کیا کرتے تھے۔ یہ صورت دیکھ کر حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کی کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کے چچیرے بھائی اور پھوپھی زاد بھائی ہی آپ کے یہاں سب سے بدبخت ہوں۔ ادھر حضرت علیؓ نے ابو سفیان بن حارث کو سکھا یا کہ تم رسول اللہﷺ کے سامنے جاؤ ، اور وہی کہو جو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان سے کہا تھا کہ قَالُوا تَاللَّـهِ لَقَدْ آثَرَ‌كَ اللَّـهُ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَ (۱۲:۹۱) ''اللہ کی قسم اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت بخشی اور یقینا ہم خطا کار تھے۔''کیونکہ آپﷺ یہ پسند نہیں کریں گے کہ کسی اور کا جواب آپ سے عمدہ رہا ہو۔ چنانچہ ابو سفیان نے یہی کیا اور جواب میں فور اً رسول اللہﷺ نے فر مایا: قَالَ لَا تَثْرِ‌يبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ‌ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْ‌حَمُ الرَّ‌احِمِينَ (۱۲:۹۲) ''آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ اللہ تمہیں بخش دے اور وہ ارحم الراحمین ہے ۔''اس پر ابو سفیان نے آپ کو چند اشعار سنائے۔ جن میں سے بعض یہ تھے :
لـعـمرک إنـي حـین أحمل رأیۃ لـتـغـلب خیــل اللات خیل محمد
لکالمدلج الحیران أظلم لیلــہ فہـذا أوانـي حین أہـدی فأہتـــدی
ہدانی ہاد غیر نفسی ودلـــنی علی اللہ من طردتہ کل مطـــــــرد

''تیری عمر کی قسم ! جس وقت میں نے اس لیے جھنڈا اٹھایا تھا کہ لات کے شہسوار محمد کے شہسوار پر غالب آجائیں تو میری کیفیت رات کے اس مسافر کی سی تھی جو تیرہ وتار رات میںحیران وسرگردان ہو ، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ مجھے ہدایت دی جائے ، اور میں ہدایت پاؤں۔ مجھے میرے نفس کی بجائے ایک ہادی نے ہدایت دی اور اللہ کا راستہ اسی شخص نے بتایا جسے میں نے ہر موقع پر دھتکاردیا تھا۔ ''
یہ سن کر رسول اللہﷺ نے اس کے سینے پر ضرب لگائی اور فرمایا : تم نے مجھے ہر موقع پر دھتکارا تھا۔ بعد میں ابو سفیان کے اسلام میں بڑی خوبی آگئی۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے انہوں نے اسلام قبول کیا حیاء کے سبب رسول اللہﷺ کی طرف سر اٹھا کر نہ دیکھا۔ رسول اللہﷺ بھی ان سے محبت کرتے تھے اور ان کے لیے جنت کی بشارت دیتے تھے۔ اور فرماتے تھے: مجھے توقع ہے کہ یہ حمزہ کا بدل ثابت ہوں گے جب ان کی وفات کا وقت آیا تو کہنے لگے : مجھ پر نہ رونا۔ کیونکہ اسلام لانے کے بعد میں نے کبھی کوئی گناہ کی بات نہیں کہی۔ زاد المعاد ۲/۱۶۲ ، ۱۶۳
رسول اللہﷺ نے اپنا سفر جاری رکھا۔ آپ اور صحابہ روزے سے تھے لیکن عسفان اور قُدَید کے درمیان کدید نامی چشمے پر پہنچ کر آپ نے روزہ توڑ دیا۔( صحیح بخاری ۲/۶۱۳)اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام نے بھی روزہ توڑدیا۔ اس کے بعد پھر آپ نے سفر جاری رکھا یہاں تک کہ رات کے ابتدائی اوقات میں مرالظہران -وادی فاطمہ - پہنچ کر نزول فرمایا۔ وہاں آپ کے حکم سے لوگوں نے الگ الگ آگ جلائی۔ اس طرح دس ہزار (چولہوں میں) آگ جلائی گئی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عمر بن خطابؓ کو پہرے پر مقرر فرمایا۔
مکمل تحریر >>

غزوہ کی تیاری اور اخفاء کی کوشش


طبرانی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے عہد شکنی کی خبر آنے سے تین روز پہلے ہی حضرت عائشہ ؓ کو حکم دے دیا تھا کہ آپ کا سازوسامان تیار کر دیں لیکن کسی کو پتہ نہ چلے۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ کے پاس حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے تو پوچھا : بیٹی ! یہ کیسی تیاری ہے ؟ انہوں نے کہا : واللہ! مجھے نہیں معلوم۔ حضرت ا بو بکرؓ نے کہا : یہ بنو اَصْفر یعنی رومیوں سے جنگ کا وقت نہیں۔ پھر رسول اللہﷺ کا ارادہ کدھر کا ہے ؟ حضرت عائشہؓ نے کہا : واللہ مجھے علم نہیں۔ تیسرے روز علی الصباح عمرو بن سالم خزاعی چالیس سواروں کو لے کر پہنچ گیا اور یا رب إني ناشد محمدا ... الخ والے اشعار کہے تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ عہد شکنی کی گئی ہے۔ اس کے بعد بدیل آیا۔ پھر ابو سفیان آیا ، اور لوگوں کو حالات کا ٹھیک ٹھیک علم ہو گیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے تیاری کا حکم دیتے ہوئے بتلایا کہ مکہ چلنا ہے اور ساتھ ہی یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ ! جاسوسوں اور خبروں کو قریش تک پہنچنے سے روک اورپکڑ لے تاکہ ہم ان کے علاقے میں ان کے سر پر ایک دم جاپہنچیں۔
پھر کمال اخفاء اور رازداری کی غرض سے رسول اللہﷺ نے شروع ماہ رمضان ۸ ھ میں حضرت ابو قتادہ بن ربعی کی قیادت میں آٹھ آدمیوں کا ایک سریہ بطن اضم کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ مقام ذی خشب اور ذی المروہ کے درمیان مدینہ سے ۳۶ عربی میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ مقصد یہ تھا کہ سمجھنے والا سمجھے کہ آپ اسی علاقے کا رخ کریں گے اور یہی خبریں اِدھر اُدھر پھیلیں۔ لیکن یہ سریہ جب اپنے مقررہ مقام پر پہنچ گیا تو اسے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ مکہ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔ چنانچہ یہ بھی آپ سے جاملا۔
یہی سریہ ہے جس کی ملاقات عامر بن اضبط سے ہوئی تو عامر نے اسلامی دستور کے مطابق سلام کیا۔ لیکن محلم بن جثامہ نے کسی سابقہ رنجش کے سبب اسے قتل کردیا اور اس کے اونٹ اور سامان پر قبضہ کرلیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ...الآیہ یعنی ''جوتم سے سلام کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔''اس کے بعد صحابہ کرام محلم کو رسول اللہﷺ کے پاس لے آئے کہ آپ اس کے لیے دعاء مغفرت کردیں۔ لیکن جب محلم آپ کے سامنے حاضر ہوا تو آپ نے تین بار فرمایا : اے اللہ ! محلم کو نہ بخش۔ اس کے بعدمحلم اپنے کپڑے کے دامن سے آنسو پونچھتا ہوااٹھا۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کی قوم کے لوگ کہتے ہیں کہ بعد میں اس کے لیے رسول اللہﷺ نے مغفرت کی دعا کردی تھی۔ دیکھئے : زاد المعاد ۲/۱۵۰ ، ابن ہشام ۲/۶۲۶،۶۲۷،۶۲۸۔
ادھر حاطب ابی بلتعہؓ نے قریش کو ایک رقعہ لکھ کر یہ اطلاع دے بھیجی کہ رسول اللہﷺ حملہ کرنے والے ہیں۔ انہوں نے یہ رقعہ ایک عورت کو دیا تھا۔ اور اسے قریش تک پہنچانے پر معاوضہ رکھا تھا۔ عورت سر کی چوٹی میں رقعہ چھپا کر روانہ ہوئی۔ لیکن رسول اللہﷺ کو آسمان سے حاطب کی اس حرکت کی خبر دے دی گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی، حضرت مقداد ، حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد غنوی کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جاؤ روضۂ خاخ پہنچو۔ وہاں ایک ہودج نشین عورت ملے گی۔ جس کے پاس قریش کے نام ایک رقعہ ہوگا۔ یہ حضرات گھوڑوں پر سوار تیزی سے روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو عورت موجود تھی۔ اس سے کہا کہ وہ نیچے اُترے اور پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی خط ہے ؟ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ انہوں نے اس کے کجاوے کی تلاشی لی لیکن کچھ نہ ملا۔ اس پر حضرت علیؓ نے اس سے کہا : میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نہ رسول اللہﷺ نے جھوٹ کہا ہے نہ ہم جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ تم یاتو خط نکالو ، یا ہم تمہیں ننگا کردیں گے۔ جب اس نے یہ پختگی دیکھی تو بولی : اچھا منہ پھیرو۔ انہوں نے منہ پھیر ا تو اس نے چوٹی کھول کر خط نکالا اور ان کے حوالے کردیا۔ یہ لوگ خط لے کر رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے۔ دیکھا تو اس میں تحریر تھا : (حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے قریش کی جانب ) پھر قریش کو رسول اللہﷺ کی روانگی کی خبر دی تھی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت حاطب کو بلا کر پوچھا کہ حاطب ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اے محمدﷺ ! میرے خلاف جلدی نہ فرمائیں۔ اللہ کی قسم ! اللہ اور اس کے رسول پر میرا ایمان ہے۔ میں نہ تو مرتد ہوا ہوں اور نہ مجھ میں تبدیلی آئی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ میں خود قریش کا آدمی نہیں۔ البتہ ان میں چپکا ہوا تھا اور میرے اہل وعیال اور بال بچے وہیں ہیں۔ لیکن قریش سے میری کوئی قرابت نہیں کہ وہ میرے بال بچوں کی حفاظت کریں۔ اس کے بر خلاف دوسرے لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں وہاں ان کے قرابت دار ہیں جو ان کی حفاظت کریں گے۔ اس لیے جب مجھے یہ چیز حاصل نہ تھی تو میں نے چاہا کہ ان پر ایک احسان کردوں جس کے عوض وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں۔ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے چھوڑیے میں اس کی گردن ماردوں۔ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی ہے اور یہ منافق ہوگیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : دیکھو! یہ جنگِ بدر میں حاضر ہوچکا ہے۔ اور عمر ! تمہیں کیا پتہ ؟ ہوسکتا ہے اللہ نے اہلِ بدر پر نمودار ہوکر کہا ہو تم لوگ جو چاہو کرو ، میں نے تمہیں بخش دیا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔( صحیح بخاری ۱/۴۲۲ ، ۲/۶۱۲ ، حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد کے ناموں کا اضافہ صحیح بخاری کی بعض دوسری روایات میں ہے۔)
مکمل تحریر >>

تجدیدِ صلح حدیبیہ کے لئے ابو سفیان مدینہ میں

قریش اور ان کے حلیفوں نے جو کچھ کیا تھا وہ کھلی ہوئی بدعہدی اور صریح پیمان شکنی تھی۔ جس کی کوئی وجہ جواز نہ تھی، اسی لیے خودقریش کو بھی اپنی بدعہدی کا بہت جلداحساس ہوگیا اور انہو ں نے اس کے انجام کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مجلس مشاورت منعقد کی۔ جس میں طے کیا کہ وہ اپنے سپہ سالار ابو سفیان کو اپنا نمائندہ بناکر تجدیدِ صلح کے لیے مدینہ روانہ کریں۔
ادھر رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتایا کہ قریش اپنی اس عہد شکنی کے بعد اب کیا کرنے والے ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ''گویا میں ابو سفیان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عہد کو پھر سے پختہ کرنے اور مدتِ صلح کو بڑھانے کے لیے آگیا ہے ''
ادھر ابو سفیان طے شدہ قرارداد کے مطابق روانہ ہوکر عُسفان پہنچا تو بُدَیل بن ورقاء سے ملاقات ہوئی۔ بُدیل مدینہ سے واپس آرہا تھا۔ ابو سفیان سمجھ گیا کہ یہ نبیﷺ کے پاس سے ہوکر آرہا ہے۔ پوچھا : بُدیل ! کہا ں سے آرہے ہو ؟ بُدیل نے کہا : میں خزاعہ کے ہمراہ اس ساحل اور وادی میں گیا ہوا تھا۔ پوچھا : کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں گئے تھے ؟بُدیل نے کہا : نہیں۔
مگر جب بدیل مکہ کی جانب روانہ ہوگیا تو ابو سفیان نے کہا : اگر وہ مدینہ گیا تھا تو وہاں (اپنے اونٹ کو ) گٹھلی کا چارہ کھلایا ہوگا۔ اس لیے ابو سفیان اس جگہ گیا جہاں بُدیل نے اپنے اونٹ بٹھایا تھا اور اس کی مینگنی لے کر توڑی تو اس میں کھجور کی گٹھلی نظر آئی۔ ابو سفیان نے کہا : میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بُدیل ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تھا۔
بہرحال ابو سفیان مدینہ پہنچا اور اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ کے گھرگیا۔ جب رسول اللہﷺ کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو انہوں نے بستر لپیٹ دیا۔ ابو سفیان نے کہا : بیٹی ! کیا تم نے اس بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا یا مجھے اس بستر کے لائق نہیں سمجھا ؟ انہوں نے کہا : یہ رسول اللہﷺ کا بستر ہے اور آپ ناپاک مشرک آدمی ہیں۔ ابو سفیان کہنے لگا : اللہ کی قسم ! میرے بعد تمہیں شر پہنچ گیا ہے۔
پھر ابو سفیان وہاں سے نکل کر رسول اللہﷺ کے پاس گیا اور آپ سے گفتگو کی۔ آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے بعد ابو بکرؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ وہ رسول اللہﷺ سے گفتگو کریں۔ انہوں نے کہا : میں ایسا نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد وہ عمر بن خطابؓ کے پاس گیا اور ان سے بات کی۔ انہوں نے کہا : بھلا میں تم لوگوں کے لیے رسول اللہﷺ سے سفارش کروں گا۔ اللہ کی قسم! اگر مجھے لکڑی کے ٹکڑے کے سوا کچھ دستیاب نہ ہوتو میں اسی کے ذریعے تم لوگوں سے جہاد کروں گا۔ اس کے بعد وہ حضرت علی بن ابی طالبؓ کے پاس پہنچا۔ وہاں حضرت فاطمہ ؓ بھی تھیں۔ اور حضرت حسنؓ بھی تھے، جو ابھی چھوٹے سے بچے تھے اور سامنے پھدک پھدک کر چل رہے تھے۔ ابوسفیان نے کہا : اے علی ! میرے ساتھ تمہارا سب سے گہرانسبی تعلق ہے۔ میں ایک ضرورت سے آیا ہوں۔ ایسا نہ ہوکہ جس طرح میں نامراد آیا اسی طرح نامراد واپس جاؤں۔ تم میرے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کردو۔ حضرت علیؓ نے کہا : ابو سفیان ! تجھ پر افسوس ، رسول اللہﷺ نے ایک بات کا عزم کرلیا ہے۔ ہم اس بارے میں آپ سے کوئی بات نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد وہ حضرت فاطمہؓ کی طرف متوجہ ہوا ، اور بولا: کیا آپ ایسا کرسکتی ہیں کہ اپنے اس بیٹے کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کے درمیان پناہ دینے کا اعلان کرکے ہمیشہ کے لیے عرب کا سردار ہوجائے ؟ حضرت فاطمہ ؓ نے کہا : واللہ ! میرا یہ بیٹا ا س درجہ کو نہیں پہنچاہے کہ لوگوں کے درمیان پناہ دینے کا اعلان کرسکے۔ اور رسول اللہﷺ کے ہوتے ہوئے کوئی پناہ دے بھی نہیں سکتا۔
ان کوششوں اور ناکامیوں کے بعد ابو سفیان کی آنکھوں کے سامنے دنیا تاریک ہوگئی۔ اس نے حضرت علی بن ابی طالبؓ سے سخت گھبراہٹ ، کش مکش اور مایوسی وناامیدی کی حالت میں کہا کہ ابو الحسن ! میں دیکھتا ہوں کہ معاملات سنگین ہوگئے ہیں ، لہٰذامجھے کوئی راستہ بتاؤ ، حضرت علیؓ نے کہا : اللہ کی قسم ! میں تمہارے لیے کوئی کار آمد چیز نہیں جانتا۔ البتہ تم بنوکنانہ کے سردار ہو ، لہٰذا کھڑے ہوکر لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کردو۔ اس کے بعد اپنی سرزمین میں واپس چلے جاؤ۔ ابو سفیان نے کہا : کیا تمہارا خیال ہے کہ یہ میرے لیے کچھ کار آمد ہوگا۔ حضرت علیؓ نے کہا : نہیں اللہ کی قسم! میں اسے کار آمد تو نہیں سمجھتا ، لیکن اس کے علاوہ کوئی صورت بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کے بعد ابو سفیان نے مسجد میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ لوگو! میں لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کررہا ہوں، پھراپنے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ چلا گیا۔
قریش کے پاس پہنچاتو وہ پوچھنے لگے پیچھے کا کیا حال ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ بات کی تو واللہ! انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ابو قحافہ کے بیٹے کے پاس گیا تواس کے اندر کوئی بھلائی نہیں پائی۔ اس کے بعد عمر بن خطابؓ کے پاس گیا تو اسے سب سے کٹر دشمن پایا۔ پھر علیؓ کے پاس گیا تو اسے سب سے نرم پایا۔ اس نے مجھے ایک رائے دی اور میں نے اس پر عمل بھی کیا۔ لیکن پتہ نہیں وہ کارآمد بھی ہے یا نہیں ؟ لوگوں نے پوچھا : وہ کیا رائے تھی؟ ابو سفیان نے کہا: وہ رائے یہ تھی کہ میں لوگوں کے درمیان امان کا اعلان کردوں۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔
قریش نے کہا : تو کیا محمد نے اسے نافذ قرار دیا۔ ابو سفیان نے کہا : نہیں۔ لوگوں نے کہا : تیری تباہی ہو۔ اس شخص (علی) نے تیرے ساتھ محض کھلواڑ کیا۔ ابو سفیان نے کہا : اللہ کی قسم! اس کے علاوہ کوئی صورت نہ بن سکی۔
مکمل تحریر >>

غزوہ فتح مکہ - اسباب


غزوہ ٔ فتح مکہ- سبب
امام ابن ِ قیم لکھتے ہیں کہ یہ وہ فتح اعظم ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے دین کو ، اپنے رسول کو ، اپنے لشکر کو اور اپنے امانت دار گروہ کو عزت بخشی اور اپنے شہر کو اور اپنے گھر کو ، دنیا والوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنایا ہے۔ کفار ومشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس فتح سے آسمان والوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی، اس کی عزت کی طنابیں جوزاء کے شانوں پر تن گئیں۔ اور اس کی وجہ سے لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور روئے زمین کا چہرہ روشنی اور چمک دمک سے جگمگا اٹھا۔( زاد المعاد ۲/۱۶۰)
صلح حدیبیہ کے ذکر میں ہم یہ بات بتاچکے ہیں کہ اس معاہدے کی ایک دفعہ یہ تھی کہ جوکوئی محمدﷺ کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکتا ہے اور جو کوئی قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکتا ہے اور جو قبیلہ جس فریق کے ساتھ شامل ہوگا اس فریق کا ایک حصہ سمجھاجائے گا۔ لہٰذا ایسا کوئی قبیلہ اگر کسی حملے یا زیادتی کا شکار ہوگا تو یہ خود ااس فریق پر حملہ اور زیادتی تصور کی جائے گی۔
اس دفعہ کے تحت بنو خُزاعہ رسول اللہﷺ کے عہد وپیما ن میں داخل ہوگئے اور بنو بکر قریش کے عہد وپیمان میں۔ اس طرح دونوں قبیلے ایک دوسرے سے مامون اور بے خطر ہوگئے۔ لیکن چونکہ ان دونوں قبیلوں میں دورِ جاہلیت سے عداوت اور کشاکش چلی آرہی تھی ، اس لیے جب اسلام کی آمد آمد ہوئی ، اور صلح حدیبیہ ہوگئی ، اور دونوں فریق ایک دوسرے سے مطمئن ہوگئے تو بنو بکر نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر چاہا کہ بنو خزاعہ سے پرانا بدلہ چکا لیں۔ چنانچہ نوفل بن معاویہ دیلی نے بنو بکر کی ایک جماعت ساتھ لے کر شعبان ۸ ھ میں بنو خزاعہ پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا۔ اس وقت بنو خزاعہ وتیر نامی ایک چشمے پر خیمہ زن تھے۔ ان کے متعدد افراد مارے گئے۔ کچھ جھڑپ اور لڑائی بھی ہوئی۔ ادھر قریش نے اس حملے میں ہتھیاروں سے بنو بکر کی مدد کی۔ بلکہ ان کے کچھ آدمی بھی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر لڑائی میں شریک ہوئے۔ بہرحال حملہ آوروں نے بنوخزاعہ کو کھدیڑ کر حرم تک پہنچادیا۔ حرم پہنچ کر بنو بکر نے کہا : اے نوفل ، اب تو ہم حرم میں داخل ہوگئے۔ تمہارا الٰہ ! ... تمہارا الٰہ ! ... اس کے جواب میں نوفل نے ایک بڑی بات کہی ، بولا: بنو بکر !آج کوئی الٰہ نہیں۔ اپنا بدلہ چکا لو۔ میری عمر کی قسم ! تم لوگ حرم میں چوری کرتے ہو تو کیا حرم میں اپنا بدلہ نہیں لے سکتے۔
ادھر بنو خزاعہ نے مکہ پہنچ کر بُدَیْل بن وَرْقَاء خُزاعی اور اپنے ایک آزاد کردہ غلام رافع کے گھروں میں پناہ لی اور عَمرو بن سالم خزاعی نے وہاں سے نکل کر فوراً مدینہ کا رُخ کیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچ کر سامنے کھڑا ہوگیا۔ اس وقت آپ مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرماتھے۔ عمرو بن سالم نے کہا :
یـارب إنـي نـاشـد محمـــدا حلفـنا وحلف أبـیـہ ألا تـلـدا
قـد کـنـتم ولــداً وکنا والــدا ثمۃ أسـلمنــا ولـم ننزع یـــدا
فـانصر ہداک اللہ نـصـراً أیدا وادع عبــاد اللہ یأتوا مــــددا
فـیـہم رسول اللہ قد تجــردا أبیض مثل البدر یسمو صعـدا
إن سیـم خـسـفا وجہہ تربـدا في فیلـق کالبحر یجری مزبدا
إن قریشاً أخلفـوک الموعــدا ونقضــوا میثـاقک المؤکـــدا
وجعلوا لی فـی کـداء رصـدا وزعـموا أن لست أدعوا أحدا
وہــــــم أذل وأقـل عـــددا ہــم بیتونــا بالوتیر ہجـــدا
وقـتـلـونـــا رکعــــاً وسجـــــــدا

''اے پروردگار ! میں محمدﷺ سے ان کے عہد اور ان کے والد کے قدیم عہد(اشارہ اس عہد کی طرف ہے جو بنو خزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان عبدالمطلب کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔ اس کا ذکر ابتدا کتاب میں کیا جاچکا ہے ۔)کی دہائی دے رہا ہوں۔ آپ لوگ اولاد تھے اورہم جننے والے۔( اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ عبد مناف کی ماں، یعنی قصی کی بیوی حبی بنو خزاعہ سے تھیں۔ اس لیے پورا خاندانِ نبوت بنو خزاعہ کی اولاد ٹھہرا)پھر ہم نے تابعداری اختیار کی اور کبھی دست کش نہ ہوئے۔ اللہ آپ کو ہدایت دے۔ آپ پُر زور مدد کیجیے اور اللہ کے بندوں کو پکاریے ، وہ مدد کو آئیں گے۔ جن میں اللہ کے رسول ہوں گے ہتھیار پوش ، اور چڑھے ہوئے چودھویں کے چاند کی طرح گورے اور خوبصورت۔ اگر ان پر ظلم اور ان کی توہین کی جائے تو چہرہ تمتما اٹھتا ہے۔ آپ ایک ایسے لشکر ِ جرار کے اندر تشریف لائیں گے جو جھاگ بھرے سمندر کی طرح تلاطم خیز ہوگا۔ یقینا قریش نے آپ کے عہد کی خلاف ورزی کی ہے اور آپ کا پُختہ پیمان توڑدیا ہے۔ انہوں نے میرے لیے کداء میں گھات لگائی اور یہ سمجھا کہ میں کسی کو (مدد کے لیے ) نہ پکاروں گا۔ حالانکہ وہ بڑے ذلیل اور تعداد میں قلیل ہیں۔ انہوں نے وتیر پر رات میں حملہ کیا اور ہمیں رکوع وسجود کی حالت میں قتل کیا۔''(یعنی ہم مسلمان تھے اور ہمیں قتل کیا گیا۔ ) ''
رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے عَمرو بن سالم ! تیری مدد کی گئی۔ اس کے بعد آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا دکھائی پڑا۔ آپ نے فرمایا: یہ بادل بنو کعب کی مدد کی بشارت سے دمک رہا ہے۔
اس کے بعد بُدَیْل بن ورقاء خُزاعی کی سرکردگی میں بنو خزاعہ کی ایک جماعت مدینہ آئی اور رسول اللہﷺ کو بتلایا کہ کون سے لوگ مارے گئے اور کس طرح قریش نے بنو بکر کی پشتیبانی کی۔ اس کے بعد یہ لوگ مکہ واپس چلے گئے۔
مکمل تحریر >>

سرایہ ذات السلاسل


جب رسول اللہﷺ کو معرکہ ٔ موتہ کے سلسلے میں مشارف شام کے اندر رہنے والے عرب قبائل کے موقف کا علم ہوا کہ وہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے رومیوں کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے تھے تو آپﷺ نے ایک ایسی حکمتِ بالغہ کی ضرورت محسوس کی جس کے ذریعے ایک طرف تو ان عرب قبائل اور رومیوں کے درمیان تفرقہ پڑجائے۔ اور دوسری طرف خود مسلمانوں سے ان کی دوستی ہوجائے تاکہ اس علاقے میں دوبارہ آپﷺ کے خلاف اتنی بڑی جمعیت فراہم نہ ہوسکے۔
اس مقصد کے لیے آپﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو منتخب فرمایا کیونکہ ان کی دادی قبیلہ بلی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ آپﷺ نے جنگ موتہ کے بعد ہی، یعنی جمادی الآخر ہ ۸ھ میں ان کی تالیف ِ قلب کے لیے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ان کی جانب روانہ فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ بنو قضاعہ نے اطرافِ مدینہ پر ہلہ ّ بولنے کے ارادہ سے ایک نفری فراہم کررکھی ہے، لہٰذا آپﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ان کی جانب روانہ کیا۔ ممکن ہے دونوں سبب اکٹھا ہوگئے ہوں۔
بہرحال رسول اللہﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کے لیے سفید جھنڈا باندھا۔ اور اس کے ساتھ کا لی جھنڈیاں بھی دیں۔ اور ان کی کمان میں بڑے بڑے مہاجرین وانصار کی تین سو نفری دے کر - انہیں - رخصت فرمایا۔ ان کے ساتھ تیس گھوڑے بھی تھے۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ بلی اور عذرہ اور بلقین کے جن لوگوں کے پاس سے گذریں ان سے مدد کے خواہاں ہوں۔ وہ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپے رہتے تھے۔ جب دشمن کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کی جمعیت بہت بڑی ہے۔ اس لیے حضرت عَمرو نے حضرت رافع بن مکیث جہنی کو کمک طلب کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو عَلَم دے کر ان کی سرکردگی میں دوسو فوجیوں کی کمک روانہ فرمائی۔ جس میں رؤساء مہاجرین - مثلا: ابو بکر وعمر - اور سردارانِ انصار بھی تھے۔ ابو عبیدہ کو حکم دیا گیا تھا کہ عمرو بن عاص سے جاملیں ، اور دونوں مل کر کام کریں، اختلاف نہ کریں۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابو عبیدہؓ نے امامت کرنی چاہی۔ لیکن حضرت عمر و نے کہا: آپ میرے پاس کمک کے طور پر آئے ہیں۔ امیر میں ہوں۔ ابو عبیدہ نے ان کی بات مان لی اور نماز حضرت عمرو ہی پڑھاتے رہے۔
کمک آجانے کے بعد یہ فوج مزید آگے بڑھ کرقضاعہ کے علاقہ میں داخل ہوئی اور اس علاقہ کو روندتی ہوئی اس کے دور درازحدود تک جا پہنچی۔ اخیر میں ایک لشکر سے مڈبھیڑ ہوئی، لیکن جب مسلمانوں نے اس پر حملہ کیا تو وہ ادھر اُدھر بھاگ کر بکھر گیا۔اس کے بعد عوف بن مالک اشجعیؓ کو ایلچی بنا کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی بہ سلامت واپسی کی اطلاع دی اور غزوے کی تفصیل سنائی۔
ذات السلاسل (پہلی سین کو پیش اور زبر دونوں پڑھنا درست ہے ) یہ وادیٔ القریٰ سے آگے ایک خطہ ٔ زمین کا نام ہے۔ یہاں سے مدینہ کا فاصلہ دس دن ہے۔ ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ مسلمان قبیلہ ٔ جذام کی سر زمین میں واقع سلاسل نامی ایک چشمے پر اترے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام ذات السلاسل پڑ گیا۔( ابن ہشام ۲/۶۲۳تا ۶۲۶ ، زاد المعاد ۲/۱۵۷)

مکمل تحریر >>

Sunday 18 October 2015

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت اور فتح


انتہائی شجاعت وبسالت اور زبردست جاں بازی وجاں سپاری کے باوجود یہ بات انتہائی تعجب انگیز تھی کہ مسلمانوں کا یہ چھوٹا سا لشکر رُومیوں کے اس لشکر ِ جرار کی طوفانی لہروں کے سامنے ڈٹا رہ جائے۔ لہٰذا اس نازک مرحلے میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے جس میں وہ خود کود پڑے تھے ، اپنی مہارت اور کمال ہنرمندی کا مظاہرہ کیا۔
تمام روایات پر نظر ڈالنے سے صورت حال یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے پہلے روز حضرت خالد بن ولیددن بھر رومیوں کے مد مقابل ڈٹے رہے۔ لیکن وہ ایک ایسی جنگی چال کی ضرورت محسوس کررہے تھے جس کے ذریعہ رومیوں کو مرعوب کر کے اتنی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹالیں کہ رومیوں کو تعاقب کی ہمت نہ ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے اور رومیوں نے تعاقب شروع کردیا ، تو مسلمانوں کو ان کے پنجے سے بچانا سخت مشکل ہوگا۔
چنانچہ جب دوسرے دن صبح ہوئی تو انہوں نے لشکر کی ہیئت اور وضع تبدیل کردی اور اس کی ایک نئی ترتیب قائم کی۔ مقدمہ (اگلی لائن ) کو ساقہ (پچھلی لائن )اور ساقہ کو مقدمہ کی جگہ رکھ دیا۔ اور میمنہ کو مَیْسَرَہ اور میسرہ کو میمنہ سے بدل دیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر دشمن چونک گیا اور کہنے لگا کہ انہیں کمک پہنچ گئی ہے۔ غرض رومی ابتداہی میں مرعوب ہوگئے۔ ادھر جب دونوں لشکرکا آمنا سامنا ہوا اور کچھ دیر تک جھڑپ ہوچکی تو حضرت خالد بن ولید نے اپنے لشکر کا نظام محفوظ رکھتے ہوئے مسلمانوں کوتھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹانا شروع کیا لیکن رومیوں نے اس خوف سے ان کا پیچھا نہ کیا کہ مسلمان دھوکا دے رہے ہیں اور کوئی چال چل کر انہیں صحراکی پہنائیوں میں پھینک دینا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن اپنے علاقہ میں واپس چلاگیا اور مسلمانوں کے تعاقب کی بات نہ سوچی۔ ادھر مسلمان کامیابی اورسلامتی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور بھر مدینہ واپس آگئے۔ فتح الباری ۷/۵۱۳ ، ۵۱۴ ، زاد المعاد ۲/۱۵۶ ، معرکے کی تفصیل سابقہ مآخذ سمیت ان دونوں مآخذ سے لی گئی ہے۔
اس جنگ میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ جنگ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب تنہا حضرت خالد کے ہاتھ میں نو تلوار یں ٹوٹ گئیں تو مقتولین اور زخمیوں کی تعداد کتنی رہی ہوگی۔
موتہ کے معرکے کا اثر :
اس معرکے کی سختیاں جس انتقام کے لیے جھیلی گئی تھیں ، مسلمان اگرچہ وہ انتقام نہ لے سکے ، لیکن اس معرکے نے مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت میں بڑا اضافہ کیا۔ اس کی وجہ سے سارے عرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ کیونکہ رومی اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی قوت تھے۔ عرب سمجھتے تھے کہ ان سے ٹکرانا خودکشی کے مترادف ہے۔ اس لیے تین ہزار کی ذرا سی نفری کا دولاکھ کے بھاری بھرکم لشکر سے ٹکرا کر کوئی قابل ذکر نقصان اٹھائے بغیر واپس آجانا عجوبۂ روزگار سے کم نہ تھا۔ اور اس سے یہ حقیقت بڑی پختگی کے ساتھ ثابت ہوتی تھی کہ عرب اب تک جس قسم کے لوگوں سے واقف اور آشنا تھے ، مسلمان ان سے الگ تھلگ ایک دوسری ہی طرز کے لوگ ہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے مویّد ومنصور ہیں اور ان کے راہنما واقعتااللہ کے رسول ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ضدی قبائل جو مسلمانوں سے مسلسل برسرِپیکار رہتے تھے ، اس معرکے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔ چنانچہ بنو سلیم ، اشجع ، غطفان ، ذیبان اور فزارہ وغیرہ قبائل نے اسلام قبول کرلیا۔
یہی معرکہ ہے جس سے رومیوں کے ساتھ خونریز ٹکر شروع ہوئی ،جو آگے چل کر رومی ممالک کی فتوحات اور دُور دراز علاقوں پر مسلمانوں کے اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
مکمل تحریر >>

جنگ کا آغاز اور سپہ سالاروں کی یکے بعد دیگرے شہادت


اس کے بعد مُوْتَہ ہی میں فریقین کے درمیان ٹکراؤ ہوا اور نہایت تلخ لڑائی شروع ہوگئی۔ تین ہزار کی نفری دولاکھ ٹڈی دل کے طوفانی حملوں کامقابلہ کررہی تھی۔ عجیب وغریب معرکہ تھا ، دنیا پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی لیکن جب ایمان کی بادِبہاری چلتی ہے تو اسی طرح کے عجائبات ظہور میں آتے ہیں۔
سب سے پہلے رسول اللہﷺ کے چہیتے حضرت زید بن حارثہؓ نے علَم لیا اور ایسی بے جگری سے لڑے کہ اسلامی شہبازوں کے علاوہ کہیں اور اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ لڑتے رہے ، لڑتے رہے یہاں تک کہ دشمن کے نیزوں میں گتھ گئے اور خلعتِ شہادت سے مشرف ہوکر زمین پر آرہے۔
اس کے بعد حضرت جعفرؓ کی باری تھی۔ انہوں نے لپک جھنڈا اٹھایا اور بے نظیر جنگ شروع کردی۔ جب لڑائی کی شدت شباب کو پہنچی تو اپنے سُرخ وسیا ہ گھوڑے کی پشت سے کود پڑے۔ کوچیں کاٹ دیں اور وار پر وار کرتے اور روکتے رہے۔ یہاں تک ضرب سے داہنا ہاتھ کٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اسے مسلسل بلند رکھا یہاں تک کہ بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ پھر دونوں باقی ماندہ بازوؤں سے جھنڈا آغوش میں لے لیا اور اس وقت تک بلند رکھا جب تک کہ خلعتِ شہادت سے سرفراز نہ ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک رومی نے ان کو ایسی تلوار ماری کہ ان کے دوٹکڑے ہوگئے۔ اللہ نے انہیں ان کے دونوں بازوؤں کے عوض جنت میں دوبازو عطا کیے جن کے ذریعہ وہ جہاں چاہتے ہیں اڑتے ہیں۔ اسی لیے ان کا لقب جعفر طَیَّار اور جعفر ذُوالجَنَاحین پڑ گیا۔ (طَیّار معنی اڑنے والا اور ذُو الجناحین معنی دوبازوؤں والا)
امام بخاری رحمہ اللہ نے نافع کے واسطے سے ابن عمرؓ کا یہ بیان روایت کیا ہے کہ میں نے جنگ موتہ کے روز حضرت جعفر کے پاس جبکہ وہ شہید ہوچکے تھے، کھڑے ہو کر ان کے جسم پر نیزے اور تلوار کے پچاس زخم شمار کیے۔ ان میں سے کوئی بھی زخم پیچھے نہیں لگاتھا۔
ایک دوسری روایت میں ابن عمرؓ کا یہ بیان اس طرح مروی ہے کہ میں بھی اس غزوے میں مسلمانوں کے ساتھ تھا۔ ہم نے جعفر بن ابی طالب کو تلاش کیا تو انہیں مقتولین میں پایا اور ان کے جسم میں نیزے اور تیر کے نوے سے زیادہ زخم پائے۔ (صحیح بخاری ، باب غزوۃ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱)نافع سے عمرہی کی روایت میں اتنا اور اضافہ ہے کہ ہم نے یہ سب زخم ان کے جسم کے اگلے حصے میں پائے۔ فتح الباری ۷/۵۱۲ بظاہر دونوں حدیث میں تعداد کا اختلاف ہے۔ تطبیق یہ دی گئی ہے کہ تیروں کے زخم شامل کرکے تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اس طرح کی شجاعت وبسالت سے بھر پور جنگ کے بعدجب حضرت جعفرؓ بھی شہید کردیے گئے تو اب حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے پرچم اٹھایا اور اپنے گھوڑے پر سوار آگے بڑھے اور اپنے آپ کو مقابلہ کے لیے آمادہ کرنے لگے۔ لیکن انہیں کسی قدر ہچکچاہٹ ہوئی، حتیٰ کہ تھوڑا سا گریز بھی کیا، لیکن اس کے بعد کہنے لگے :
أقسمت یــا نفــس لتنزلنــہ کارہــــــۃ أو لتطـاوعـنـــہ
إن أجلب الناس وشدوا الرنہ ما لی أراک تکـرہین الجنـــۃ
''اے نفس! قسم ہے کہ تو ضرور مدّ ِ مقابل اُتر ، خواہ ناگواری کے ساتھ خواہ خوشی خوشی، اگر لوگوں نے جنگ برپا کررکھی ہے اور نیزے تان رکھے ہیں تو میں تجھے کیوں جنت سے گریزاں دیکھ رہا ہوں۔''
اس کے بعد وہ مدمقابل میں اترے۔ اتنے میں ان کا چچیرا بھائی ایک گوشت لگی ہو ئی ہڈی لے آیا اور بولا: اس کے ذریعہ اپنی پیٹھ مضبوط کر لو۔ کیونکہ ان دنوں تمہیں سخت حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ انہوں نے ہڈی لے کر ایک بار نوچی پھر پھینک کر تلوار تھام لی۔ اور آگے بڑھ کر لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
جھنڈا ، اللہ کی تلوار وں میں سے ایک تلوار کے ہاتھ میں :
اس موقع پر قبیلہ بنو عجلان کے ثابت بن ارقم نامی ایک صحابی نے لپک کر جھنڈا اٹھا لیا اور فرمایا : مسلمانو ! اپنے کسی آدمی کو سپہ سالار بنا لو ، صحابہ نے کہا : آپ ہی یہ کام انجام دیں۔ انہوں نے کہا:میں یہ کام نہیـں کرسکوں گا۔ اس کے بعد صحابہ نے حضرت خالد بن ولید کو منتخب کیا اور انہوں نے جھنڈا لیتے ہی نہایت پرزور جنگ کی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں خود حضرت خالد بن ولیدؓ سے مروی ہے کہ جنگ موتہ کے روز میرے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی سی تلوار) باقی بچا۔ اور ایک دوسری روایت میں ان کا بیان اس طرح مروی ہی کہ میرے ہاتھ میں جنگ موتہ کے روز نو تلواریں ٹوٹ گئیں اورایک یمنی بانا میرے ہاتھ میں چپک کررہ گیا۔
ادھر رسول اللہﷺ نے جنگ مُوتہ ہی کے روز جبکہ ابھی میدان جنگ سے کسی قسم کی اطلاع نہیں آئی تھی وحی کی بناء پر فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا ، اور وہ شہید کردیے گئے۔ پھر جعفر نے لیا ، وہ بھی شہید کردیے گئے، پھر ابن ِ رواحہ نے لیا، اور وہ بھی شہید کردیے گئے - اس دوران آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں -یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی ایک تلوار نے لیا۔ (اور ایسی جنگ لڑی کہ ) اللہ نے ان پر فتح عطاکی۔۔( صحیح بخاری ، باب غزوۂ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱)
مکمل تحریر >>

اسلامی لشکر کی پیش رفت


اسلامی لشکر شمال کی طرف بڑھتا ہوا معان پہنچا۔ یہ مقام شمالی حجاز سے متصل شامی (اردنی) علاقے میں واقع ہے۔ یہاں لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ اور یہیں جاسوسوں نے اطلاع پہنچائی کہ ہرقل قیصر ِ روم بلقاء کے علاقے میں مآب کے مقام پر ایک لاکھ رومیوں کا لشکر لے کر خیمہ زن ہے اور اس کے جھنڈے تلے لخم وجذام ، بلقین وبہرااور بلی (قبائلِ عرب ) کے مزیدایک لاکھ افراد بھی جمع ہوگئے ہیں۔
مسلمانوں کے حساب میں سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ انہیں کسی ایسے لشکر جرار سے سابقہ پیش آئے گا جس سے وہ اس دور دراز سر زمین میں ایک دم اچانک دوچار ہوگئے تھے۔ اب ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا تین ہزار کا ذراسا لشکر دولاکھ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے ٹکراجائے یا کیا کرے ؟
مسلمان حیران تھے اور اسی حیرانی میں معان کے اندر دوراتیں غور اور مشورہ کرتے ہوئے گزاردیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم رسول اللہﷺ کولکھ کر دشمن کی تعداد کی اطلاع دیں۔ اس کے بعد یا تو آپ کی طرف سے مزید کمک ملے گی، یا اور کوئی حکم ملے گا اور اس کی تعمیل کی جائے گی۔
لیکن حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور یہ کہہ کر لوگوں کو گرمادیا کہ لوگو! اللہ کی قسم! جس چیز سے آپ کترارہے ہیں یہ وہی تو شہادت ہے جس کی طلب میں آپ نکلے ہیں۔ یاد رہے دشمن سے ہماری لڑائی تعداد ، قوت اور کثرت کے بل پر نہیں ہے بلکہ ہم محض اس دین کے بل پر لڑتے ہیں جس سے اللہ نے ہمیں مشرف کیا ہے۔ اس لیے چلیے آگے بڑھئے ! ہمیں دوبھلائیوں میں سے ایک بھلائی حاصل ہوکر رہے گی۔ یا تو ہم غالب آئیں گے یا شہادت سے سرفراز ہوں گے۔ بالآخر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی پیش کی ہوئی بات طے پاگئی۔
غرض اسلامی لشکر نے معان میں دوراتیں گزارنے کے بعد دشمن کی جانب پیش قدمی کی ، اور بلقاء کی ایک بستی میں جس کا نام ''مَشَارِف'' تھا۔ ہرقل کی فوجوں سے اس کا سامنا ہوا۔ اس کے بعد دشمن مزید قریب آگیا اور مسلمان''موتہ'' کی جانب سمٹ کر خیمہ زن ہو گئے۔ پھر لشکر کی جنگی ترتیب قائم کی گئی۔ مَیْمَنہ پر قطبہ بن قتادہ عذری مقرر کیے گئے اور مَیْسَرہ پر عبادہ بن مالک انصاریؓ ۔
مکمل تحریر >>

معرکہِ موتہ


موتہ (میم کو پیش اور واو ساکن ) اردن میں بَلْقَاء کے قریب ایک آبادی کانام ہے جہاں سے بیت المقدس دو مرحلے پر واقع ہے۔ زیر بحث معرکہ یہیں پیش آیا تھا۔
یہ سب سے بڑا خونریز معرکہ تھا جو مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ میں پیش آیا اور یہی معرکہ عیسائی ممالک کی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس کا زمانہ ٔ وقوع جمادی الاولیٰ ۸ھ مطابق اگست یا ستمبر ۶۲۹ ء ہے۔
معرکہ کا سبب:
اس معرکے کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے حارث بن عُمیر اَزْدِیؓ کو اپنا خط دے کر حاکم بُصریٰ کے پاس روانہ کیا تو انہیں قیصر روم کے گورنر شرحبیل بن عمرو غسانی نے جو بلقاء پر مامور تھا گرفتار کرلیا اور مضبوطی کے ساتھ باندھ کر ان کی گردن ماردی۔
یاد رہے کہ سفیروں اور قاصدوں کا قتل نہایت بدترین جرم تھا جو اعلانِ جنگ کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے جب رسول اللہﷺ کو اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو آپﷺ پر یہ بات سخت گراں گذری اور آپﷺ نے اس علاقہ پر فوج کشی کے لیے تین ہزار کا لشکر تیار کیا۔( زاد المعاد ۲/۱۵۵، فتح الباری ۷/۵۱۱)اور یہ سب سے بڑا اسلامی لشکر تھا جو اس سے پہلے جنگ احزاب کے علاوہ کسی اور جنگ میں فراہم نہ ہوسکا تھا۔

رسول اللہﷺ نے اس لشکر کا سپہ سالار حضرت زید بن حارثہؓ کو مقرر کیا۔ اور فرمایا کہ اگر زید قتل کردیے جائیں تو جعفر ، اور جعفر قتل کردیے جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ سپہ لار ہوں گے۔( صحیح بخاری باب غزوۂ موتہ من ارض الشام ۲/۶۱۱) آپﷺ نے لشکر کے لیے سفید پرچم باندھا اور اسے حضرت زید بن حارثہؓ کے حوالے کیا۔ لشکر کو آپﷺ نے یہ وصیت بھی فرمائی کہ جس مقام پر حضرت حارث بن عمیرؓ قتل کیے گئے تھے وہاں پہنچ کر اس مقام کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو بہتر ، ورنہ اللہ سے مدد مانگیں ، اور لڑائی کریں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نام سے ، اللہ کی راہ میں ، اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے غزوہ کرو۔ اور دیکھو بد عہدی نہ کرنا ، خیانت نہ کرنا، کسی بچے اور عورت اور فنا کے قریب بڈھے کو اور گرجے میں رہنے والے تارک الدنیا کو قتل نہ کرنا۔ کھجور اور کوئی درخت نہ کاٹنا اور کسی عمارت کو منہدم نہ کرنا۔ مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۳۲۷یہ حدیث واقعہ کے بغیر صحیح مسلم ، سنن ابی داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ وغیرہ میں مختلف الفاظ سے مروی ہے۔

مکمل تحریر >>

عمرہَ قضاء


امام حاکم کہتے ہیں : یہ خبرتواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ جب ذی قعدہ کا چاند ہو گیا تو نبیﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اپنے عمرہ کی قضاء کے طور پرعمرہ کریں اور کوئی بھی آدمی جو حدیبیہ میں حاضرتھا پیچھے نہ ہے۔ چنانچہ (اس مدت میں ) جو لوگ شہید ہوچکے تھے انہیں چھوڑ کربقیہ سب ہی لوگ روانہ ہوئے۔ اور اہلِ حدیبیہ کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی عمرہ کرنے کے لیے ہمراہ نکلے۔ اس طرح تعدا ددوہزار ہوگئی، عورتیں اور بچے ان کے علاوہ تھے۔( فتح الباری ۷/۷۰۰)
رسول اللہﷺ نے اس موقع پر ابو رھم غفاریؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔ ساٹھ اونٹ ساتھ لیے اور ناجیہ بن جندب اسلمی کو ان کی دیکھ بھال کاکام سونپا۔ ذو الحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا۔ اور لبیک کی صدا لگائی۔ آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی لبیک پکارا۔ اور قریش کی جانب سے بدعہدی کے اندیشے کے سبب ہتھیار اور جنگجو افراد کے ساتھ مستعد ہوکر نکلے۔ جب وادی یَا جِجْ پہنچے تو سارے ہتھیار، یعنی ڈھال ، سپر ، نیزے سب رکھ دیے اور ان کی حفاظت کے لیے اوس بن خولی انصاریؓ کی ماتحتی میں دوسو آدمی وہیں چھوڑ دیے اور سوار کا ہتھیار اور میان میں رکھی ہوئی تلواریں لے کر مکہ میں داخل ہوئے۔( ایضا مع زاد المعاد ۲/۱۵۱)
رسول اللہﷺ مکہ میں داخلے کے وقت اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار تھے۔ مسلمانوں نے تلواریں حمائل کررکھی تھیں اور رسول اللہﷺ کو گھیرے میں لیے ہوئے لبیک پکار رہے تھے۔
مشرکین مسلمانوں کا تماشہ دیکھنے کے لیے (گھروں سے ) نکل کر کعبہ کے شمال میں واقع جبل قعیقعان پر (جابیٹھے تھے ) انہوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس ایک ایسی جماعت آرہی ہے جسے یثرب کے بخار نے توڑ ڈالا ہے۔ اس لیے نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ پہلے تین چکردوڑ کر لگائیں۔ البتہ رکن یمانی اورحجرِ اسود کے درمیان صرف چلتے ہوئے گزریں۔ کُل (ساتوں ) چکر دوڑ کر لگانے کا حکم محض اس لیے نہیں دیا کہ رحمت وشفقت مقصود تھی۔ اس حکم کا منشاء یہ تھا کہ مشرکین آپ کی قوت کا مشاہدہ کرلیں۔( صحیح بخاری ۱/۲۱۸ ، ۲/۶۱۰ ، ۶۱۱ ، صحیح مسلم ۱/۴۱۲) اس کے علاوہ آپ نے صحابہ کرام کو اضطباع کا بھی حکم دیا۔ اضطباع کا مطلب یہ ہے کہ دایاں کندھا کھلارکھیں (اور چادر دا ہنی بغل کے نیچے سے گزارکر آگے پیچھے دونوں جانب سے ) اس کا دوسراکنارہ بائیں کندھے پر ڈال لیں۔
رسول اللہﷺ مکے میں اس پہاڑ ی گھاٹی کے راستے سے داخل ہوئے جو حجون پر نکلتی ہے۔ مشرکین نے آپﷺ کو دیکھنے کے لیے لائن لگا رکھی تھی - آپﷺ مسلسل لبیک کہہ رہے تھے ،یہاں تک کہ (حرم پہنچ کر ) اپنی چھڑی سے حجر اسود کو چھویا، پھر طواف کیا۔ مسلمانوں نے بھی طواف کیا۔ اس وقت حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ تلوار حمائل کیے رسول اللہﷺ کے آگے آگے چل رہے تھے اور رجز کے یہ اشعار پڑھ رہے تھے :
خـلوا بنی الکفار عن سبـیلـہ خلـوا فکل الخیر فی رسولہ
قد أنزل الرحمـن فـي تـنزیلـہ فی صحف تتلی علی رسولہ
یـا رب إنـي مـؤمــن بـقیـلـہ إني رأیت الحـق فی قبولـــہ
بــان خیـر القتـل فی سبیلــہ الیوم نضـربکــم علی تنزیلہ
ضرباً یزیـل الہـام عن مقیلـہ ویذہــل الخلیـل عن خلیلہ
''کفّار کے پوتو! ان کا راستہ چھوڑ دو۔ راستہ چھوڑ دو کہ ساری بھلائی اس کے پیغمبر ہی میں ہے۔ رحمان نے اپنی تنزیل میں اتارا ہے۔ یعنی ایسے صحیفوں میں جن کی تلاوت اس کے پیغمبر پر کی جاتی ہے۔ اے پروردگار ! میں ان کی باتوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور اسے قبول کرنے ہی کو حق جانتا ہوں کہ بہترین قتل وہ ہے جو اللہ کی راہ میں ہو۔ آج ہم اس کی تنزیل کے مطابق تمہیں ایسی مارمار یں گے کہ کھوپڑی اپنی جگہ سے جھٹک جائے گی ، اور دوست کو دوست سے بے خبر کردے گی۔''(روایات کے اندر ان اشعار اور ان کی ترتیب میں بڑا اضطراب ہے۔ ہم نے متفرق اشعار کو یکجا کردیا ہے۔)
حضرت انسؓ کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے کہا : اے ابن رواحہ ! تم رسول اللہﷺ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر کہہ رہے ہو ؟ نبیﷺ نے فرمایا : اے عمر ! انہیں رہنے دو۔ کیونکہ یہ ان کے اندرتیر کی مار سے بھی زیادہ تیز ہے۔( جامع ترمذی ، ابواب الاستیذان والادب ، باب ماجاء فی انشاد الشعر ۲/۱۰۷)
رسول اللہﷺ اور مسلمانوں نے تین چکر دوڑ کر لگائے۔ مشرکین نے دیکھا تو کہنے لگے : یہ لوگ جن کے متعلق ہم سمجھ رہے تھے کہ بخار نے انہیں توڑ دیا ہے یہ تو ایسے اور ایسے لوگوں سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔( صحیح مسلم ۱/۴۱۲)
طواف سے فارغ ہوکر آپﷺ نے صَفا ومَرَوہ کی سعی کی۔ اس وقت آ پﷺ کی ہدی یعنی قربانی کے جانور مَرَوہ کے پاس کھڑے تھے۔ آپﷺ نے سعی سے فارغ ہوکرفرمایا : یہ قربان گاہ ہے اور مکے کی ساری گلیاں قربان گاہ ہیں۔ اس کے بعد مَرَوہ ہی کے پاس جانوروں کو قربان کردیا، پھر وہیں سر منڈایا۔ مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد کچھ لوگوں کو یَا جِجْ بھیج دیا گیا کہ وہ ہتھیاروں کی حفاظت کریں اور جولوگ حفاظت پر مامور تھے وہ آکر اپنا عمرہ ادا کرلیں۔
رسول اللہﷺ نے مکہ میں تین روز قیام فرمایا تھا۔ چوتھے دن صبح ہوئی تو مشرکین نے حضرت علیؓ کے پاس آکر کہا ،: اپنے صاحب سے کہو کہ ہمارے یہاں سے روانہ ہوجائیں۔ کیونکہ مدت گزرچکی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ مکہ سے نکل آئے اور مقام سرف میں اتر کر قیام فرمایا۔
اس عمرہ کا نام عمرہ ٔ قضاء یا تو اس لیے پڑا کہ یہ عمرہ ٔ حدیبیہ کی قضا کے طور پر تھا یا اس لیے کہ یہ حدیبیہ میں طے کردہ صلح کے مطابق کیا گیا تھا۔ (اوراس طرح مصالحت کو عربی میں قضا اورمقاضاۃ کہتے ہیں ) اس دوسری وجہ کومحققین نے راجح قراردیا ہے۔ نیز اس عمرہ کو چار نام سے یاد کیا جاتا ہے ! عمرہ ٔ قضا، عمرۂ قضیہ ، عمرۂ قصاص اور عمرۂ صلح۔( زاد المعاد ۲/۱۷۲ ، فتح الباری ۷/۵۰۰)
مکمل تحریر >>

چند اہم سرایا


غزوۂ ذات الرقاع سے واپس آکر رسول اللہﷺ نے شوال ۷ ھ تک مدینہ میں قیام فرمایا اور اس دوران متعدد سرایا روانہ کیے۔ چند کی تفصیل یہ ہے :
سریۂ قدید : (صفر یا ربیع الاول ۷ ھ )
یہ سریہ غالب بن عبد اللہ لیثی کی کمان میں قدید کی جانب قبیلہ بنی ملوح کی تادیب کے لیے روانہ کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ بنوملوح نے بِشر بن سُوید کے رفقاء کو قتل کردیا تھا اور اسی کے انتقام کے لیے اس سریہ کی روانگی عمل میں آئی تھی۔ اس سریہ نے رات میں چھاپہ ماکر بہت سے افراد کو قتل کردیا اور ڈھورڈنگر ہانک لائے۔ پیچھے سے دشمن نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ تعاقب کیا لیکن جب مسلمانوں کے قریب پہنچے تو بارش ہونے لگی۔ اور ایک زبردست سیلاب آگیا جو فریقین کے درمیان حائل ہوگیا۔ اس طرح مسلمانوں نے بقیہ راستہ بھی سلامتی کے ساتھ طے کر لیا۔
سریہ میفعہ: (رمضان ۷ھ )
یہ سریہ حضرت غالب بن عبد اللہ لیثی کی قیادت میں بنو عوال اور بنو عبد بن ثعلبہ کی تادیب کے لیے اورکہا جاتاہے کہ قبیلہ ٔ جہینہ کی شاخ حرقات کی تادیب کے لیے روانہ کیا گیا۔ مسلمانوں کی تعداد ایک سو تیس تھی۔ انہوں نے دشمن پر یکجائی حملہ کیا اور جس نے بھی سر اٹھایا اسے قتل کردیا۔ پھر چوپائے اور بھیڑ بکریاں ہانک لائے۔ اسی سریہ میں حضرت اُسامہ بن زیدؓ نے نہیک بن مرداس کو لاالٰہ الا اللہ کہنے کے باوجود قتل کردیاتھا اور اس پر نبیﷺ نے بطور عتاب فرمایا تھا کہ تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ معلوم کرلیا کہ وہ سچاتھا یاجھوٹا؟
سریہ خیبر : (شوال ۷ ھ )
یہ سریہ تیس سواروں پر مشتمل تھا۔ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کی قیادت میں بھیجا گیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اسیر یا بشیر بن زَرام بنو غطفان کو مسلمانوں پر چڑھائی کرنے کے لیے جمع کررہا تھا۔ مسلمانوں نے اسیر کو یہ امید دلاکر کہ رسول اللہﷺ اسے خیبر کا گورنربنادیں گے ، اس کے تیس رفقاء سمیت اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کرلیا، لیکن قرقرہ نیار پہنچ کر فریقین میں بدگمانی پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں اسیر اور اس کے تیس ساتھیوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
سریہ یمن وجبار: (شوال ۷ھ )
جبار کی جیم کو زبر۔ یہ بنو غطفان ، اور کہا جاتا ہے کہ بنو فزارہ اور بنو عذرہ کے علاقہ کا نام ہے۔ یہاں حضرت بشیر بن کعب انصاریؓ کو تین سو مسلمانوں کی معیت میں روانہ کیا گیا۔ مقصود ایک بڑی جمعیت کو پراگندہ کرنا تھاجو مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے جمع ہورہی تھی۔ مسلمان راتوں رات سفر کرتے اور دن میں چھپے رہتے تھے۔ جب دشمن کو حضرت بشیر کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت بشیر نے بہت سے جانوروں پر قبضہ کیا۔ دوآدمی بھی قید کیے اور جب ان دونوں کو لے کر خدمتِ نبویﷺ میں مدینہ پہنچے تو دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔
سریہ غابہ:
اسے امام ابن قیم نے عمرہ ٔ قضاء سے قبل ۷ھ کے سرایا میں شمار کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قبیلہ جشم بن معاویہ کا ایک شخص بہت سے لوگوں کوساتھ لے کر غابہ آیا۔ وہ چاہتا تھا کہ بنوقیس کو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے جمع کرے۔ نبیﷺ نے حضرت ابو حَدْرَد کو صرف دوآدمیوں کے ہمراہ روانہ فرمایا کہ اس کی خبر اور اس کا پتہ لے کر آئیں۔ وہ سورج ڈوبنے کے وقت ان لوگوں کے پاس پہنچے۔ ابو حدرد ایک جانب چھپ گئے۔ اور ان کے دونوں ساتھی دوسری جانب چھپ گئے۔ ان لوگوں کے چرواہے نے دیر کردی۔ یہاں تک کہ شام کی سیاہی جاتی رہی۔ چنانچہ ان کا رئیس تنہا اٹھا۔ جب ابوحدرد کے پاس سے گزرا تو انہیں تیر مارا ، جو دل پر جاکر بیٹھ گیا۔ اور وہ کچھ بولے بغیر جاگرا ابو حدرد نے سر کاٹا۔ اور تکبیر کہتے ہوئے لشکر کی جانب دوڑ لگائی۔ ان کے دونوں ساتھیوں نے بھی تکبیر کہتے ہوئے دوڑ لگائی۔ دشمن بھاگ کھڑا ہوا۔ اور یہ تینوںحضرات بہت سے اونٹ اور بکریاں ہانک لائے۔ ان سرایا کی تفصیلات رحمۃ للعالمین ۲/۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۱ ، زاد المعاد ۲/۱۴۸، ۱۴۹، ۱۵۰ ، تلقیح الفہوم مع حواشی ص ۳۱ اور مختصر السیرہ للشیخ عبداللہ نجدی ص ۳۲۲، ۳۲۳ ، ۳۲۴ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

مکمل تحریر >>

غزوہ ذات الرقاع


جب رسول اللہﷺ احزاب کے تین بازوؤں میں سے دو مضبوط بازوؤں کو توڑ کر فارغ ہو گئے تو تیسرے بازو کی طرف توجہ کا بھر پور موقع مل گیا۔ تیسرا بازو وہ بَدُّو تھے جو نجد کے صحرا میں خیمہ زن تھے اور رہ رہ کر لوٹ مار کی کارروائیاں کرتے رہتے تھے۔
چو نکہ یہ بدُّو کسی آبادی یا شہر کے باشندے نہ تھے اوران کا قیام مکانات اور قلعوں کے اندر نہ تھا، اس لیے اہل مکہ اور باشندگان ِ خیبر کی بہ نسبت ان پر پوری طرح قابو پالینا اور ان کے شروفساد کی آگ مکمل طور پر بجھادینا سخت دشوار تھا۔ لہٰذا ان کے حق میں صرف خوف زدہ کرنے والی تادیبی کارروائیاں ہی مفید ہوسکتی تھیں۔
چنانچہ ان بدوؤں پر رعب ودبدبہ قائم کرنے کی غرض سے - اور بقول دیگر مدینہ کے اطراف میں چھاپہ مارنے کے ارادے سے جمع ہونے والے بدوؤں کو پراگندہ کرنے کی غرض سے - نبیﷺ نے ایک تادیبی حملہ فرمایا جو غزوہ ذات الرقاع کے نام سے معروف ہے۔
عام اہل مغازی نے اس غزوہ کا تذکرہ ۴ھ میں کیا ہے۔ لیکن امام بخاری نے اس کا زمانہ ٔ وقوع ۷ ھ بتایا ہے اور چونکہ اس غزوے میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما نے شرکت کی تھی ، لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غزوہ ، غزوہ ٔ خیبر کے بعد پیش آیا تھا۔ (مہینہ غالباً ربیع الاول کا تھا۔ ) کیونکہ حضرت ابو ہریرہؓ اس وقت مدینہ پہنچ کر حلقہ بگوش اسلا م ہوئے تھے جب رسول اللہﷺ خیبر کے لیے مدینہ سے جاچکے تھے۔ پھر حضرت ابو ہریرہؓ مسلمان ہوکر سیدھے خدمت نبویﷺ میں خیبر پہنچے اور جب پہنچے تو خیبر فتح ہوچکا تھا۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری حبش سے اس وقت خدمت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچے تھے جب خیبر فتح ہوچکا تھا۔ لہٰذا غزوہ ذات الرقاع میں ان دونوں صحابہ کی شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غزوۂ خیبر کے بعد ہی کسی وقت پیش آیا تھا۔
اہلِ سِیر نے اس غزوے کے متعلق جو کچھ ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے قبیلہ اَنمار یا بنو غطفان کی دوشاخوں بنی ثعلبہ اور بنی محارب کے اجتماع کی خبر سن کر مدینہ کا انتظام حضرت ابوذر یا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما کے حوالے کیا اور جھٹ چار سو یا سات سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معیت میں بلادِ نجد کا رخ کیا۔ پھر مدینہ سے دودن کے فاصلے پر مقام نخل پہنچ کر بنو غطفان کی ایک جمعیت سے سامنا ہوا لیکن جنگ نہیں ہوئی۔ البتہ آپﷺ نے اس موقع پر صلوٰۃ ِ خوف (حالتِ جنگ والی نماز) پڑھائی۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ نماز کی اقامت کہی گئی۔ اور آپﷺ نے ایک گروہ کو دو رکعت نماز پڑھائی۔ پھر وہ پیچھے چلی گئی۔ اور آپﷺ نے دوسرے گروہ کو دورکعت نماز پڑھائی۔ یوں رسول اللہﷺ کی چار رکعتیں ہوئیں۔ اور قوم کی دورکعتیں۔ (صحیح بخاری ۱/۴۰۷ ، ۴۰۸ ، ۲/۵۹۳)
صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے ہمراہ نکلے۔ ہم چھ آدمی تھے اور ایک ہی اونٹ تھا جس پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ اس سے ہمارے قدم چھلنی ہوگئے۔ میرے بھی دونوں پاؤںزخمی ہوگئے اورناخن جھڑ گیا۔ چنانچہ ہم لوگ اپنے پاؤں پر چیتھڑے لپیٹے رہتے تھے۔ اسی لیے اس کا نام ذات الرقاع (چیتھڑوں والا ) پڑ گیا۔ کیونکہ ہم نے اس غزوے میں اپنے پاؤں پر چیتھڑے اور پٹیاں باندھ اور لپیٹ رکھی تھیں۔( صحیح بخاری : باب غزوۃ ذات الرقاع ۲/۵۹۲ صحیح مسلم : باب غزوۃ ذات الرقاع ۲/۱۱۸)
اور صحیح بخاری ہی میں حضرت جابرؓ سے یہ روایت ہے کہ ہم لوگ ذات الرقاع میں نبیﷺ کے ہمراہ تھے۔ (دستور یہ تھا کہ ) جب ہم کسی سایہ دار درخت پر پہنچتے تو اسے نبیﷺ کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ (ایک بار) نبیﷺ نے پڑاؤ ڈالا اور لوگ درخت کا سایہ حاصل کرنے کے لیے اِدھر اُدھر کانٹے دار درختوں کے درمیان بکھر گئے۔ رسول اللہﷺ بھی ایک درخت کے نیچے اُترے اور اسی درخت سے تلوار لٹکا کر (سوگئے )۔ حضر ت جابر فرماتے ہیں کہ ہمیں بس ایک نیند آئی تھی کہ اتنے میں ایک مشرک نے آکر رسول اللہﷺ کی تلوار سونت لی اور بولا : تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ اس نے کہا : تب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے فرمایا : اللہ!
ابو عوانہ کی روایت میں اتنی تفصیل اور ہے کہ (جب آپﷺ نے اس کے سوال کے جوا ب میں اللہ کہا تو ) تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ پھر وہ تلوار رسول اللہﷺ نے اٹھا لی اور فرمایا: اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے کہا : آپ اچھے پکڑنے والے ہویئے۔ (یعنی احسان کیجیے ) آپﷺ نے فرمایا : تم شہادت دیتے ہوکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس نے کہا : میں آپﷺ سے عہد کرتا ہوں کہ آپﷺ سے لڑائی نہیں کروں گا اور نہ آپﷺ سے لڑائی کرنے والوں کا ساتھ دوںگا۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ اس کے بعد آپﷺ نے اس کی راہ چھوڑ دی اور اس نے اپنی قوم میں جاکر کہا :میں تمہارے یہاں سب سے اچھے انسان کے پاس سے آرہا ہوں۔( مختصر السیرۃ شیخ عبداللہ نجدی ص ۲۶۴، نیز دیکھئے: فتح الباری ۷/۴۱۶)
اس غزوے کے مباحث کی تفصیلات کے لیے دیکھئے: ابن ہشام ۲/۲۰۳ تا ۲۰۹ ، زاد المعاد ۲/۱۱۰ ، ۱۱۱، ۱۱۲، فتح الباری ۷/۴۱۷ تا ۴۲۸)
سنگ دل اعراب کو مرعوب اور خوفزدہ کرنے میں اس غزوے کا بڑا اثر رہا۔ ہم اس غزوے کے بعد پیش آنے والے سرایاکی تفصیلات پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ غطفان کے ان قبائل نے اس غزوے کے بعد سر اٹھانے کی جرأت نہ کی بلکہ ڈھیلے پڑتے پڑتے سپر انداز ہوگئے اور بالآخر اسلام قبول کرلیا، حتیٰ کہ ان اعراب کے کئی قبائل ہم کو فتح مکہ اور غزوۂ حنین میں مسلمانوں کے ساتھ نظر آتے ہیں اور انہیں غزوہ ٔ حنین کے مالِ غنیمت سے حصہ دیا جاتا ہے۔ پھر فتح مکہ سے واپسی کے بعد ان کے پاس صدقات وصول کرنے کے لیے اسلامی حکومت کے عمال بھیجے جاتے ہیں اور وہ باقاعدہ اپنے صدقات ادا کرتے ہیں۔ غرض اس حکمت عملی سے وہ تینوں بازوٹوٹ گئے جو جنگ ِ خندق میں مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ اور اس کی وجہ سے پورے علاقے میں امن وسلامتی کا دور دورہ ہوگیا۔ اس کے بعد بعض قبائل نے بعض علاقوں میں جو شور وغوغا کیا اس پر مسلمانوں نے بڑی آسانی سے قابو پالیا۔ بلکہ اسی غزوے کے بعد بڑے بڑے شہروں اور ممالک کی فتوحات کا راستہ ہموار ہونا شروع ہوا، کیونکہ اس غزوے کے بعد اندرون ملک حالات پوری طرح اسلام اور مسلمانوں کے لیے سازگار ہوچکے تھے۔

مکمل تحریر >>