Sunday 25 January 2015

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور دو اہم واقعات


حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے چند سال پہلے دواہم واقعات پیش آئے۔ ایک چاہِ زَمزَم کی کھدائی کا واقعہ اور دوسرے فِیل کا واقعہ۔
چاہِ زَمزَم کی کھدائی:
عبد المطلب نے خواب دیکھا کہ انہیں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا جارہا ہے اور خواب ہی میں انہیں اس کی جگہ بھی بتائی گئی۔ انھوں نے بیدار ہونے کے بعد کھدائی شروع کی اور رفتہ رفتہ وہ چیزیں برآمد ہوئیں جو بنو جُرہم نے مکہ چھوڑتے وقت چاہِ زمزم میں دفن کی تھیں، یعنی تلوار یں ، زرہیں ، اور سونے کے دونوں ہرن۔ عبدالمطلب نے تلواروں سے کعبے کا دروازہ ڈھالا۔ سونے کے دونوں ہرن بھی دروازے ہی میں فٹ کیے اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا بندوبست کیا۔
کھدائی کے دوران یہ واقعہ بھی پیش آیا کہ جب زمزم کا کنواں نمودار ہوگیا تو قریش نے عبد المطلب سے جھگڑا شروع کیا اور مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی کھدائی میں شریک کرلو۔ عبدالمطلب نے کہا میں ایسا نہیں کرسکتا، میں اس کام کے لیے مخصوص کیا گیا ہوں ، لیکن قریش کے لوگ باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ فیصلے کے لیے بنو سعد کی ایک کاہنہ عورت کے پاس جانا طے ہوا اور لوگ مکہ سے روانہ بھی ہوگئے لیکن راستے میں پانی ختم ہوگیا۔ اللہ نے عبد المطلب پر بارش نازل فرمائی جس سے انہیں وافر پانی مل گیا۔ جبکہ مخالفین پر ایک قطرہ بھی نہ برسا۔ وہ سمجھ گئے کہ زمزم کا کام قدرت کی طرف سے عبد المطلب کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس لیے راستے ہی سے واپس پلٹ آئے۔ یہی موقع تھا جب عبد المطلب نے نذرمانی کہ اگر اللہ نے انہیں دس لڑکے عطا کیے اور وہ سب کے سب اس عمر کو پہنچے کہ ان کا بچاؤ کر سکیں تو وہ ایک لڑکے کو کعبہ کے پاس قربان کردیں گے۔ (ابن ہشام ۱/۱۴۲ تا ۱۴۷)

واقعہ ٔ فیل:
اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اَبْرہہ بن صباح حبشی نے (جو نجاشی بادشاہ حبش کی طرف سے یمن کا گورنر جنرل تھا) جب دیکھا کہ اہل عرب خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں تو صنعاء میں ایک بہت بڑا کلیسا تعمیر کیا اور چاہا کہ عرب کا حج اسی کی طرف پھیر دے مگر جب اس کی خبر بنو کنانہ کے ایک آدمی کو ہوئی تو اس نے رات کے وقت کلیسا کے اندر گھس کر اس کے قبلے پر پائخانہ پوت دیا۔ اَبْرَہَہ کو پتہ چلا تو سخت بر ہم ہوا اور ساٹھ ہزار کا ایک لشکر ِ جرار لے کر کعبے کو ڈھانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لیے ایک زبردست ہاتھی بھی منتخب کیا۔ لشکر میں کل نو یا تیرہ ہاتھی تھے۔ ابرہہ یمن سے یلغار کرتا ہوا مُغَمَّس پہنچا اور وہاں اپنے لشکر کو ترتیب دے کر اور ہاتھی کو تیار کر کے مکے میں داخلے کے لیے چل پڑا جب مزدَلِفَہ اور منیٰ کے درمیان وادیٔ محسرِ میں پہنچا تو ہاتھی بیٹھ گیا اور کعبے کی طرف بڑھنے کے لیے کسی طرح نہ اٹھا۔ اس کا رُخ شمال جنوب یا مشرق کی طرف کیا جاتا تو اٹھ کر دوڑنے لگتا۔ لیکن کعبے کی طرف
کیا جاتا تو بیٹھ جاتا۔ اسی دوران اللہ نے چڑیوں کا ایک جھنڈ بھیج دیا ، جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے اور اللہ نے اسی سے انہیں کھائے ہوئے بھس کی طرح بنا دیا۔ یہ چڑیاں ابابیل جیسی تھیں۔ ہر چڑیا کے پاس تین تین کنکریاں تھیں ، ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں ، کنکریاں چنے جیسی تھیں،مگر جس کو لَگ جاتی تھیں اس کے اعضاء کٹنا شروع ہوجاتے تھے اور وہ مرجاتا تھا۔ یہ کنکریاں ہر آدمی کو نہیں لگی تھیں، لیکن لشکر میں ایسی بھگدڑ مچی کہ ہر شخص دوسرے کو روندتا کچلتا گرتا پڑتا بھاگ رہا تھا۔ پھر بھاگنے والے ہرراہ پر گر رہے تھے اور ہر چشمے پر مر رہے تھے۔ ادھر اَبْرَہہَ پر اللہ نے ایسی آفت بھیجی کہ اس کی انگلیوں کے پور جھڑ گئے اور صنعاء پہنچتے پہنچتے چوزے جیسا ہوگیا۔ پھر اس کا سینہ پھٹ گیا ، دل باہر نکل آیا اور وہ مَر گیا۔
اَبْرَہَہ کے اس حملے کے موقع پر مکے کے باشندے جان کے خوف سے گھاٹیوں میں بکھر گئے تھے اور پہاڑکی چوٹیوں پر جاچھپے تھے۔ جب لشکر پر عذاب نازل ہوگیا تو اطمینان سے اپنے گھروں کو پلٹ آئے۔ (ابن ہشام ۱/۴۳تا ۵۶ ، اور کتب تفاسیر ، تفسیر سورۂ فیل)

یہ واقعہ...بیشتر اہل سِیَر کے بقول...نبیﷺ کی پیدائش سے صرف پچاس یا پچپن دن پہلے ماہ محرم میں پیش آیا تھا۔ لہٰذا یہ ۵۷۱ ء کی فروری کے اواخر یا مارچ کے اوائل کا واقعہ ہے یہ درحقیقت ایک تمہیدی نشانی تھی جو اللہ نے اپنے نبی اور کعبہ کے لیے ظاہر فرمائی تھی کیونکہ آپ بیت المقدس کو دیکھئے کہ اپنے دور میں اہل اسلام کا قبلہ تھا۔ ا ور وہاں کے باشندے مسلمان تھے۔ اس کے باوجود اس پر اللہ کے دشمن یعنی مشرکین کا تسلط ہو گیا تھا جیسا کہ بخت نصر کے حملہ ( ۵۸۷ ق م ) اور اہل روما کے قبضہ ( ۷۰ ء ) سے ظاہر ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف کعبہ پر عیسائیوں کو تسلط حاصل نہ ہوسکا۔ حالانکہ اس وقت یہی مسلمان تھے اور کعبے کے باشندے مشرک تھے۔
پھر واقعہ ایسے حالات میں پیش آیا کہ اس کی خبر اس وقت کی متمدن دنیا کے بیشتر علاقوں، یعنی روم وفارس میں آناً فاناً پہنچ گئی۔ کیونکہ حبشہ کا رومیوں سے بڑا گہرا تعلق تھا اور دوسری طرف فارسیوں کی نظر رومیوں پر برابر رہتی تھی اور وہ رومیوں اور ان کے حلیفوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا برابر جائزہ لیتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کے بعد اہل فارس نے نہایت تیزی سے یمن پر قبضہ کر لیا۔ اب چونکہ یہی دوحکومتیں اس وقت متمدن دنیا کے اہم حصے کی نمائندہ تھیں۔ اس لیے اس واقعے کی وجہ سے دنیا کی نگاہیں خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ انہیں بیت اللہ کے شرف وعظمت کا ایک کھلا ہوا خدائی نشان دکھلائی پڑ گیا اور یہ بات دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی کہ اس گھر کو اللہ نے تقدیس کے لیے منتخب کیا ہے۔ لہٰذا آئندہ یہاں کی آبادی سے کسی انسان کا دعویٰ نبوت کے ساتھ اٹھنا اس واقعے کے تقاضے کے عین مطابق ہو گا اور اس خدائی حکمت کی تفسیر ہوگا جو عالم اسباب سے بالاتر طریقے پر اہل ایمان کے خلاف مشرکین کی مدد میں پوشیدہ تھی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔