Sunday 25 January 2015

اہلِ عرب ہی کا انتخاب کیوں؟


عموما اس سوال کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ اہل جاہلیت میں ایسی خَسیس و رَذیل عادتیں اور وجدان وشعور اور عقلِ سلیم کے خلاف باتیں پائی جاتی تھیں پھر ایسی قوم کو دنیا کی رہبری کے لیے کیسے منتخب کرلیا گیا ؟؟ غور کیا جائے تو اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ نظر آتی ہیں۔ 
عرب کی ظاہری خصوصیات :۔
اس سوال کا سب سے زبردست،نہایت معقول اورمسکت جواب یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے تمام مشہور ممالک کسی نہ کسی قدیم زمانے میں ایک ایک مرتبہ ضرور ترقی یافتہ اورعروج کی حالت میں رہ چکے تھے، ان کی تہذیب،تمدن،اخلاق،علوم وغیرہ عروج کی حالت کو دیکھ چکے تھے ۔اگر عرب کے سوا کسی دوسرے ملک میں وہ کامل نبی مبعوث ہوتا تو اس نبی کی ہدایت اورہدایت نامے کا قوی اثر اپنی پوری اورحقیقی شان دنیا پر ثابت نہ کرسکتا اوراس کا ایک بڑا حصہ اس ملک کی قدیم روایات کی طرف منسوب ہوجاتا ،اس نبی کے ذریعے تہذیب،اخلاق اور تہذیب نفس کا جو عظیم الشان کام انجام پانے والا تھا وہ بھی اس ملک و قوم کی قدیمی روایات سے منسوب ہوکر نبی آخر الزماں اورخاتم الکتب کے عظمت وجلال کا ظاہر اورثابت کرنے والا نہ ہوتا،
دوسری بات دنیا کے کسی دوسرے ملک کی زبان اس زمانے میں ایسی مکمل اور ادائے بیان پر قادر نہ تھی جیسی کہ عرب کی زبان عرب کے جغرافیائی حالات اور باشندوں کے بے شغلی کے سبب مکمل ہوچکی تھی، کامل ہدایت نامہ کے لیے ضرورت تھی کہ وہ ایسی زبان میں نازل ہو جو دنیا کی زبانوں میں حدِ کمال کو پہنچ چکی ہو،عربی کے سواکوئی دوسری زبان ایسے ہدایت نامہ کی جوقیامت تک کے لئے اورہر ملک اور ہر قوم کے لئے نازل ہو متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔
اس لیے ضرورت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملک عرب میں پیدا ہوں،اہل عرب نہ کسی غیر ملک کے محکوم بنے اورنہ کسی غیر ملک پر قابض ومتصرف ہوئے تھے،عربوں کے لئے دنیا کا ہر ایک ملک اورہر ایک قوم یکساں حیثیت رکھتی تھی،وہ جب اسلام کو لے کر نکلے ہیں تو ہسپانیہ یعنی بحر اطلانتک کے ساحل مشرقی سے چین یعنی بحیرہ چین کے مغربی ساحل تک ساری آباد ومتمدن دنیا کے ملک اورقومیں اُن کی نظر میں یکساں تھیں وہ سب سے اجنبی تھے اور سب ان سے اجنبی لہذا خدائے تعالی نے جب ساری دنیا کے لئے ایک مذہب تجویز کیا تو وہ مذہب ایک ایسی قوم کے ذریعے ساری دنیا میں شائع کیا جو سب کے لئے یکساں بے تعلق قوم تھی،عرب کے اخلاق تہذیب اور تمدن نے چونکہ اس سے پہلے کوئی ترقی نہیں کی تھی لہذا اس عالمگیری مذہب نے اُن کو یکایک سب سے زیادہ شائستہ ،سب سے زیادہ مہذب،سب سے زیادہ بااخلاق،سب سے زیادہ متمدن اورساری دنیا کا اُستاد اوررہبر بناکر ثابت کردیا کہ عرب کی ان تمام محیر العقول ترقیات کا سبب اسلامی تعلیم کے سوا اورکچھ نہیں ہے اور آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانیت ایسی زبردست ہے کہ دنیا کی ہر قوم اورہر ملک،ہر زمانہ میں اس سے فیضیاب ہوسکتا ہے۔

عربوں کی ذاتی صفات و خصوصیات 
اہل عرب کی چھپی خوبیوں کی بھی تحقیق بھی ضروری ہے کہ کہ آیا ان میں وہ کیا صفات تھیں کہ ان کو بنی نوع انسان کی قیادت اور رسالتِ عامہ کابوجھ اُٹھانے کے لیے منتخب کیا گیا۔؟؟ 
غور کیا جائے تو ان میں چند ذاتی صفات نظر آتی ہیں کہ جنھیں دیکھ کر انسان دنگ اور ششدر رہ جاتا ہے.
کرم وسخاوت :...یہ اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے اشعار اسی کی نذر ہوگئے ہیں۔ ۔ حالت یہ تھی کہ سخت جاڑے اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آجاتا اور اس کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ ہوتی تو بھی ...ایسی سنگین حالت کے باوجود ...اس پر سخاوت کا جوش غالب آجاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیت اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور خون ریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔
اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے ، اس لیے نہیں کہ یہ بذاتِ خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ اس لیے کہ یہ کرم وسخاوت کو آسان کردیتی تھی۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے دَوَاوِین پر نظر ڈالیے تو یہ مدح وفخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا عنترہ بن شداد عبسی اپنے معلقہ میں کہتا ہے :
ترجمہ:''میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے جو بائیں جانب رکھی ہوئی تابناک اور منہ بند خُم کے ساتھ تھا ، نشان لگی ہوئی ْصاف شفاف شراب پی اور جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں۔ لیکن میری آبرو بھر پور رہتی ہے ، اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی۔ ا ور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخلاق وکرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے۔ ''
ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے کیونکہ انہیں جو نفع حاصل ہوتا ، یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔ اسی لیے قرآن پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا کہ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ‌ مِن نَّفْعِهِمَا (۲:۲۱۹ ) ''ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ ''

وفائے عہد:...یہ بھی دَورِ جاہلیت کے اخلاقِ فاضلہ میں سے ہے۔ عہد کو ان کے نزدیک دین کی حیثیت حاصل تھی۔ جس سے وہ بہر حال چمٹے رہتے تھے اور اس راہ میں اپنی اوّلاد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے۔
سموأل کا واقعہ یہ ہے کہ امرؤ القیس نے اس کے پاس کچھ زرہیں امانت رکھ چھوڑی تھیں۔ حارث بن ابی شمر غسانی نے انھیں اس سے لینا چاہا ، اس نے انکار کردیا اور تیماء میں اپنے محل کے اندر بند ہوگیا۔ سموأل کا ایک بیٹا قلعہ سے باہر رہ گیا تھا۔ حارث نے اسے گرفتار کر لیا اور زرہیں نہ دینے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی مگر سموأل انکار پر اڑا رہا۔ آخر حارث نے اس کے بیٹے کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا۔

خودداری وعزتِ نفس:...اس پر قائم رہنا اور ظلم وجبر برداشت نہ کرنا بھی جاہلیت کے معروف اخلاق میں سے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی شجاعت وغیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی، وہ فوراً بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر جس سے ذلت واہانت کی بوآتی ، شمشیر وسنان اٹھالیتے اور نہایت خونریز جنگ چھیڑ دیتے۔ انہیں اس راہ میں اپنی جان کی قطعاً پروا نہ رہتی۔

عزائم کی تنفیذ: ...اہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجد وافتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تُل جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیں روک نہیںسکتی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔

حلْم وبردباری اور سنجیدگی: ...یہ بھی اہل جاہلیت کے نزدیک قابل ستائش خوبی تھی ، مگر یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لیے ہمہ وقت آمادگی کی عادت کے سبب نادرالوجود تھی۔

بدوی سادگی: ...یعنی تمدن کی آلائشوں اور داؤپیچ سے ناواقفیت اور دوری۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں سچائی اور امانت پائی جاتی تھی۔ وہ فریب کاری وبدعہدی سے دور اور متنفر تھے۔
اہل جاہلیت کے کچھ اور بھی اخلاق ِ فاضلہ تھے لیکن یہاں سب کا اِستقصاء مقصود نہیں۔
یہ اخلاق اگرچہ بعض اوقات شر وفساد کا سبب بن جاتے تھے اور ان کی وجہ سے المناک حادثات پیش آجاتے تھے لیکن یہ فی نفسہٖ بڑے قیمتی اخلاق تھے۔ جو تھوڑی سی اصلاح کے بعد انسانی معاشرے کے لیے نہایت مفید بن سکتے تھے اور یہی کام اسلام نے انجام دیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔