Monday 22 December 2014

اہل کتاب صحابہ و صحابیات

صحابہ :۔
حضرت ابرہہ
حضرت ادریس
حضرت اسید بن سعید
حضرت اسد بن عبید
حضرت اسد بن کعب
حضرت اسید بن کعب
حضرت اشرف حبشی
حضرت بحیرالحبشی
حضرت بشیر من معاویہ
حضرت تمام
تمیم الحبشی
حضرت تمیم داری
حضرت ثعلبہ بن سعیتہ
حضرت ثعلبہ بن سلام
حضرت ثعلبہ بن قیس
حضرت ثعلبہ بن ابی مالک
حضرت جارود بن عمرو
حضرت جبر
حضرت جبل
حضرت حیر نجرہ
حضرت دریدالراہب
حضرت ذودجن
حضرت ذومخمر
حضرت ذومناحب
حضرت ذومہدم
حضرت رافع القرضی
حضرت رفاعہ بن السموال
حضرت رفاعہ القرضی
حضرت زید بن سعنہ
حضرت سعد بن وہب
حضرت سعنہ
حضرت سعید بن عامر
حضرت سلام
حضرت سلمہ بن سلام
حضرت سلمان فارسی
حضرت سمعان بن خالد
حضرت سیمونہ بلقاوی
حضرت شمعون
حضرت صالح القرضی
حضرت عامر الشامی
حضرت عبدالحارث بن السنی
حضرت عبداللہ بن سلام
حضرت عبدالرحمن بن زبیر
حضرت عداس
حضرت عدی بن حاتم
حضرت عطیہ القرضی
حضرت علی بن رفاعہ
حضرت عمرو بن سعدی
حضرت عمیر بن امیہ
حضرت کثیر بن السائب
حضرت کرز بن علقمہ
حضرت کعب بن سلیم
حضرت محرب
حضرت محمد بن عبداللہ بن سلام
حضرت مخریق
حضرت میمون بن یامین
حضرت مابور
حضرت نافع
حضرت یامین بن عمیر
حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام
حضرت ابو سعید بن وہب
حضرت ابو مالک
بارگاہِ رسالت کے ایک یہودی خادم

صحابیات :۔
حضرت تمیمہ
حضرت خالدہ
حضرت ریحانہ
حضرت سفانہ
حضرت سیرین
حضرت صفیہ
حضرت ماریہ قبطیہ
حضرت ابو ھریرہ کی والدہ
مکمل تحریر >>

تاریخی راویوں کا نشانہ بننے والے ایک مظلوم صحابی رسول

حضرت امیر معاویہ رض کی شخصیت وہ ہے کہ جن پر تاریخ میں سب سے زیادہ گند اچھالا گیا ہے مختار بن عبید ثقفی جیسے مدعی نبوت جسکو حضرت عبدللہ ابن زبیر رض نے جہنم واصل کیا تھا 'کی یاد تو بطور ہیرو اور رہنما منائی جاتی ہے لیکن حضرت امیر معاویہ رض پر دل کھول کر کیچڑ اچھالی جاتی ہے انکے اسلام کو مشکوک قرار دیا جاتا ہے اور ہر وہ برائی انکی شخصیت میں تلاش کی جاتی ہے جو انکے کردار کو اسلام کے منافی ثابت کر سکے لیکن ان مذموم کوششوں سے نہ تو ماضی میں انکی شخصیت و کردار کو گہنایا جا سکا ہے اور نہ ہی دور جدید میں یہ کوششیں رنگ لائینگی ۔ انکی شخصیت پر کئی اعتراضات کیے گئے ہیں اور پھر انکے جواب میں باقاعدہ کتابیں بھی لکھیں گئی ہیں، بہت سی کتابیں نیٹ پر بھی موجود ہیں ۔ ہم فضائل یا اعتراضات کی کسی بحث میں پڑے بغیر انکے بارے میں کچھ مستند سطور پیش کرتے ہیں ۔ان کو کھلے ذہن سے پڑھیے۔

حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
اے لوگو! تم معاويہ رضی اﷲ عنہ کی گورنری اور امارت کو نا پسند مت کرو، کیونکہ اگر تم نے انہیں (معاويہ رضی اﷲعنہ) گم کر دیا تو ديکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے، جس طرح ہنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹو ٹ کر گر تا ہے۔(البدايہ والنہايہ حافظ ابن کثیر ص130)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے کہ ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور شائد اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے‘‘۔
صحیح بخاری۔ جلد:۲/ انتیسواں پارہ/ حدیث نمبر:۶۶۴۳/ حدیث مرفوع

جس شخصیت کی تعریف خود حضرت علی رض نے فرمائی ہو ،جس گروہ کو خود الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کے گروہ میں شامل کیا ہو اور جن لوگوں سے خود حضرت امام حسن رض نے صلح کی ہو آج انکے نام لیوا کس منہ سے حضرت امیر پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔

خالص شیعہ مراجع سے حضرت امیر معاویہ رض کی شخصیت پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں .:

قیس ابن ابی خازم کہتے ہیں کہ ایک شخص معاویہ کے پاس آیا اور اُس سے کوئی مسئلہ پوچھا۔ معاویہ نے جواب دیا کہ جاؤ علی علیہ السلام سے پوچھ لو، وہ سب سے بڑا عالم ہے۔ اُس شخص نے کہا کہ میں نے مسئلہ آپ سے پوچھا ہے اور آپ ہی سے جواب چاہتا ہوں۔
معاویہ نے فوراً جواب دیا: افسوس ہے تم پر! کیا تم اس پر خوش نہیں کہ تمہارے سوال کا جواب تمہیں وہ دے جس کو پیغمبر خدا نے خود اپنی زبان سے علم کی غذا دی ہو اور جس کے بارے میں پیغمبر نے یہ بھی کہا ہو کہ اے علی ! تیری نسبت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ کے ساتھ نسبت تھی۔جس سے خلیفہ دوم حضرتِ عمر ابن خطاب متعدد بار سوال پوچھتے رہے ہوں اور جب بھی مشکل آتی تو حضرتِ عمر یہ پوچھتے کہ کیا علی علیہ السلام یہاں ہیں؟
اس کے بعد معاویہ نے غصے سے اُس شخص کو کہا کہ چلا جا۔ خدا تجھے اس زمین پر پاؤں نہ پھیلانے دے۔ اس کے بعد اُس کا نام بیت المال کی فہرست سے خارج کردیا۔
حوالہ1۔ کتاب”بوستانِ معرفت“،صفحہ305،نقل از حموئی کی کتاب فرائد السمطین،جلد1،
باب68صفحہ371،حدیث302۔
2۔ ابن عساکر، کتاب تاریخ امیر الموٴمنین ،ج1،ص369،370،حدیث410،411
3۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، صفحہ34،حدیث54۔

ماہِ رمضان میں ایک دن احنف بن قیس معاویہ کے دسترخوان پر افطاری کے وقت بیٹھا تھا۔ قسم قسم کی غذا دستر خوان پر چن دی گئی۔ احنف بن قیس یہ دیکھ کر سخت حیران ہوا اور بے اختیار اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ معاویہ نے رونے کا سبب پوچھا۔ اُس نے کہا کہ مجھے علی کے دسترخوان کی افطاری یاد آگئی۔ کس قدر سادہ تھی۔
معاویہ نے جواب دیا:”علی علیہ السلام کی بات نہ کرو کیونکہ اُن جیسا کوئی نہیں“۔
حوالہ کتاب”علی علیہ السلام معیارِ کمال“، تالیف:ڈاکٹر مظلومی۔

وہ سوالات جن کا معاویہ کو جواب معلوم نہ ہوتا تھا ،وہ لکھ کر اپنے کسی آدمی کو دیتا تھا اور کہتا تھا کہ جاؤ ان سوالات کا جواب علی علیہ السلام سے پوچھ کر آؤ۔ شہادتِ علی علیہ السلام کی خبر جب معاویہ کو ملی تو کہنے لگا کہ علی علیہ السلام کے مرنے کے ساتھ فقہ و علم کا در بھی بند ہوگیا۔ اس پر اُس کے بھائی عتبہ نے کہا کہ اے معاویہ! تمہاری اس بات کو اہلِ شام نہ سنیں۔ معاویہ نے جواب دیا:”مجھے( میرے حال پر )چھوڑ دو“۔
حوالہ کتاب”بوستانِ معرفت“، صفحہ659،نقل از ابوعمر کی کتاب استیعاب، جلد3،صفحہ45

شرح حالِ علی علیہ السلام سے۔
معاویہ نے ابوہریرہ سے کہا کہ میں گمان نہیں کرتا کہ زمام داریٴ حکومت کیلئے میں حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ مستحق ہوں۔
حوالہ :کتاب”بررسی مسائل کلی امامت“، تالیف: آیۃ اللہ ابراہیم امینی،صفحہ74،نقل از کتاب”الامامۃ والسیاسۃ“، جلد1،صفحہ28۔

معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے نام
”معاویہ نے اپنے خط بنام علی علیہ السلام میں لکھا کہ میں اپنی جان کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ آپ کے فضائلِ اسلامی اور رسولِ خدا کے ساتھ قرابت داری کا منکر نہیں ہوں“۔

علی علیہ السلام کی تعریف معاویہ کی زبان سے
جب محصن ضبی معاویہ کے پاس پہنچا تو معاویہ نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں سے آرہے ہو؟اُس نے جواب دیا کہ میں(معاذاللہ) کنجوس ترین شخص علی ابن ابی طالب کے پاس سے آرہا ہوں۔ یہ سن کر معاویہ اُس پر چلّایا اور کہا :کیا تم اُس کو بخیل ترین شخص کہہ رہے ہو جس کے پاس اگر ایک گھر سونے(طلاء) سے بھرا ہوا ہو اور دوسرا گھر چاندی سے بھرا ہوا ہو تو وہ بیکسوں کو زیادہ سونا بانٹ دے گا اور پھر طلاء اور چاندی کو مخاطب کرکے کہے گا کہ:
یٰاصَفْرٰاءُ وَیٰا بَیْضٰاءُ غُرِّی غَیْرِی أَبِی تَعَرَّضْتِ اَمْ اِلیَّ
تَشَوَّقْتِ؟ھَیھٰاتَ ھَیھٰاتَ قَدْ طَلَّقْتُکِ ثَلٰثاً لاٰ رَجْعَةَ فِیْکَ۔
”اے طلاءِ زرد اور سفید چاندی! میرے کسی غیر کو دھوکہ دو، کیا اس طرح تم میری مخالفت کررہی ہو یا مجھے حوصلہ دے رہی ہو۔ افسوس ہے، افسوس ہے، میں نے تجھے تین مرتبہ طلاق دے دی ہے جس کے بعد رجوع ممکن نہیں“۔
حوالہ کتاب”چراشیعہ شدم“،صفحہ227۔

جاحظ کتاب المحاسن والاضداد میں لکھتا ہے کہ ایک دن حضرتِ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام معاویہ کی محفل میں گئے۔ اس محفل میں عمروعاص، مروان بن حکم اور مغیرہ بن شعبہ اور دوسرے افراد پہلے سے موجود تھے۔جس وقت امام حسن علیہ السلام وہاں پہنچے تو معاویہ نے اُن کا استقبال کیا اور اُن کو منبر پر جگہ دی۔ مروان بن حکم نے جب یہ منظر دیکھا تو حسد سے جل گیا۔ اُس نے اپنی تقریر کے دوران امام حسن علیہ السلام کی توہین کی ۔ امام حسن علیہ السلام نے فوراً اُس خبیث انسان کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان حالات کو دیکھ کر معاویہ اپنی جگہ سے بلند ہوا اور مروان بن حکم کو مخاطب کرکے کہنے لگا:
”قَدْ نَھَیْتُکَ عَنْ ھٰذا الرَّجُل۔۔۔۔۔فَلَیْسَ اَ بُوْہُ کَاَبِیْکَ وَلَا ھُوَ مِثْلُکَ۔اَنْتَ اِبْنُ الطَّرِیْد الشَرِیْد،وَھُوَ اِبْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ الکریم۔
”میں نے تجھے اس مرد(کی توہین) کے بارے میں منع کیا تھا کیونکہ نہ اُس کا باپ تمہارے باپ جیسا ہے اور نہ وہ خود تمہارے جیسا ہے۔ تم ایک مردود و مفرور باپ کے بیٹے ہو جبکہ وہ رسولِ خدا کا بیٹا ہے“۔
حوالہ کتاب”المحاسن والاضداد“،تالیف:جاحظ(از علمای اہلِ سنت)،صفحہ181۔

گزارش ہے کہ اہل بیت کی محبت کا دم بھرنے والے اصحاب رسول سے مخاصمت چھوڑ دیں کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جاۓ گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انکی عاقبت کی سیاہی میں مزید اضافہ ضرور ہوگا اس تبرائی فکر نے اب تک تو اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بجز انتشار کے۔۔۔
یہ دور سینوں کی غلاظت کو اگلنے کا نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا تقاضہ کرتا ہے. ......

اگریہ مشاجرات برپا نہ ہوتے
مورخ اسلام مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی رحمہ اللہ کا اس دور پر تبصرہ انکی کتاب تاریخ اسلام سے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش ہے۔

"اگریہ مشاجرات برپا نہ ہوتے اگرحضرت امیرمعاویہ اور حضرت علی کی معرکہ آرائیاں نہ ہوتیں توہم آج شریعتِ اسلام کے ایک بڑے اور ضروری حصے سے محروم وتہی دست ہوتے؛ خدائے تعالیٰ خود اس دین کا محافظ ونگہبان ہے، وہ خود اس کی حفاظت کے سامان پیدا کرتا ہے؛ چنانچہ اس نے وہ سامان یعنی حضرت علی اور امیرمعاویہ میں اختلاف پیدا کیا،
اب اسی مذکورہ مدعا کے ایک دوسرے پہلو پرنظر کرو؛ ہرایک حکومت، ہرایک سلطنت اور ہرایک نظامِ تمدن کے لیئے جس جس قسم کی رکاوٹیں دقتیں اور پیچیدگیاں پیدا ہونی ممکن ہیں اور آج تک دنیا میں دیکھی گئی ہیں، ان سب کے نمونے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشاجرات میں موجود ہیں،
ان مشکلات کے پیدا ہونے پرعام طور پرحکمرانوں، حکمراں خاندانوں اور بادشاہوں نے آج تک جن اخلاق اور جن کوششوں کا اظہار کیا ہے ان سب سے بہتر اور قابل تحسین طرزِ عمل وہ ہے جوصحابہ کرام نے ایسی حالتوں میں ظاہر کیا،
سلطنتوں کے بننے اور بگڑنے، قوموں کے گرنے اور ابھرنے، خاندانوں کے ناکام رہنے اور بامراد ہونے کے واقعات سے اس دنیا کی تمام تاریخ لبریز ہے، چالاکیوں، ریشہ دوانیوں اور فریب کاریوں کے واقعات سے کوئی زمانہ اور کوئی عہد حکومت خالی نظر نہیں آتا، ان سب چیزوں کے متعلق ہم جب تلاش کرتے ہیں توحضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفتوں کی روئداد ہمارے سامنے یک جاسب کے نمونے پیش کردیتی ہے اور ہم اپنے لیئے بہترین طرز کار اور اعلیٰ ترین راہ عمل تجویز کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،
یہ ہماری نابینائی اور بدنصیبی ہے کہ ہم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی اجتہادی مخالفتوں اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ وحضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشاجرات کو بجائے اس کے کہ اپنے لیے موجب عبرت وبصیرت اور باعثِ خیرونافع بناتے، اپنی نااتفاقی ودرندگی اور اپنی فلاکت ونکبت کا سامان بنالیا "۔
مکمل تحریر >>

تاریخ اسلامی اور جدید فکری مغالطے

کسی بھی قوم کا رابطہ اگر اپنے ماضی سے ٹوٹ جاۓ تو اس قوم کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی گناہ کے نتیجے میں پیدہ ہونے والے بچے کہ کوئی کچرے کے ڈھیر پر پھینک جاۓ اور وہ اپنے حقیقی نام و نسب کی تلاش میں ہمیشہ سر گرداں رہے .....جن لوگوں کا اپنے ماضی سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے انکے اندر نفسیاتی مسائل پیدہ ہوتے ہیں یہ نفسیاتی مسائل مختلف انداز سے شخصیات افراد اور اقوام پر اثر انداز ہوتے ہیں
ایسے لوگ جھوٹے سہاروں کو تلاش کرتے ہیں جیسے جدید استعماری دنیا کا بے تاج بادشاہ امریکہ یہ لوگ کبھی مصر کے اہراموں میں تو کبھی روم و یونان کے مقابر میں اور کبھی دفن شدہ مایا تہذیب میں اپنی اصل کھوجتے پھرتے ہیں اور صرف کھوجتے ہی نہیں بلکہ اسکو پوری دنیا پر رائج کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں یہ جدید استعماری پھندے پوری کی پوری تہذیبوں کو کسی بھوکے عفریت کی طرح نگل رہے ہیں ...
دوسرا اثر ایسی اقوام پر یہ پڑتا ہے کہ انکی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی تاریخی برتری کو ثابت کرنے کیلئے دوسروں کی تاریخ کو بھی مسخ کر دیا جائے اسکو استشراق کہتے ہیں۔ مستشرقین کے متعلق ہمارے ایک دوست پیج پر ایک تفصیلی تحریر لکھی گئی، اس لنک پر ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔
https://www.facebook.com/Religion.philosphy/photos/a.1480251648878129.1073741828.1460029827566978/1530610810508879/?type=1&theater
یہ استشراقی غلاظت صرف مغربی مستشرقین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اسنے اپنی فکر و تہذیب اور تاریخ پر شرمندہ مسلمانوں کو بھی متاثر کیا۔ عالم عرب میں طہٰ حسین اور بر صغیر میں سر سید اس فکر کے شدید متاثرین میں شمار کیے جا سکتے ہیں ۔انکے فکری مغالطوں سے دین کا جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ " تاریخ اسلامی " ہے

اسلاف نے تاریخی روایات سے استفادے کیلئے جو نظام تشکیل دیا اسے " جرح و تعدیل " کے نام سے پہچانا جاتا ہے جسکی بنیاد اس نص قرآنی پر ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:
اے اہل ایمان! اگر آپ لوگوں کے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کسی گروہ کو جہالت میں نقصان پہنچا بیٹھیں اور پھر اپنے فعل پر نادم ہوں۔ الحجرات 49:6
اس جرح و تعدیل کے ماہر حضرات مورخین و محدثین ہیں اسکی نص بھی قرآن سے بیان ہوتی ہے ۔
ترجمہ : اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن یا خوف کی تو اس کو مشہور کرديتے ہیں اور اگر اس کو پہنچا ديتے رسولؐ تک اور اپنے اولو الامر (علماء و حکام) تک تو جان لیتے اس (کی حقیقت) کو جو ان میں قوتِ استنباط (حقیقت نکالنے کی اہلیت) رکھتے ہیں اس کی اور اگر نہ ہوتا فضل ﷲ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو البتہ تم پيچھے ہو ليتے شیطان کے سواۓ چند (اشخاص) کے۔النساء/83؛
علما امت نے مستقل تاریخ اسلامی سے متعلق ایسی کتب لکھی ہیں جن میں تاریخی روایت کے نتیجے میں پیدہ ہونے والے اشکالات کا حل موجود ہے۔ ابن تیمیہ رح کی منہاج السنہ ، ابن العربی رح کی العواصم من القواصم، حضرت شاہ ولی الله دھلوی رح کی ازالة الخفاء عن خلافت الخلفاء وغیرہ۔ اسی طرح ماضی قریب اس موضوعات پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی۔

تاریخ کو اس فہم سلف سے ہٹ کر مستشرقین کے طریقے پر مجرد اخبار و آحاد کی بنیاد پر سمجھنا ایسے علمی مغالطوں میں مبتلاء کرتا ہے کہ فکر و نظر کا رخ ہی تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔جب ہماری میزان ہی ٹیڑھی ہوگی اور ہمارے ماپنے کے آلات ہی غلط ہونگے تو مطالعہ تاریخ کا مقصود ہی فوت ہو جائےگا ....
تاریخ جسکا مقصود ہمیں ہمارے اسلاف کے کارناموں سے آگاہی دلانا ہے۔
تاریخ جسکا مقصود ہمارا تعلق اپنی علمی سیاسی فکری اخلاقی اقدار سے جوڑنا ہے ۔
تاریخ جسکا مقصود اپنی اصلاح اور اپنے مستقبل کی بنیادیں اپنی جڑوں پر استوار کرنا ہے اگر یہ تاریخ سلف کی فکر و نظر سے ہٹ کر دیکھی جاۓ تو نری جاہلیت دکھائی دیگی ...
آپ اپنے باطل پیمانوں کو لیکر پہنچ جائیے اور اسلامی تاریخ کو ماپنا شروع کیجئے نتیجہ ہمیشہ منفی ہی آئے گا کیونکہ آپکے پیمانوں میں شدید کھوٹ ہے وہ باٹ جو آپ نے ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھے ہیں گھسے ہوے ہیں ..
یہ باطل پیمانے ہمیں اپنی تاریخ کے معروف کرداروں کو باطل دکھاتے ہیں جو ظلم کے خلاف کھڑا ہو ان سے وہی ظالم دکھائی دیتا ہے۔
یہ وہ عینک ہے جسے پہن کر محمود غزنوی ڈاکو دکھائی دیتا ہے، شہاب الدین غوری غاصب نظر آتا ہے، عالمگیر جیسا درویش صفت حاکم منافق دکھائی دیتا، ابدالی شر پسند ہوجاتا ہے، ایوبی و زنگی ملوک بیبرس مطلق العنان حاکم غرض یہ سلسلہ یہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ دامن صحابہ رض تک کو تار تار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب جو بھی راستے کی دیوار بننے کی کوشش کرے وہ اسلاف پرست وکیل صفائی ناقابل قبول و غیر مقبول ہوگا ..

یہ فکری مغالطے دو دھاری تلوار ہیں ایک طرف تو یہ اسلامی تاریخ کا وہ چہرہ پیش کرتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جائے تو دوسری طرف اپنے ہی اسلاف پر بد اعتمادی کی فضاء قائم کر دیتے ہیں اور دعوی ہوتا ہے بے لاگ تحقیق .....
پہلے تو مجددین اسلام پر سے اعتماد اٹھایا جاتا ہے اسلام کا سب سے بڑا امر حکومت اسلامی کے قیام کو قرار دیا جاتا ہے اور پھر یہ سوال ہوتا ہے یہ فقہاء ، محدثین ، مورخین ، مجددین کیا کرتے رہے یہاں تک کہ شیخ السلام ابن تیمیہ رح جیسے مجدد کے تمام تجدیدی و احیائی کام پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ وہ بھی ایسی کوئی تحریک بپا کرنے میں ناکام رہے کہ اقتدار جاہلیت کے ہاتھوں سے نکل کر اسلام کے ہاتھوں میں آ جاتا .....
تو دوسری طرف ......
یہ فکر ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی کی عظیم الشان سیاسی قوت صرف تیس سال میں پارہ پارہ ہو گئی اسکے بعد جو اسلام نے دنیا پر حکومت کی وہ نری جاہلیت تھی یعنی اسلامی غالب ہوکر بھی مغلوب تھا حاکم ہوکر بھی محکوم تھا احسن ہوکر بھی اسفل تھا اعلیٰ ہوکر بھی ادنی تھا ......

یہ فکر کتنی تباہ کن ہے اسکا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ ایک طرف تو اسکی کدال اسلامی سیاست کی عظیم الشان عمارت کی جڑیں کھودتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اسلاف کی شخصیات پر مکمل بد اعتمادی پیدہ کر دیتی ہے یہ ایک ایسی روشن خیالی ہے جو اپنی حقیقت میں اندھیرا نہیں اندھیر ہے .....
اس فکر کے اثرات ان نفوس قدسی پر پڑتے ہیں جنہوں نے مکتب نبوت سے براہ راست فیض حاصل کیا تھا
سید ابو الحسن علی ندوی رح ایک جگہ لکھتے ہیں !
لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب اسلامی دعوت اپنے سب سے بڑے داعی کے ہاتھوں اپنے دور عروج میں کوئی دیر پا اور گہرے نقوش مرتسم نہ کر سکی اور جب اس دعوت پر ایمان لانے والے اپنے نبی علیہ سلام کی آنکھ بند ہوتے ہی اسلام کے وفادار اور امین نہ رہ سکے اور رسول الله صل الله علیہ وسلم نے انھیں جس صراط مستقیم پر چھوڑا تھا ان میں سے معدودے چند آدمی ہی اسپر گامزن رہے تو ہم یہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ ان کے اندر نفوس کے تزکیہ کی صلاحیت ہے وہ انسان کو حیوانیت کی پستی سے نکال کر انسانیت کی بلند چوٹی تک پہنچا سکتی ہے اور ہم کس امید پر اس وقت دنیا کی قوموں اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں "

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کیا اسلام کا نظام عالی شان صرف تیس سال چل سکا اس روایت کے راویوں کی چھان پھٹک سلف کی آراء پر بحث تو ایک طرف ذرا عقل ہی استعمال کیجئے اپنی فطرت سلیم کو آواز دیجئے آج دنیا میں اسلام کے غلبے کی بات کرنے والے جب اپنی بنیادوں میں یہ عقیدہ لیے بیٹھے ہونگے کہ امت کی سیاسی عمارت اسلام کے ابتدائی تین ادوار میں ہی ڈھے گئی وہ تین ادوار جنکی تعریف خود زبان نبوی سے ہوئی ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘([23]) (بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر جو ان کے بعد آئيں پھر جو ان کے بعد آئيں)۔
یہی وہ لوگ تھے بے شک یہی وہ لوگ تھے جنکے ہاتھوں فریضہ اقامت دین تکمیل کو پہنچا
امام قاضی احمد القلشانیؒ المتوفی سن 863ھ" فرماتے ہیں :
سلف صالحین سے مراد وہ پہلی نسل ہے کہ جو راسخون فی العلم تھے، ہدایت نبوی کے ساتھ ہدایت یافتہ تھے۔ جو سنت کے محافظ تھے۔ انہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے چن لیا تھا اور ان سے راضی ہوا تھا کہ وہ اس امت میں دین کے امام بنیں۔ انہوں نے امت کی نصیحت چاہنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور انہوں نے رب کی رضا کے لیے اپنے آپ کو قربان کردیا۔
اور یہاں یہ سوال کہ ان اقامت دین کے معماروں نے ہی وہ عمارت ڈھا دی جسکی بنیادوں میں انکا خوں شامل ہے
افسوس صد افسوس
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

لیکن ہمیں کتاب الله کی گواہی کافی ہے

وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَ‌سُولَ اللَّـهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ‌ مِّنَ الْأَمْرِ‌ لَعَنِتُّمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّ‌هَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ‌ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الرَّ‌اشِدُونَ ﴿٧﴾
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وه تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں .

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تاریخ سے اپنی مرضی کا گند چننے کے بجاۓ سلف کے مستقیم راستہ پر چلا جاۓ کیونکہ یہی راستہ ہمیں منزل مقصود کی طرف لے جا سکتا ہے .....
حسیب احمد حسیب
مکمل تحریر >>

سیکولر لابی تاریخ اور اورنگ زیب عالمگیر



تاریخ محض گزرے وقتوں کا بیان نہیں بلکہ یہ ہزاروں واعظوں کا ایک واعظ اور عبرت آموزی کا ایک بہترین ذریعہ ہے ،اس کے مطالعے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی قوم نے معاشرے کی تہذیب کے لیے کیا کردار ادا کیا ، جنگ و امن ، خوشحالی اور تنگی میں اس نے عرصہ حیات کیسے گزارا ۔ تاریخ کے مطالعہ سے دانائی اوربصیرت ترقی کرتی ،دور اندیشی بڑھتی،حزم اوراحتیاط کی عادت پیدا ہوجاتی ہے،دل سے رنج وغم دور ہوکر مسرت وخوشی میسر ہوتی ہے، انسان میں احقاق حق اورابطال باطل کی قوت ترقی کرتی اورقوت فیصلہ بڑھ جاتی ہے، ، تاریخ کے بغیر نہ حال کی تعبیر ممکن ہے اور نہ مستقبل کی صورت گری کا کوئی حوالہ۔ اس لحاظ سے تاریخ ایک امانت ہے جس کے پیغام کو بگاڑنا یا اس کے سیاق و سباق کو مجروع کرنا ایک سنگین جرم ہے۔

ایک عرصہ سے سیکولر حضرات اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ چیدہ چیدہ تاریخی واقعات کو انکے سیاق و سباق سے جدا کرکے مسلمانوں کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھیں تاکہ اس سے من پسند نتائج اخذ کیے جاسکیں ۔ تاریخ کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اپنے تاریخی ورثے سے نفرت پیدا ہو اور یوں انکا اپنے ماضی سے رشتہ کٹ جائے اور انہیں اپنے اسلاف کے تاریخی کارناموں سے کوئی حوصلہ اور امنگ حاصل نہ ہو ۔ وہ ان کی طرح پیچیدہ حالات اور بدلتی دنیا کے چیلنجز کا پورے اعتماد سے سامنا کرنے کے بجائے مایوس ، ناامید اور عزت نفس کے باب میں بالکل کھوکھلے ہوجائیں ۔۔

اس کے لیے انہوں نے ایک طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ مسلم تاریخ کو برا بھلا کہا جائے ، خصوصا ان عظیم لوگوں کو جو اپنی شخصیت اور کارہائے نمایاں کی وجہ سے مسلمانوں کا فخر ہیں ، ایسے لوگ اگر اپنی تمام تر تابندگی کے ساتھ موجود رہیں تو تاریخ ایک زندہ تجربے کی شکل اختیار کرلیتی ہے' ان کو ڈاکو ، غاصب ، ظالم ، خودغرض ، عیاش ثابت کیا جائے ، انکی ذاتی زندگی کے متعلق کہانیاں گھڑی جائیں ۔ اس سلسلہ میں اسلامی تاریخ کی جن نامور شخصیات کو سب سے ذیادہ نشانہ بنایا گیا ان میں محمد بن قاسم ، اورنگ زیب عالمگیر، محمود غزنوی، نمایاں ہیں، انکے علاوہ ماضی قریب کی شخصیات میں علامہ اقبال ، قائدہ اعظم ہیں جنکی سیکولر صورت گری کے لیے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔

ہم فی الحال اورنگ زیب عالمگیر پر بات کریں گے ، ان کو سب سے ذیادہ جس بات پر کوسا جاتا ہے وہ انکا اپنے بھائیوں کے خلاف ظالمانہ طرز عمل اور اپنے باپ شہاب الدین محمد شاہ جہان کو قید میں ڈالنا تھا ۔
یہ بات حقیقت ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے تین بھائی جان سے گئے اور والد شاہ جہان آگرہ قلعہ کی تنہائی میں مقید رہے لیکن ان واقعات کو پورے پس منظر سے جدا کرکے محض ایک منفرد قصہ کے طور پر پیش کرنا اور اورنگ زیب عالمگیر کو تاریخ کے ایسے کردار کے طور پر پیش کرنا کہ جس کے سر پر ظلم و ستم کا بھوت سوار تھا ، یا وہ غیر معمولی طور پر اقتدار کی ہوس میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے اس نے یہ سب کر ڈالا، قطعا غلط اور بے ثبوت مقدمہ ہے۔
اگر سب اسکی بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اورنگ زیب کا کردار باقی ہر لحاظ سے اجلا اور بے داغ تھا تو ہم اس کے دامن پر بظاہر یہ دھبے کیوں دیکھ رہے ہیں ؟ اسے کس بات نے مجبور کیا کہ وہ باپ اور بھائیوں کےساتھ سخت رویہ اپنائے جس کا اسے الزام دیا جاتا ہے ؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب طلب کرنا چاہیے ، لیکن اصل حقیقت تک پہنچنے کی کدوکاوش سیکولر حضرات کا مقصد او ر مدعا ہے ہی نہیں ۔ انکا تو صرف ایک ہدف ہے وہ یہ کہ اس طریقہ واردات سے مطلوبہ نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے ۔ سچ اگر قتل ہوتا ہے تو ہو ۔ ڈاکٹر محمد اقبال اپنی ایک نظم میں انہی یک چشم متنفرین کو ' کورذوقاں' کا نام دیتے ہیں جنہیں اورنگ زیب عالمگیر کے کمالات نظر نہ آئے اور انہوں نے قصے کہانیاں گھڑ لیں :
کورذوقان داستاں ہاسا ختند وسعت ادراک اونشاخسند
(اسرار خودی)
اس موضوع پر تحقیق كے لیے ہم نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا، تاریخی علم رکھنے والے لوگوں کو سنا۔ ہمیں سب سے اچھا جواب طارق جان صاحب کی کتاب ' سیکولرازم مباحث اور مغالطے ' میں ملا ۔ طارق جان انسٹیٹوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد میں سینئر ریسرچ فیلو اور کئی کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں۔ انکی یہ کتاب جدید فلاسفہ ، سیکولروں ملحدوں کے مغالطوں کے رد میں اپنے موضوع پر میرے نظر میں اردو زبان میں موجود سب سے بہترین کتاب ہے ۔ اسی کتاب سے انکے مضمون ' سیکولر لابی ، تاریخ اور اورنگ زیب عالمگیر ' کو میں یہاں پیش کررہا ہوں۔ اسلوب علمی اور عام فہم ہے ، تصنیف اعلی درجے کی تحقیق کے تقاضے پورے کرتی ہے ، دلیل اور حوالے کے ساتھ مصنف نے اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق پھیلائی گئی کنفیوزین کا بہت سیلقے اور خوبی سے تجزیہ کیا ہے ۔

مضمون اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔
https://archive.org/download/SecularLabiTareekhAurAurangzebAlamgir/Secular%20Labi%2C%20Tareekh%20aur%20Aurangzeb%20Alamgir.pdf
مکمل تحریر >>

Monday 13 October 2014

جھوٹی روایات کی پہچان اور معیارردو قبول

  تاریخ اسلامی کی تدوین جدید کی ضرورت

موجودہ حالات میں امتِ مسلمہ کے اختلافات، انتشار اور فرقوں میں تقسیم کو دیکھتے ہوئے ایک معتدل اور امت کا درد رکھنے والا موٴرخ ضرور تاریخِ اسلامی کی تدوین جدید کی آواز اٹھائے گا۔ ۔ تاریخ کی تدوینِ جدید کے لیے کیا جانے والے مطالعے کے لیے یا جھوٹی روایتوں کی پہچان، انکا معیار ردوقبول کے لیے درج ذیل نکات زیادہ مفید، موٴثر اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں:
1. جو روایت بھی درایت اور عقل کے خلاف ہو ، یا اصولِ شریعت کے مناقض ہو تو جان لیں کہ وہ روایت موضوع ہے اور اس کے راویوں کا کوئی اعتبار نہیں اسی طرح جو روایت حس اور مشاہدہ کے خلاف ہو ، یا قرآن کریم، سنتِ متواترہ اور اجماعِ قطعی کے مبائن ہو تو وہ روایت بھی قابلِ قبول نہیں ۔
2. نہایت اعتدال کے ساتھ ان تمام موٴرخین کی کتابوں سے ثقہ اور جھوٹے و کذّاب راویوں کی روایات میں تمیز کی جائےجنہوں نے اپنی کتابوں میں دونوں طرح کی روایات کو جگہ دی ہے، جیسا کہ خلیفہ بن خیاط، محمدبن سعد ، زبیر بن بکار ، موسی بن عقبہ، وھب بن منبہ ،ابن جریر طبری اور ابن اثیر وغیرہ۔
3. تاریخی روایات کی سند اور متن ہر دو اعتبار سے نقد و تمحیص و تحقیق کے مسلمہ قواعد کی روشنی میں جائزہ لے کر ان پر محتاط و محققانہ کلام کیا جائے۔
4. اس بات میں بھی تفریق ضروری ہے کہ موٴلف اور صاحبِ تاریخ خود تو ثقہ ہیں؛ لیکن اس نے نقل واقعات و روایات میں دروغ گو اور کذّاب راویوں پر اعتماد کیا ہے، جیسا کہ ابن جریر طبری کا حال ہے ، ایسی صورت میں اس موٴرخ کی صرف ثقہ راویوں والی روایات مقبول قرار پائیں گی، دروغ گو و کذّاب رواة کی روایات مردود سمجھی جائیں گی۔
5. اگر صاحبِ تاریخ خود کذّاب ودروغ گو ہو تو پھر اس کی کتاب میں موجود ثقہ لو گوں کی روایات بھی غیر معتبر قراردے دی جائیں گی۔
6. اصل ضابطہ تو کذاب راویوں کی روایات کے بارے میں عدمِ قبولیت کا ہے ؛البتہ اگر ان کی کوئی روایت ،قرآنِ کریم، سنتِ مبارکہ اور اجماعِ امت کے مخالف نہ ہو تو دیگر ثقہ راویوں کی روایت کی تائید میں قرائن ومرجحات کی موجودگی میں قبول کرنے کی گنجائش ہوگی۔
7. دینی امور ، صحابہٴ کرام ، ائمہ و سلفِ صالحین کے علاوہ دیگر دنیاوی معاملات میں اگر کسی ثقہ راوی کی روایت دستیاب نہ ہو تو بصورت مجبوری دروغ گو راویوں سے منقول روایات نقلِ واقعہ کی غرض سے ذکر کرنے کی گنجائش ہوگی؛مگر اس سے علمِ یقین حاصل نہ ہو گا۔
8. تاریخ اور تحقیق کے نام پر محض موٴرخین کی ذکر کردہ روایات سے اخذ کردہ نتائج بھی غیر مقبول شمار ہوں گے؛ البتہ حقیقی اور مسلمہ اصولوں کے تحت روایت قابل قبول قرار پائے تو اس سے ماخوذ نتائج درست قرار دیے جائیں گے۔
9. صحابہ وائمہ دین کی عیب جوئی سے متعلق روایت قابلِ اعتبار نہیں؛کیوں کہ روایات وضع کرنے والوں میں بعض لوگ وہ ہیں جنہوں نے حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہٴ دین کی برائیاں اور عیب بیان کرنے کے لیے ،یا اپنے دیگر مذموم اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے روایات وضع کی ہیں( اس کا ثبوت ہم گزشتہ تحاریر میں پیش کر چکے ) ، ان کا یہ عمل یا تعنت و عناد کی وجہ سے ہے یا تعصب و فساد کی وجہ سے ہے ، پس ان لوگوں کی روایات کا کوئی اعتبار نہیں؛ جب تک کہ ان کی کوئی سند معتمد نہ پائی جائے، یا سلفِ صالحین میں سے کسی نے اس پر اعتماد نہ کیا ہو۔
10. علامہ نووی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض اور علامہ مازری رحمھما اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ہمیں حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے اور ہر بری خصلت کی ان سے نفی کا حکم دیا گیا ہے ؛ لہٰذا اگر ان کے بارے میں کسی روایت میں اعتراض پایا جائے اور اس کی صحیح تایل کی کوئی گنجائش نہ ہو تو اس صورت میں ہم اس روایت کے راویوں کی طرف جھوٹ کی نسبت کریں گے۔
علامہ عبدالعزیز فرہاروی رحمة اللہ نے لکھا ہے کہ اس بارے میں اہلِ سنت کا مذہب یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کی مناسب تاویل کی جائے اور اگر مناسب تاویل ممکن نہ ہو تو اس روایت کو رد کر کے سکوت اختیار کرنا واجب ہے اور طعن کو بالیقین ترک کرنا ہوگا؛ اس لیے کہ حق سبحانہ و تعالی نے تمام صحابہٴ کرام سے مغفرت اور جنت کا وعدہ کیا ہے۔
11. تاریخ کی بڑی کتابوں کے اردو تراجم میں عام طور پر راوی کا تذکرہ نہیں کیا گیا اس لیے ان راویوں کی روایتوں کو مضمون سے بھی پہچانا جا سکتا ہے۔ ہر تاریخی روایت جس میں صحابہ کی طرف کرپشن، منافقت، زبان درازی، مکاری منسوب کی گئی ہو، وہ ذیادہ تر انہی سبائیوں کی گھڑی ہوئی ہیں ۔ اس لیے ایسی روایت کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے جس سے صحابہ کرام کا کردار مجروح ہو رہا ہو کیونکہ یہ لوگ خود مجروح اور کرپٹ ہیں ۔ 
12. اس پورے عمل کے دوران اس بات کا استحضار رہے کہ ہماری تاریخ دروغ گو مکتبہٴ فکر کی اغواکاری کا شکار رہی ہے، لہٰذا معمولی سی غفلت بھی موجودہ اور آئندہ آنے والی امتِ مسلمہ کی نسلوں میں تشکیک ، تحریف ، تضلیل ، ائمہٴ دین و اسلاف سے بیزاری اور گروہی اختلافات کی آڑ میں ان تاریخی روایات کی بنیاد پرکُشت و خون کی ہولیاں کھیلے جانے کا سبب بن سکتی ہے.
ایک مشہور عالم نے روایات کے معیار ردو قبول کا عوام کے لیے ایک اور بالکل آسان طریقہ لکھا ہے۔
" تاریخ کو قبول کرنے کے لیے مجھے قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، اسکی جو روایتیں قرآن وحدیث کی تعلیم کے مطابق ہونگی میں انہیں بڑی محبت سے قبول کروں گا اور جو روایتیں، حکایتیں، رذالتیں، قباحتیں قرآن وحدیث سے ٹکرائیں گی میں انہیں نہ صرف رد کروں گا بلکہ اپنے پاؤں میں مسلوں گا ، کیونکہ وہ تاریخ نہیں جھوٹ ہے ، تہمت ہے ، بہتان اور دشنام ہے اور انسانیت سے گری ہوئی باتیں ہیں، تاریخ کے حوالے دے کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم پر تبراہ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی محفوظ نہیں ہے. کیا اس سے بہتر نہیں کہ تاریخ کی اندھی (سبائی) عینک سے اصحاب مصطفی کی عیب چینیوں کی بجائے قرآن وحدیث سے انکی فضیلتوں اور قدرومنزلت پر نگاہ کی جائے ۔ (اگر یہ لوگ قرآن وحدیث کی اصحاب کے بارے میں دی گئی شہادتوں کو پس پشت ڈال کر محض تاریخی روایتوں کے ذریعے ان پر نکتہ چینی جاری رکھتے ہیں تو ) ایسے نام نہاد 'تاریخ دان' ہمارے نزدیک 'تھوک دان' کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے"۔
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔

مکمل تحریر >>

تاریخ اسلامی پر جھوٹ کے اثرات

دروغ گوراویوں کے اس مخصوص مکتبہٴ فکر نے ہماری پوری تاریخِ اسلامی پر عام طور سے اور قرونِ ثلاثہ پر خاص طور سے بہت سے زہریلے اور بُرے اثرات چھوڑے ، مقامِ فکر یہ ہے کہ ان دروغ گو اور گذّاب( اور متہم بالکذب) لوگوں کی روایات ہماری تاریخ ، ادب اور دینی تصانیف میں سرایت کر گئیں، اور ان کے ایک بڑے اور معتدبہ حصہ کو اپنے جھوٹ سے فاسد کرڈالا، جس کے نتیجہ میں ثقہ روایات کے ساتھ ابا طیل، خرافات و متنا قضات،ان کتابوں میں شامل ہوگئیں.
کذّاب اور دروغ گو رایوں کی یہ موضوع ومن گھڑت اور نصوص شریعت و حاملینِ دین متین سے متصادم روایات ہی امتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار اور تمام گروہی اختلافات کی اساس و بنیاد ہیں، جن کو صراطِ مستقیم سے منحرف فرقوں نے جب مذہبی قداست کا لبادہ اوڑھا دیا تو اس مکتبہٴ فکر کے ماننے والوں نے ان روایات کو دین اور رجال پر طعن کرنے ، گمراہ افکارکی نصرت و تائید ، مسلمہ حقائق اور متوارث تاریخ اسلامی میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے بطور سلاح کے استعمال کرنا شروع کردیا۔
امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والا منصف مزاج محقق ضرور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان دروغ گو مکتبہ فکر کے گمراہ لوگوں نے اپنے مخصوص افکار و عقائد کی بنیاد اپنے مکتبہٴ فکر کے ان مخصوص اور دروغ گو رایوں کی روایات پر رکھی ہے، اور قرآنِ کریم اور سنتِ صحیحہ و دیگر نصوصِ شریعت کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔
اگر یہ گمراہ فرقے آج بھی قرآنِ کریم، سنتِ صحیحہ اور دیگر متواتر و قطعی نصوص شریعت کی طرف رجوع کریں گے تو امتِ مسلمہ میں ہر طرح کے اختلاف ختم ہو جائیں اور یہ امت پھر سے ایک جسد و قلب کی مانند متفق و متحد ہو جائے گی،امتِ مسلمہ کے اتحاد کا یہی ایک نسخہ کیمیا ہے۔

مکمل تحریر >>

تاریخ اسلام میں صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پر ایک تحقیق - آخری حصہ

ابو مخنف جنگ صفین والی اپنی گھڑی ہوئی اوپر پیش کردہ روایت میں آگے حضرت علی رضی اللہ کی ایک تقریر بھی پیش کرتا ہے جو انہوں حضرت عمر و بن العاص کی اس ' جنگی چال ' کو سمجھ کر عراق والوں کے سامنے کی ۔ پڑھیے اور سردھنیے
" یہ معاویہ، یہ عمرو بن العاص، یہ ابن ابی معیط اور حبیب بن مسلمہ اور یہ ابن ابی سرح اور ضحاک بن قیس نہ اصحاب دین ہیں نہ اصحاب قرآن ، میں انہیں تم سے ذیادہ جانتا ہوں، بچپن سے ان کا میرا ساتھ رہا ہے، یہ بدترین بچے تھے اور بدترین مرد ہیں، انہوں نے قرآن بلند کرنے کی یہ حرکت محض دھوکہ دینے کے لیے کی ہے ، خود انہیں قرآن سے کچھ تعلق نہیں ہے"۔
کیا اس پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ داماد رسول حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان جلیل القدر اصحاب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن ابی معیط رضی اللہ عنہ حضرت حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ اور حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتنی بازاری زبان استعمال کی ہو ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اعتماد یافتہ صحابیوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ دین وایمان سے خارج گردان سکتے تھے ؟ بدترین بچے اور بدترین مرد کون ہیں ؟ وہ کاتب وحی حضرت معاویہ رضی اللہ جن کے لیے حضور نے ھادی ومہدی کی دعا کی ، وہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جنکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے غزوہ ذات السلاسل کا کمانڈر مقر ر فرمایا اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ جیسے اجلہ صحابہ کو انکی ماتحتی میں جہاد کرنے کے لیے بھیجا اور اپنی وفات تک انہیں عمان کا والی مقرر کیے رکھا ؟ کیا یہ اپنے مقصد کے لیے قرآن شہید کر ان کے اوراق نیزوں پر بلند کراسکتے ہیں؟، کیا ان کے ساتھ پانچ سو لوگ اور صحابہ قرآن کی اس طرح بے حرمتی کرسکتے ہیں اور پھر خود حضرت علی رضی اللہ عنہ قرآن کے نیزوں پر بلند ہونے کے بعد بھی ایسی جنگ جاری رکھنے کے لیے تقریر کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں قرآن کا لوگوں کے پاؤں تلے روندھے جانے کا خدشہ ہو ؟ 

غور فرمائیں کہ یہ سبائی دروغ گو راوی صحابہ و اہلبیت کے کردار کو مجروع کرنے کے لیے کس حد تک گئے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ بھی ایک ایسی تقریر لگادی جو بالکل ان کے شایان شان نہیں۔ اور پھر حیرت ہے ان سنی مورخین پر جنہوں نے بغیر تحقیق کے ان کہانیوں کو اسلامی تاریخ کے نام پر اپنی کتابوں میں ذکر کردیا ۔ مزید حضرت علی رضی اللہ عنہ کیسے حضرت معاویہ کے خلاف یہ زبان درازی کرسکتے ہیں حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ خودلوگوں کو اس سے روکتے تھے ۔
"جنگ صفین کے سلسلے میں جو لوگ حضرت معاویہ کے متعلق زبان درازی کرتے تھے، تو آپ نے انہیں اس سے روک دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ امارت معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا نہ سمجھو، کیونکہ وہ جس وقت نہ ہوں گے تو تم سروں کو گردنوں سے اڑتے ہوئے دیکھو گے ۔
( تاریخ ابن کثیر جلد8 صفحہ 131)
حقیقت میں جنگ صفین کو ختم کروا کر ثالثی کے ذریعے مستقل جنگ بندی کروادینا ہی حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کا وہ کارنامہ تھا جس نے سبائیوں کی مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے کی جانے والی ساری محنتوں اور تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ، اس لیے انہوں نے انہی واقعات کو لے کر انکی کردار کشی کی مہم چلائی ۔

افسوس یہ ہے کہ ابو مخنف کے بیانات کو تاریخ طبری کے صفحات میں دیکھ کر بلا تحقیق اسے نقل کرنے والوں نے سبائیوں کے ہاتھ اتنے مضبوط کردیئے ہیں کہ آج یہ روایتیں ہماری ایف اے ، بی اے، ایم اے کی تاریخ اسلام کی درسی کتابوں میں بھی بغیر کسی تحقیق و تبصرہ کے اسی طر ح نقل ہوتی آرہی ہیں اور امت کا ایک اچھا خاصہ طبقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعمد صحابہ حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابو موسی اشعری رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے سوء ظنی کا شکار ہے۔

اوپر تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ ساری داستانیں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ کے کردار کو مجروح کرنے کے لیے وضع کی گئیں ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ہماری اس تفصیل کا مطلب یہ نہیں کہ صحابہ میں اختلاف ہو ا ہی نہیں یا ان سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی ، ہم اس بات کے قائل ہیں کہ صحابہ معصوم عن الخطا نہیں ہیں ، بعض احادیث میں بھی انکے اختلاف اور غلطیوں کا ذکر ہے ، ہمارا اختلاف ان تاریخی روایات پر ہے جن میں تمام صحابہ پر کرپشن، اقربا پروری، منافقت، سیاسی جوڑ توڑ اور کھینچا تانی کے الزامات ہیں۔ قرآن و حدیث تمام صحابہ کے عادل ہونے پر شاہد ہیں ہی ، تاریخ سے بھی سیکڑوں مثالیں دیں جاسکتیں ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کا اختلاف شرعیت کے مطابق ہوتا تھا اور ان کا دامن ان گالیوں اور غیر اخلاقی زبان کے استعمال سے پاک ہوتا تھاجو انکے اختلاف کے واقعات میں سبائیوں راویوں کی ان روایتوں میں ان کے ذمہ تھونپی گئی ہیں۔ 
صحابہ اختلاف کے اصولوں جو انہیں دین نے سکھائے تھے' کے پوری طرح پابند تھے انکے اختلاف میں بھی امت کے لیے نمونہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی اور معاویہ کے درمیان قاتلان عثمان کے مسئلہ پر اختلاف کے باوجود ادب و احترام کا تعلق تھا ،چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ دینی مسئلے پر فتوی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی لیتے تھے ۔ مزید شیعہ کی اپنی کتابیں گواہ ہیں کہ حضرت علی، حسن اور حسین رضی اللہ عنہ ، حضر ت عبداللہ بن عباس رضی اللہ حضرت معاویہ کا احترام کرتے اور انکے اختلاف کو دینی اختلاف سمجھتے تھے۔ مضمون کی طوالت کے ڈر سے ہم صرف علی رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ شیعہ کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام شہریوں کی طرف گشتی مراسلہ جاری کیا کہ صفین میں ہمارے اور اہل شام کے درمیان جو جنگ ہوئی اس سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو، ہمارا رب، نبی اوردعوت ایک ہے ۔ ہم شامیوں کے مقابلے میں اللہ و رسول پر ایمان و یقین میں ذیادہ نہیں اور نہ وہ ہم سے ذیادہ ہیں ۔ ہمارا اختلاف صرف قتل عثمان میں ہے ۔
( نہج البلاغہ جلد2، صفحہ 114)
اللھم ثبت قلبی علی دینک
مکمل تحریر >>

Saturday 11 October 2014

تاریخ اسلام میں صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پر ایک تحقیق - حصہ سوئم

ثالثوں کی شخصیت
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ :۔
واقعہ تحکیم کی بنیاد پر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ پر دو بہتان لگائے جاتے ہیں کہ اول یہ کہ آپ نہایت مغفل، بیوقوف اور سفینہ قسم کے آدمی تھے ، اس لیے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ آپ کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوگئے ، دوئم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ پر پہلے سے ہی اعتماد نہیں تھا وہ کسی اور کو ثالث بنانا چاہتے تھے۔
یہ دونوں باتیں حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کے زندگی کے ریکارڈ کے خلاف ہیں حقیقت میں آپ وہ شخص تھے جنکی زیرکی ودانائی، تدبر وسیاست، فہم فراست اور فقہ و دیانت داری پر نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ بعد کے سارے خلفا ئے راشدین نے بھرپور اعتماد کرتے ہوئے ان کو اہم علمی ، سیاسی عہدوں کی ذمہ داری دی تھی ، (انکی تفصیلات تاریخ اور انکی زندگی پر لکھی گئی کسی کتاب میں پڑھی جاسکتی ہے)۔ پھر حضرت ابو موسی سے منسوب کوئی ایسا جھوٹا واقعہ بھی کسی تاریخی کتاب تک میں تحکیم سے پہلے کا نہیں ملتا جس سے انکی سفاہت پر کچھ روشنی پڑتی ہو بلکہ اس کے برعکس ان کے عبقری صفت ہونے کے ایسے حالات ملتے ہیں جن سے ان کے صحابہ میں امتیازی مقام کا پتا چلتا ہے۔ پھر اچانک ان کی بے عقلی اور سفاہت کی باتیں اور ان پر یہ بے اعتمادی کیسے سامنے آگئی ۔ ؟

سچائی یہ ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے ثالثوں کی دستاویز وں میں درج شرائط کی پوری پابندی کرتے ہوئے کتاب وسنت کی ہدایت میں جنگ صفین کے اسباب کا پتا لگایا اور فریقین کے موقف کی خوبیوں و خامیوں کا جائزہ لیا اور پوری غیر جانبداری کے ساتھ غوروخوض کرنے ، نیز استصواب رائے کےبعد انہوں نے جو فیصلہ دیا وہ فیصلہ نہ صرف فریقین بلکہ بلا اختلاف تمام مسلمانوں نے تسلیم کیا ، فیصلہ کی تحریر کا متن تو سبائیوں کی ہاتھ کی صفائی کی وجہ سے تاریخ میں نہ آسکا ، لیکن فیصلہ کی برکات کو سبائی چھپانے پر قدرت نہیں رکھتے تھے . فیصلہ کے بعد نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی جنگ ہوئی اور نہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے خون عثمان کے قصاص کا مطالبہ ہوا اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے انہیں شام کی گورنری سے معزولی کے لیے اصرار ہوا ۔ اس فتنہ کا پوری طرح سدباب ہوگیا جس کے لیے ثالثوں کا تقرر ہوا تھا۔

اس شاندار کامیابی کے ہوتے بھلا حضرت ابو موسی کیوں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منہ چھپا کر مکہ جاتے ؟ بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ حضرت ابو موسی کی یہ بے لوث و مخلصانہ خدمت اور انکی شاندار کامیابی انکی نسلوں تک کیلئے سرمایہ افتخار بنی رہی ، چنانچہ مشہور شاعر ذی الرمہ نے ان کے پوتے حضرت بلال بن برید بن ابی موسی رضی اللہ عنہ کی شان میں قصیدہ کہتے ہوئے اس شاندارکارنامہ کا ذکر اس طرح کیا ہے۔

ابوک تلافی الدین و الناس بعد ما
تشاءوا و بیت الدین منقطع الکسر
ترجمہ ؛ آپ کے باپ تو وہ تھے جنہوں نے دین اور اہل دین کی اس وقت شیرازہ بندی کی جب دین کا قصر گرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
فشداصارالدین ایام اذرح
وردحروباقد لقحن الی عقرٖ
انہوں نے اذرح والے دنوں میں دین کے خیمہ کی طنابیں کس دیں اور ان جنگوں کو روک دیا جو اسلام کی نسل منقطع کرنے کا سبب بن رہی تھیں۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ :۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی ، اسلام کے مایہ ناز جرنیل فاتح مصر اور 'دہاۃ عرب' میں شمار ہونے والے حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ بھی سبائیوں کی دو طرفہ سازشوں سے تاریخ کی مظلوم شخصیتوں میں شامل ہوگئے۔ جب خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کی گورنری سے معزول کرکے انکی جگہ حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تو انکے اس فیصلہ پر عمرو رضی اللہ عنہ کی ناراضگی کولے کر خلیفہ ثالث پر اقرباپروری کا الزام لگانے کے لیے سبائیوں نے ان ( حضرت عمرو) کے خوب خوب فضائل بیان کیے، جب یہی عمرو مسلمانوں کے اختلاف سے پریشان ہو کر افہام تفہیم اور اصلاح کے لیے حضر ت معاویہ کے پاس شام گئے اور انکے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان مصالحت کے ذریعے سبائی قاتلان عثمان سے قصاص لینے کے لیے راہیں ہموار کرنے کرنے لگئے تو یہی سبائی ان کے دشمن بن گئے ان پر ناصرف میدان جنگ میں قرآن نیزوں پر بلند کرانے ، ثالثی کے فیصلے میں عیاری دکھلانے وغیرہ جیسے بڑے الزام لگا دیے بلکہ ان کواپنی روایتوں میں دوسروں کی زبان سے خوب گالیاں بھی دلوائیں۔ غرضیکہ وہی شخصیت جسے عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہمہ صفات موصوف قرار دیا گیا اسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلاف میں ہمہ عیوب قرار دیدیا گیا۔ یہ ہے سبائیت کا دوہرا معیار جسے صحیح تاریخی اسلام قرار دیکر جلیل القدر اصحاب رسول کی کردار کشی کی جارہی ہے۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ پر ثالثی کے فیصلہ میں عیاری دکھلانے کے الزام کی حقیقت اوپر تحکیم اور حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں بیان کی جاچکی ہے کہ اس فیصلہ کی دی گئی تفصیلات سب گھڑی ہوئی ہیں۔
آپ پر سب سے بڑے اعتراض کا سبب ابو مخنف کی وہ روایت ہو جس میں بتایا گیا ہے کہ آپ کے مشورہ کے مطابق ایک جنگی چال کے طور پر جنگ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لشکر سے قرآن کو نیزوں پر بلند کروایا تاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں پھوٹ پڑ جائے ۔ ابو مخنف کی اس روایت کو لے کر رافضیوں اور نام نہاد سنیوں نے عمرو رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنے دل کی کالک سےکئی کئی صفحے کالے کیے ہیں۔حالانکہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ ابن کثیر میں اس روایت کے ساتھ اسی واقعہ کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بھی ایک باسند روایت نقل کی ہے، ان ناقدین اصحاب کواس سبائی کی روایت تو نظر آگئی اسی صفحہ پر یہ روایت نظر نہیں آئی جسے ایک صحابی روایت کررہے ہیں۔
" حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم صفین میں تھے تو جب اہل شام کے ساتھ جنگ خوب زور پکڑ گئی ، شامی ایک ٹیلے پر چڑھ گئے ، پھر حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کی طرف قرآن بھیج کر ان کو کتاب اللہ کی طرف دعوت دیں، وہ ہرگز انکار نہ کریں گے، تب قرآن لیکر ایک آدمی معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے آیا پھر اس نے کہا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان یہ اللہ کی کتاب فیصلہ کرنے والی ہے تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں میں تو اس کا ذیادہ حقدار ہوں ، ٹھیک ہے ہمارے اور تمہارے درمیان یہ کتاب اللہ ہے جو فیصلہ کرے "۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جنگ صفین میں شرکت کرنے والے صحابی حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ عمر و بن العاص رضی اللہ کے مشورے سے نہ تو قرآن کو نیزوں پر بلند کرکے بے حرمتی کی گئی ، نہ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تفرقہ پھیلانے کے لیے اور شکست سے بچنے کے لیے یہ ایک جنگی چال تھی ۔ حضرت عمر و رضی اللہ عنہ کو اس بات کا احساس تھا کہ سبائیوں اور قاتلان عثمان نے اپنی جان بچانے کے لیے یہ جنگ ایک چال کے طور پر مسلمانوں کے درمیان شروع کروا دی ہے جس سے دونوں طرف مسلمان شہید ہورہے ہیں ، انہوں نے مسلمانوں کو اس بڑے جانی نقصان سے بچانے کے لیے یہ مخلصانہ کوشش کی اور ایک آدمی کو قرآن دے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج کر ان کو یہ پیش کش کی ہم اس فتنہ میں قرآن کو اپنا حکم بنا لیں اور اسی کے مطابق فیصلہ کرلیں، جسے علی رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر منظور کرلیا کہ میں تو قرآن کے فیصلہ کی طرف دعوت دینے اور اس پر عمل کرنے کا ذیادہ حقدار ہوں ، چنانچہ بعد میں اسی مشورہ کے مطابق واقعہ تحکیم ہوا اور اللہ نے مسلمانوں کو حضرت عمرہ بن العاص رضی اللہ عنہ کے ذریعے ایک بڑے جانی نقصان اور فتنہ سے بچا لیا۔
غور کریں کہ اس واضح اور ایک صحابی کی مستند روایت کی تاریخ ابن کثیر میں موجودگی کے باوجود کس طرح ابو مخنف سبائی کی اس داستان کا انتخاب کرکے گرما گرم سرخیوں کے ساتھ اسلامی تاریخی کتابوں میں پیش کیا گیا ہے۔
مکمل تحریر >>

تاریخ اسلام میں صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پر ایک تحقیق - حصہ دوئم

روایات میں فیصلے کے متعلق پیش کی گئی تفصیلات کے وضا حت طلب امور :۔

1. فیصلہ کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ دونوں خلیفہ تھے، پھر حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے دونوں کو معزول کردیا اور عمر و رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو برقرار رکھا،حالانکہ یہ کسی گری پڑی تاریخی روایت سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ سے پہلے یا بعد میں اپنی خلافت کا اعلان کرکے اسکے لیے کسی ایک شخص سے بھی بیعت لی ہو ، اس کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بیعت ہوچکی تھی اور انہیں امیرالمومنین و خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے تسلیم کیا جا چکا تھا، صرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھ اصحابہ نے فی الحال بیعت نہیں کی تھی ، وہ بھی اس لیے نہیں کہ وہ خود خلافت کے مدعی تھے بلکہ اس لیے کہ انکا مطالبہ تھا کہ پہلے قاتلان عثمان غنی سے قصاص لے لیا جائے پھر ہم بیعت کریں گے، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت پر قائم رکھنے اور علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے کی داستانیں کس بنیاد پر ؟
2. تحکیم کی دستاویز میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ ثالثوں کا فیصلہ تحریری ہوگا، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ثالثوں نے محض تقریریں کیں ،اگر فیصلہ تحریری شکل میں نہیں تھا تو فریقین کی طرف سے شریک مجلس چار چار سو اصحاب اور ان کے علاوہ دوسرے غیر جانبدار بزرگ حضرات میں سے کسی نے تحریری فیصلہ کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟ روایت دونوں کا مناظرہ دکھاتی ہے جبکہ یہاں تحریری فیصلہ پڑھ کر سنایا جانا تھا۔
3. اس روایت کے مطابق حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کی (معاذ اللہ) ناسمجھی ، بیوقوفی اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کی چالاکی کے باوجود دونوں کا کوئی متفقہ فیصلہ سامنے نہیں آیا ، نا مجمع نے دونوں کی تقریروں کے بعد متفقہ طور پر کسی کو منتخب کیا ۔ پھر وہ کون سا فیصلہ ہے جس پر حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ کو خلافت کی مبارکباد دی اور حضرت علی رضی اللہ نے اس پر اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اسے رد کیا ؟
4. اس نام نہاد فیصلہ کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ نے اپنی خلافت کی عام بیعت کیوں نہیں لی ؟ کیا انہوں نے بھی فیصلہ کو رد کردیا تھا ؟۔
5. راوی کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے فیصلہ کی علی الاعلان مخالفت اور دونوں ثالثوں کو مجرم گردانے کے بعد شام پر دوبارہ چڑھائی کرنے کی تیاریاں شروع ہوئیں لیکن خارجیوں کے فتنے نے اپنی طرف متوجہ کردیا۔پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس کمزوری سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فاعدہ اٹھا کر کوفہ پر چڑھائی کیوں نہ کی، اگر وہ خلافت چاہتے تھے تو یہ تو علی رضی اللہ عنہ کو راستے سے ہٹانے کا بہترین موقع تھا، اس ناکام فیصلہ کے بعد جنگ بندی مستقل کیسے ہوگئی، دوبارہ دونوں میں اختلاف کیوں نہ سامنے آیا ؟
یہ چند امور وضاحت طلب ہیں جو اس وقت تک وضاحت طلب ہی رہیں گے جب تک ان روایتوں کے راوی ابو مخنف لوط بن یحیی کی ان دروغ بافیوں کو صحیح تسلیم کیا جاتا رہے گا ۔

فیصلہ پر ایک نظر :۔
ان وضاحت طلب امور کے علاوہ فیصلہ سے پہلے اور فیصلہ کے بعد کے حالات و واقعات کو بنیاد بنا کر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس واقعہ کے متعلق تاریخی کتابوں میں مذکور ثالثوں کے فیصلے کی یہ تمام تفصیلات قطعا غلط ، گھڑی ہوئی اور محض اصحاب سے بدظن کرنے کی ایک سبائی سازش ہیں۔اصل فیصلہ مجموعی طور پر انتہائی کامیاب اور فریقین کے لیے قابل قبول اور عام مسلمانوں کے بہترین مفاد میں تھا کیونکہ :
1. دونوں ثالث ناصرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ بعد کے بھی سارے خلفائے راشدین اور صحابہ کے قابل اعتماد لوگ تھے اور ان کی فہم فراست، تدبر و سیاست اور فقہ و دیانت کو دیکھتے ہوئے ان کو ہر دور میں بڑی بڑی ذمہ داریاں اور عہدے عطا کیے گئے تھے ۔یہ بات ناممکن تھی کہ وہ صرف اس ایک مسئلہ میں فتنہ کا دروازہ کھولنے والا انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلہ کرتے ۔
2. اگر ثالثوں نے اپنی ذمہ داریوں کو قطعا فراموش کرکے اور خدانخواستہ دین و دیانت کو بالائے طاق رکھ کر یہ غلط فیصلہ دیا ہوتا تو مجلس میں موجود آٹھ سو سے زائد چیدہ و نمائندہ اصحاب کرام رضوان اللہ خاموش تماشائی نہ بنے رہتے۔ ایسا تو آج کے گئے گذرے دور میں بھی نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ عہد صحابہ رضی اللہ میں جہاں منبر پر کھڑے خلیفہ کو دو چادریں پہننے پر پوچھ لیا جاتا تھا کہ سب کو مال غنیمت سے ایک چادر ملی اس نے دو کہاں سے لائیں۔
3. ثالثوں کے تقرر کا مقصد یہی تھا کہ نزاعی مسئلہ ' جنگ کے بجائے امن کے ماحول میں طے ہوجائے اور امت خون خرابہ سے محفوظ ہوجائے، یہ بات واضح ہے کہ ثالثوں کے فیصلہ کے بعد رفتہ رفتہ کشیدگی کم ہوتی گئی اور پھر دوبارہ جنگ کی نوبت نہیں آئی، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ثالثوں کے اصل فیصلے (جس کو تاریخ سے غائب کردیا گیا ) سے فریقین مطمئن ہوگئے تھے۔.
4. مزید ابو مخنف لوط مردود کی ان وضعی داستانوں پر یقین کرنے سے صحابہ کرام جیسی مقدس جماعت کی جو گھناؤنی تصویر ابھرتی ہے وہ تو اپنی جگہ اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ (نعوذ باللہ) وہ بد قسمت انسان تھے جن کا نہ کوئی سچا ہمدرد اور خیرخواہ تھا اور نہ انکی بات کو کوئی تسلیم کرتا تھا اور خود آپ اس قدر کمزور قوت فیصلہ کے مالک تھے کہ ہر دفعہ آپ کو دوسروں کی رائے تسلیم کرنی پڑتی تھی۔آپ ابو موسی کے بجائے مالک بن اشتر کو ثالث بنانا چاہتے تھے لیکن آپکی مرضی نہ چلی ، آپ قرآن کو نیزوں پر اٹھانے کے بعد بھی جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے، آپ نے اس کے لیے جوش آور تقریریں کیں اور دین کا واسطہ دیکر بھی جنگ کا حکم دیا اس کے علاوہ تحکیم کے فیصلہ کے بعد عراق جاکر بھی دوبارہ شام پر چڑھائی کرنے کے لیے اپنے حواریوں کو حکم دیا لیکن آپ ایسے کمزور اور مجبور خلیفہ تھے کہ آپ کے واسطے دینے پر بھی کسی نے آپکی بات نہ ما نی۔
نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات الباطلہ۔
مکمل تحریر >>

تاریخ اسلام میں صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پر ایک تحقیق - حصہ اول

گزشتہ  تحاریر میں ہم نے  محققین  کی تحقیق اور اسم و رجال کے حوالہ سے اہم تاریخی کتاب طبری میں موجود دروغ گو اور کذاب راویوں کے بارے میں تحقیق پیش کی . ان کے  ثبوت  میں ہم مشہور اور متنازعہ تاریخی واقعہ جنگ جمل اور  جنگ صفین کے واقعات بیان کرنے والی راوی  ابو مخنف لوط کی  تین مشہور روایات پر تجزیہ   پیش کررہے ہیں، جس سے ناصرف ان واقعات کی حقیقت  سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ  ان راویوں کی مکاری اور طریقہ واردات بھی کھل کر سامنے آجائے گا۔ تحریر نا چاہتے ہوئے بھی  طویل ہوگئی، قارئین کے مزاج کا لحاظ رکھتے ہوئے چار قسطوں میں پیش کی جائے گی
تحریر کے اہم موضوعات:-
جنگ جمل اور صفین کاپس منظر
جنگ صفین کے بعد  تحکیم کا واقعہ
تحکیم کے لیے مقرر کیے گئے ثالثوں کا فیصلہ
فیصلے کے  وضا حت طلب امور
فیصلہ پر ایک نظر
ثالثوں  کی شخصیت پر کیے گئے اعتراضات کا جائزہ
جنگ جمل اور صفین کاپس منظر :۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص لینے کے مسئلے پر امت دو حصوں میں بٹ گئی تھی ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ صحابہ کی جماعت کا یہ موقف تھا کہ ہم علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اس وقت کر یں گے جب تک عثمان رضی اللہ عنہ کے خون ناحق کا قصاص لیا جائے گا ، جب کہ علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ تھا کہ یہ لوگ بیعت کرلیں پھر بعد میں جب حالات سازگار ہوجائیں گے تو قصاص لے لیا جائے گا۔معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھیوں کا موقف یہ تھا کہ چونکہ قاتلین عثمان ہی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت قبول کرنے پر مجبور کرکے سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ملک کے انتظام و تدبیر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تمام فیصلوں میں وہ پوری طرح دخیل ہیں اسی لئے حضرت علی رضی اللہ نہ خون عثمان کا قصاص لے پارہے ہیں اور نہ ہی اس صورتحال کے برقرار رہتے ہوئے وہ قصاص لے سکیں گے ، لہذا فتنہ کے سدباب کی بس یہی صورت ہے کہ یا تو وہ خود قصاص لیکر ان قاتل سبائیوں سے اپنی گلو خلاصی کریں یا پھر ان قاتلوں کو ہمارے حوالہ کردیں تاکہ ہم انکو کیفرکردار تک پہنچا کر پوری ملت اسلامیہ کے زخمی دلوں کو سکون پہنچا سکیں، یہ مطالبات ان بلوائیوں/ سبائیوں/قاتلان عثمان کے لیے انتہائی تباہ کن تھے اس لیے ان کی ریشہ دوانیوں اور کوششوں سے ان دونوں گروہوں میں اختلاف بڑھتے گئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان میں دو جنگیں جنگ جمل اور جنگ صفین ہوگئیں ۔ صفین میں جب جنگ زوروں پر تھی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نےدونوں طرف ہونے والے مسلمانوں کے اس جانی نقصان سے بچنے کے لیے حضرت علی کو قرآن پر مصالحت کی دعوت دی جس کو انہوں نے فورا منظور کرلیا اور دونوں طرف جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔

اس جگہ ہم نے تاریخ کی ان مکذوبہ سبائی تفصیلات کو بیان کرنے سے قصدا گریز کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے اپنی شکست کو قریب دیکھ کر معاویہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے قرآن کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسے نیزوں پر بلند کردیا تاکہ علی کی فوج منتشر ہوجائے اورہم شکست سے بچ جائیں اور یہ کہ علی رضی اللہ عنہ اس جنگ بندی پر راضی نہیں تھے ، باربار اپنی تقریروں (جن میں معاویہ اور مخالف صحابہ کو منافق اور دھوکے باز کہنے اور گالیاں دینے کا ذکر ہے ) کے ذریعے اپنے ساتھیوں کو جنگ جاری رکھنے پر اصرار کرتے اور ابھارتےرہے ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی اپنی جماعت کے سامنے ایک نہ چلی اور آخر بادل نخواستہ تحکیم پر رضا مند ہوئے۔ ان روایات میں راویوں کا جھوٹ اور بہتان کئی باتوں سے ظاہر ہے، 
یہ روایات اور آگے جن روایات کا ذکر آئے گا یہ تاریخ طبری اردو ایڈیشن دارالاشاعت کراچی جلد تین صفحہ 620تا650 پر دیکهی جا سکتی ہیں. . تفصیل ان روایات پر تبصرہ میں بهی آگے آئے گی۔

جنگ صفین کے بعد تحکیم کا واقعہ:-
جنگ بندی کے بعد تحکیم ہوئی یعنی کتاب اللہ کے حکم کےمطابق حضرت علی رضی اللہ کی طرف سے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ثالث مقرر ہوئے کہ یہ دونوں کتاب وسنت کے مطابق نزاعی معاملہ کا جو فیصلہ کریں گے وہ فریقین کے لئے قابل قبول ہوگا۔اس فیصلہ کی شرائط کے متعلق جو ابتدائی دستاویز تیار ہوئیں وہ تاریخ کی سب بڑی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ہم طوالت سے بچنے کے لیے اس کے بنیادی نکات کو بیان کرتے ہیں۔
1. حضرت علی رضی اللہ اور انکے تمام ساتھیوں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے تمام ساتھیوں کو مساویہ طور پر اہل ایمان تسلیم کیا گیا۔
2. دونوں ثالثوں کی عدالت اور انصاف پر فریقین نے اپنے کامل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ ایسا فیصلہ کریں جس سے یہ عارضی جنگ بندی مستقل اور پائیدار امن کی صورت اختیار کرے اور دوبارہ اختلاف و جنگ کی صورت پیدا نہ ہونے پائے۔
3. ثالثوں پر ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ اپنا فیصلہ تحریری طور پر پیش کریں۔
4. شہادت و مشاورت اور دوسرے تمام ضروری مراحل سے گذرنے کے بعد ثالثوں کے فیصلہ سنانے کے لیے رمضان کا مہینہ مقرر کیا گیا۔

ثالثوں کا فیصلہ :۔
یہ معاہدہ چونکہ خیر القرون میں نبی کامل کے تربیت یافتہ جید اصحاب کی ان دو جماعتوں کے درمیان ہوا تھا جن سے پاکیزہ اور لائق تقلید انسانی گروہ کا روئے زمین پر تصور نہیں کیا جاسکتا ، اس لیے اس تحکیم کے لیے جس طرح کی بہترین شرائط رکھی گئی تھیں فیصلہ بھی انہی کے مطابق آنا یقینی تھا ۔ جبکہ تاریخی روایتوں میں یہاں بات کو بڑے طریقے سے ایک الگ رخ پر موڑ کر فتنہ کا دروازہ کھول دیا گیا،۔تاریخ اس فیصلہ کی تفصیلات میں ان سبائی راویوں کی روایتوں کی بنیاد پر کچھ اور ہی کہانیاں سناتی ہے ۔ معاہدہ کی شرائط پرغور کیجیے ان میں کن باتون کو اہمیت دی گئی اور تاریخ فیصلہ کیا بتاتی ہے ۔ جنگیں اور پھرمعاہدہ قاتلان عثمان سے قصاص کےمتعلق ہوا اور تاریخ میں یہ سبائی روای انتہائی مکاری سے فیصلہ میں بالکل الٹ خلافت کا تنازعہ بتاتے ہیں اور پھراپنے غیظ القلب کی تسکین کے لیے اصحاب کا ایک دوسرے کو گالیاں دینا، برا بھلا کہنا بتلاتے ہیں ۔ تاریخ طبری، ان اثیر اور ابن خلدون وغیرہ نے فیصلہ کی جو تفصیلات دیں انکا خلاصہ یہ ہے۔
"دونوں ثالث مجمع میں آئےجہاں دونوں طرف چار چار سو اصحاب کرام رضوان اللہ اور ان کے علاوہ کچھ غیر جانبدار جید صحابہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ موجود تھے۔حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم دونوں اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ ہم علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کو خلافت سے معزول کرلیں، پھر لوگ باہمی مشورہ سے جس کو پسند کریں خلیفہ کی حیثیت سے منتخب کرلیں، لہذا میں علی اور معاویہ دونوں کو معزول کرکے معاملہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں دیتا ہوں کہ اب آپ جسے چاہیں اپنا نیا امیر بنالیں، اس کے بعد حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ جو کچھ میرے ساتھی نے ابھی کہا اسے آپ لوگوں نے سن لیا کہ انہوں نے اپنے آدمی علی رضی اللہ کو معزول کردیا میں بھی انکی طرح علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرتا ہوں اور اپنے آدمی معاویہ رضی اللہ کو خلاف پر قائم رکھتا ہوں۔ یہ سنکر حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو سے کہا تم نے یہ کیا کیا ؟ خدا تمہیں توفیق نہ دے ، تم نے تو ہمیں دھوکہ دیا ہے اور گنہگار بنے ، تمہاری مثال تو اس کتے کی ہے جس پر بوجھ لادو تو بھی ہانپے ، اس کے جواب میں حضرت عمرو نے کہا کہ تمہاری مثال اس گدھے کی ہے جو بوجھ ڈھوئے پھرتا ہے۔ دوسرے صحابہ نے حضرت ابوموسی کو طعنے دینے شروع کیے ۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ نے کہا کہ ابو موسی تمہارے حال پر افسوس ہے کہ تم عمرو کی چالوں کے مقابلے میں بہت کمزور نکلے، حضرت عبد الرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابو موسی اگر اس سے پہلے مر گئے ہوتے تو ان کے حق میں ذیادہ اچھا ہوتا "۔ پھر حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ مجمع سے اٹھ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انکو خلافت کی مبارکباد پیش کی ، دوسری طرف حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ اتنے شرمندہ تھے کہ وہ پھر حضرت علی رضی کو منہ بھی نہ دکھا سکے اور سیدھے مکہ چلے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ پہنچ کر اپنی تقریروں میں مخالف صحابہ کو برا بھلا کہا اور دوبارہ جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ لیکن ان کے لوگوں نے انکا ساتھ نہ دیااور خوارج کے فتنے نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے مزید ایک درد سر پیدا کردیا تھا۔
مکمل تحریر >>

تاریخ طبری - محقق علماء کی آراء

علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر کی رائے :-
علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمھما اللہ نے طبری کی توثیق کرنے کے ساتھ ساتھ دبے لفظوں میں ان کے تشیع کی طرف میلان کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:” ثِقَةٌ صَادِقٌ فِیْہ تَشَیُّعٌ یَسِیْرٌ وَ مُوَالَاةٌ لَاتَضُرُّ“․(1 )
شاید ان دونوں حضرات کے کلام کامقصد یہ تھا کہ چوں کہ علامہ طبری نے اپنی تاریخ میں ایسی روایات بغیر نقد و کلام کے نقل کی ہیں،جن سے ان کا تشیع کی طرف میلان معلوم ہوتا ہے ،لہٰذا اس تصریح کے بعد طبری کی وہ تمام روایات جن سے اہلِ تشیع کے مخصوص افکار کی تائید ہوتی ہے وہ غیر معتبر قرار پائیں گی۔

عصر حاضر کے اک محقق مولانا محمد نافع صاحب کا تبصرہ:-
تاریخ طبری میں منقول معتضد با للہ عباسی کا رسالہ جسے موٴرخ طبری نے ۲۸۴ھ کے تحت بلا کسی نقد و تحقیق و تمحیص اور کلام کے نقل کیا ہے، جس میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں حضرات کے خلاف سب و شتم اور لعن طعن کرنے کے جواز میں مواد فراہم کیا اور اس میں موجباتِ لعن و طعن درج کیے ہیں،اس رسالہ پر تنقید کرتے ہوئے ”الطبری کی حکمتِ عملی“ کے تحت مولانا محمد نافع نے” فوائدِنافعہ “میں جو کچھ فرمایا وہ من و عن پیش خدمت ہے:
”غور طلب بات یہ ہے کہ صاحب التاریخ محمد ابن جریر الطبری کے لیے عباسیوں کے اس فراہم کردہ غلیظ مواد کو من و عن نقل کے لیے اپنی تصنیف میں شامل کرنے کا کون سا داعیہ تھا؟اور اس نے کون سی مجبوری کی بنا پر یہ کارِ خیرانجام دیا؟ گو یا الطبری نے اس مواد کو اپنی تاریخ میں درج کر کے آنے والے لوگوں کو اس پر آگاہ کیا اور سب وشتم اور لعن طعن کے جو دلائل عباسیوں نے مرتب کروائے تھے، ان پر آئندہ نسلوں کو مطلع کرنے کا ثواب کمایا؟چناں چہ شیعہ اور روافض رسالہٴ مذکورہ میں مندرجہ مواد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی کتب میں ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر مطاعن قائم کرتے ہیں اور شدید اعتراضات پیدا کرتے ہیں۔(2)

مولانا مہرمحمد صاحب کی رائے
ابن جریر طبری کا مذہب ،اس عنوان کے تحت مولانا مہرمحمد صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ وہی امام طبری المتوفی ۳۱۰ھ ہیں جنہیں اہلِ بغداد نے تشیع سے متہم کر کے اپنے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا تھا(3)،گو شیعہ نہیں ہیں؛ تاہم اپنی تاریخ یا تفسیر میں ایسی کچی پکی روایات خوب نقل کر دیتے ہیں جو شیعہ کی موضوع یا مشہور کی ہوئی ہوتی ہیں۔ (4 )

عرب علماء کی رائے:-
معاصر عرب اہل علم حضرات میں سے ڈاکٹر خالد علال کبیر صاحب (5)نے اپنی کتاب ”مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ“ میں موٴرخ طبری کے اس مخصوص طرزِ عمل کے بارے میں لکھا ہے کہ 
"میرے نزدیک انھوں نے یہ (یعنی تحقیق و تمحیص کے بغیر صرف اسانید کے ساتھ روایات کو نقل کر کے) ایک ناقص کام کیا ہے، اور ان تمام روایات کے وہ خود ذمہ دار ہیں جو انہوں نے اپنی تاریخ میں مدون کی ہیں،پس انہوں نے عمداً دروغ گو راویوں سے بہ کثرت روایات نقل کیں اور ان پر سکوت اختیار کیا، 
یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے جو بعد میں آنے والی بہت ساری نسلوں کی گمراہی کا سبب بنا، انھیں (طبری) چاہیے تھا کہ وہ ان دروغ گو رایوں کا بغیر ضرورت کے تذکرہ نہ کرتے، یا ان پر نقد کرتے اور ان کی روایات کی جانچ پڑتال کرتے، صرف ان کی اسانید کے ذکر پر اکتفا کر کے سکوت اختیار نہ کرتے۔ 
نقدِ روایات اس لیے ضروری تھا کہ تاریخِ طبری کا مطالعہ کرنے والوں میں غالب اکثریت ان لوگوں کی ہے جن میں اتنی علمی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ان روایات پر سند و متن کے اعتبار سے نقد کرسکیں،اگر اس سے استفادہ کرنے والے صرف حدیث، تاریخ و دیگر علوم میں متبحر ہوتے تو یہ طے شدہ بات تھی کہ وہ نقد و تمحیص کا عمل انجام دیتے۔ (6)

ڈاکٹر صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں کہ
" اس معاملہ کو اس سے بھی زیادہ سنگین اس بات نے کردیا کہ طبری کے بعد آنے والے اکثر موٴرخین نے قرونِ ثلاثہ کے بارے میں ان سے بہ کثرت روایات نقل کی ہیں ، جیسا کہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ”المنتظم“‘ میں، ابن الاثیر نے ”الکامل“ میں اور ابن کثیر نے ”البدایہ“ میں بغیر سند کے نقل کیا ہے، اور ان حضرات کا اس طرح بغیر سند کے روایات نقل کرنے سے ثقہ اور دروغ گو راویوں کی روایات خلط ملط ہوگئیں ہیں، بسا اوقات تاریخ طبری کی طرف مراجعت کے بغیر ان روایات میں تمیز مستحیل ہوجاتی ہے۔(7)


خود علامہ طبری کا اپنی تاریخ کے مقدمہ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں بغیر نقدو تمحیص کے مختلف فرقوں اور گروہوں کے راویوں کی روایات کو ان کی اسانید کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ہم قارئین کے اطمینان قلبی کی خاطر علامہ طبری کی وہ پوری عربی عبارت پیش خدمت ہے، جس میں انہوں نے محض سند کے ساتھ بغیر نقد و تمحیص کے روایات ذکر کرنے کا اعتراف کیا ہے:

”فَمَا یَکُنْ فِيْ کِتَابِيْ ھَذا مِنْ خَبَرٍ ذَکَرْناہ عن بَعْضِ الماضِیْنَ مِمَّا یَسْتَنْکِرُہ قَارِیہِ، أو یَسْتَشْنَعُہ سَامِعُہ، مِنْ أَجَلِ أنَّہ لَمْ یَعْرِفْ لَہ وَجْھاً فِي الصِّحَّةِ، وَلاَ مَعْنًی فِي الْحَقِیْقَةِ، فَلِیُعْلَمْ أنَّہ لَمْ یُوٴْتِ فِيْ ذٰلِکَ مِنْ قَبْلِنَا، وَ إنَّمَا مِنْ قِبَلِ بَعْضِ نَاقِلِیْہِ إِلَیْنَا، وَأنّا إنَّما أدَّیْنَا ذلِکَ عَلی نَحْوِمَا أُدِّيَ إلَیْنَا“․(۲۷)

! کیا صرف سند کے ساتھ رطب و یابس، غث و سمین اور ثقہ و غیر معتبر ہر طرح کی روایات کا نقل محض کسی بھی ثقہ مصنف کے لیے معقول عذر بن سکتا ہے؟ کیا اس بنیاد پر ثقہ مصنف کی نقل کردہ ہر روایت کو قبول کیا جاسکتا ہے. ؟

حواشی :-
(1) میزان الاعتدال :۳/۴۹۹،لسان المیزان :۵/۱۰۰
(2) فوائدنافعہ:۱/۵۷۔۵۸،دار الکتاب لاہور
(3 ) معجم الأدباء :۶/۵۱۴
(4) ہزار سوال کا جواب ،ص:۷۹،مرحبا اکیڈمی
(5 ) موصوف نے جامعة الجزائر سے تاریخ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے۔
(6) مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ: ۱/۶۷، ۶۸
(7 ) حوالہٴ سابق
مکمل تحریر >>

تاریخ طبری - دروغ گو اور ثقہ راویوں کی روایات کا اجمالی خاکہ

علامہ ابن جریر بن یزید طبری بہت بڑے اور بلند مرتبہ کے عالم تھے، خاص کر قرونِ ثلاثہ کی تاریخ کے حوالہ سے ان کا نام اور کتاب کسی تعارف کے محتاج نہیں ،قدیم و جدید تمام موٴرخین نے ان سے استفادہ کیا. ان ساری خصوصیات کے باوجود تاریخ طبری میں جگہ جگہ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق ایسی بے بنیاد اور جھوٹی روایات مروی ہیں، جن کی کوئی معقول و مناسب توجیہ نہیں کی جاسکتی ہے ،جب کہ عدالتِ صحابہٴ کرام پرموجود قطعی نصوص قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے پیش نظر منصف مزاج اہل علم امام طبری اور خاص کر ان کی تاریخ میں مروی اس طرح کی روایات پر کلام کرنے پہ مجبور ہوئے ہیں، روایات پر کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ تاریخ طبری میں بڑے بڑے دروغ گو ، کذّاب اور متہم بالکذب راویوں کی روایات بھی جگہ جگہ موجود ہیں، 

تاریخ طبری کی روایات کا ایک جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹرخالد علال کبیر صاحب نے تاریخ طبری میں موجود ثقہ و غیر ثقہ راویوں کی روایات کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ہے؛ انہوں نے تاریخِ طبری میں اس کے بارہ (۱۲) مرکزی رواة کی روایات کا جائزہ لیااور ان میں سے سات راوی کذّاب یا متہم بالکذب ہیں اور پانچ ثقہ ہیں۔

دروغ گواور متہم بالکذب راویوں کی روایات کا اجمالی خاکہ :
محمد بن سائب کلبی کی بارہ (۱۲) روایات،
حشام بن محمد کلبی کی پچپن (۵۵) روایات ،
محمد بن عمر کی چار سو چالیس (۴۴۰)روایات ،
سیف بن عمر تمیمی کی سات سو (۷۰۰)روایات ،
ابو مخنف لوط بن یحی ٰ کی چھ سو بارہ (۶۱۲)روایات،
ہیثم بن عدی کی سولہ(۱۶) روایات،
محمد بن اسحاق بن سیار (یسار)(۲۵) کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ہیں،
ان سب کی روایات کا مجموعہ جن کو موٴرخ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے وہ انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) ہے۔

ثقہ راویوں کی روایات کا اجمالی خاکہ :-
زبیر بن بکار کی آٹھ(۸)روایات ،
محمد بن سعد کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ،
موسی بن عقبہ کی سات(۷)روایات ،
خلیفہ بن خیاط کی ایک(۱) روایت ،
وھب بن منبہ کی چھیالیس (۴۶)روایات ہیں۔
تاریخ طبری کے ان پانچ ثقہ راویوں کی روایات کا مجموعہ دو سو نو(۲۰۹) ہے۔

گویا تاریخ طبری میں دو سو نو( ۲۰۹)ثقہ روایات کے مقابلہ میں ان سات دروغ گو اور متہم بالکذب راویوں کی انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) روایات ہیں، ان دونوں کے تناسب سے اندازہ لگاجاسکتا ہے کہ تاریخ طبری جیسی قدیم اور مستند سمجھی جانے والی کتاب کا جب یہ حال ہے تو تاریخ کی باقی کتابوں کا کیا حال ہوگا۔(
( تفصیل کے لیے دیکھیے : مدرسة الکذابین فی روایة التاریخ الإسلامي و تدوینیہ، ص:۴۵۔۴۷،دار البلاغ الجزائر)
اس تفصیل سے ساری تاریخ کی تغلیط بالکل  مقصد نہیں  اور نہ ھی اس کی ضرورت ھے. طبری میں ان راویوں کی  صرف وہ روایات جن میں طنز و تنقید صحابہ پر ہے اور مصنف کی بات کو ماننے سے صحابہ کرام پر اور انکے متعقل قرآن و حدیث کی گواہی پر حرف آتا ہے، ان روایات  اور انکے راویوں  کی شناخت کے لیے لیے ایک خاکہ بیان کیا گیا ہے۔ اس پر تحقیق اگلی تحریر میں پیش کی جائیگی کہ یہ روایات کس قدر تعصب پر مبنی اور جھوٹی ہیں۔
مکمل تحریر >>

تاریخ طبری - مصادر

ابن جریر نے اپنی تاریخ کی ابتدا حدوثِ زمانہ کے ذکر ، اول تخلیق یعنی قلم و دیگر مخلوقات کے تذکرہ سے کی، پھر اس کے بعد آدم علیہ السلام اور دیگر انبیاء و رسل کے اخبار و حالات کو تورات میں انبیاء کی مذکورہ ترتیب کے مطابق بیان کیا؛ یہاں تک کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک تمام اقوام اور ان کے واقعات کو بھی بیان کیا ہے۔اسلامی تاریخ کے حوادث کو ہجرت کے سال سے لے کر ۳۰۲ھ تک مرتب کیا اور ہر سال کے مشہور واقعات و حوادث کو بیان کیا۔اس کے علاوہ اس کتاب میں حدیث ، تفسیر ، لغت ، ادب ، سیرت ، مغازی ، واقعات و شخصیات ، اشعار، خطبات اور معاہدات وغیرہ کو خوبصورت اسلوب میں مناسب تر تیب کے ساتھ ہر روایت کو اس کے راوی اور قائل کی طرف (بغیر نقد و تحقیق کے ) منسوب کیا کہ اس کو کتاب اور فصول کے عنوان سے تقسیم کرکے ان کو علماء کے اقوال سے مزین کیا ہے.

طبری نے اپنی اس تصنیف کے لیے جن مصادر کا انتخاب کیا وہ یہ ہیں
:(۱) تفسیر مجاہد اور عکرمہ وغیرہ سے نقل کی
،(۲)سیرت ابان بن عثمان ، عروہ بن زبیر ، شرجیل بن سعد ، موسی بن عقبہ اور ابن اسحاق سے نقل کی
،(۳)ارتداد اور فتوحاتِ بلاد کے واقعات سیف بن عمر اسدی سے نقل کیے، 
(۴)جنگ جمل اور صفین کے واقعات ابو مخنف اور مدائنی سے نقل کیے،
(۵) بنو امیہ کی تاریخ عوانہ بن حکم سے نقل کی
،(۶)بنو عباس کے حالات احمد بن ابو خیثمہ کی کتابوں سے لکھے
، (۷)اسلام سے قبل عربوں کے حلات عبید بن شریة الجر ھمی ، محمد بن کعب قرظی اور وھب بن منبہ سے لیے
،(۸)اہل فارس کے حالات فارسی کتابوں کے عربی ترجموں سے لیے،
(۹)پوری کتاب میں مصنف کا اسلوب یہ ہے کہ واقعات و حوا دث اور روایات کو ان کی اسناد کے ساتھ بغیر کسی کلام کے ذکر کرتے چلے گئے ہیں
،(۱۰)جن کتابوں اور موٴلفین سے استفادہ کیا ہے تو جگہ جگہ ان کے ناموں کی صراحت کی ہے
،(۱۱)تاریخِ طبری کے بہت سارے تکملات لکھے گئے اور کئی لوگوں نے اس کا اختصار بھی کیا اور خود طبری نے سب سے پہلے اس کا ذیل لکھا ، بعض حضرات نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا، پھر فارسی سے ترکی زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا۔
مکمل تحریر >>

ابن جریر طبری کا مذہب - ایک غلط فہمی کا ازالہ


تاریخ طبری کے مصنف” ابن جریر طبری “کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سنی شافعی المسلک تھے،طبقاتِ شافعیہ اور دیگر رجال کی کتابوں میں یہی مذکور ہے بعد میں وہ درجہٴ اجتہاد پر فائز ہوگئے تھے اور فقہائے مجتہدین کی طرح ان کا بھی مستقل مکتبِ فقہ وجود میں آگیا تھا جو ایک عرصہ تک قائم رہا ۔(۱) اس موقع پر یہ یاد رہے کہ اسی نام وولدیت سے ایک اور شخص بھی گزرا ہے جو رافضی مذہب سے تھا؛چناں چہ علمائے رجال نے وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم طبری رافضی تھا،اس کی بہت ساری تصانیف بھی ہیں،ان میں سے ایک ”کتاب الرواة عن أہل البیت“ بھی ہے،حافظ سلیمانی رحمہ اللہ کے کلام ”کان یضع للروافض“ کا مصداق بھی یہی شخص ہے۔(2)

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابن جریر طبری (سنی)کے بارے میں(مسح رجلین کے قائل ہونے کاشبہ) اس لیے پیدا ہوا؛ کیوں کہ ابن جریر جو مسح رجلین کا قائل تھا وہ ان کے علاوہ ایک اور شخص ہے جو شیعی تھا،ان دونوں کا نام اور ولدیت ایک جیسی ہے، میں نے اس (ابن جریر شیعی) کی شیعہ مذہب کے اصول و فروع کے بارے میں کتابیں دیکھیں ہیں ۔(3)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ابن جریر کے بارے مسح رجلین کے قائل ہونے کی جو حکایت بیان کی جاتی ہے تو اس سے مراد محمد بن جریر بن رستم رافضی ہے؛ کیوں کہ یہ ان کا مذہب ہے،(نہ کہ اہل سنت کا)۔ (4)چوں کہ دونوں کا نام ولدیت اور کنیت ایک جیسی ہے؛ اس لیے بہت سارے خواص بھی اس سے دھوکہ کھا جاتے ہیں،پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں کے دادا کا نام جدا جدا ہے،سنی ابن جریر کے داد کا نام یزید ہے اور رافضی ابن جریر کے دادا کا نام رستم ہے۔(5)

خود شیعہ مصنّفین اور اصحابِ رجال میں سے بحرالعلوم طباطبائی،ابن الندیم، علی بن داوٴد حلّی، ابو جعفر طوسی،ابو العباس نجاشی اور سیّد خوئی وغیرہ نے ابن جریر بن رستم طبری کا اہلِ تشیع میں سے ہونے کی تصریح کی ہے۔(6) 

بہرحال دونوں ناموں اور ولدیت و کنیت میں تشابہ ہے، اسی تشابہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیعہ علماء نے ابن جریر شیعی کی بہت ساری کتابوں کی نسبت ابن جریرسنی کی طرف کرنے کی کوشش کی ہے؛ چناں چہ ڈاکٹر ناصر بن عبداللہ بن علی قفازی نے ”أصول مذھب الشیعة الإمامیة الإثني عشریة عرض و نقد“ میں لکھا ہے :”روافض نے اس تشابہ کو غنیمت جان کر ابن جریر سنی کی طرف بعض ان کتابوں کی نسبت کی ہے جس سے ان کے مذہب کی تائید ہوتی ہے،جیسا کہ ابن الندیم نے الفہرست،ص:۳۳۵ میں ”کتاب المسترشد في الإمامة“ کی نسبت ابن جریر سنی کی طرف کی ہے؛ حالاں کہ وہ ابن جریر شیعی کی ہے،دیکھیے: طبقات أعلام الشیعة في المائة الرابعة،ص:۲۵۲،ابن شہر آشوب،معالم العلماء، ص:۱۰۶،

آج بھی روافض بعض ان اخبار کی نسبت امام طبری کی طرف کرتے ہیں جن سے ان کے مذہب کی تائید ہوتی ہے؛حالاں کہ وہ اس سے بری ہیں،دیکھیے: الأمیني النجفي، الغدیر: ۱/۲۱۴-۲۱۶۔ 

روافض کے اس طرزِ عمل نے ابن جریر طبری سنی کو ان کی زندگی میں بہت سارے مصائب سے دوچار کیا؛ یہاں تک کہ عوام میں سے بعض لوگوں نے انھیں رفض سے متہم بھی کیا، جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔(دیکھیے:البدایة و النہایة: ۱۱/۱۴۶)

حواشی :
(1) طبقاتِ الشافعیة الکبریٰ:۲/۱۳۵․۱۳۸،تذکرة الحفاظ : ۲/۷۱۶۷۱۰،میزان الاعتدال :۳/۴۹۸، ۴۹۹، لسان المیزان :۵/۱۰۰، ۱۰۳
(2) تذکرة الحفاظ : ۲ / ۷۱۰ ۷۱۶،میزان الاعتدال :۳/۴۹۸،۴۹۹،لسان المیزان :۵/۱۰۰،۱۰۳
(3) حاشیة الإمام ابن القیم علی سنن أبي داوٴد في ذیل عون المعبود:۲/۲۰۵
(4) لسان المیزان :۵/۱۰۳
(5) میزان الاعتدال :۳/۴۹۹،لسان المیزان :۵/۱۰۳
(6) الفوائد الرجالیة:۷/۱۹۹،مکتبة العلمین الطوسي و بحر العلوم في نجف الأشرف،مکتبة الصادق طہران، الفہرست،ص:۵۸، رجال ابن داوٴد للحلّي:۱/۳۸۶،رجال الطوسي لأبي جعفر الطوسي: ۲/۲۴۲، موٴسسة النشر الإسلامي قم،رجال النجاشي لأبي العباس أحمد بن علي النجاشي: ۱/۳۷۸، موٴسسة النشر الإسلامي قم ،معجم رجال الحدیث للسید الخوئي: ۱/۱۳۲، ۱۲/۱۵۴، ایران

مکمل تحریر >>

ابن جریر طبری - تعارف

نام: محمد
ولدیت: جریر
دادا کا نام: یزید
کنیت: ابو جعفر 
پیدائش طبرستان میں ہوئی،اس کی نسبت سے ”طبری“ کہلاتے ہیں۔
سنہ ولادت میں دو قول ہیں:(۱)۲۲۴ھ کے اخر میں، (۲)۲۲۵ھ کے اول میں۔
خود اپنے ابتدائی حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے سات سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ یاد کرلیا ،آٹھ سال کی عمر میں لوگوں کو نمازیں پڑھانا شروع کردیں اور نوسال کی عمر میں حدیث لکھنا شروع کردی تھی. 
ابن جریر طبری نے علوم و فنون کی تکمیل کے لیے مختلف علماء اورعلاقوں کی طرف اسفار کیے۔ عراق میں ابو مقاتل سے فقہ پڑھی، احمدبن حماد دولابی سے کتاب ”المبتدا“ لکھی ،
مغازی محمد بن اسحاق بواسطہ سلمہ بن فضل حاصل کی اور اسی پر اپنی تاریخ کی بنیاد رکھی۔کو فہ میں ھناد بن سری اور موسی بن اسماعیل سے حدیث لکھی ، سلیمان بن خلادطلحی سے قرآت کا علم حاصل کیا پھر وہاں سے بغداد لوٹ آئے، احمد بن یوسف تغلبی کی صحبت میں رہے اور اس کے بعد فقہِ شافعی کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی کو اپنامسلک ٹھہرا کر کئی سال تک اس کے مطابق فتویٰ دیتے رہے، بیروت میں عباس بن ولید بیروتی سے شامیوں کی روایت میں قرآت و تلاوت مکمل کی۔ یوں آپ نے حدیث ، تفسیر ، قرآت ، فقہ ،تاریخ، شعر و شاعری اور تمام متداول علوم و فنون میں مہارت حاصل کر لی . پهر مختلف عنوانات پر ۲۶ کے قریب کتابیں تصنیف کیں ، ان میں تفسیر طبری کے علاوہ تاریخ طبری بہت زیادہ مشہور و معروف ہے۔
مکمل تحریر >>

عہد اسلامی کی تاریخ کا اہم ترین مصدر- تاریخ طبری

جن حقائق کا ہم نے گزشتہ تحاریر میں تذکرہ کیا ، ان کا ہماری اسلامی تاریخ سے کتنا تعلق ہے اور اس کے کیا برے اثرات مرتب ہوئے ،ان کا ایک سر سری جائزہ لینے کی غرض سے ہم نے کتبِ تاریخ میں سے علامہ ابن جریر بن یزیدطبری (المتوفی: ۳۱۰ھ) کی مشہور و معروف تصنیف ”تاریخ الأمم والملوک المعروف بتاریخ الطبری“ کا بطور نمونہ کے انتخاب کیا ہے، تاریخِ طبر ی ہماری عہدِ اسلامی کی تاریخ کا اہم مصدر ہو نے کے علاوہ قرونِ ثلاثہ کے حوالہ سے سب سے اہم ، کثیر المعلومات اور مستند کہی جانے والی کتاب ہے

اس کتاب کا نام ”تاریخ الرسل والملوک “ یا ”تاریخ الأمم و الملوک“ہے؛ االبتہ ”تاریخ طبری“ کے نام سے عوام و خواص میں مشہور ہے۔ علامہ طبری کی یہ تصنیف عربی تصانیف میں مکمل اور جامع تصنیف شمار کی جاتی ہے، یہ کتاب ان سے پہلے کے موٴرخین یعقوبی ، بلاذری ، واقدی، ابن سعد وغیرہ کے مقابلہ میں اکمل اور ان کے بعد کے موٴرخین ، مسعودی، ابن مسکویہ ، ابن اثیر اور ابن خلدون وغیرہ کے لیے ایک رہنما تصنیف بنی۔معجم الادباء میں یا قوت حموی نے لکھا ہے کہ ابن جریر نے اپنی اس تالیف میں۳۰۲ ھ کے آخر تک کے واقعات کو بیان کیا اور بروز بدھ ۲۷ ربیع الاول ۳۰۳ھ میں اس کی تکمیل کی۔
(معجم الأدباء:۶/۵۱۶،موٴسسة المعارف)

اگلی تحاریر میں طبری اور ان کی کتاب کا مختصر سا تعارف پیش کرنے کے بعد ہم اپنے اصل موضوع پر گفتگو کریں گے، اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہو جائے کہ علامہ طبری خود توثقہ ہیں؛ لیکن ان کی کتاب رطب و یابس کا مجموعہ ہے
مکمل تحریر >>

تاریخ نویسی میں دروغ گوئی کے بنیادی اسباب

اگر آپ قرون ثلاثہ کی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیں گے تو تدوین کے اس زمانہ میں جھوٹ کے ظاہر ہونے کے اسباب و اہداف میں تداخل پائیں گے، بسا اوقات ایک ہی واقعہ میں سبب اور ہدف دو نوں پائے جائیں گے، اگر آپ نفس واقعہ کی طرف دیکھیں گے تو آپ کو اس کا سبب نظر آئے گا؛ لیکن اسی واقعہ پر نتیجہ کے اعتبار سے غور کیا جائے تو اس کی ایک غرض بھی سامنے آئے گی۔غرض دروغ گوئی کے بعض ایسے واضح ، جن کی وجہ سے قرون ثلاثہ کے دوران عام طور سے اور تدوین تاریخ کے وقت خاص طور سے دروغ گوئی نے جڑ پکڑ لی تھی۔ 
ویسے تو دروغ گوئی کے اسباب کثیر تعداد میں ہیں ، ہم یہاں صرف چنداہم اور بنیادی اسباب کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔
۱- سیاسی اختلافات ۲- فکری اور مذہبی گمراہی و بے اعتدالی۔ ۳- باطنی امراض (کفر و نفاق اور زندقہ)

سیاسی اختلافات
بنیادی طور پر سیاسی اختلافات ہی وہ اہم سبب ہے جس نے امتِ مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے باہم مقابل فرقوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کے خون کا پیا سا بنادیا ، سیاسی اختلافات کی ابتدا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے آخری ایام میں ہوئی جس کا سلسلہ بعد کے زمانوں میں مختلف صورت میں جاری رہا۔

فکری اور مذہبی گمراہی
فکری اور مذہبی گمراہی نے اسی سیاسی فتنہ کے بطن سے جنم لیا، اس اندھے سیاسی فتنہ نے فکری اور مذہبی انحراف کو مزید گہرا کر کے نہ صرف اسے بنیاد فراہم کیا؛ بلکہ اس کا دفاع کر کے اسے ایک مقدس ، شرعی و مذہبی رنگ دے دیا ، جیسا کہ صراطِ مستقیم سے انحراف کرنے والے، اسلام کی طرف منسوب بہت سارے گمراہ فرقے خوارج و روافض وغیرہ کا حال یہی ہے کہ دونوں نے سیاسی فتنہ کے بطن سے جنم لے کر اسی کی گود میں پرورش پائی اور اس کی تائید سے صراط مستقیم سے منحرف ان فرقوں نے ایک مقدس مذہبی رنگ کا لبادہ اوڑھ لیا ، جن کی قداست کے پسِ پردہ امت مسلمہ کو گزشتہ تیرہ صدیوں سے لہو لہان کیا جارہا ہے۔

امراض باطنی
امراض باطنی جیسا کہ کفر ، نفاق،زندقہ، حسد، کینہ ، دنیا کی محبت و حرص وغیرہ یہ وہ اسباب ہیں جنہوں نے بہت سارے لوگوں کو دروغ گوئی، اس میں مہارت و امتیاز حاصل کرنے پر ابھارا اور مجبور کیا، پھر اس کے برے اور زہریلے اثرات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب ان امراض باطنی اور سیاسی و مذہبی اختلافات میں امتزاج ہوا۔

یہ وہ مرکزی اور گہرے و بنیادی اسباب تھے جنہوں نے ان دروغ گو راویوں کے لیے زمین ہموار کی اور فضاو ماحول کو سازگار بنایا جس کی وجہ سے وہ نہ صرف جھوٹ و دروغ گوئی کی طرف متوجہ ہوئے؛ بلکہ اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سعی نامسعود کی؛ تاکہ اپنے زعمِ باطل کے مطابق اس دروغ گوئی کے سہارے اپنے مذہب کی خدمت، مصالح کے حصول اور شہوات کی تکمیل کرسکیں ۔

چند مزید اسباب پیش خدمت ہیں. 
1.مخصوص فکری و مذہبی فرقہ کی تائید و نصرت
دروغ گوئی و کذب کے ظاہر ہونے کے اسباب میں ایک سبب صراط مستقیم سے منحرف رہنے والے مخصوص فکری و مذہبی فرقہ کی تائید و نصرت بھی ہے ، علامہ ذھبی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ دروغ گواورکذّاب احمد بن عبداللہ جو یباری فرقہ کرامیہ کی نصرت و دفاع کی خاطر محمد بن کرام کے لیے احادیث گھڑا کرتا تھا اور محمد بن کرام انھیں اپنی کتابوں میں ذکر کرتا تھا۔ .. اس طرح دروغ گو و کذّاب قاضی محمد بن عثمان نصیبی روافض کی تائید و نصرت کی خاطر احادیث گھڑاکرتا تھا، اور ابو جارود بن منذر کوفی مثالبِ صحابہ میں احادیث وضع کیا کرتا تھا، عبدالرحمن بن خراشی شیعی کابھی یہی وطیرہ تھا، اس نے حضرات شیخین رضی اللہ عنہم کے مزعومہ مثالب میں دو رسالے تحریر کرکے روافض کے ایک بڑے پیشوا کی خدمت میں پیش کیا تو اس نے اسے دو ہزار درھم انعام میں دیے۔
( میزان الاعتدال :۱/۲۴۵،دار لکتب العلمیہ ، الضعفاء لابن الجوزاي: ۳/۸۴، ۴/۳۶۵،دار لکتب العلمیة، لسان المیزان : ۳/۴۴۴ )
! غور فرمائیں کہ مذکورہ بالا تینوں افراد کا ہدف و مقصد وضعِ حدیث سے صرف اپنے مخصوص فرقہ کے فکری و اعتقادی افکار کی تائید کے علاوہ کچھ نہیں، یہ لوگ انبیاء کرام کے بعد بالاتفاق خیرالبشر و افضل البشر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف زبان درازی اور دلی کینہ کے اظہار کی غرض سے دروغ گوئی کیا کرتے تھے، روافض نے اہل بیت و حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تین ہزارکے قریب جعلی احادیث وضع کی ہیں۔
( میزان الاعتدال:۲/۱۷۱)

2. ترغیب و ترہیب
دروغ گوئی کے اہداف میں ایک ہدف لوگوں کو دین کی ترغیب دینا اور ان کے دلوں کو نرم کرنا اور اپنے مزعومہ نظریہ کے مطابق لوگوں کو اجر کی امید دلانا اور گناہ سے روکنے کے لیے ترہیب بھی تھا، جیسا کہ بعض جہل گزیدہ نام نہاد صوفیوں نے اس قبیح فعل کا ارتکاب کیا۔

3.مادی و معاشی فوائد کا حصول
دروغ گوئی کے مرکزی اہداف و اسباب میں ایک بڑا اور بنیادی سبب جاہل عوام کو اپنی طرف مائل کر کے ان سے مادی و معاشی فوائد حاصل کر کے اپنی خواہشات کو پورا کرنا بھی تھا، یہ طرزِ عمل مخصوص گمراہ فرقوں کے علاوہ قصہ گو اور واعظ قسم کے لو گوں نے بھی اختیار کیا تھا، یہ لوگوں کو جھوٹی روایات ، عجیب و غریب اور محیرالعقول قسم کی باتیں گھڑ کر سنایا کرتے؛ تاکہ لوگ ان سے متأثر ہو کر ان کی مادی و معاشی ضروریات کی تکمیل میں معاونت کریں۔حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے میں لکھا ہے کہ ابراہیم بن فضل اصفہانی (المتوفی ۵۳۰ھ)اصفہان کے بازار میں کھڑے ہو کر اسی وقت اپنی طرف سے احادیث گھڑ کر لوگوں کو سنایا کرتا تھا اور ان روایاتِ کاذبہ کے ساتھ صحیح روایات کی اسانید کو جوڑا کرتا تھا۔ ( لسان المیزان :۱/۱۳،موٴسسة الأعلمي بیروت)

4.شخصی یا گروہی مفادات
ایک سبب اپنے شخصی یا گروہی مفاد کے لیے بعض برگزیداور بڑے لوگوں کی مدح یا مذمت میں احادیث وضع کرنا بھی تھا، علامہ ذہبی نے امام مازری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ نعیم بن حماد امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے مثالب میں جھوٹی روایات و ضع کیا کرتا تھا، 
علامہ ذہبی ہی نے لکھا ہے کہ احمد بن عبداللہ جو یباری نے امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کی مدح میں ایک حدیث وضع کی تھی۔
(میزان الاعتدال :۷/۴ ، میزان الاعتدال :۲۴۵۱)

ان تمام اسباب و اہداف میں غور و فکر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کذب و دروغ گوئی کے پھلنے اور پھولنے کی بنیاد تو ان دروغ گوراویوں کے باطنی امراض کے سبب وجود پذیر ہوئی ؛ لیکن سیاسی ، گروہی اور مادی و معاشی عوامل نے اس کی گہرائی و نشاط میں اضافہ کر کے اسے مزید سہ آتشہ بنایا۔
مکمل تحریر >>

Friday 10 October 2014

اسلامی تاریخ میں گمراہ کن روایات کی ملاوٹ کیسے ؟؟

اسلامی تاریخ پر لکھی گئی کوئی کتاب جب کسی مسلمان قاری کے مطالعہ میں آتی ہے تو وہ قرون اولی اور صحابہ کی زندگی کے واقعات کو اسی حسن ظن اور عقیدت کے ساتھ پڑھنا شروع کرتا ہے جو قرآن و حدیث کے ذریعے اس کے ذہن میں بیٹھی ہوتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ جب تاریخ اپنا رنگ دکھانا شروع کرتی ہے اور وہ صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پڑھتا ہے تو پریشان ہو جاتا کہ یہ کیسے خیرالقرون کا تذکرہ ہے؟ قرآن نے تو ہمیں بتاتا ہے کہ تم نے ایمان لانا ہے تو اس طرح ایمان لاؤ جس طرح یہ صحابہ لائے تب تمہار ا ایمان قابل قبول ہوگا، اور تاریخ انہیں بے ایمان ثابت کررہی ہے ۔ ۔ قرآن وحدیث انکی صداقت، شجاعت، اخلاص، سچاہی، ہدایت یافتہ ہونے کے سرٹیفکیٹ دیتے نظر آتے ہیں (اولئک ھم الراشدون، مفلحون، صدیقون وغیرہ)اور تاریخ ( نعوذ بااللہ) انہیں چور ، ڈاکو ، مکار، منافق اور بد اخلاق ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ باتیں اسکے لیے بہت عجیب اوراسکی توقعات کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ شاید اس میں قصور کتاب کے فرنٹ پیج پرتاریخ کے ساتھ استعمال کیے گئے لفظ 'اسلام' کا بھی ہوتا ہے جو قاری کو شروع میں ہی اعتماد دلا دیتا ہے اور وہ اسے ایک اسلامی کتاب والے جذبے سے پڑھنا شروع کرتا ہے لیکن پھر دروغ گو راویوں کی ملاوٹ، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری اسے کنفیوز کردیتی ہے.
ہم اگلی تحاریر میں اس پر تفصیلی تبصرہ کریں گے کہ تاریخ اسلام میں یہ ملاوٹ کیسے ہوئی فی الحال اک عام وجہ لکھ دیتے ہیں وہ یہ کہ انسانی تاریخ میں جب بھی ایک قوم و قبیلہ یا جماعت و پارٹی کی حکومت و اقتدار کو ختم کر کے دوسری مقابل قوم و قبیلہ یا جماعت و پارٹی بر سرِ اقتدار آتی ہے تو وہ اپنے پیش رو حکمرانوں کی تمام خوبیوں ، محاسن ، اور تعمیری کاموں کو بھی خامیوں ، برائیوں اور تخریب باور کروانے کے لیے پوری حکومتی مشینری کے ساتھ مل کر ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے، تدوینِ تاریخ اسلامی کے وقت بھی یہ نفسیاتی ضابطہ کار فرما رہا. 
مشہور موٴرخ علامہ شبلی نعمانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تصنیف” الإنتقاد علی التمدن الإسلامي“ میں اسلامی تاریخ کی ابتدائی تدوین کا بہترین جائزہ پیش کیا ہے، اس اک خامی کے متعلق لکھتے ہیں : ” اسلامی تاریخ کے موٴرخین عموماً بنو عباس کے عہد میں (پیدا) ہوئے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ عباسیوں کے عہد میں بنو امیہ کی خوبی کی کوئی چیز (بھی) اتفاقاً صادر ہوجاتی تو اس کے قائل کو کئی قسم کی ایذاوٴں کا سامنا کرنا پڑتا اور ہتکِ عزت کے علاوہ ناموافق انجام سے بھی دو چار ہونا پڑتا تھا، دفترِ تاریخ میں اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں “۔
اس بات کے علاوہ تاریخی واقعات کو نقل کرنے والے راویوں کے نظریات اور مذہبی رجحانات نے بھی ان واقعات کو بیان کرنے اور اس کے لیے اختیار کی جانے والی تعبیر میں مرکزی کردار ادا کیا، خصوصاً جب انھیں روایت با لمعنی کی عام اجازت بھی حاصل تھی؛ چناں چہ بہت سارے گمراہ عقائد و افکار کے حامل راویوں نے قرونِ ثلاثہ سے متعلق واقعات کو اپنے مذہبی رجحانات و نظریاتی افکار کے تحت حقائق کو نظر انداز کرکے اس طرح بیان کیا کہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین کے بارے میں بہت سارے مطاعن پید ہوتے چلے گئے۔
مکمل تحریر >>

اسلامی تاریخ کا طرہ امتیاز

دنیا کی تمام قوموں اورتمام مذہبوں میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب اور مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جس کی تاریخ شروع سے لے کر اخیر تک بتمام مکمل حالت میں محفوظ وموجود ہے اوراُس کے کسی حصے اور کسی زمانے کی نسبت شک وشبہ کو کوئی دخل نہیں مل سکتا،مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک مسلمانوں پر گذرنے حالات واقعات کے قلم بند کرنے اور بذریعہ تحریر محفوظ کرنے میں مطلق کو تاہی اورغفلت سے کام نہیں لیا،مسلمانوں کو بجاطور پر فخر ہے کہ وہ اسلام کی مکمل تاریخ ہم عہد مورخین اورمستند ثقہ راویوں کے بیانات میں تواتر کا درجہ بھی دکھا سکتے ہیں،غرض کہ صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جو اپنی مستند اورمکمل تاریخ رکھتی ہے اور دنیا کی کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو اس خصوصیت میں مسلمانوں کی شریک بن سکے،مورخینِ اسلام نے یہاں تک احتیاط ملحوظ رکھی ہے کہ ہر ایک واقعہ اور ہر ایک کیفیت کو جوں کا توں بیان کردیا اوراپنی رائے مطلق نہیں لکھی؛ کیونکہ اس طرح اندیشہ تھا کہ مورخ کا خیال یا مورخ کی خواہش تاریخ کا مطالعہ کرنے والے کو متاثر کرے اور واقع کا حقیقی اثر اپنی آزادی زائل کردے اور مطالعہ کرنے والا مورخ کے مخصوص خیال کا مقلد ہوجائے، اسلامی تاریخ کی عظمت وہیت اس وقت اور بھی قلب پر طاری ہوجاتی ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسلامی تاریخ کے جس حصہ کو چاہیں اصول درایت پر رکھ لیں اور علومِ عقلیہ کی کسوٹی پر کس لیں،کوئی کھوٹ،کوئی نقص،کوئی سقم کسی جگہ نظر نہیں آسکتا۔
مکمل تحریر >>

تاریخ کی حقیقی ابتداء

قرآن کریم نازل ہوتا ہے،عرب تمام دنیا پر چھا جاتا ہے،سارے تمدن عربی تمدن کے آگے ھباءً منثورًا ثابت ہوتے ہیں اور حقیقی معنی میں تاریخ کی ابتداء ہوتی ہے.
آغاز تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہٴ مبارک سے ہوتا ہے. صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرایا وغزوات کے حالات نہ صرف اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے تھے ؛بلکہ اپنی اولاد کو بھی انھیں یاد کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے؛ لیکن باقاعدہ تمام اخبار و وقائع کو بصورتِ تاریخ مدون کرنے کا کام دوسری صدی ہجری میں بنو عباس کے عہدِ حکومت میں شروع ہوا، ابتدا میں واقعات کو بیان کرنے کے لیے سند کا اہتمام کیا گیا؛ یہاں تک کہ اشعار بھی سند کے ساتھ بیان کیے جاتے تھے؛ چناں چہ تاریخِ طبری اور کتاب الأغانی اس کا مظہر ہیں؛ لیکن یہ واضح رہے عام اخبار و قائع اور اشعار کے راویوں کی بابت بحث و تمحیص اور تحقیق کے باب میں وہ اہتمام اور شدت نہیں برتی گئی جو روایاتِ حدیث کے متعلق بحث وتمحیص اور تحقیق کے باب میں برتی گئی۔
احادیث کی روایت کے اہتمام اورفن اسماء الرجال وغیرہ کے مرتب ومدون ہونے کے عظیم الشان کام اور اہم ترین انتظام سے قطع نظر کی جائے تب بھی مسلمانوں میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مورخ ایسے ملیں گے جن میں سے ہر ایک نے فن تاریخ کی تدوین میں وہ وہ کارہائے نمایاں کئے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے،تمدن کی کوئی شاخ اور معاشرت کا کوئی پہلو ایسا نہ ملے گا جس پر مسلمانوں نے تاریخیں مرتب نہ کی ہوں، تاریخ کی جان اورروح رواں روایت کی صحت ہے اور اس کو مسلمانوں نے اس درجہ ملحوظ رکھا ہے کہ آج بھی مسلمانوں کے سوا کسی دوسری قوم کو بطورِ مثال پیش نہیں کیا جاسکتا ،دوسری اقوام اوردوسرے ممالک کی تاریخیں مرتب کرنے میں بھی مسلمانوں کی طرف سے نہایت زبردست صلاحیتیں صرف کی گئی ہیں فن تاریخ کو علم کے درجہ تک پہنچانے کا کام مسلمانوں ہی کی نظر التفات کارہین منت ہے اور اصولِ تاریخ کے بانی ابن خلدون کا نام دنیا میں ہمیشہ مورخین سے خراجِ تکریم وصول کرتا رہے گا،جب سے مسلمانوں پر تنزل وادبار کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں اور مسلمان مورخین کی کوششوں میں وہ پہلی سی مستعدی اورتیز رفتاری کم ہوگئی ہے،اُن کے شاگرد یعنی یورپی مورخین اس کمی کو ایک حد تک پورا کرنے میں مصروف ہیں۔
مکمل تحریر >>

تاریخ کا آغاز

رومیوں اور یونانیوں کے دور بالخصوص سکندر اعظم کی فتوحات سے تاریخ کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے جس نے دنیا کے اکثر ملکوں کے حالات کو اس طرح ہمارے سامنے پیش کیا کہ سلسلہ کو درمیان سے منقطع ہونے کی بہت کم نوبت آتی ہے اورعام طور پر یہیں سے تاریخی زمانہ کی ابتداء سمجھی جاتی ہے،یونان، مصر اورایران کے حالات مطالعہ کرنے سے جس طرح تاریخی مطالعہ کے شوقین کوخوشی حاصل ہوتی ہے،اسی طرح ہندیوں پر اُس کو طیش وغضب آتا ہے کہ اس تاریخی زمانہ میں بھی ہندوستان پر تاریکی چھائی ہوئی نظر آتی ہے،یہاں والوں کی اس بے پروائی نے مورخین عالم کو ہمیشہ خون بہ جگر بنایا کہ انہوں نے فرضی باتوں کو ہمیشہ سچ کا قالب پہنایا اورسچ کو کبھی سیدھی طرح نہ سنایا، اس آباد وسر سبز ملک ہندوستان کے مقابلہ میں ایک دوسرا ریگستانی ملک عرب ہے جو روایات کی صحت حافظہ کی قوت،سلسلہ انساب کو محفوظ رکھنے اور واقعات کو اُن کی من و عن حالت بیان کرنے کے لئے ہندوستان کی ضد ہے اوراسی لئے وہ جاہلیت میں بھی تاریخ سرمایہ میں ایک قیمتی چیز شمار ہوتے ہیں۔
( تاریخ اسلام از مولانا نجیب اکبر آبادی )
مکمل تحریر >>

تاریخ کا مطالعہ کیسے ؟؟

تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کے سامنے کون سے امور اور اہداف ہونے چاہئیں یہ بات تاریخ کے مطالعہ سے زیادہ اہم ہے۔ ہاں یہ بات ہے اُس قوم کیلئے جو تاریخ پڑھتی بھی ہو اور اُس سے سبق بھی لیتی ہو. تاریخ کو پڑھنا اور اُس کے نتائج اپنے زمانے میں محسوس کرنا اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا، زندہ قوموں کیلئے یہ تینوں کڑیاں یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔
ہمارے ہاں جن دانش وروں کو علم سے زیادہ شہرت عزیز ہوتی ہے، اُن کے ہاں اسکالر اور ماڈرنسٹ کہلانے کا معیار یہ ہے کہ اپنے ماضی پر کیچڑ اچھالیں، تاریخ ساز شخصیات کی تنقیص کریں، اسلام کی تاریخ سے لغزشیں ہی ڈھونڈ لائیں، تب ہی وہ سمجھتے ہیں کہ دانش ور کہلائیں گے۔
کوئی مانے یا نہ مانے انسان کا حال اُس کے ماضی سے جڑا ہوتا ہے. قوموں کی سرفرازی اور ناکامی کے اسباب ابن خلدون نے بھی بتائے ہیں۔ 
ماضی کی شخصیات تو ضرور مرجاتی ہیں لیکن ان کا تذکرہ اور چھوڑے ہوئے اثرات نہیں مرتے، معاشرہ ان اثرات کو لیے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے جیسے جوانی بچپنے سے جڑی ہوتی ہے اور عمر رسیدہ اپنی جوانی کو نہیں بھولتا۔
قرآن مجید بھی تاریخ بشری کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ تلاوت کرنے والا اگر صاحب بصیرت ہو تو قرآن مجید اُس کے سامنے قوموں کی کامیابی اور ناکامی کے اصول رکھتا ہے۔ اپنے مخاطبین کے مسائل اُن کی تاریخ سے جوڑتا ہے۔ اُن کے سامنے اخلاقی اور عمرانی اصول رکھتا ہے۔ ترقی اور زوال کے اصول بتاتا ہے۔
جیکس بیسوٹ کہتا ہے کہ جو شخص مستقبل کا نقشہ کھینچنا چاہتا ہے اُسے اپنی ابتداءماضی سے کرنا ہوگی، یہی حقائق مستقبل بینی کیلئے مفید ہوں گے۔

ہمیں تاریخ کا مطالعہ نئے زاویے سے کرنا ہے، جس کا مقصد ناک بھوں چڑھانا نہ ہو، علامہ محمود محمد شاکر کے بقول بے جان روح میں جان ڈالنا اور اتھاہ گہرائی سے نکل کر اپنے زمانے کو سمجھنا، ماضی کو حال سے جوڑنا، وقائع سے حقائق نکالنا، غیر جانبداری برتنا، مؤرخین سے جہاں سہواً یا عمداً لغزش ہوئی ہے اُس کی حقائق سے اصلاح کرنا۔
ہمارے تاریخ کے مطالعے کی دو جہتیں ہیں۔ ایک ہماری سیاسی تاریخ ہے اور دوسری ثقافتی اور علمی۔ سیاسی تاریخ میں اُتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے البتہ یہ اعزاز صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ ان کی علمی ترقی مغرب کی ترقی کی طرح حکومت کی مرہون منت نہیں ہے۔ یہ بات ہماری تاریخ میں عام ہے کہ سیاسی حالات ابتر ہیں یا حاکم وقت ظالم ہے مگر دوسری طرف علمی میدان روز بروز ترقی پر ہے۔ 

مغرب کی تاریخ اوراسلامی تاریخ کی مبادیات سمجھ لی جائیں تو یہ بات قابل فہم بھی ہے۔
مغرب کا اصول حیات افادیت ہے جبکہ اسلام کی تاریخ ایمانیات سے مربوط ہے .
مغربی وقائع نگار اور مؤرخ کے نزدیک اخلاقی معیار اور ہیں اور ہمارے ہاں اور۔ وہ کسی شخصیت کا تذکرہ محض اُس کے کارناموں کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ سوسائٹی کو جو فائدہ اُس سے ہوا وہی اُن کیلئے اہمیت رکھتا ہے۔ اس لئے ان کی تاریح پڑھتے ہوئے ہمیں کامیاب شخصیات سے واسطہ پڑتا ہے گویا مغرب کی نامور شخصیات معصوم ہوتی ہیں۔
مسلم مؤرخ کے نزدیک اخلاقی اور ایمانی پیمانہ سب سے اہم ہوتا ہے اس لئے اُن کے تذکروں میں اخلاقی بے ضابطگی سے وہ صرف نظر نہیں کرتے۔ 
ہماری وسعت نظری اور دیانت داری ہی جدید مؤرخ کے نزدیک ہمارا عیب ہے۔جدید مؤرخ کے نزدیک اپنے عیوب ہی بیان کرتے چلے جانا تاریخ کا صحیح مطالعہ ہے۔ ہمیں اپنا نقطہ نظر محولہ بالا اصولوں کے مطابق بدلنا ہوگا۔ اجتماعی شعور کا احساس زندہ قوم کا شعار ہوتا ہے۔
مطالعے کے چند آداب:-
تاریخ کا مطالعے کے بعد کسی ایسے شخص کو بُرا کہنا یا گالیاں دینا جو اس دنیا کے تماشاگاہ سے رخصت ہوچکا ہے جوانمردی نہیں، ہاں کسی گذرے ہوئے سے محبت کا اظہار اوراُس کے لئے دعائے خیر کرنا اُس کی برائیوں کی نیک تاویل کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے،تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرنے والا جس قدر بے جا تعصب میں مبتلا ہوگا اُسی قدر اس کو تاریخی مطالعہ کا نفع کم ہوگا.
(مطالعہ تاریخ چند مبادیات، ڈاکٹرمحمد عبدہ،! ترجمہ: محمد زکریا)
مکمل تحریر >>

اپنی تاریخ سے محبت کون رکھتے ہیں ؟؟


تاریخ میں چونکہ اچھے آدمیوں کی خوبیاں اوربُرے لوگوں کی بُرائیاں لکھی جاتی ہیں لہذا کسی رذیل یا کمینہ خاندان والے کو علم تاریخ سے بہت ہی کم محبت ہوسکتی ہے.
شریف قوموں کو اپنے آباء واجداد کے کارہائے نمایاں یاد ہوتے ہیں جن کی پیروی کو وہ اپنی شرافت قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتے ہیں، رذیل قومیں امتداد زمانہ کے سبب اپنے بزرگوں کے بزرگ کاموں کو بھی بھول جاتی ہیں، کسی خاندان یا قوم کو جس کے باپ دادا نے خدا پرستی،جوانمردی،علم وہنر،جاہ وحشمت وغیرہ میں خصوصی امتیاز حاصل کیا ہو اوروہ اس کو بالکل فراموش نہ کرچکے ہوں تو ان کو بزرگوں کے بڑے بڑے کارنامے بار بار یاد دلا کر عزم وہمت اورغیرت وحمیت اُن میں پیدا کرسکتے ہیں،مگر رذیل قوموں کے اندر یہ کام نہیں ہوسکتا،یہی سبب ہے کہ علم تاریخ کا شوق رکھنے والے اکثر شریف القوم، عالی نسب، بزرگ زادے اورنیک آدمی ہوتے ہیں ،کوئی کمینہ خاندان کا آدمی یا خدائے تعالیٰ کا منکر یعنی دہریہ یا کوئی بزدلی میں شہرت رکھنے والا دنیا میں اعلیٰ درجہ کا مورخ اورتاریخ کا امام نہیں گذرا۔

(تاریخ اسلام از اکبر نجیب آبادی صفحہ 25، 26)
مکمل تحریر >>