Wednesday 18 February 2015

طائف کا سفر


ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد قریش کو کس کا پاس تھا ، اب وہ نہایت بے رحمی اور بے باکی سے حضور ﷺ کو ستانے لگے ، راستہ میں آپﷺ پر غلاظت ڈالی جاتی اور کانٹے بچھائے جاتے ، گالیاں دی جاتیں. اہل مکہ سے مایوسی ہوکر حضور ﷺ اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ بن حارثہ کوساتھ لے کر ۲۷ شوال ۰ ۱ نبوت م ۶۱۹ ء پا پیا دہ طائف روانہ ہوئے جو مکہ سے تقریباََ ۵۰ میل کے فاصلہ پر بہ جانب مشرق ایک پہاڑی علاقہ اور سر سبز و شاداب مقام ہے۔
وہاں آپ کا قیام دس روز رہا، بعض نے بیس روز اور ایک مہینہ بھی لکھا ہے،اس زمانہ میں طائف بنو ثقیف کے قبضہ میں تھا، مکہ کے سرداروں کے وہاں باغات تھے، وہ لات کے پرستار تھے اور اسے خدا کی بیٹی مانتے تھے، ان دنوں عمرو بن عمیر بن عوف کے تین لڑکے عبد یا لیل ، مسعود اور حبیب بنی ثقیف کے سردار تھے، ان میں سے ایک کی بیوی صفیہ بنت معّمر تھی جس کا تعلق قریش کے قبیلہ بنی جمح سے تھا، چونکہ بنی سعد کا قبیلہ طائف کے قریب تھا اور جہاں آپﷺ نے اپنے ایام رضاعت گذارے تھے اس لئے حضورﷺکو اہل طائف سے خیر کی امید تھی، چنانچہ طائف جاتے ہوئے آپﷺ راستہ کے تمام قبائل میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ، طائف میں آپﷺ نے مذکورہ بالا تینوں سرداروں سے ملاقات کی اور انھیں اسلام کی دعوت دی اور اپنی مدد کی درخواست کی ؛لیکن ان تینوں نے نہایت گستاخانہ جواب دیا،
ایک نے کہا : تمہارے سوا اللہ کو اور کوئی نہ ملا جسے نبی بناتا ؟ دوسرے نے کہا : کعبۃ اللہ کی اس سے بڑی اور کیا توہین ہوگی کہ تم سا شخص پیغمبر ہو ؟ تیسرا بولا : میں تم سے ہر گز بات نہ کروں گا ، اگر تم سچے ہو تو تم سے گفتگو خلافِ ادب ہے اور اگر جھوٹے ہو تو گفتگو کے قابل نہیں۔
ان بد بختوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ، طائف کے بازاریوں اور اوباشوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا کہ وہ آپ ﷺ کا مذاق اڑائیں ، چنانچہ انھوں نے راستہ سے گذرتے وقت آپﷺ پر پتھر مارنے شروع کردئے، حضرت زید ؓبن حارثہ ان پتھروں کے لئے سپر بن جاتے یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا، حضورﷺ کا جسم لہو لہان ہوگیا اور آپﷺ کی جو تیاں خون سے بھر گئیں ، جب آپﷺ زخموں سے چور ہوکر بیٹھ جاتے تو بازو تھام کر کھڑا کردیتے اور پھر آپﷺ جب چلنے لگتے تو پتھر برساتے ، ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور تالیاں بجاتے ، پتھروں کے برسانے سے آپﷺ کوبہت چوٹیں آئیں اور آپ ﷺ زخموں سے بے ہوش ہوکر گر پڑے .
حضرت زیدؓ آپﷺ کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر آبادی سے باہر لے آئے ، حضور ﷺ کو اپنی پیٹھ پر بٹھانے کی سعادت سب سے پہلے حضرت زیدؓ کے حصہ میں آئی، (بعد میں سفرِ ہجرت کے دوران حضرت ابو بکرؓ نے آپﷺ کو اپنی پیٹھ پر بٹھایا، جنگ اُحد میں زخمی ہوکر حضورﷺنے ایک چٹان پر چڑھنا چاہا لیکن زخموں کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے ، اس وقت حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ نے آپﷺ کواپنی پیٹھ پر اٹھایا تھا،)بعد میں حضرت زیدؓنے پانی سے زخموں کو دھویا اور آپﷺ کچھ افاقہ محسوس کرنے لگے تو زبان ِ مبارک سے دعا نکلی" اے اللہ !میں اپنی کمزوری اور بے بسی کی تجھ سے شکایت کرتا ہوں ، اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں "
اسی حالت میں آپﷺ چل پڑے اور کچھ دور جانے کے بعد آپﷺ نے نظر اُٹھائی تو ایک ابر سایہ کئے ہوئے دکھائی دیا، اس میں سے حضرت جبریلؑ نے آواز دی:اللہ نے وہ سب کچھ سن لیا ہے جو آپﷺ کی قوم نے آپﷺ سے کہا ہے ، اس وقت پہاڑوں کا فرشتہ آپﷺ کے سامنے حاضر ہے، آپﷺ فرمائیں تو انھیں دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل کر رکھ دوں ،لیکن آپﷺ نے فرمایا : نہیں مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے( سیرت احمد مجتبی- مصباح الدین شکیل)

صحیحین کی حدیث ہے کہ حضرت عائشہؓ نے ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ سے پوچھا کہ جنگ احد کے دن سے (جس دن حضور ﷺ کے دندان مبارک شہید ہو گئے تھے اور خود کی کڑیاں چہرے مبارک میں چبھ گئی تھیں اور آنحضرت ﷺ ایک خندق میں گر گئے تھے) کبھی زیادہ تکلیف آپﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں! اس دن جس دن میں نے عبد یالیل پر اسلام پیش کرکے اس کی دعوت دی تھی اور انھوں نے رد کر دی تھی، جب وہاں سے پلٹے تو قرن ثعارب تک ( یہ مکہ اور طائف کے درمیا ن ایک پہاڑ کا نام ہے) بے ہوشی کے عالم میں آئے ، احد کے دن سے زیادہ تکلیف مجھ کو اس روز پہنچی تھی، آخر میں آپﷺ شہر سے دور ایک باغ میں انگور کی بیل کے نیچے جاکر ٹھہرے جو رئیس مکہ ربیعہ کے بیٹوں عتبہ اور شیبہ کا تھا جو باوجود کفر کے شریف الطبع اور نیک نفس تھے.
اس باغ میں بیٹھ کر آپﷺ نے دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے، اس دعا کے ایک ایک فقرہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ طائف کے لوگوں نے آپﷺ سے جو بدسلوکی کی اور کوئی بھی ایمان نہ لایا اس کی وجہ سے آپﷺ کس قدر مغموم اور رنجیدہ تھے، آپﷺ نے فرمایا:
بار الٰہا ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتاہوں، یا ارحم الراحمین تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا رب ہے ، تو مجھے کس کے حوالہ کر رہاہے؟ کیا کسی بے گانہ کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے ؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ؛لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ کشادہ ہے، میں تیرے چہرہ کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں.
جب عتبہ نے آپﷺ کو اس حالت میں دیکھا تو اپنے غلام کے ذریعہ جس کا نام عدّاس تھا ایک انگور کا خوشہ آپﷺ کے پاس بھجوایا ، آپﷺ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہہ کر اپنے منہ میں رکھا، عدّاس حیرت سے آپﷺ کی صور ت دیکھنے لگا اور خیا ل کیا کہ یہ تو ایسی بات ہے جو کافرانہ شعار سے جدا ہے ، آنحضرت ﷺنے پوچھا ، تم کہاں کے ہو اور تمھارا دین کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ وہ عیسائی ہے اور نینویٰ کا رہنے والا ہے، حضورﷺ نے فرمایا ! کیا تم اس صالح انسان کی بستی کے ہوجن کانام یونس بن متی تھا ،
عدّاس نے پوچھا کہ آپﷺ کس طرح انھیں جانتے ہیں تو حضورﷺ نے جواب دیا کہ وہ میرے بھائی ہیں، وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں ، عدّاس نے آپﷺ کا نا م پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا" محمد" تب عدّاس نے کہا کہ میں نے توریت میں آپﷺ کا اسمِ مبارک دیکھا ہے اور آپﷺ کے اوصاف بھی پڑھے ہیں ، پھر اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو اہل ِمکہ میں مبعوث فرمائے گا اور اہلِ مکہ آپﷺ کی اطاعت سے انکار کریں گے؛ لیکن آخر میں فتح آپﷺ ہی کی ہوگی، اور یہ دین تمام دنیا میں پھیل جائے گا ، اس کے بعد اس نے کہا کہ،میں ایک عرصہ سے یہاں آپﷺ کے انتظار میں ہوں ، مجھے اسلام کی تعلیم دیجئے، آپﷺ کے اسلام پیش فرمانے پر وہ فوری مسلمان ہوگیا اور جھک کر حضور ﷺ کے سر، ہاتھ اور پاؤں چومنے لگا، واپس آکر اس نے کہا کہ انھوں نے مجھے ایسی بات بتائی جسے نبی کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا، عتبہ اور شیبہ نے کہا : کمبخت کہیں وہ تجھے تیرے دین سے برگشتہ نہ کردے ، تیرا دین تو اس کے دین سے بہتر ہے
(ابن ہشام ، پیغمبر عالم - مولانا عبدالصمد رحمانی)
مکمل تحریر >>

غم ہی غم


یہ دونوں الم انگیز حادثے صرف چند دنوں کے دوران پیش آئے۔ جس سے نبیﷺ کے دل میں غم والم کے احساسات موجزن ہوگئے اور اس کے بعد قوم کی طرف سے بھی مصائب کا طومار بندھ گیا کیونکہ ابوطالب کی وفات کے بعد ان کی جسارت بڑھ گئی اور وہ کھل کر آپﷺ کو اذیت اور تکلیف پہنچانے لگے۔ اس کیفیت نے آپﷺ کے غم والم میں اور اضافہ کر دیا۔
آپﷺ نے ان سے مایوس ہوکر طائف کی راہ لی کہ ممکن ہے وہاں لوگ آپﷺ کی دعوت قبول کرلیں۔ آپﷺ کو پناہ دے دیں۔ اور آپﷺ کی قوم کے خلاف آپﷺ کی مدد کریں لیکن وہاں نہ کوئی پناہ دہندہ ملا نہ مدد گار بلکہ الٹے انہوں نے سخت اذیت پہنچائی اور ایسی بدسلوکی کہ خود آپﷺ کی قوم نے ویسی بد سلوکی نہ کی تھی۔(تفصیل آگے آرہی ہے)
یہاں اس بات کا اعادہ بے محل نہ ہوگا کہ اہل مکہ نے جس طرح نبیﷺ کے خلاف ظلم وجورکا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اسی طرح وہ آپﷺ کے رفقاء کے خلاف بھی ستم رانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپﷺ کے ہمدم وہمراز سیّدنا ابوبکر صدیقؓ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور حبشہ کے ارادے سے تن بہ تقدیر نکل پڑے ، لیکن برکِ غَماَد پہنچے تو ابن دغنہ سے ملاقات ہوگئی اور وہ اپنی پناہ میں آپ کو مکہ واپس لے آیا۔ اکبر شاہ نجیب آباد ی نے صراحت کی ہے کہ یہ واقعہ اسی سال پیش آیا تھا۔ دیکھئے: تاریخ اسلام ۱/۱۲۰ ، اصل واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ ابن ِ ہشام ۱/۳۷۲ تا ۳۷۴ اور صحیح بخاری ۱/۵۵۲ ، ۵۵۳ میں مذکور ہے ۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب ابوطالب انتقال کر گئے تو قریش نے رسول اللہﷺ کو ایسی اذیت پہنچائی کہ ابوطالب کی زندگی میں کبھی اس کی آرزوبھی نہ کر سکے تھے حتیٰ کہ قریش کے ایک احمق نے سامنے آکر آپﷺ کے سر پر مٹی ڈال دی۔ آپﷺ اسی حالت میں گھر تشریف لائے۔ مٹی آپﷺ کے سر پر پڑی ہوئی تھی آپﷺ کی ایک صاحبزادی نے اٹھ کر مٹی دھلی، وہ دھلتے ہوئے روتی جارہی تھیں اور رسول اللہﷺ انہیں تسلی دیتے ہوئے فرماتے جارہے تھے۔ بیٹی ! روؤ مت، اللہ تمہارے ابا کی حفاظت کرے گا۔ اس دوران آپ یہ بھی فرماتے جارہے تھے کہ قریش نے میرے ساتھ کوئی ایسی بد سلوکی نہ کی جو مجھے ناگوار گزری ہو یہاں تک کہ ابوطالب کا انتقال ہوگیا۔ (ابن ہشام ۱/۴۱۶)
اسی طرح کے پے در پے آلام ومصائب کی بنا پر اس سال کا نام ''عام الحزن'' یعنی غم کا سال پڑگیا اور یہ سال اسی نام سے تاریخ میں مشہور ہوگیا۔

مکمل تحریر >>

حجرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جوارِ رحمت میں


جناب ابوطالب کی وفات کے دوماہ بعد یا صرف تین دن بعد ...علی اختلاف الاقوال... حضرت ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ ؓ بھی رحلت فرماگئیں۔ ان کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان میں ہوئی۔ اس وقت وہ ۶۵ برس کی تھیں اور رسول اللہﷺ اپنی عمر کی پچاسویں منزل میں تھے۔
( رمضان میں وفات کی صراحت ابن جوزی نے تلقیح الفہوم ص ۷ میں اور علامہ منصور پوری نے رحمۃ للعالمین ۲/۱۶۴ میں کی ہے)
حضرت خدیجہؓ رسول اللہﷺ کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی گرانقدر نعمت تھیں۔ وہ ایک چوتھائی صدی آپﷺ کی رفاقت میں رہیں اور اس دوران رنج وقلق کا وقت آتا تو آپ کے لیے تڑپ اٹھتیں۔ سنگین اور مشکل ترین حالات میں آپﷺ کو قوت پہنچاتیں۔ تبلیغ ِ رسالت میں آپﷺ کی مدد کرتیں اور اس تلخ ترین جہاد کی سختیوں میں آپ کی شریک کار رہتیں اور اپنی جان ومال سے آپﷺ کی خیر خواہی وغمگساری کرتیں۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ جس وقت لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا وہ مجھ پر ایمان لائیں۔ جس وقت لوگوں نے مجھے جھٹلایا انہوں نے میری تصدیق کی۔ جس وقت لوگوں نے مجھے محروم کیا انہوں نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور اللہ نے مجھے ان سے اولاددی اور دوسری بیویوں سے کوئی اولاد نہ دی۔ (مسند احمد ۶/۱۱۸)
صحیح بخاری میں سیّدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبیﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اے اللہ کے رسول ! یہ خدیجہ ؓ تشریف لا رہی ہیں، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا کوئی مشروب ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آپہنچیں تو آپ انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور وشغب ہوگا نہ درماندگی وتکان۔
(صحیح بخاری باب تزویج النبی ﷺ خدیجہ وفضلہا ۱/۵۳۹)
حضورﷺ کی تمام اولاد بجز حضرت ابراہیمؓ ( جو حضرت ماریہ ؓ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے)ان ہی سے ہوئی، ان کی زندگی میں حضور ﷺ نے دوسرا نکاح نہیں کیا.

مکمل تحریر >>

عام الحزن اور ابو طالب کی وفات


ابو طالب کا مرض بڑھتا گیا اور بالآخر وہ انتقال کر گئے۔ ان کی وفات شعب ابی طالب کی محصوری کے خاتمے کے چھ ماہ بعد رجب ۱۰ نبوی میں ہوئی۔ سیرت کے مآخذ میں بڑا اختلاف ہے کہ ابو طالب کی وفات کس مہینے میں ہوئی؟ ہم نے رجب کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ بیشتر مآخذ کا اتفاق ہے کہ ان کی وفات شعب ابی طالب سے نکلنے کے چھ ماہ بعد ہوئی اور محصوری کا آغاز محرم ۷ نبوی کی چاند رات سے ہوا تھا۔ اس حساب سے ان کی موت کا زمانہ رجب ۱۰ نبوی ہی ہوتا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت مسیبؒ سے مروی ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو نبیﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے، وہاں ابو جہل بھی موجود تھا۔ آپ نے فرمایا: چچا جان ! آپ لا الٰہ الا اللہ کہہ دیجیے۔ بس ایک کلمہ جس کے ذریعے میں اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کرسکوں گا۔ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ نے کہا : ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کی ملت سے رخ پھیر لو گے؟ پھر یہ دونوں برابر ان سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو ابو طالب نے لوگوں سے کہی یہ تھی کہ ''عبد المطلب کی ملت پر۔''
نبیﷺ نے فرمایا: میں جب تک آپ سے روک نہ دیا جاؤں آپ کے لیے دعائے مغفر ت کرتا رہوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴿١١٤﴾ (۹: ۱۱۳)
''نبی (ﷺ ) اور اہل ایمان کے لیے درست نہیں کہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اگرچہ وہ قربت دار ہی کیوں نہ ہوں ، جبکہ ان پر واضح ہوچکا ہے کہ وہ لوگ جہنمی ہیں۔''
اور یہ آیت بھی نازل ہوئی :
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ (۲۸: ۵۶)
''آپ جسے پسند کریں ہدایت نہیں دے سکتے۔''(صحیح بخاری باب قصۃ ابی طالب ۱/۵۴۸)
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ابو طالب نے نبیﷺ کی کس قدر حمایت وحفاظت کی تھی۔ وہ درحقیقت مکے کے بڑوں اور احمقوں کے حملوں سے اسلامی دعوت کے بچاؤ کے لیے ایک قلعہ تھے لیکن وہ بذاتِ خود اپنے بزرگ آباء و اجداد کی ملت پر قائم رہے۔ اس لیے مکمل کامیابی نہ پاسکے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے دریافت کیا کہ آپ اپنے چچا کے کیا کام آسکے ؟ کیونکہ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لیے (دوسروں پر ) بگڑتے (اور ان سے لڑائی مول لیتے ) تھے۔ آپ نے فرمایا : وہ جہنم کی ایک چھچھلی جگہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے گہرے کھڈ میں ہوتے۔
ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ ایک بار نبیﷺ کے پاس آپ کے چچا کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا : ممکن ہے قیامت کے دن انہیں میری شفاعت فائدہ پہنچا دے اور انہیں جہنم کی ایک اوتھلی جگہ میں رکھ دیا جائے ، جو صرف ان کے دونوں ٹخنوں تک پہنچ سکے۔
(صحیح بخاری باب قصۃ ابی طالب ۱/۵۴۸)

مکمل تحریر >>

قریش کی پیشکش اور رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب


قریش کے وفد نے کہا:
اے ابو طالب ! ہمارے درمیان آپ کا جو مرتبہ ومقام ہے اسے آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اور اب آپ جس حالت سے گزر رہے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے آخری ایام ہیں، ادھر ہمارے اور آپ کے بھتیجے کے درمیان جو معاملہ چل رہا ہے اس سے بھی آپ واقف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ انہیں بلائیں اور ان کے بارے میں ہم سے کچھ عہد وپیمان لیں اور ہمارے بارے میں ان سے عہد وپیمان لیں، یعنی وہ ہم سے دستکش رہیں اور ہم ان سے دستکش رہیں۔ وہ ہم کو ہمارے دین پر چھوڑ دیں اور ہم ان کو ان کے دین پر چھوڑ دیں۔
اس پر ابو طالب نے آپﷺ کو بلوایا اور آپﷺ تشریف لائے تو کہا: بھتیجے ! یہ تمہاری قوم کے معزز لوگ ہیں، تمہارے ہی لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں کچھ عہد وپیمان دے دیں اور تم بھی انہیں کچھ عہد وپیمان دے دو۔ اس کے بعد ابوطالب نے ان کی یہ پیشکش ذکر کی کہ کوئی بھی فریق دوسرے سے تعرض نہ کر ے۔
جواب میں رسول اللہﷺ نے وفد کو مخاطب کر کے فرمایا : آپ لوگ یہ بتائیں کہ اگر میں ایک ایسی بات پیش کروں جس کے اگر آپ قائل ہوجائیں تو عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے زیرِ نگیں آجائے توآپ کی رائے کیاہوگی ؟ بعض روایتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺ نے ابو طالب کو مخاطب کرکے فرمایا:
میں ان سے ایک ایسی بات چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کے تابع فرمان بن جائیں اور عجم انہیں جزیہ ادا کریں۔ ایک روایت میں یہ مذکور ہے کہ آپ نے فرمایا : چچا جان ! آپ کیوں نہ انہیں ایک ایسی بات کی طرف بلائیں جو ان کے حق میں بہتر ہے۔ انہوں نے کہا: تم انہیں کس بات کی طرف بلانا چاہتے ہو ؟۔
آپ نے فرمایا: میں ایک ایسی بات کی طرف بلانا چاہتا ہوں جس کے یہ قائل ہوجائیں تو عرب ان کا تابع فرمان بن جائے اور عجم پر ان کی بادشاہت ہوجائے... بہر حال جب یہ بات آپﷺ نے کہی تو وہ لوگ کسی قدر توقف میں پڑ گئے اور سٹپٹا سے گئے۔ وہ حیران تھے کہ صرف ایک بات جو اس قدر مفید ہے اسے مسترد کیسے کر دیں ؟
آخر کار ابو جہل نے کہا : اچھا بتاؤ تو وہ بات کیا ہے ؟ تمہارے باپ کی قسم ! ایسی ایک بات کیا دس باتیں بھی پیش کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا :
آپ لوگ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ اس پر انہوں نے ہاتھ پیٹ پیٹ کر اور تالیاں بجا بجا کر کہا : محمد! (ﷺ ) تم یہ چاہتے ہو کہ سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالو ؟ واقعی تمہارا معاملہ بڑا عجیب ہے۔
پھر آپس میں ایک دوسر ے سے بولے : اللہ کی قسم! یہ شخص تمہاری کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔ لہٰذا چلو اور اپنے آباء واجداد کے دین پر ڈٹ جاؤ، یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ اس واقعے کے بعد انہی لوگوں کے بارے میں سورۃ ص کی آیات نازل ہوئیں :
''ص ، قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی۔ بلکہ جنہوں نے کفر کیا ہی کڑ ی اور ضد میں ہیں۔ ہم نے کتنی ہی قومیں ان سے پہلے ہلاک کر دیں اور وہ چیخے چلائے۔ (لیکن اس وقت ) جبکہ بچنے کا وقت نہ تھا۔ انہیں تعجب ہے کہ ان کے پاس خود انہی میں سے ایک ڈرانے والا آگیا۔ کافر کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے، بڑا جھوٹا ہے۔ کیا اس نے سارے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے اور ان کے بڑے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو۔ یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم ہے۔ ہم نے کسی اور ملت میں یہ بات نہیں سنی ، یہ محض گھڑنت ہے۔''
(ابن ہشام ۱/۴۱۷ تا ۴۱۹ ، ترمذی حدیث نمبر ۳۲۳۲ (۵/۳۴۱) مسند ابی یعلیٰ حدیث نمبر ۲۵۸۳ (۴/۴۵۶ ) تفسیر ابن جریر)

مکمل تحریر >>

ابو طالب کی خدمت میں قریش کا آخری وفد


رسول اللہﷺ نے شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعدپھر حسبِ معمول دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا اور اب مشرکین نے اگر چہ بائیکاٹ ختم کردیا تھا لیکن وہ بھی حسب معمول مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے اور اللہ کی راہ سے روکنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے اور جہاں تک ابو طالب کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنی دیرینہ روایت کے مطابق پوری جاں سپاری کے ساتھ اپنے بھتیجے کی حمایت وحفاظت میں لگے ہوئے تھے لیکن اب عمر اَسّی سال سے متجاوز ہوچلی تھی۔ کئی سال سے پے در پے سنگین آلام وحوادث نے خصوصاً محصوری نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے قویٰ مضمحل ہوگئے تھے اور کمر ٹوٹ چکی تھی، چنانچہ گھاٹی سے نکلنے کے بعد چند ہی مہینے گزرے تھے کہ انہیں سخت بیماری نے آن پکڑا۔ اس موقع پر مشرکین نے سوچا کہ اگر ابوطالب کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد ہم نے اس کے بھتیجے پر کوئی زیادتی کی تو بڑی بدنامی ہوگی۔ اس لیے ابوطالب کے سامنے ہی نبیﷺ سے کوئی معاملہ طے کرلینا چاہیے۔ اس سلسلے میں وہ بعض ایسی رعائتیں بھی دینے کے لیے تیار ہوگئے جس پر اب تک راضی نہ تھے۔ چنانچہ ان کا ایک وفد ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ ان کاآخری وفد تھا۔
ابن اسحاق وغیرہ کا بیان ہے کہ جب ابوطالب بیمار پڑ گئے اور قریش کو معلوم ہوا کہ ان کی حالت غیر ہوتی جارہی ہے تو انہوں نے آپس میں کہا : دیکھو ! حمزہ اور عمر مسلمان ہوچکے ہیں اور محمدﷺ کا دین قریش کے ہر قبیلے میں پھیل چکا ہے۔ اس لیے چلو ابو طالب کے پاس چلیں کہ وہ اپنے بھتیجے کو کسی بات کا پابند کر یں اور ہم سے بھی ان کے متعلق عہد لے لیں۔ کیونکہ واللہ! ہمیں اندیشہ ہے لوگ ہمارے قابو میں نہ رہیں گے۔
ایک روایت یہ ہے کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ یہ بڈھا مر گیا اور محمد (ﷺ ) کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہوگئی تو عرب ہمیں طعنہ دیں گے۔ کہیں گے کہ انہوں نے محمد (ﷺ ) کو چھوڑے رکھا۔(اور اس کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہ کی) لیکن جب اس کا چچا مر گیا تو اس پر چڑھ دوڑے۔
بہرحال قریش کا یہ وفد ابوطالب کے پاس پہنچا اور ان سے گفت وشنید کی۔ وفد کے ارکان قریش کے معزز ترین افراد تھے، یعنی عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام ، امیہ بن خلف ،ابو سفیان بن حرب اور دیگر اشرافِ قریش جن کی کل تعداد تقریبا ً پچیس تھی۔

مکمل تحریر >>

بائیکاٹ کا صحیفہ چاک کیا جاتا ہے


صبح ہوئی تو سب لوگ حسب ِ معمول اپنی اپنی محفلوں میں پہنچے۔ زہیر بھی ایک جوڑا زیبِ تن کیے ہوئے پہنچا۔ پہلے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر بولا: مکے والو!کیا ہم کھا نا کھائیں ، کپڑے پہنیں اور بنوہاشم تباہ وبرباد ہوں۔ نہ ان کے ہاتھ کچھ بیچا جائے نہ ان سے کچھ خریدا جائے۔ اللہ کی قسم !میں بیٹھ نہیں سکتا یہاں تک کہ اس ظالمانہ اور قرابت شکن صحیفے کو چاک کر دیا جائے۔
ابو جہل ...جو مسجد حرام کے ایک گوشے میں موجود تھا- بولا : تم غلط کہتے ہو۔ اللہ کی قسم! اسے پھاڑا نہیں جاسکتا۔
اس پر زمعہ بن اسود نے کہا : واللہ! تم زیادہ غلط کہتے ہو۔ جب یہ صحیفہ لکھا گیا تھا تب بھی ہم اس سے راضی نہ تھے۔
اس پر ابو البختری نے گرہ لگا ئی : زمعہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے نہ ہم راضی ہیں نہ اسے ماننے کو تیار ہیں۔ اس کے بعد مطعم بن عدی نے کہا : تم دونوں ٹھیک کہتے ہو اور جو اس کے خلاف کہتا ہے غلط کہتا ہے۔ ہم اس صحیفہ سے اور اس میں جو کچھ لکھا ہوا ہے اس سے اللہ کے حضور براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔
پھر ہشام بن عمرو نے بھی اسی طرح کی بات کہی۔
یہ ماجرا دیکھ کر ابوجہل نے کہا : ہونہہ۔ یہ بات رات میں طے کی گئی ہے اور اس کا مشورہ یہاں کے بجائے کہیں اور کیا گیا ہے۔
اس دوران ابو طالب بھی حرم پاک کے ایک گوشے میں موجود تھے۔ ان کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو اس صحیفے کے بارے میں یہ خبر دی تھی کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے کیڑے بھیج دیئے ہیں۔ جنہوں نے ظلم وستم اور قرابت شکنی کی ساری باتیں چٹ کردی ہیں اور صرف اللہ عزوجل کا ذکر باقی چھوڑا ہے۔ پھر نبیﷺ نے اپنے چچا کو یہ بات بتائی تو وہ قریش سے یہ کہنے آئے تھے کہ ان کے بھتیجے نے انہیں یہ اور یہ خبر دی ہے اگر وہ جھوٹا ثابت ہوا تو ہم تمہارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جائیں گے اور تمہارا جو جی چاہے کرنا ، لیکن اگر وہ سچاثابت ہوا تو تمہیں ہمارے بائیکاٹ اور ظلم سے باز آنا ہوگا اور اس پر قریش نے کہا تھا : آپ انصاف کی بات کہہ رہے ہیں۔
ادھر ابوجہل اور باقی لوگوں کی نوک جھونک ختم ہوئی تو مطعم بن عدی صحیفہ چاک کرنے کے لیے اٹھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ واقعی کیڑوں نے اس کا صفایا کردیا ہے۔ صرف باسمک اللّٰھم باقی رہ گیا ہے اور جہاں جہا ں اللہ کا نام تھا وہ بچا ہے، کیڑوں نے اسے نہیں کھا یا تھا۔
اس کے بعد صحیفہ چاک ہوگیا۔ رسول اللہﷺ اور بقیہ تمام حضرات شعب ابی طالب سے نکل آئے اور مشرکین نے آپ کی نبوت کی ایک عظیم الشان نشانی دیکھی ، لیکن ان کا رویہ وہی رہا۔ جس کا ذکر اس آیت میں ہے:
وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴿٢﴾ (۵۴:۲)
''اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو رخ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ توچلتا پھرتا جادو ہے۔''
چنانچہ مشرکین نے اس نشانی سے بھی رخ پھیر لیا اور اپنے کفر کی راہ میں چند قدم اور آگے بڑھ گئے۔ 1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
! بائیکاٹ کی یہ تفصیل حسب ذیل مآخذ سے مرتب کی گئی ہے۔ صحیح بخاری باب نزول النبیﷺ بمکۃ ۱/۲۱۶ باب تقاسم المشرکین علی النبیﷺ۱/۵۴۸ زاد المعاد ۲/۴۶۔ ابن ہشام ۱/۳۵۰ ، ۳۵۱ ، ۳۷۴ تا۳۷۷، ان مآخذ میں قدرے اختلاف بھی ہے۔ ہم نے قرائن کی روشنی میں راجح پہلو درج کیا ہے۔

مکمل تحریر >>

بائیکاٹ ختم کرنے کے لئے صلاح مشورے


ان حالات پر پورے تین سال گزر گئے۔ اس کے بعد محرم ۱۰ نبوت میں صحیفہ چاک کیے جانے اور اس ظالمانہ عہد وپیمان کو ختم کیے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شروع ہی سے قریش کے کچھ لوگ اگر اس عہد و پیمان سے راضی تھے تو کچھ ناراض بھی تھے اور انہی ناراض لوگوں نے اس صحیفے کو چاک کر نے کی تگ و دو کی۔
اس کا اصل محرک قبیلہ بنو عامر بن لوئ کا ہشام بن عمرو نامی ایک شخص تھا۔ یہ رات کی تاریکی میں چپکے چپکے شعب ابی طالب کے اندر غلہ بھیج کر بنو ہاشم کی مدد بھی کیا کرتا تھا ...یہ زہیر بن ابی امیہ مخزومی کے پاس پہنچا ... زہیر کی ماں عاتکہ ، عبد المطلب کی صاحبزادی، یعنی ابو طالب کی بہن تھیں اور اس سے کہا : زہیر ! کیا تمہیں یہ گوارا ہے کہ تم تو مزے سے کھاؤ ، پیو اور تمہارے ماموں کا وہ حال ہے جسے تم جانتے ہو ؟
زہیر نے کہا: افسوس ! میں تن تنہا کیا کر سکتا ہوں۔ ہاں، اگر میرے ساتھ کوئی اور آدمی ہوتا تو میں اس صحیفے کو پھاڑ نے کے لیے یقینا اٹھ پڑ تا۔ اس نے کہا: اچھا تو ایک آدمی اور موجود ہے۔ پوچھا :کو ن ہے ؟ کہا : میں ہوں۔ زہیر نے کہا : اچھا تو اب تیسرا آدمی تلاش کرو۔
اس پر ہشام ، مُطعم بن عدی کے پاس گیا اور بنو ہاشم اور بنو مطلب سے جو کہ عبد مناف کی اولاد تھے مطعم کے قریبی نسبی تعلق کا ذکر کرکے اسے ملامت کی کہ اس نے اس ظلم پر قریش کی ہم نوائی کیونکر کی ؟ ...
یاد رہے کہ مطعم بھی عبدمناف ہی کی نسل سے تھا۔ مطعم نے کہا : افسوس ! میں تن تنہا کیا کرسکتا ہوں۔ ہشام نے کہا: ایک آدمی اور موجود ہے۔ مطعم نے پوچھا: کون ہے ؟ ہشام نے کہا :میں۔ مطعم نے کہا: اچھا ایک تیسرا آدمی تلاش کرو۔ ہشام نے کہا :یہ بھی کر چکا ہوں۔ پوچھا: وہ کون ہے ؟ کہا: زہیر بن ابی امیہ ، مطعم نے کہا : اچھا تو اب چوتھا آدمی تلاش کرو۔ اس پر ہشام بن عمرو ، ابو البختری بن ہشام کے پاس گیا اور اس سے بھی اسی طرح کی گفتگو کی جیسی مطعم سے کی تھی۔ اس نے کہا :بھلا کوئی اس کی تائید بھی کرنے والا ہے ؟ ہشام نے کہا: ہاں۔ پوچھا :کون ؟ کہا : زہیر بن ابی امیہ ،مطعم بن عدی اور میں۔ اس نے کہا : اچھا تو اب پانچواں آدمی ڈھونڈو ...اس کے لیے ہشام ، زمعہ بن اسود بن مطلب بن اسد کے پاس گیا اور اس سے گفتگو کرتے ہوئے بنوہاشم کی قرابت اور ان کے حقوق یاددلائے۔ اس نے کہا : بھلا جس کام کے لیے مجھے بلا رہے ہو اس سے کوئی اور بھی متفق ہے؟ ہشام نے اثبات میں جواب دیا اور سب کے نام بتلائے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے حجون کے پاس جمع ہوکر آپس میں یہ عہد وپیمان کیا کہ صحیفہ چاک کرنا ہے۔ زہیر نے کہا : میں ابتدا کروں گا، یعنی سب سے پہلے میں ہی زبان کھولوں گا۔

مکمل تحریر >>

تین سال شعبِ ابی طالب میں


اس بائیکاٹ کے نتیجے میں حالات نہایت سنگین ہوگئے۔ غلّے اور سامان خوردونوش کی آمد بند ہوگئی۔ کیونکہ مکے میں جو غلہ یا فروختنی سامان آتا تھا اسے مشرکین لپک کر خرید لیتے تھے۔ اس لیے محصورین کی حالت نہایت پتلی ہوگئی، انہیں پتے اور چمڑے کھانے پڑے۔
فاقہ کشی کا حال یہ تھا بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں اور عورتوں کی آوازیں گھاٹی کے باہر سنائی پڑتی تھیں۔ ان کے پاس بمشکل ہی کوئی چیز پہنچ پاتی تھی ، وہ بھی پس پردہ۔ وہ لوگ
حرمت والے مہینوں کے علاوہ باقی ایام میں اشیائے ضرورت کی خرید کے لیے گھاٹی سے باہر نکلتے بھی نہ تھے اور پھر انہیں قافلوں کا سامان خرید سکتے تھے جو باہر سے مکہ آتے تھے لیکن ان کے سامان کے دام بھی مکے والے اس قدر بڑھا کر خریدنے کے لیے تیار ہوجاتے تھے کہ محصورین کے لیے کچھ خریدنا مشکل ہوجاتا تھا۔
حکیم بن حزام جو حضرت خدیجہ ؓ کا بھتیجا تھا کبھی کبھی اپنی پھوپھی کے لیے گیہوں بھجوادیتا تھا۔ ایک بار ابوجہل سے سابقہ پڑ گیا۔ وہ غلہ روکنے پر اڑ گیا لیکن ابو البختری نے مداخلت کی اور اسے اپنی پھوپھی کے پاس گیہوں بھجوانے دیا۔
ادھر ابو طالب کو رسول اللہﷺ کے بارے میں برابر خطرہ لگا رہتا تھا اس لیے جب لوگ اپنے اپنے بستروں پر جاتے تو وہ رسول اللہﷺ سے کہتے تم اپنے بستر پر سو رہو۔ مقصد یہ ہوتا کہ اگر کوئی شخص آپ کو قتل کرنے کی نیت رکھتا ہوتو دیکھ لے کہ آپ کہا ں سو رہے ہیں۔ پھر جب لوگ سو جاتے تو ابوطالب آپ کی جگہ بدل دیتے، یعنی اپنے بیٹوں ، بھائیوں یا بھتیجوں میں سے کسی کو رسول اللہﷺ کے بستر پر سلا دیتے اور رسول اللہﷺ سے کہتے کہ تم اس کے بستر پر چلے جاؤ۔
اس محصوری کے باوجود رسول اللہﷺ اور دوسرے مسلمان حج کے ایام میں باہر نکلتے تھے اور حج کے لیے آنے والوں سے مل کر انہیں اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ اس موقع پر ابو لہب کی جو حرکت ہوا کرتی تھی اس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکاہے۔

مکمل تحریر >>

ظلم و ستم کا پیمان - مکمل بائیکاٹ

جب مشرکین کے تمام حیلے ختم ہوگئے اور انہوں نے یہ دیکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب ہر چہ باداباد نبیﷺ کی حفاظت اور بچاؤ کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں تو بالآخر وادئ مُحصَّب میں خیفبنی کنانہ کے اندر جمع ہوکر آپس میں بنی ہاشم اور بنی مطلب کے خلاف یہ عہد وپیمان کیا کہ نہ ان سے شادی بیاہ کریں گے ، نہ خرید وفروخت کریں گے۔ نہ ان کے ساتھ اُٹھیں بیٹھیں گے ، نہ ان سے میل جول رکھیں گے ، نہ ان کے گھروں میں جائیں گے،نہ ان سے بات چیت کریں گے، جب تک کہ وہ رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کے لیے ان کے حوالے نہ کردیں۔
مشرکین نے اس بائیکاٹ کی دستاویز کے طور پر ایک صحیفہ لکھا جس میں اس بات کا عہد وپیمان کیا گیا تھا کہ وہ بنی ہاشم کی طرف سے کبھی بھی کسی صلح کی پیش کش قبول نہ کریں گے، نہ ان کے ساتھ کسی طرح کی مروت برتیں گے جب تک کہ وہ رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کے لیے مشرکین کے حوالے نہ کردیں۔
ابن قیم کہتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ یہ صحیفہ منصور بن عکرمہ بن عامر بن ہاشم نے لکھا تھا اور بعض کے نزدیک نضر بن حارث نے لکھا تھا لیکن صحیح بات یہ ہے کہ لکھنے والابغیض بن عامر بن ہاشم تھا۔ رسول اللہﷺ نے اس پر بد دعا کی اور اس کا ہاتھ شل ہوگیا۔ (زاد المعاد ۲/۴۶)
بہر حال یہ عہد وپیمان طے پا گیا اور صحیفہ خانہ کعبہ کے اندر لٹکا دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ابولہب کے سوا بنی ہاشم اور بنی مطلب کے سارے افراد خواہ مسلمان رہے ہوں یا کافر سمٹ سمٹا کر شِعَبِ ابی طالب میں محبوس ہوگئے۔ یہ نبیﷺ کی بعثت کے ساتویں سال محرم کی چاند رات کا واقعہ ہے۔

مکمل تحریر >>

مشرکین کی سنجیدہ غور و فکر اور یہود سے رابطہ





مذکورہ اتنی بات چیت ، ترغیبات ، سودے بازیوں اوردست برداریوں میں ناکامی کے بعد مشرکین کے سامنے راستے تاریک ہوگئے تھے ۔ وہ حیران تھے کہ اب کیاکریں۔ چنانچہ ان کے ایک شیطان نضر بن حارث نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا :
قریش کے لوگو !و اللہ! تم پر ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ تم لوگ اب تک اس کا کوئی توڑ نہیں لا سکے۔محمد تم میں جوان تھے تو تمہارے سب سے پسندیدہ آدمی تھے سب سے زیادہ سچے اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھے۔ اب جبکہ ان کی کنپٹیوں پر سفیدی دکھائی پڑنے کو ہے (یعنی ادھیڑ ہوچلے ہیں ) اور وہ تمہارے پاس کچھ باتیں لے کر آئے ہیں تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہیں نہیں ، واللہ !وہ جادوگر نہیں۔ ہم نے جادوگر دیکھے ہیں۔ ان کی چھاڑ پھونک اور گرہ بندی بھی دیکھی ہے اور تم لوگ کہتے ہو وہ کاہن ہیں۔ نہیں واللہ! وہ کاہن بھی نہیں ، ہم نے کاہن بھی دیکھے ہیں۔ ان کی الٹی سیدھی حرکتیں بھی دیکھی ہیں اور ان کی فقرہ بندیاں بھی سنی ہیں ، تم لوگ کہتے ہو وہ شاعر ہیں۔ نہیں ، واللہ !وہ شاعر بھی نہیں۔ ہم نے شعر بھی دیکھا ہے اور اس کے سارے اصناف ، ہجز ، رجز وغیرہ سنے ہیں۔ تم لوگ کہتے ہو وہ پاگل ہیں۔ نہیں واللہ !وہ پاگل بھی نہیں ، ہم نے پاگل پن بھی دیکھا ہے۔ ان کے یہاں نہ اس طرح کی گھٹن ہے نہ ویسی بہکی بہکی باتیں ، اور نہ ان کے جیسی الٹی سیدھی حرکتیں۔ قریش کے لوگو ! سوچو ، واللہ ! تم پر زبردست افتاد آن پڑی ہے۔
ایسا معلوم ہو تا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ نبیﷺ ہر چیلنج کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں۔ آپ نے ساری ترغیبات پر لات مار دیا ہے اور ہر معاملے میں بالکل کھرے اور ٹھوس ثابت ہوئے ہیں۔ جبکہ سچائی ، پاکدامنی ، اور مکارم اخلاق سے پہلے ہی سے بہرہ ور چلے آرہے ہیں۔ تو ان کا یہ شبہ زیادہ قوی ہوگیا کہ آپ واقعی رسول برحق ہیں۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہود سے رابطہ قائم کرکے آپ کے بارے میں ذرا اچھی طرح اطمینان حاصل کرلیا جائے۔ چنانچہ جب نضر بن حارث نے مذکورہ نصیحت کی تو قریش نے خود اسی کو مکلف کیا کہ وہ ایک یا چند آدمیوں کو ہمراہ لے کر یہود مدینہ کے پاس جائے، اور ان سے آپ کے معاملے کی تحقیق کر ے۔
چنانچہ وہ مدینہ آیا تو علماء یہود نے کہا کہ اس سے تین باتوں کا سوال کرو۔ اگر وہ بتادے تو نبی مرسل ہے ورنہ سخن ساز۔
اس سے پوچھو کہ پچھلے دور میں کچھ نوجوان گزرے ہیں ان کا کیا واقعہ ہے ؟ کیونکہ ان کا بڑا عجیب واقعہ ہے ۔
اور اس سے پوچھو کہ ایک آدمی نے زمین کے مشرق ومغرب کے چکر لگائے اس کی کیا خبر ہے ؟
اور اس سے پوچھو کہ روح کیا ہے ؟
اس کے بعد نضر بن حارث مکہ آیا تواس نے کہا کہ میں تمہارے اور محمد کے درمیان ایک فیصلہ کن بات لے کر آیا ہوں اس کے ساتھ ہی اس نے یہود کی کہی ہوئی بات بتائی۔ چنانچہ قریش نے آپ سے ان تینوں باتوں کا سوال کیا۔ چند دن بعد سورہ ٔ کہف نازل ہوئی جس میں ان جوانوں کا اور اس چکر لگانے والے آدمی کا واقعہ بیان کیا گیا تھا جو ان اصحاب کہف میں سے تھے اور وہ آدمی ذوالقرنین تھا۔ روح کے متعلق جواب سورۂ اسراء میں نازل ہوا۔ اس سے قریش پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ سچے اور برحق پیغمبر ہیں لیکن ان ظالموں نے کفر وانکار ہی کا راستہ اختیار کیا۔ (ابن ہشام ۱/۲۹۹ ، ۳۰۰ ، ۳۰۱)
مشرکین نے رسول اللہﷺ کی دعوت کا جس انداز سے مقابلہ کیا تھا یہ اس کا ایک مختصر سا خاکہ ہے۔ انہوں نے یہ سارے اقدامات پہلو بہ پہلو کیے تھے۔ وہ ایک ڈھنگ سے دوسرے ڈھنگ اور ایک طرز عمل سے دوسرے طرز عمل کی طرف منتقل ہوتے رہتے تھے۔ سختی سے نرمی کی طرف اور نر می سے سختی کی طرف، جدال سے سودے بازی کی طرف اور سودے بازی سے جدال کی طرف ، دھمکی سے ترغیب کی طرف اور ترغیب سے دھمکی کی طرف ، کبھی بھڑکتے ، کبھی نرم پڑ جاتے ، کبھی جھگڑے اور کبھی چکنی چکنی باتیں کرنے لگتے۔ کبھی مرنے مارنے پر اترآتے اور کبھی خود اپنے دین سے دست بردار ہونے لگتے کبھی گرجتے برستے اور کبھی عیش دنیا کی پیشکش کرتے۔ نہ انہیں کسی پہلو قرار تھا۔ نہ کنارہ کشی ہی گورا تھی اور ان سب کا مقصود یہ تھا کہ اسلامی دعوت ناکام ہوجائے اور کفر کا پراگندہ شیرازہ پھر سے جڑ جائے ، لیکن ان ساری کوششوں اور سارے حیلوں کے بعد بھی وہ ناکام ہی رہے اور ان کے سامنے صرف ایک ہی چارہ ٔ کا ر رہ گیا اور یہ تھا تلوار ، مگر ظاہر ہے تلوار سے اختلاف میں اور شدت ہی آتی، بلکہ باہم کشت وخون کا ایسا سلسلہ چل پڑتا جو پوری قوم کو لے ڈوبتا اس لیے مشرکین حیران تھے کہ وہ کیا کر یں۔

مکمل تحریر >>

مشرکین کی سودے بازیاں اور دست برداریاں





جب قریش ترغیب و تحریص اور دھمکی ووعید سے ملی جلی اپنی گفتگو میں ناکام ہوگئے اور ابوجہل کو اپنی رعونت اور ارادہ ٔ قتل میں منہ کی کھانی پڑی تو قریش میں ایک پائیدار حل تک پہنچے کی رغبت بیدار ہوئی ، تاکہ جس'' مشکل ''میں وہ پڑ گئے تھے اس سے نکل سکیں۔ ادھر انہیں یہ یقین بھی نہیں تھا کہ نبیﷺ واقعی باطل پر ہیں۔ بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے۔ وہ لوگ ڈگمگا دینے والے شک میں تھے۔ لہٰذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ دین کے بارے میں آپﷺ سے سودے بازی کی جائے۔ اسلام اور جاہلیت دونوں بیچ راستے میں ایک دوسرے سے مل جائیں اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر اپنی باتیں مشرکین چھوڑ دیں اور بعض باتوں کو نبیﷺ سے چھوڑنے کے لیے کہا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر نبیﷺ کی دعوت بر حق ہے تو اس طرح وہ بھی اس حق کو پالیں گے۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے کہ اسود بن مطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ ،ولید بن مغیرہ ، امیہ بن خلف اور عاص بن وائل سہمی آپ کے سامنے آگئے۔ یہ سب اپنی قوم کے بڑے لوگ تھے۔ بولے:
اے محمد ! آئیے جسے آپ پوجتے ہیں اسے ہم بھی پوجیں اور جسے ہم پوجتے ہیں اسے آپ بھی پوجیں۔ اسی طرح ہم اور آپ اس کام میں مشترک ہوجائیں۔ اب اگر آپ کا معبود ہمارے معبود سے بہتر ہے تو ہم اس سے اپنا حصہ حاصل کرچکے ہوں گے اور اگر ہمارا معبود آپ کے معبود سے بہتر ہوا تو آپ اس سے اپنا حصہ حاصل کرچکے ہوں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ سورۂ نازل فرمائی جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ جسے تم لوگ پوجتے ہو اسے میں نہیں پوج سکتا۔ (ابن ہشام ۱/۳۶۲)
ابن جریر وغیرہ نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ مشرکین نے رسول اللہﷺ سے کہا : آپ ایک سال ہمارے معبودوں کی پوجا کریں اور ہم ایک سال آپ کے معبود کی پوجا کریں۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی : قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ ﴿٦٤﴾ (۳۹: ۶۴) آپ کہہ دیں کہ اے نادانو ! کیا تم مجھے غیر اللہ کی عبادت کے لیے کہتے ہو ؟( تفسیر ابن جریر طبری)
اللہ تعالیٰ نے اس قطعی اور فیصلہ کن جواب سے اس مضحکہ خیز گفت وشنید کی جڑ کا ٹ دی لیکن پھر بھی قریش پورے طور سے مایوس نہیں ہوئے۔ بلکہ انہوں نے اپنے دین سے مزید دست برداری پر آمادگی ظاہر کی۔ البتہ یہ شرط لگائی کہ نبیﷺ بھی جو تعلیمات لے کر آئے ہیں اس میں کچھ تبدیلی کریں۔ چنانچہ انہوں نے کہا :
اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ۔ یا اسی میں تبدیلی کر دو۔ اللہ نے اس کا جو جواب نبیﷺ کو بتلایا اس کے ذریعہ یہ راستہ بھی کاٹ دیا۔ چنانچہ فرمایا:
قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿١٥﴾ (۱۰: ۱۵) ''
"آپ کہہ دیں مجھے اس کا اختیار نہیں کہ میں اس میں خود اپنی طرف سے تبدیلی کروں۔ میں تو محض اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی وحی میری طرف کی جاتی ہے۔ میں نے اگر اپنے رب کی نافرمانی کی تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہو ں۔ ''
اللہ نے اس کا م کی زبردست خطر ناکی کا ذکر اس آیت میں بھی فرمایا:
وَإِن كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَّاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا ﴿٧٣﴾ وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ﴿٧٤﴾ إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ﴿٧٥﴾ (
''اور قریب تھا کہ جو وحی ہم نے آپ کی طرف کی ہے اس سے یہ لوگ آپ کو فتنے میں ڈال دیتے تاکہ آپ ہم پر کوئی اور بات کہہ دیں۔ اورتب یقینا یہ لوگ آپ کو گہرا دوست بنالیتے اور اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ ان کی طرف تھوڑا سا جھک جاتے اور تب ہم آپ کو دوہری سزا
زندگی میں اور دوہری سزا مرنے کے بعد چکھاتے۔ پھر آپ کو ہمارے مقابل کوئی مدد گار نہ ملتا۔ ''(۱۷: ۷۳ تا ۷۵)

مکمل تحریر >>

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روَسائے قریش کی بات چیت


عتبہ کی مذکورہ پیش کش کا جس انداز میں رسول اللہﷺ نے جواب دیا تھا اس سے قریش کی توقعات پورے طور سے ختم نہیں ہوئی تھیں۔ کیونکہ آپ کے جواب میں ان کی پیشکش کو ٹھکرانے یا قبول کرنے کی صراحت نہ تھی۔ بس آپ نے چند آیات تلاوت کر دیں تھیں ، جنہیں عتبہ پورے طور پر سمجھ نہ سکا تھا اور وہیں واپس چلا گیا تھا۔ اس لیے قریش نے آپس میں پھرمشورہ کیا۔ معاملے کے پہلوؤں پر نظر دوڑائی اور سارے امکانات کا غور وخوض کے ساتھ جائزہ لیا۔ اس کے بعد ایک دن سورج ڈوبنے کے بعد کعبہ کی پشت پر جمع ہوئے اور رسول اللہﷺ کو بلا بھیجا۔ آپ خیر کی توقع لیے ہوئے جلدی سے تشریف لائے۔ جب ان کے درمیان بیٹھ چکے تو انہوں نے ویسی ہی باتیں کہیں جیسی عتبہ نے کہی تھیں اور وہی پیشکش کی جو عتبہ نے کی تھی۔ شاید ان کا خیال رہا ہو کہ ممکن ہے تنہا عتبہ کے پیشکش کرنے سے آپ کو پورا اطمینان نہ ہوا ہو۔ اس لیے جب سارے رؤساء مل کر اس پیشکش کو دہرائیں گے تو اطمینان ہوجائے گا اور آپ اسے قبول کر لیں گے۔ مگر آپﷺ نے فرمایا :
''میرے ساتھ وہ بات نہیں جو آپ لوگ کہہ رہے ہیں۔ میں آپ لوگوں کے پاس جو کچھ لے کر آیا ہوں وہ اس لیے نہیں لے کر آیا ہوں کہ مجھے آپ کا مال مطلوب ہے۔ یا آپ کے اندر شرف مطلوب ہے۔ یا آپ پر حکمرانی مطلوب ہے۔ نہیں بلکہ مجھے اللہ نے آپ کے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ مجھ پر اپنی کتاب اتاری ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو خوشخبری دوں اور ڈراؤں۔ لہٰذا میں نے آپ لوگوں تک اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور آپ لوگوں کو نصیحت کردی۔ اب اگر آپ لوگ میری لائی ہوئی بات قبول کرتے ہیں تو یہ دنیا اور آخرت میں آپ کا نصیب ہے اور اگر رد کرتے ہیں تو میں اللہ کے امر کا انتظار کروں گا ، یہاں تک کہ وہ میرے اور آپ کے درمیان فیصلہ فرمادے۔''
اس جواب کے بعد انہوں نے ایک دوسرا پہلو بدلا کہنے لگے: آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ہمارے پاس سے ان پہاڑوں کو ہٹا کر کھلا ہو میدان بنادے او راس میں ندیاں جاری کر دے اور ہمارے مُردوں بالخصوص قصی بن کلاب کو زندہ کر لائے۔ اگر وہ آپ کی تصدیق کردیں تو ہم بھی ایمان لے آئیں گے۔ آپ نے ان کی اس بات کا بھی وہی جواب دیا۔
اس کے انہوں نے ایک تیسر اپہلو بدلا۔ کہنے لگے آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ایک فرشتہ بھیج دے جو آپ کی تصدیق کرے اور جس سے ہم آپ کے بارے میں مراجعہ بھی کرسکیں اور یہ بھی سوال کریں کہ آپ کے لیے باغات ہوں ، خزانے ہوں اور سونے چاندی کے محل ہوں۔ آپ نے اس بات کا بھی وہی جواب دیا۔
اس کے بعد انہوں نے ایک چوتھا پہلو بدلا۔ کہنے لگے کہ اچھا تو آپ ہم پر عذاب ہی لادیجیے اور آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی گرادیجیے۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں اور دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : اس کا اختیار اللہ کو ہے۔ وہ چاہے تو ایسا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ کے رب کو معلوم نہ تھا کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھیں گے۔ آپ سے سوال وجواب کریں گے اور آپ سے مطالبے کریں گے کہ وہ سکھا دیتا کہ آپ ہمیں کیا جواب دیں گے اور اگر ہم نے آپ کی بات نہ مانی تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ؟
پھر اخیر میں انہوں نے سخت دھمکی دی اور کہنے لگے: سن لو ! جوکچھ کر چکے ہو اس کے بعد ہم تمہیں یوں ہی نہیں چھوڑیں گے بلکہ یا تو تمہیں مٹادیں گے یا خود مٹ جائیں گے۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ اٹھ گئے اور اپنے گھر واپس آگئے۔ آپ کو غم وافسوس تھا کہ جو توقع آپ نے باندھ رکھی وہ پوری نہ ہوئی۔ (ملخص از روایت ابن اسحاق (ابن ہشام ۱/۲۹۵، ۲۹۸ ) وابن جریر وابن المنذرو ابن ابی حاتم (الدر المنثور ۴/۳۶۵،۳۶۶))
جب رسول اللہﷺ ان لوگوں کے پاس سے اٹھ کرواپس تشریف لے گئے تو ابوجہل نے انہیں مخاطب کر کے پورے غرور وتکبر کے ساتھ کہا :
برادران قریش آپ دیکھ رہے ہیں کہ محمد (ﷺ ) ہمارے دین کی عیب چینی ، ہمارے آباء واجداد کی بد گوئی ، ہماری عقلوں کی تخفیف اور ہمارے معبودوں کی تذلیل سے باز نہیں آتا ، اس لیے میں اللہ سے عہد کررہا ہوں کہ ایک بہت بھاری اور بمشکل اٹھنے والاپتھر لے کر بیٹھوں گا اور جب وہ سجدہ کرے گا تو اس پتھر سے اس کا سر کچل دوں گا۔ اب اس کے بعد چاہے آپ لوگ مجھ کو بے یارومددگار چھوڑدیں چاہے میری حفاظت کریں اور بنوعبد مناف بھی اس کے بعد جو جی چاہے کریں۔
لوگوں نے کہا : نہیں واللہ! ہم تمہیں کبھی کسی معاملے میں بے یارومدد گار نہیں چھوڑسکتے، تم جو کرنا چاہو کر گزرو۔ چنانچہ صبح ہوئی تو ابوجہل ویسا ہی ایک پتھر لے کر رسول اللہﷺ کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ رسول اللہﷺ حسب دستور تشریف لائے ، اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے ، قریش بھی اپنی اپنی مجلسوں میں آچکے تھے اور ابو جہل کی کاروائی دیکھنے کے منتظر تھے۔
جب رسول اللہﷺ سجدے میں تشریف لے گئے تو ابوجہل نے پتھر اٹھایا ، پھر آپ کی جانب بڑھا لیکن جب قریب پہنچا تو شکست خوردہ حالت میں واپس بھاگا۔ اس کار نگ فق تھا اور اس قدر مرعوب تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ پتھر پر چپک کر رہ گئے تھے۔ وہ بمشکل ہاتھ سے پتھر پھینک سکا۔ ادھر قریش کے کچھ لوگ اٹھ کر اس کے پاس آئے ، اور کہنے لگے : ابو الحکم تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ اس نے کہا : میں نے رات جو بات کہی تھی وہی کرنے جارہا تھا لیکن جب اس کے قریب پہنچا تو ایک اونٹ آڑے آگیا۔ واللہ! میں نے کبھی کسی اونٹ کی ویسی کھوپڑی ، ویسی گردن اور ویسے دانت دیکھے ہی نہیں، وہ مجھے کھا جانا چاہتا تھا۔
ابن اسحاق کہتے ہیں : مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : یہ جبریل علیہ السلام تھے، اگر ابوجہل قریب آتا تو اسے دھر پکڑتے۔ (ابن ہشام ۱/۲۹۸، ۲۹۹)
مکمل تحریر >>

قریش کا نمائندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں


ان دونو ں بطلِ جلیل، یعنی حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے مسلمان ہوجانے کے بعد ظلم وطغیان کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے اور مسلمانوں کو جور وستم کا تختۂ مشق بنانے کے لیے مشرکین پر جو بدمستی چھائی تھی اس کی جگہ سوجھ بوجھ نے لینی شروع کی۔ چنانچہ مشرکین نے یہ کو شش کی کہ اس دعوت سے نبیﷺ کا جو منشا اور مقصود ہوسکتاہے اسے فراواں مقدار میں فراہم کرنے کی پیشکش کر کے آپ کو آپ کی دعوت وتبلیغ سے باز رکھنے کے لیے سودے بازی کی جائے ۔
ابن اسحاق نے یزید بن زیاد کے واسطے سے محمد بن کعب قرظی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ مجھے بتایا گیا کہ عُتبہ بن ربیعہ نے جو سر دارِ قوم تھا۔ ایک روز قریش کی محفل میں کہا... اور اس وقت رسول اللہﷺ مسجدِ حرام میں ایک جگہ تن تنہا تشریف فرما تھے... کہ قریش کے لوگو ! کیوں نہ میں محمد کے پاس جاکر ان سے گفتگو کروں ، اور ان کے سامنے چند امور پیش کروں ، ہوسکتا ہے وہ کوئی چیز قبول کر لے۔ توجو کچھ وہ قبول کر لیں گے ، اسے دے کر ہم انہیں اپنے آپ سے باز رکھیں گے؟.
مشرکین نے کہا : ابوالولید ! آپ جایئے اور ان سے بات کیجیے ! اس کے بعد عتبہ اٹھا اور رسول اللہﷺ کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ پھر بولا :
بھتیجے ! ہماری قوم میں تمہارا جو مرتبہ ٔ ومقام ہے اور جو بلند پایہ نسب ہے، وہ تمہیں معلوم ہی ہے اور اب تم اپنی قوم میں ایک بڑا معاملہ لے کر آئے ہو جس کی وجہ سے تم نے ان کی جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار قرار دیا۔ ان کے معبودوں اور ان کے دین پر عیب چینی کی اور ان کے جو آباء و اجداد گزر چکے ہیں انہیں کا فر ٹھہرایا۔ لہٰذا میری بات سنو ! میں تم پر چند باتیں پیش کر رہا ہوں ، ان پر غور کرو۔
ہوسکتا ہے کوئی با ت قبول کر لو۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : ابو الولید کہو! میں سنو ں گا۔ ابو الولید نے کہا :
بھتیجے ! یہ معاملہ جسے تم لے کر آئے ہو اگر اس سے تم یہ چاہتے ہو کہ مال حاصل کرو تو ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے مالدار ہوجاؤ اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اعزاز و مرتبہ حاصل کرو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں، یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کریں گے اور اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ بن جاؤ تو ہم تمہیں اپنا باد شاہ بنائے لیتے ہیں اور اگر یہ جو تمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے جسے تم دیکھتے ہو لیکن اپنے آپ سے دفع نہیںکر سکتے تو ہم تمہارے لیے اس کا علاج تلاش کیے دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم اپنا مال خرچ کر نے کو تیار ہیں کہ تم شفایاب ہو جاؤ۔ کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہو تا ہے کہ جن بھوت انسان پر غالب آجاتا ہے اور اس کا علاج کروانا پڑتا ہے۔
عتبہ یہ باتیں کہتا رہا اور رسول اللہﷺ سنتے رہے۔ جب فارغ ہوچکا تو آپ نے فرمایا : ابوالولید! تم فارغ ہوگئے؟ اس نے کہا : ہاں۔ آپ نے فرمایا: اچھا اب میری سنو۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ سنوں گا۔ آپ نے فرمایا :
حم ﴿١﴾ تَنزِيلٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٢﴾ كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٣﴾ بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٤﴾ وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ ﴿٥﴾ (۴۱: ۱ تا ۵)
'' حم۔ یہ رحمن ورحیم کی طرف سے نازل کی ہوئی ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دی گئی ہیں۔ عربی قرآن ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ بشارت دینے والا۔ ڈرانے والا لیکن اکثر لو گوں نے اعراض کیا اور وہ سنتے نہیں۔ کہتے ہیں کہ جس چیزکی طرف تم ہمیں بلاتے ہو اس کے لیے ہمارے دلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے... الخ ''
عتبہ چپ چاپ سنتا رہا۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کے اس قول پر پہنچے فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ﴿١٣﴾ (۴۱: ۱۳) (پس اگر وہ روگردانی کریں تو تم کہہ دو کہ میں تمہیں عادوثمود کی کڑک جیسی ایک کڑک کے خطرے سے آگا ہ کر رہا ہوں )تو عتبہ تھرا کر کھڑا ہوگیا اور یہ کہتے ہوئے اپنا ہاتھ رسول اللہﷺ کے منہ پر رکھ دیا کہ میں آپ کو اللہ کااور قرابت کا واسطہ دیتا ہوں (کہ ایسا نہ کریں) اسے خطر ہ تھا کہ کہیں یہ ڈراوا آن نہ پڑے۔ اس کے بعد وہ قوم کے پاس گیا اور مذکورہ گفتگو ہو ئی۔ (تفسیر ابن کثیر ۶/۱۵۹، ۱۶۰، ۱۶۱)
عتبہ اٹھا اور سیدھا اپنے ساتھیوں کے پاس آیا۔ اسے آتا دیکھ کر مشرکین نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا : اللہ کی قسم ! ابو الولید تمہارے پاس وہ چہرہ لے کر نہیں آرہا ہے جو چہرہ لے کر گیا تھا۔ پھر جب وہ آکر بیٹھ گیا تو لوگوں نے پوچھا : ابوالولید ! پیچھے کی کیا خبر ہے ؟
اس نے کہا: پیچھے کی خبر یہ ہے کہ میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس جیسا کلام واللہ! میں نے کبھی نہیں سنا۔ اللہ کی قسم ! وہ نہ شعر ہے نہ جادو ، نہ کہانت ، قریش کے لوگو! میری بات مانو اور اس معاملے کو مجھ پر چھوڑ دو۔ (میری رائے یہ ہے کہ ) اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ کر الگ تھلگ بیٹھ رہو۔ اللہ کی قسم! میں نے اس کا جو قول سنا ہے اس سے کوئی زبردست واقعہ رونما ہو کر رہے گا۔ پھر اگر اس شخص کو عرب نے مار ڈالا تو تمہارا کام دوسروں کے ذریعے انجام پاجائے گا اور اگر یہ شخص عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہت تمہاری بادشاہت اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور اس کا وجود سب سے بڑھ کر تمہارے لیے سعادت کا باعث ہوگا۔ لوگوں نے کہا: ابوالولید ! اللہ کی قسم! تم پر بھی اس کی زبان کا جادو چل گیا۔ عتبہ نے کہا : اس شخص کے بارے میں میری رائے یہی ہے اب تمہیں جو ٹھیک معلوم ہو کرو۔
(ابن ہشام ۱/۲۹۳،۲۹۴۔ اس کا ایک جزء المعجم الصغیر للطبرانی میں بھی ہے(۱/۲۶۵))
مکمل تحریر >>

عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو اسلام پردے سے باہر آیا


حضرت عمر ؓ کی زور آوری کا حال یہ تھا کہ کوئی ان سے مقابلے کی جرأت نہ کرتا تھا۔ اس لیے ان کے مسلمانوں ہوجانے سے مشرکین میں کہرام مچ گیا اور انہیں بڑی ذلت ورسوائی محسوس ہوئی۔دوسری طرف ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بڑی عزت وقوت ، شرف واعزاز اور مسرت وشادمانی حاصل ہوئی۔
چنانچہ ابن ِ اسحاق نے اپنی سند سے حضرت عمرؓ کا بیان روایت کیا ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے سوچا کہ مکے کا کون شخص رسول اللہﷺ کا سب سے بڑا اور سخت ترین دشمن ہے ؟ پھر میں نے جی ہی جی میں کہا یہ ابو جہل ہے۔ اس کے بعد میں نے اس کے گھر جاکر اس کا دروازہ کھٹکھٹا یا۔
وہ باہر آیا۔ دیکھ کر بولا :أھلًا وسھلًا (خوش آمدید ، خوش آمدید ) کیسے آنا ہوا ؟
میں نے کہا : تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول محمدﷺ پر ایمان لاچکا ہوں اور جو کچھ وہ لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق کرچکا ہوں۔ حضرت عمر ؓ کا بیان ہے کہ (یہ سنتے ہی ) اس نے میرے رخ پر دروازہ بند کر لیا اور بولا : اللہ تیرا برا کرے اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے اس کا بھی برا کر ے۔ (ابن ہشام ۱/۳۴۹ ، ۳۵۰)
امام ابن جوزی نے حضرت عمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہوجاتا تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے، اسے زدوکوب کرتے اور وہ بھی انہیں مارتا۔ اس لیے جب میں مسلمان ہوا تو اپنے ماموں عاصی بن ہاشم کے پاس گیا اور اسے خبر دی۔ وہ گھر کے اندر گھس گیا، پھر قریش کے ایک بڑے آدمی کے پاس گیا -شاید ابوجہل کی طرف اشارہ ہے... اور اسے خبر دی وہ بھی گھر کے اندر گھس گیا۔ (تاریخ عمر بن الخطاب ص ۸)
ابن ہشام اور ابن ِ جوزی کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر ؓ مسلمان ہوئے تو جمیل بن معمر جمحی کے پاس گئے۔ یہ شخص کسی بات کا ڈھول پیٹنے میں پورے قریش کے اندر سب سے زیادہ ممتاز تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس نے سنتے ہی نہایت بلند آواز سے چیخ کر کہا کہ خطاب کا بیٹا بے دین ہو گیا ہے۔
حضرت عمر ؓ اس کے پیچھے ہی تھے۔ بولے :یہ جھوٹ کہتا ہے۔ میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ بہر حال لوگ حضرت عمر ؓ پر ٹوٹ پڑے اور مار پیٹ شروع ہوگئی۔ لوگ حضرت عمر ؓ کو مار رہے تھے اور حضرت عمر ؓ لوگوں کو مار رہے تھے۔ یہاں تک کہ سورج سر پر آگیا اور حضرت عمر ؓ تھک کر بیٹھ گئے۔ لوگ سر پر سوار تھے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: جو بن پڑے کر لو۔ اللہ کی قسم !اگر ہم لو گ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکے میں یا تو تم ہی رہتے یا ہم ہی رہتے۔ (۸ابن ہشام ۱/۳۴۸، ۳۴۹، ابن حبان (مرتب ) ۹/۱۶، المعجم الاوسط للطبرانی ۲/۱۷۲ (حدیث نمبر ۱۳۱۵))
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے پر یہ کیفیت تو مشرکین کی ہوئی تھی۔ باقی رہے مسلمان تو ان کے احوال کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مجاہد نے ابنِ عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عمر ؓ بن الخطاب سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے آپ کا لقب فاروق پڑا ؟ تو انہوں نے کہا: مجھ سے تین دن پہلے حضرت حمزہؓ مسلمان ہوئے ، پھر حضرت عمر ؓ نے ان کے اسلام لانے کا واقعہ بیان کر کے اخیر میں کہا کہ پھر جب میں مسلمان ہوا تو -- میں نے کہا :
اے اللہ کے رسول ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں، خواہ زندہ رہیں، خواہ مریں ؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم لوگ حق پر ہو خواہ زندہ رہو خواہ موت سے دوچار ہو ...
حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ تب میں نے کہا کہ پھر چھپنا کیسا ؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، ہم ضرور باہر نکلیں گے۔ چنانچہ ہم دوصفوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمراہ لے کر باہر آئے۔ ایک صف میں حمزہ ؓ تھے اور ایک میں میں تھا۔ ہمارے چلنے سے چکی کے آٹے کی طرح ہلکا ہلکا غبار اڑ رہا تھا یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوگئے۔ حضرت عمر ؓ کا بیان ہے کہ قریش نے مجھے اور حمزہ ؓ کو دیکھا تو ان کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی۔ اسی دن رسول اللہﷺ نے میرا لقب فاروق رکھ دیا۔ (مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۱۰۳)
حضرت ابن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ ہم خانۂ کعبہ کے پاس نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے اسلام قبول کیا۔4
حضرت صہیب بن سنا ن رومیؓ کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو اسلام پر دے سے باہر آیا، اس کی علانیہ دعوت دی گئی۔ ہم حلقے لگا کر بیت اللہ کے گرد بیٹھے ، بیت اللہ کا طواف کیا ، اور جس نے ہم پر سختی کی اس سے انتقام لیا اور اس کے بعض مظالم کا جواب دیا۔ (تاریخ عمر بن الخطاب لابن الجوزی ۱۳)
حضرت ابنِ مسعودؓ کا بیان ہے کہ جب سے حضرت عمر ؓ نے اسلام قبول کیا تب سے ہم برابر طاقتور اور باعزت رہے۔ (صحیح البخاری :باب اسلام عمر بن الخطاب ۱/۵۴۵)
مکمل تحریر >>

Sunday 1 February 2015

پہلی حجرتِ حبشہ اور ایک غلط فہمی


جور وستم کا مذکورہ سلسلہ نبوت کے چوتھے سال کے درمیان یا آخر میں شروع ہوا تھا اور ابتدا معمولی تھا مگر دن بدن اور ماہ بماہ بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ نبوت کے پانچویں سال کا وسط آتے آتے اپنے شباب کو پہنچ گیا۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا دوبھر ہوگیا اور انہیں ان پیہم ستم رانیوں سے نجات کی تدبیر سوچنے کے لیے مجبورہوجانا پڑا۔ ان ہی سنگین اور تاریک حالات میں سورۂ زُمَر کا نزول ہوا۔ اوراس میں ہجرت کی طرف اشارہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے۔
لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْ‌ضُ اللَّـهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُ‌ونَ أَجْرَ‌هُم بِغَيْرِ‌ حِسَابٍ (۳۹: ۱۰ )
''جن لوگوں نے اس دنیامیں اچھائی کی ان کے لیے اچھا ئی ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے۔صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلا حساب دیا جائے گا۔''

ادھر رسول اللہﷺ کو معلوم تھا کہ اَصحَمَہ نجاشی شاہ حبش ایک عادل بادشاہ ہے۔ وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ اس لیے آپﷺ نے مسلمانو ں کو حکم دیا کہ وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے حبشہ ہجرت کر جائیں۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۹/۹)
اس کے بعد ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق رجب ۵ نبوی میں صحابہ کرامؓ کے پہلے گروہ نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ اس گروہ میں بارہ مرد اور چار عورتیں تھیں۔ حضرت عثمان بن عفانؓ ان کے امیر تھے اور ان کے ہمراہ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ بھی تھیں۔رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔
یہ لوگ رات کی تاریکی میں چپکے سے نکل کر اپنی نئی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔ رازداری کا مقصد یہ تھا کہ قریش کو اس کا علم نہ ہوسکے۔ رُخ بحر احمر کی بندرگاہ شُعَیْبَہ کی جانب تھا۔ خوش قسمتی سے وہاں دوتجارتی کشتیاں موجود تھیں، جو انہیں اپنے دامنِ عافیت میں لے کر سمندر پار حبشہ چلی گئیں۔ قریش کوکسی قدر بعد میں ان کی روانگی کا علم ہوسکا۔ تاہم انہوں نے پیچھا کیا اور ساحل تک پہنچے لیکن صحابہ کرام ؓ آگے جاچکے تھے ، اس لیے نامراد واپس آئے۔ ادھر مسلمانوں نے حبشہ پہنچ کر بڑے چین کا سانس لیا۔ (زاد المعاد ۱/۲۴)
مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کا سجدہ اور مہاجرین کی واپسی:
لیکن اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبیﷺ ایک بار حرم تشریف لے گئے۔ وہاں قریش کا بہت بڑا مجمع تھا۔ ان کے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دم اچانک کھڑے ہو کر سورۂ نجم کی تلاوت شروع کردی۔ ان کفار نے اس سے پہلے عموماً قرآن سنانہ تھا۔ کیونکہ ان کا دائمی وطیرہ قرآن کے الفاظ میں یہ تھا کہ :
لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (۴۱: ۲۶)
''اس قرآن کو مت سنو اور اس میں خلل ڈالو۔ (اودھم مچاؤ) تاکہ تم غالب رہو۔''
لیکن جب نبیﷺ نے اچانک اس سورۂ کی تلاوت شروع کردی اور ان کے کانوں میں ایک ناقابل بیان رعنائی ودلکشی اور عظمت لیے ہوئے کلام الٰہی کی آواز پڑی تو انہیں کچھ ہوش نہ رہا۔ سب کے سب گوش بر آواز ہوگئے کسی کے دل میں کوئی خیال ہی نہ آیا۔ یہاں تک کہ جب آپ نے سورہ کے اواخر میں دل ہلا دینے والی آیات فرماکر اللہ کا یہ حکم سنایا کہ:
{فَاسْجُدُوْا لِلَّہِ وَاعْبُدُوْا} (۵۳: ۶۲ )
''اللہ کے لیے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو۔''
اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا ، اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر حق کی رعنائی وجلال نے متکبرین ومستہزئین کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کردیا تھا۔ اس لیے انہیں اپنے آپ پر قابو نہ رہ گیا تھا اور وہ بے اختیار سجدے میں گر پڑے تھے۔ (صحیح بخاری میں اس سجدے کا واقعہ ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مختصراً مروی ہے ، دیکھئے: باب سجدۃ النجم اور باب سجود المسلمین والمشرکین ۱/۱۴۶ اور باب ما لقی النبی ﷺ واصحابہ بمکۃ ۱/۵۴۳)
لیکن بعد میں جب انہیں احساس ہوا کہ کلامِ الٰہی کے جلال نے ان کی لگا م موڑدی اور وہ ٹھیک وہی کام کر بیٹھے جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لیے انہوں نے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے میں غیر موجود مشرکین نے ان پر ہر طرف سے عتاب اور ملامت کی بوچھاڑ شروع کی تو ان کے ہاتھ کے طوطے اُڑ گئے اور انہوںنے اپنی جان چھڑانے کے لیے رسول اللہﷺ پر یہ افتراء پردازی کی اور یہ جھوٹ گھڑا کہ آپ نے ان بتوں کا ذکر عزت واحترام سے کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ :
((تلک الغرانیق العلی ، وان شفاعتھن لترتجی۔))
''یہ بلند پایہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔''
حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا جو محض اس لیے گھڑلیاگیا تھا تاکہ نبیﷺ کے ساتھ سجدہ کرنے کی جو'' غلطی'' ہو گئی ہے اس کے لیے ایک ''معقول'' عذر پیش کیا جاسکے اور ظاہر ہے کہ جو لوگ نبیﷺ پر ہمیشہ جھوٹ گھڑتے اور آپ کے خلاف ہمیشہ دسیسہ کاری اور افتراء پردازی کرتے رہے تھے ، وہ اپنادامن بچانے کے لیے اس طرح کا جھوٹ کیوں نہ گھڑتے۔
بہرحال مشرکین کے سجدہ کرنے کے اس واقعے کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو بھی معلوم ہوئی لیکن اپنی اصل صورت سے بالکل ہٹ کر۔ یعنی انہیں یہ معلوم ہوا کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ماہ شوال میں مکہ واپسی کی راہ لی لیکن جب اتنے قریب آگئے کہ مکہ ایک دن سے بھی کم فاصلے پر رہ گیا تو حقیقت حال آشکارا ہوئی۔ اس کے بعدکچھ لوگ تو سیدھے حبشہ پلٹ گئے اور کچھ لوگ چھپ چھپا کر یا قریش کے کسی آدمی کی پناہ لے کر مکے میں داخل ہوئے۔ (زاد المعاد ۱/۲۴، ۲/۴۴، ابن ہشام ۱/۳۶۴)
 
مکمل تحریر >>

حضرت عمر کا قبولِ اسلام


ظلم وطغیان کے سیاہ بادلوں کی اسی گھمبیر فضا میں ایک اور برقِ تاباں کا جلوہ نمودار ہوا۔ جس کی چمک پہلے سے زیادہ حیرت کن تھی یعنی حضرت عمرؓ مسلمان ہوگئے۔ ان کے اسلام کا واقعہ ۶نبوی کا ہے۔وہ حضرت حمزہ ؓ کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے تھے اور نبیﷺ نے ان کے اسلام لانے کے لیے دعا کی تھی۔ چنانچہ امام ترمذی ؒ نے ابن عمر سے روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعود اور حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :
• (( اللّٰھم أعز الاسلام بأحب الرجلین الیک ؛ بعمر بن الخطاب أو بأبی جھل بن ھشام۔))
'' اے اللہ ! عمر بن خطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت پہنچا۔''
(اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر ؓ مسلمان ہوگئے ) اللہ کے نزدیک ان دونوں میں زیادہ محبوب حضرت عمرؓ تھے۔ (ترمذی ابواب المناقب ! مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب ۲/۲۰۹)
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے متعلق جملہ روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اسلام رفتہ رفتہ جاگزیں ہوا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات کا خلاصہ پیش کرنے پہلے حضرت عمرؓ کے مزاج اور جذبات واحساسات کی طرف بھی مختصرا ً اشارہ کر دیا جائے۔
حضرت عمرؓ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لیے مشہور تھے۔ مسلمانوں نے طویل عرصے تک ان کے ہاتھوں طرح طرح کی سختیاں جھیلی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں متضاد قسم کے جذبات باہم دست وگریباں تھے۔ چنانچہ ایک طرف تو وہ آباء واجداد کی ایجاد کردہ رسموں کا بڑا احترام کرتے تھے اور بلا نوشی اور لہو لعب کے دلدادہ تھے لیکن دوسری طرف وہ ایمان وعقیدے کی راہ میں مسلمانوں کی پختگی اور مصائب کے سلسلے میں ان کی قوتِ برداشت کو خوشگوار حیرت وپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پھر ان کے اندر کسی بھی عقلمند آدمی کی طرح شکوک وشبہات کا ایک سلسلہ تھا جو رہ رہ کر ابھرا کرتا تھا کہ اسلام جس بات کی دعوت دے رہا ہے غالباً وہی زیادہ برتر اور پاکیزہ ہے۔ اسی لیے ان کی کیفیت (دم میں ماشہ دم میں تولہ کی سی ) تھی۔ کہ ابھی بھڑکے اور ابھی ڈھیلے پڑ گئے۔
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے متعلق تمام روایات کا خلاصہ مع جمع وتطبیق یہ ہے کہ ایک رات انہیں گھر سے باہر رات گزارنی پڑی۔ وہ حرم تشریف لائے اور خانۂ کعبہ کے پردے میں گھس گئے۔ اس وقت نبیﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور سورۃ الحاقہ کی تلاوت فرمارہے تھے۔ حضرت عمرؓ قرآن سننے لگے اور اس کی تالیف پر حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے...اپنے جی میں... کہا : اللہ کی قسم! یہ تو شاعر ہے جیساکہ قریش کہتے ہیں ، لیکن اتنے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٤٠﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾ (۶۹: ۴۰، ۴۱)
''یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے۔ یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔''
حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے ...اپنے جی میں ...کہا : (اوہو ) یہ تو کاہن ہے لیکن اتنے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣﴾ (۶۹: ۴۲ تا۴۳ )
''یہ کسی کاہن کا قول بھی نہیں۔ تم لوگ کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔'' ''اخیر سورۃ تک ''
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ اس وقت میرے دل میں اسلام جاگزیں ہو گیا۔( تاریخ عمر بن خطاب لابن الجوزی ص ۶،9-10)
یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت عمرؓ کے دل میں اسلام کا بیج پڑا ، لیکن ابھی ان کے اندر جاہلی جذبات ، تقلیدی عصبیت اور آباء واجداد کے دین کی عظمت کے احساس کا چھلکا اتنا مضبوط تھا کہ نہاں خانہ ٔ دل کے اندر مچلنے والی حقیقت کے مغز پر غالب رہا۔ اس لیے وہ اس چھلکے کی تہہ میں چھپے ہوئے شعور کی پرواہ کیے بغیر اپنے اسلام دشمن عمل میں سرگرداں رہے۔



ایک روز خود رسول اللہﷺ کا کام تمام کرنے کی نیت سے تلوار لے کر نکل پڑے لیکن ابھی راستے ہی میں تھے کہ نعیم بن عبد اللہ النحام عدوی سے یا بنی زہرہ یا بنی مخزوم کے کسی آدمی سے ملاقات ہوگئی۔
اس نے تیور دیکھ کر پوچھا : عمر ! کہا ں کا ارادہ ہے ؟
انہوں نے کہا : محمد کو قتل کرنے جارہا ہوں۔
اس نے کہا : محمد کو قتل کرکے بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ سکو گے ؟
حضرت عمرؓ نے کہا : معلوم ہوتا ہے تم بھی اپنا پچھلا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہو۔
اس نے کہا :عمر ! ایک عجیب بات نہ بتا دوں ؟ تمہاری بہن اور بہنوئی بھی تمہارا دین چھوڑ کر بے دین ہوچکے ہیں۔
یہ سن کے عمر غصے سے بے قابو ہوگئے اور سیدھے بہن بہنوئی کا رخ کیا۔ وہاں انہیں حضرت خباب بن ارتؓ سورۂ طہٰ پر مشتمل ایک صحیفہ پڑھا رہے تھے اور قرآن پڑھانے کے لیے وہاں آنا جانا حضرت خباب ؓکا معمول تھا۔جب حضرت خباب ؓنے حضرت عمرؓ کی آہٹ سنی تو گھر کے اندر چھپ گئے۔ ادھر حضرت عمر ؓ کی بہن فاطمہ ؓ نے صحیفہ چھپا دیا لیکن حضرت عمر ؓ گھر کے قریب پہنچ کر حضرت خباب ؓ کی قراء ت سن چکے تھے۔ چنانچہ پوچھا کہ یہ کیسی دھیمی دھیمی آواز تھی جو تم لوگوں کے پاس میں نے سنی تھی ؟
انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں۔ بس ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
حضرت عمرؓ نے کہا : غالباً تم دونوں بے دین ہوچکے ہو۔
بہنوئی نے کہا: اچھا عمر ! یہ بتاؤ اگر حق تمہارے دین کے بجائے کسی اوردین میں ہو تو ؟
حضرت عمر ؓ کا اتنا سننا تھا کہ اپنے بہنوئی پر چڑھ بیٹھے اور انہیں بری طرح کچل دیا۔ ان کی بہن نے لپک کر انہیں اپنے شوہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خون آلودہوگیا۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ ان کے سر میں چوٹ آئی۔
بہن نے جوش غضب میں کہا : عمر ! اگر تیرے دین کے بجائے دوسرا ہی دین برحق ہو تو ؟ أشھد أن لا الٰہ الا اللّٰہ وأشھد أنَّ محمدًا رسول اللّٰہ میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں اور میں شہادت دیتی ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
یہ سن کر حضرت عمر ؓ پر مایوسی کے بادل چھا گئے اور انہیں اپنی بہن کے چہرے پر خون دیکھ کر شرم و ندامت بھی محسوس ہوئی۔ کہنے لگے: اچھا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے ذرا مجھے بھی پڑھنے کو دو۔
بہن نے کہا: تم ناپاک ہو۔ اس کتا ب کو صرف پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں۔ اٹھو غسل کرو۔ حضرت عمر ؓ نے اٹھ کر غسل کیا۔ پھر کتاب لی اور پڑھی۔ کہنے لگے: یہ تو بڑے پاکیزہ نام ہیں۔ اس کے بعدسے (۲۰: ۱۴) تک قراء ت کی۔ کہنے لگے: یہ تو بڑا عمدہ اور بڑا محترم کلام ہے۔ مجھے محمدﷺ کا پتہ بتاؤ !حضرت خباب ؓ حضرت عمر ؓ کے یہ فقرے سن کر اندر سے باہر آگئے۔ کہنے لگے : عمر خوش ہو جاؤ! مجھے امید ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمعرات کی رات تمہارے متعلق جو دعا کی تھی ( کہ اے اللہ ! عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعے اسلام کو قوت پہنچا) یہ وہی ہے اور اس وقت رسول اللہﷺ کوہ صفا کے پاس والے مکان میں تشریف فرماہیں۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی تلوار حمائل کی اور اس گھر کے پاس آکر دروازے پر دستک دی۔ ایک آدمی نے اٹھ کر دروازے کی دراز سے جھانکا تو دیکھا کہ عمر تلوار حمائل کیے موجود ہیں۔ لپک کر رسول اللہﷺ کو اطلاع دی اور سارے لوگ سمٹ کر یکجا ہوگئے۔ حضرت حمزہؓ نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا : عمر ہیں۔ حضرت حمزہ ؓ نے کہا : بس ! عمر ہے۔ دروازہ کھول دو، اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو اسے ہم عطا کریں گے اور اگر کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اس کا کام تمام کردیں گے۔ ادھر رسول اللہﷺ اندر تشریف فرما تھے۔ آپ پر وحی نازل ہورہی تھی۔ وحی نازل ہوچکی تو حضرت عمر ؓ کے پاس تشریف لائے۔ بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے ان کے کپڑے اور تلوار کا پر تلا سمیٹ کر پکڑا اور سختی سے جھٹکتے ہوئے فرمایا : عمر ! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک اللہ تعالیٰ تم پر بھی ویسی ہی ذلت ورسوائی اور عبرتناک سزا نازل نہ فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہو چکی ہے ؟
حضرت عمر ؓ نے کہا: أشھد أن لا الہ الا اللّٰہ وأنک رسول اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا اللہ کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں اور یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں )یہ سن کر گھر کے اندر موجود صحابہ ؓ نے اس زور سے تکبیر کہی کہ مسجد الحرام والوں کو سنائی پڑی۔
(تاریخ عمر بن الخطاب ص ۷، ۱۰، ۱۱ ، سیرت ابن ہشام ۱/۳۴۳ تا۳۴۶)
مکمل تحریر >>

حضرت حمزہ کا قبولِ اسلام


مکہ کی فضا ظلم وجور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہوگیا۔ یعنی حضرت حمزہؓ مسلمان ہوگئے۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ ۶ نبوی کے اخیر کا ہے اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے۔
ان کے اسلام لانے کا سبب یہ ہے کہ ایک روز ابوجہل کوہِ صفا کے نزدیک رسول اللہﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ کو ایذا پہنچائی اور سخت سست کہا۔ رسول اللہﷺ خاموش رہے اور کچھ بھی نہ کہا لیکن اس کے بعد اس نے آپ کے سر پر ایک پتھر دے مارا ، جس سے ایسی چوٹ آئی کہ خون بہہ نکلا۔ پھر وہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی مجلس میں جا بیٹھا۔ 
عبد اللہ بن جُدعان کی ایک لونڈی کوہِ صفا پر واقع اپنے مکان سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ حضرت حمزہؓ کمان حمائل کیے شکار سے واپس تشریف لائے تو اس نے ا ن سے ابوجہل کی ساری حرکت کہہ سنائی۔ حضرت حمزہ ؓ غصے سے بھڑک اٹھے ... یہ قریش کے سب سے طاقتور اور مضبوط جوان تھے۔ ماجرا سن کر کہیں ایک لمحہ رکے بغیر دوڑتے ہوئے اور یہ تہیہ کیے ہوئے آئے کہ جوں ہی ابوجہل کا سامنا ہوگا ، اس کی مرمت کردیں گے۔ چنانچہ مسجد حرام میں داخل ہو کر سیدھے اس کے سر پر جاکھڑے ہوئے اور بولے : او اپنے چوتڑ سے پاد نکالنے والے ! تو میرے بھتیجے کو گالی دیتا ہے۔ حالانکہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں۔ اس کے بعد کمان سے اس زور کی مار ماری کہ اس کے سر پر بدترین قسم کا زخم آگیا۔ اس پر ابوجہل کے قبیلے بنومخزوم اور حضرت حمزہ ؓ کے قبیلے بنوہاشم کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف بھڑک اٹھے لیکن ابوجہل نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کردیا کہ ابوعمار ہ کو جانے دو۔ میں نے واقعی اس کے بھتیجے کو بہت بری گالی دی تھی۔
ابتدائً حضرت حمزہؓ کا اسلام محض اس حمیت کے طور پر تھا کہ ان کے عزیز کی توہین کیوں کی گئی لیکن پھر اللہ نے ان کا سینہ کھول دیا اور انہوں نے اسلام کا کڑا مضبوطی سے تھام لیا اور مسلمانوں نے ان کی وجہ سے بڑی عزت وقوت محسوس کی۔( ابن ہشام ۱/۲۹۱، ۲۹۲)

مکمل تحریر >>

مکہ میں کافروں کی ایضا رسانی میں شدت


جب مشرکین اپنی چال میں کامیاب نہ ہوسکے، اور مہاجرینِ حبشہ کو واپس لانے کی کوشش میں منہ کی کھانی پڑی تو آپے سے باہر ہوگئے اور لگتا تھا کہ غیظ وغضب سے پھٹ پڑیں گے ، چنانچہ ان کی درندگی اور بڑھ گئی۔ ان کا دست جور رسول اللہﷺ تک بڑھ آیا اور ان کی نقل وحرکت سے یہ محسوس ہونے لگا کہ وہ آپﷺ کا خاتمہ کیا چاہتے ہیں ، تاکہ ان کے خیال میں جس فتنے نے ان کی خوابگاہوں کو خار زار بنارکھا ہے اسے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اب مکہ میں جو مسلمان بچے کھچے رہ گئے تھے وہ بہت ہی تھوڑے تھے اور پھر صاحب شرف وعزت بھی تھے۔ یا کسی بڑے شخص کی پناہ میں تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے بھی تھے اور حتی الامکان سرکشوں اور ظالموں کی نگاہوں سے دور رہتے تھے۔ مگر اس احتیاط اور بچاؤ کے باوجود بھی وہ ظلم وجور اور ایذاء رسانی سے مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکے۔
جہاں تک رسول اللہﷺ کا تعلق ہے تو آپ ظالموں کی نگاہوں کے سامنے نماز پڑھتے اور اللہ کی عبادت کرتے تھے اور خفیہ اور کھلم کھلا دونوں طرح اللہ کے دین کی دعوت دیتے تھے۔ اس سے آپ کو نہ کوئی روکنے والی چیز روک سکتی تھی اور نہ موڑنے والی چیز موڑ سکتی تھی۔ کیونکہ یہ اللہ کی رسالت کی تبلیغ کا ایک حصہ تھا اور اس پر آپ اس وقت سے کار بند تھےجب سے اللہ کا یہ حکم نازل ہوا تھا : یعنی آپ کو جو حکم دیا جاتا ہے اسے ببانگ دہل بیان کیجیے اور مشرکین سے منہ پھیر ے رکھئے۔
چنانچہ اس صورتِ حال کی بناء پر مشرکین کے لیے ممکن تھا کہ آپ سے جب چاہیں چھیڑ چھاڑ کر بیٹھیں۔ بظاہر کوئی چیز نہ تھی جوا ن کے ، اور ان کے عزائم کے درمیان روک بن سکتی تھی۔ اگر کچھ تھا تو وہ نبیﷺ کا اپنا ذاتی شکوہ ووقار تھا۔ ابو طالب کا ذمہ واحترام تھا۔ یا اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر انہوں نے کوئی غلط حرکت کی تو انجام اچھا نہ ہوگا اور سارے بنوہاشم ان کے خلاف ڈٹ جائیں گے۔
مگر ان کے دلوں میں ان ساری باتوں کا مطلوبہ اثر بر قرار نہ رہ گیا تھا اور جب سے انہیں یہ محسوس ہو چلا تھا کہ آپﷺ کی دعوت کے سامنے ان کی دینی چودھراہٹ اور بت پرستانہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا چاہتا ہے۔ تب سے انہوں نے آپ کے ساتھ اوچھی حرکتیں کرنی شروع کردی تھیں۔ جو واقعات کتب حدیث وسیرت میں مروی ہیں اور قرائن شہادت دیتے ہیں کہ وہ اسی دور میں پیش آئے ، ایک یہ ہے کہ :
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے ابن اسحاق نے ان کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ایک بار مشرکین حَطِیْم میں جمع تھے، میں بھی موجود تھا۔ مشرکین نے رسول اللہﷺ کا ذکر چھیڑا اور کہنے لگے : اس شخص کے معاملے میں ہم نے جیسا صبر کیا ہے اس کی مثال نہیں۔ درحقیقت ہم نے اس کے معاملے میں بہت ہی بڑی بات پر صبر کیا ہے۔ یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ رسول اللہﷺ نمودار ہوگئے۔ آپ نے تشریف لا کر پہلے حجر اسود کو چوما۔ پھر طواف کرتے ہوئے مشرکین کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے کچھ کہہ کر طعنہ زنی کی۔ جس کا اثر میں نے آپ کے چہرے پر دیکھا۔ اس کے بعد دوبارہ آپ کا گزر ہوا تو مشرکین نے پھر اسی طرح لعن طعن کی۔ میں نے اس کا بھی اثر آپ کے چہرے پر دیکھا اس کے بعد آپ سہ بارہ گزرے تو مشرکین نے پھر آپ پر لعن طعن کی۔ اب کی بار آپ ٹھہر گئے اور فرمایا :
قریش کے لوگو! سن رہے ہو ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں تمہارے پاس ذبح لے کر آیا ہوں۔
آپ کے اس ارشاد نے لوگوں کو پکڑ لیا۔ (ان پر سکتہ طاری ہوا کہ ) گویا ہر آدمی کے سر پر چڑیا ہے۔ یہاں تک کہ جو آپ پر سب سے زیادہ سخت تھا وہ بھی بہتر سے بہتر لفظ جو پاسکتا تھا اس کے ذریعے آپ سے طلب گارِ رحمت ہونے لگا۔ کہتا کہ ! ابوالقاسم ! واپس چلے جایئے۔ اللہ کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی نادان نہ تھے۔
دوسرے دن قریش پھر اسی طرح جمع ہوکر آپ کا ذکر کر رہے تھے کہ آپ نمودار ہوئے۔ دیکھتے ہی سب (یکجان ہوکر ) ایک آدمی کی طرح آپ پر پل پڑے اور آپ کو گھیر لیا، پھر میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے گلے کے پاس سے آپ کی چادر پکڑ لی۔ (اور بل دینے لگا) ابوبکر ؓ آپ کے بچاؤ میں لگ گئے۔ وہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:
تم لوگ ایک آدمی کو اس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ؟ اس کے بعد وہ لوگ آپ کو چھوڑ کر پلٹ گئے ...عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ یہ سب سے سخت ترین ایذا رسانی تھی جو میں نے قریش کو کبھی کرتے ہوئے دیکھی۔( ابن ہشام ۱/۲۸۹، ۲۹۰) (صحیح بخاری باب ذکر مالقی النبی ﷺ من المشرکین بمکۃ ۱/۵۴۴)
حضرت اسماء ؓ کی روایت میں مزید تفصیل ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس یہ چیخ پہنچی کہ اپنے ساتھی کو بچاؤ۔ وہ جھٹ ہمارے پاس سے نکلے، ان کے سر پر چار چوٹیاں تھیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے گئے کہ
تم لوگ ایک آدمی کو محض اس لیے قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ؟ مشرکین نبیﷺ کو چھوڑ کر ابوبکر ؓ پر پل پڑے۔ وہ واپس آئے تو حالت یہ تھی کہ ہم ان کی چوٹیوں کا جو بال بھی چھوتے تھے ، وہ ہماری (چٹکی ) کے ساتھ چلا آتا تھا۔ (مختصر السیرۃ شیخ عبد اللہ ص ۱۱۳)

مکمل تحریر >>

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی نجاشی کے دربار میں تقریر


مسلمان یہ تہیہ کر کے اس کے دربار میں آئے کہ ہم سچ ہی بولیں گے ، خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔ جب مسلمان آگئے تو نجاشی نے پوچھا : یہ کونسا دین ہے جس کی بنیاد پر تم نے اپنی قوم سے علٰیحدگی اختیار کرلی ہے ؟ لیکن میرے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہو اور نہ ان ملتوں ہی میں سے کسی کے دین میں داخل ہوئے ہو ؟ مسلمانو ں کے ترجمان حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے کہا :
" اے بادشاہ ! ہم ایسی قوم تھے جو جاہلیت میں مبتلاتھی۔ ہم بُت پوجتے تھے ، مردار کھاتے تھے ، بدکاریاں کرتے تھے۔ قرابتداروں سے تعلق توڑتے تھے۔ ہمسایوں سے بد سلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا، ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا اس کی عالی نسبی ، سچائی ، امانت اور پاکدامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا اور سمجھایا کہ ہم صرف ایک اللہ کو مانیں اور اسی کی عبادت کریں اور اس کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑدیں۔ اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے ، قرابت جوڑنے ، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری وخونریزی سے باز رہنے کا حکم دیا اور فواحش میں ملوث ہونے ، جھوٹ بولنے ، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن عورت پر جھوٹی تہمت لگا نے سے منع کیا۔ اس نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اس نے ہمیں نماز، روزہ، اور زکوٰۃ کا حکم دیا...
اسی طرح حضرت جعفرؓ نے اسلام کے کام گنائے ، پھر کہا : ہم نے اس پیغمبر کو سچا مانا ، اس پر ایمان لائے اور اس کے لائے ہوئے دینِ الٰہی میں اس کی پیروی کی۔ چنانچہ ہم نے صرف اللہ کی عبادت کی۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا اور جن باتوں کو اس پیغمبر نے حرام بتایا انہیں حرام مانا اور جن کو حلال بتایا انہیں حلال جانا۔ اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ گئی۔ اس نے ہم پر ظلم وستم کیا اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کے لیے فتنے اور سزاؤں سے دوچار کیا۔ تاکہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بُت پرستی کی طرف پلٹ جائیں اور جن گندی چیزوں کو حلال سمجھتے تھے انہیں پھر حلال سمجھنے لگیں۔ جب انہوں نے ہم پر بہت قہر وظلم کیا ، زمین تنگ کردی اور ہمارے درمیان اور ہمارے دین کے درمیان روک بن کر کھڑے ہوگئے تو ہم نے آپ کے ملک کی راہ لی اور دوسروں پر آپ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا اور یہ امید کی کہ اے بادشاہ ! آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
نجاشی نے کہا : وہ پیغمبر جو کچھ لائے ہیں اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے ؟
حضرت جعفر ؓ نے کہا : ہاں !
نجاشی نے کہا : ذرا مجھے بھی پڑھ کر سنا ؤ۔
حضرت جعفرؓ نے سورہ ٔ مریم کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں۔ نجاشی اس قدر رویا کہ اس کی ڈاڑھی تر ہوگئی۔ نجاشی کے تمام اسقف بھی حضرت جعفر ؓ کی تلاوت سن کر اس قدر روئے کہ ان کے صحیفے تر ہوگئے۔ پھر نجاشی نے کہا کہ یہ کلام اور وہ کلا م جو عیسیٰ علیہ السلام لے کر آئے تھے دونوں ایک ہی شمع دان سے نکلے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد نجاشی نے عَمرو بن عاص اور عبد اللہ بن ربیعہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تم دونوں چلے جاؤ۔ میں ان لوگوں کو تمہارے حوالے نہیں کر سکتا اور نہ یہاں ان کے خلاف کوئی چال چلی جاسکتی ہے۔
اس کے حکم پر وہ دونوں وہاں سے نکل گئے ، لیکن پھر عمرو بن عاص نے عبد اللہ بن ربیعہ سے کہا : اللہ کی قسم ! کل ان کے متعلق ایسی بات لاؤں گا کہ ان کی ہریالی کی جڑ کاٹ کر رکھ دوں گا۔ عبد اللہ بن ربیعہ نے کہا : نہیں۔ ایسا نہ کرنا۔ ان لوگوں نے اگر چہ ہمارے خلاف کیا ہے لیکن ہیں بہر حال ہمارے اپنے ہی کنبے قبیلے کے لوگ۔ مگر عَمر و بن عاص اپنی رائے پر اَڑ ے رہے۔
اگلا دن آیا تو عَمرو بن عاص نے نجاشی سے کہا : اے بادشاہ ! یہ لوگ عیسیٰ ؑ بن مریم کے بارے میں ایک بڑی بات کہتے ہیں؟ اس پر نجاشی نے مسلمانوں کو پھر بلا بھیجا۔ وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسلمان کیا کہتے ہیں۔ اس دفعہ مسلمانوں کو گھبراہٹ ہوئی لیکن انہوں نے طے کیا کہ سچ ہی بولیں گے۔ نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو۔ چنانچہ جب مسلمان نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے اور اس نے سوال کیا تو حضرت جعفرؓ نے فرمایا :
ہم عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے نبیﷺ لے کر آئے ہیں۔ یعنی حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کے بندے ، اس کے رسول ، اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری پاکدامن حضرت مریم علیہا السلام کی طرف القا کیا تھا۔
اس پر نجاشی نے زمین سے ایک تنکہ اٹھا یا اور بولا : اللہ کی قسم ! جو کچھ تم نے کہا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابر بھی بڑھ کر نہ تھے۔ اس پر بطریقوں نے ''ہونہہ'' کی آواز لگائی۔ نجاشی نے کہا : اگر چہ تم لوگ ''ہونہہ'' کہو۔
اس کے بعد نجاشی نے مسلمانوں سے کہا: جاؤ ! تم لوگ میرے قلمرو میں امن وامان سے ہو۔ جو تمہیں گالی دے گا اس پر تاوان لگا یا جائے گا۔ مجھے گوارا نہیں کہ تم میں سے مَیں کسی آدمی کو ستاؤں اور اس کے بدلے مجھے سونے کا پہاڑ مل جائے۔
اس کے بعد اس نے اپنے حاشیہ تشینوں سے مخاطب ہوکر کہا: ان دونوں کو ان کے ہدیے واپس کردو۔ مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے جب مجھے میرا ملک واپس کیا تھا تو مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی کہ مَیں اس کی راہ میں رشوت لوں۔ نیز اللہ نے میرے بارے میں لوگوں کی بات قبول نہ کی تھی کہ مَیں اللہ کے بارے میں لوگوں کی بات مانوں۔
حضرت ام سلمہ ؓ جنہوں نے اس واقعے کو بیان کیا ہے ، کہتی ہیں اس کے بعد وہ دونوںاپنے ہدیے تحفے لیے بے آبرو ہو کر واپس چلے گئے اور ہم نجاشی کے پاس ایک اچھے ملک میں ایک اچھے پڑوسی کے زیر سایہ مقیم رہے۔( ابن ہشام ملخصاً ۱/۳۳۴تا ۳۳۸)

مکمل تحریر >>

دوسری حجرتِ حبشہ


اس کے بعدان مہاجرین پر خصوصاً اور مسلمانوں پر عموماً قریش کا ظلم وتشدد ،جور وستم اور بڑھ گیا اور ان کے خاندان والوںنے انہیں خوب ستایا۔ کیونکہ قریش کو ان کے ساتھ نجاشی کے حسن وسلوک کی جو خبر ملی تھی اس پر وہ نہایت چیں بہ جبیں تھے۔ ناچار رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو پھر ہجرت حبشہ کا مشورہ دیا لیکن دوسری ہجرت پہلی ہجرت کے بالمقابل اپنے دامن میں زیادہ مشکلات لیے ہوئے تھی۔کیونکہ اب کی بار قریش پہلے سے ہی چوکنا تھے اورایسی کسی کوشش کو ناکام بنانے کا تہیہ کیے ہوئے تھے لیکن مسلمان ان سے کہیں زیادہ مستعد ثابت ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے سفر آسان بنادیا۔ چنانچہ وہ قریش کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی شاہ حبش کے پاس پہنچ گئے۔
اس دفعہ کل ۸۲ یا۸۳ مردوں نے ہجرت کی (حضرت عمار کی ہجرت مختلف فیہ ہے) اور اٹھارہ یا انیس عورتوں نے۔ (زاد المعاد ۱/۲۴)علامہ منصور پوری ؒنے جزم کے ساتھ عورتوں کی تعداد اٹھارہ لکھی ہے۔ (رحمۃ للعالمین)
مہاجرینِ حبشہ کے خلاف قریش کی سازش:
مشرکین کو سخت قلق تھا کہ مسلمان اپنی جان اور اپنا دین بچا کر ایک پُر امن جگہ بھاگ گئے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے عَمرو بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو جو گہری سوجھ بوجھ کے مالک تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک اہم سفارتی مہم کے لیے منتخب کیا اور ان دونوں کو نجاشی اور بطریقوں کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے بہترین تحفے اور ہدیے دے کر حبش روانہ کیا۔
ان دونوں نے پہلے حبش پہنچ کر بطریقوں کو تحائف پیش کیے۔ پھر انہیں اپنے ان دلائل سے آگاہ کیا ، جن کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کوحبش سے نکلوانا چاہتے تھے۔ جب بطریقوں نے اس بات سے اتفاق کرلیا کہ وہ نجاشی کو مسلمانوں کے نکال دینے کا مشورہ دیں گے تو یہ دونوں نجاشی کے حضور حاضر ہوئے اور تحفے پیش کرکے اپنا مُدّعا عرض کیا۔ کہا:
'' اے بادشاہ ! آپ کے ملک میں ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بھاگ آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑدیا ہے لیکن آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ یہ ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ۔ ہمیں آپ کی خدمت میں انہی کی بابت ان کے والدین چچائوں اور کنبے قبیلے کے عمائدین نے بھیجا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں ان کے پاس واپس بھیج دیں۔ کیونکہ وہ لوگ ان پر سب سے اونچی نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی خامی اور عتاب کے اسباب کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔'' 
جب یہ دونوں اپنا مدعا عرض کر چکے تو بطریقوں نے کہا : بادشاہ سلامت ! یہ دونوں ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔ آپ ان جوانوں کو ان دونوں کے حوالے کردیں۔ یہ دونوں انہیں ان کی قوم اور ان کے ملک میں واپس پہنچادیں گے۔
لیکن نجاشی نے سوچا کہ اس قضیے کو گہرائی سے کھنگالنا اور اس کے تمام پہلوئوں کو سننا ضروری ہے۔ چنانچہ ا س نے مسلمانوں کو بلا بھیجا۔
مکمل تحریر >>

دارِ ارقم


یہ مکان سرکشوں کی نگاہوں اور ان کی مجلسوں سے دور کوہ صفا کے دامن میں الگ تھلگ واقع تھا۔ رسول اللہﷺ نے اسے اس مقصد کے لیے منتخب فرمایا کہ یہاں مسلمانوں کے ساتھ خفیہ طور پر جمع ہوں۔ چنانچہ آپ یہاں اطمینان سے بیٹھ کر مسلمانوں پر اللہ کی آیات تلاوت فرماتے ، ان کا تزکیہ کرتے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتے اور مسلمان بھی امن وسلامتی کے ساتھ اپنی عبادت اور اپنے دینی اعمال انجام دیتے اور اللہ کی نازل کی ہوئی وحی سیکھتے ، جو آدمی اسلام لانا چاہتا بھی یہاں آکر خاموشی سے مسلمان ہوجاتا اور ظلم وانتقام پر اترے ہوئےسرکشوں کو اس کی خبر نہ ہوتی۔
یہ بات یقینی ہے کہ اگر رسول اللہﷺ اس کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلااکٹھا ہوتے تو مشرکین اپنی پوری قوت وشدت کے ساتھ اس بات کی کوشش کرتے کہ آپ تزکیۂ نفس اور تعلیم کتاب وسنت کا جو کام کرناچاہتے ہیں اسے نہ ہونے دیں۔ اس کے نتیجہ میں فریقین کے درمیان تصادم ہوسکتا تھا۔ بلکہ عملاً ایسا ہو بھی چکا تھا، 
چنانچہ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ کے صحابہ کرامؓ گھاٹیوں اکٹھے ہو کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ایک بار کفار قریش کے کچھ لوگوں نے دیکھ لیا تو گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے پر اتر آئے۔ جواباً حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایک شخص کو ایسی ضرب لگائی کہ اس کا خون بہہ پڑا اور یہ پہلا خون تھا جو اسلام میں بہایا گیا۔ 
معلوم ہے کہ اس طرح کا ٹکرائو بار بار ہوتا اور طول پکڑجاتا تو مسلمانو ں کے خاتمے کی نوبت آسکتی تھی۔ لہٰذا حکمت کا تقا ضا یہی تھا کہ کام پس پردہ کیا جائے۔ چنانچہ عام صحابہ کرامؓ اپنا اسلام ، اپنی عبادت ، اپنی تبلیغ اور اپنے باہمی اجتماعات سب کچھ پس پردہ کرتے تھے۔ البتہ رسول اللہﷺ تبلیغ کا کام بھی مشرکین کے رُو برُو کھلم کھلا انجام دیتے تھے ، اور عبادت کاکام بھی۔ کوئی چیز آپﷺ کو اس سے روک نہیں سکتی تھی۔ تاہم آپ بھی مسلمانوں کے ساتھ خود ان کی مصلحت کے پیش نظر خفیہ طور سے جمع ہوتے تھے۔ ادھر اَرقَم بن ابی ا لارقم مخزومی کا مکان کوہِ صفا پر سرکشوں کی نگاہوں اور ان کی مجلسوں سے دور الگ تھلگ واقع تھا۔ اس لیے آپ نے پانچویں سنہ نبوت سے اسی مکان کو اپنی دعوت اور مسلمانوں کے ساتھ اپنے اجتماع کا مرکز بنالیا۔
مکمل تحریر >>