Sunday 25 January 2015

حجرِ اسود کو نصب کرنے کا تنازعہ اور آپ کا حاکم مقرر ہونا


آپﷺ کی عمر کا پینتیسواں سال تھا کہ قریش نے نئے سرے سے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی۔ وجہ یہ تھی کہ کعبہ صرف قد سے کچھ اونچی چہار دیوار کی شکل میں تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے ہی سے اس کی بلندی ۹ہاتھ تھی اور اس پر چھت نہ تھی۔ اس کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ چوروں نے اس کے اندر رکھا ہوا خزانہ چرالیا... اس کے علاوہ اس کی تعمیر پر ایک طویل زمانہ گزر چکا تھا۔ عمارت خستگی کا شکار ہوچکی تھی اور دیوار یں پھٹ گئی تھیں۔ ادھر اسی سال ایک زور دار سیلاب آیا۔ جس کے بہاؤ کا رخ خانہ کعبہ کی طرف تھا۔ اس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کسی بھی لمحے ڈھہ سکتا تھا ، اس لیے قریش مجبور ہوگئے کہ اس کا مرتبہ ومقام بر قرار رکھنے کے لیے اسے ازسرِ نو تعمیر کر یں۔
اس مرحلے پر قریش نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی استعمال کریں گے۔ اس میں رنڈی کی اُجرت ، سود کی دولت اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
نئی تعمیر کے لیے پرانی عمارت کو ڈھانا ضروری تھا لیکن کسی کو ڈھانے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ بالآخر ولید بن مغیرہ مخزومی نے ابتداء کی اور کدال لے کر یہ کہا کہ اے اللہ ! ہم خیر ہی کا ارادہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد دو کونوں کے اطراف کو کچھ ڈھا دیا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو باقی لوگوں نے بھی دوسرے دن ڈھانا شروع کیا اور جب قواعد ابراہیم تک ڈھاچکے تو تعمیر کا آغاز کیا۔
تعمیر کے لیے الگ الگ ہر قبیلے کا حصہ مقرر تھا اور ہر قبیلے نے علیحدہ علیحدہ پتھر کے ڈھیر لگا رکھے تھے، تعمیر شروع ہوئی۔ باقوم نامی ایک رومی معمار نگراں تھا۔ جب عمارت حجر اسود تک بلند ہو چکی تو یہ جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا کہ حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کا شرف وامتیاز کسے حاصل ہو، یہ جھگڑا چار پانچ روز تک جاری رہا اور رفتہ رفتہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ معلوم ہوتا تھا سر زمینِ حرم میں سخت خون خرابہ ہوجائے گا ، لیکن ابو اُمَیہ مخزومی نے یہ کہہ کر فیصلے کی ایک صورت پیدا کردی کہ مسجد حرام کے دروازے سے جو شخص پہلے داخل ہو اسے اپنے جھگڑے کا حَکَم مان لیں۔ لوگوں نے یہ تجویز منظور کرلی۔
اللہ کی مشیت کہ اس کے بعد سب سے پہلے رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ لوگوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ پڑے کہ ھذا الأمین رضیناہ ھذا محمدﷺ ''یہ امین ہیں۔ ہم ان راضی ہیں یہ محمدﷺ ہیں۔'' آپ اس مجلس میں داخل ہوئے تو سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا اورکہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے حق میں چاہیں فیصلہ کردیں،ہم آپ کے فیصلہ پر رضا مند ہیں۔
ذرا سوچیے اور غور کریں کہ جس عزت اورشرف کو ہر قبیلہ حاصل کرنا چاہتا تھا اورخون سے بھرے ہوئے پیالے میں انگلیاں ڈال ڈال کر اُس زمانے کی رسم کے موافق مرنے مارنے پر شدید وغلیظ قسمیں کھا چکے تھے اُس عزت وشرف کے معاملہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کرنے میں سب مطمئن ہیں۔!!
آپ نے معاملہ سے آگاہ ہوکر اُسی وقت ذرا اسی دیر میں جھگڑے کو ختم کردیا اورتمام بوڑھے اورتجربہ کار سردارانِ قریش آپ کی ذہانت، قوتِ فیصلہ اورمنصف مزاجی کو دیکھ حیران رہ گئے اور سب نے بالاتفاق احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فیصلہ کیا کہ ایک چادر پچھائی اُس پر حجرِ اسود اپنے ہاتھ سے رکھ دیا پھر ہر ایک قبیلہ کے سردار سے کہا کہ چادر کے کنارے کو پکڑلو؛چنانچہ تمام سردارانِ قریش نے مل کر اُس چادر کے کنارے چاروں طرف سے پکڑ کر پتھر کو اٹھایا،جب پتھر اس مقام پر پہنچ گیا جہاں اس کو نصب کرنا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر سے اُٹھا کر وہاں نصب کردیا کسی کو کوئی شکایت باقی نہ رہی اور سب آپس میں رضا مند رہے۔
اس واقعہ میں عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس،اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزٰی، ابو حذیفہ بن مغیرہ بن عمربن مخزوم، اورقیس بن عدی السہمی چار شخص بہت پیش پیش تھے اور کسی طرح دوسرے کے حق میں معاملہ کو چھوڑنا نہ چاہتے تھے اس فیصلہ سے یہ چاروں بہت خوش اور مسرور تھے،اگر ملک عرب میں یہ جنگ چھڑ جاتی تو یقیناً یہ تمام اُن لڑائیوں سے زیادہ ہیبت ناک اورتباہ کن جنگ ثابت ہوتی جو اب تک زمانہ جاہلیت میں ہوچکی تھیں،جس زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حجر اسود والے جھگڑے کا فیصلہ کیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۳۵ سال کی تھی۔
(ابن ہشام ۱/۱۹۲ تا ۱۹۷ ، تاریخ طبری ۲/۲۸۹، اور اس کے بعد صحیح بخاری باب فضل مکۃ ونبیانہا۔ ۱/۲۱۵، تحکیم کی یہ خبر مسند ابی داؤد طیالسی میں بھی ہے۔ نیز دیکھئے : تاریخ خضری ۱/۶۴، ۶۵۔)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔