Friday 20 March 2015

معاہدہ کا انکشاف اور روَساءِ قریش کا احتجاج


معاہدہ مکمل ہوچکا تھا اور اب لوگ بکھرنے ہی والے تھے کہ ایک شیطان کو اس کا پتہ لگ گیا۔ چونکہ یہ انکشاف بالکل آخری لمحات میں ہوا تھا اور اتنا موقع نہ تھا کہ یہ خبر چپکے سے قریش کو پہنچادی جائے، اور وہ اچانک اس اجتماع کے شرکاء ٹوٹ پڑیں ، اور انہیں گھاٹی ہی میں جالیں۔ اس لیے شیطان نے جھٹ ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر نہایت بلند آواز سے ، جو شاید ہی کبھی سنی گئی ہو ، یہ پکارلگائی : خیمے والو! محمد (ﷺ ) کو دیکھو۔ اس وقت بددین اس کے ساتھ ہیں اور تم سے لڑنے کے لیے جمع ہیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : یہ اس گھاٹی کا شیطان ہے۔ او اللہ کے دشمن ! سن ، اب میں تیرے لیے جلد ہی فارغ ہورہا ہوں۔ اس کے بعد آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ وہ اپنے ڈیروں پر چلے جائیں۔3
اس شیطان کی آواز سن کر حضرت عباس عبادہ بن نضلہؓ نے فر مایا : اس ذات کی قسم ! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، آپ چاہیں تو ہم کل اہل منیٰ پر اپنی تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑیں۔ آپ نے فرمایا :
ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ بس آپ لوگ اپنے ڈیروں میں چلے جائیں۔ اس کے بعد لوگ واپس جاکر سو گئے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔( ابن ہشام ۱/۴۴۸):
یہ خبر قریش کے کانوں تک پہنچی تو غم والم کی شدت سے ان کے اندر کہرام مچ گیا۔ کیونکہ اس جیسی بیعت کے جو نتائج ان کی جان ومال پر مرتب ہوسکتے تھے اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ تھا۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی ان کے رؤساء اور اکابر مجرمین کے ایک بھاری بھرکم وفد نے اس معاہدے کے خلاف سخت احتجاج کے لیے اہل یثرب کے خیموں کا رخ کیا ، اور یوں عرض پرداز ہوا۔
خزرج کے لوگو! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ ہمارے اس صاحب کو ہمارے درمیان سے نکال لے جانے کے لیے آئے ہیں اور ہم سے جنگ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں۔ حالانکہ کوئی عرب قبیلہ ایسا نہیں جس سے جنگ کرنا ہمارے لیے اتنا زیادہ ناگوار ہو جتنا آپ حضرات سے ہے۔( ایضاً ۱/۴۴۸)
لیکن چونکہ مشرکین خزرج اس بیعت کے بارے میں سرے سے کچھ جانتے ہی نہ تھے ، کیونکہ یہ مکمل راز داری کے ساتھ رات کی تاریکی میں زیر عمل آئی تھی اس لیے ان مشرکین نے اللہ کی قسم کھا کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ ہم اس طرح کی کوئی بات سرے سے جانتے ہیں نہیں۔ بالآخر یہ وفد عبد اللہ بن اُبی ابن سلول کے پاس پہنچا۔ وہ بھی کہنے لگا یہ باطل ہے۔ ایسا نہیں ہوا ہے ، اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ میری قوم مجھے چھوڑ کر اس طرح کاکام کرڈالے۔ اگر میں یثرب میں ہوتا تو بھی مجھ سے مشورہ کیے بغیر میری قوم ایسا نہ کرتی۔
باقی رہے مسلمان تو انہوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اورچپ سادھ لی۔ ان میں سے کسی نے ہاں یا نہیں کے ساتھ زبان ہی نہیں کھولی۔ آخر رؤساء قریش کا رجحان یہ رہا کہ مشرکین کی بات سچ ہے، اس لیے وہ نامراد واپس چلے گئے۔

مکمل تحریر >>

بیعت کی تکمیل اور بارہ تقیب


بیعت کی دفعات پہلے ہی طے ہوچکی تھیں ، ایک بار نزاکت کی وضاحت بھی ہوچکی تھی۔ اب یہ تاکید مزید ہوئی تو لوگوں نے بیک آواز کہا : اسعد بن زرارہ ! اپنا ہاتھ ہٹا ؤ۔ اللہ کی قسم! ہم اس بیعت کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں۔
اس جواب سے حضرت اسعدؓ کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ قوم کس حد تک اس راہ میں جان دینے کے لیے تیار ہے -- درحقیقت حضرت اسعد بن زرارہ حضرت مُصعب بن عُمیر کے ساتھ مل کر مدینے میں اسلام کے سب سے بڑے مبلغ تھے۔ اس لیے طبعی طور پر وہی ان بیعت کنندگان کے دینی سربراہ بھی تھے اور اسی لیے سب سے پہلے انہیں نے بیعت بھی کی۔ چنانچہ ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ بنو النجار کہتے ہیں کہ ابوامامہ اسعدبن زرارہ سب سے پہلے آدمی ہیں جنہوں نے آپﷺ سے ہاتھ ملایا۔ اورا س کے بعد بیعتِ عامہ ہوئی۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک ایک آدمی کر کے اٹھے اور آپﷺ نے ہم سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی۔( مسند احمد ۳/۳۲۲ )
باقی رہیں دوعورتیں جو اس موقعے پر حاضر تھیں تو ان کی بیعت صرف زبانی ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے کبھی کسی اجنبی عورت سے مصافحہ نہیں کیا۔( صحیح مسلم باب کیفیۃ بیعۃ النساء ۲/۱۳۱)
بارہ نقیب:
بیعت مکمل ہوچکی تو رسول اللہﷺ نے یہ تجویز رکھی کہ بارہ سربراہ منتخب کر لیے جائیں۔ جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اس بیعت کی دفعات کی تنفیذکے لیے اپنی قوم کی طرف سے وہی ذمے دار اور مکلف ہوں۔ آپ کا ارشاد تھا کہ لوگ اپنے اندر سے بارہ نقیب پیش کیجیے تاکہ وہی لوگ اپنی اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہوں۔ آپﷺ کے اس ارشاد پر فوراً ہی نقیبوں کا انتخاب عمل میں آگیا۔ نو خَزَرج سے منتخب کیے گئے اور تین اَوس سے۔ نام یہ ہیں :
خزر ج کے نقباء:
۱۔ اسعد بن زرارہ بن عدس ۲۔ سعد بن ربیع بن عَمرو
۳۔ عبد اللہ بن رواحہ بن ثعلبہ ۴۔رافع بن مالک بن عجلان
۵۔براء بن معرور بن صخر ۶۔ عبد اللہ بن عَمرو بن حرام
۷۔ عبادہ بن صامت بن قیس ۸۔ سَعد بن عُبادہ بن دلیم
۹۔ مُنذر بن عَمرو بن خنیس
اوس کے نقباء :
۱۔اُسید بن حضیر بن سماک ۲۔ سعد بن خیثمہ بن حارث
۳۔ رِفَاعہ بن عبد المنذر بن زبیر
جب ان نقباء کا انتخاب ہوچکا تو ان سے سردار اور ذمے دار ہونے کی حیثیت سے رسول اللہﷺ نے ایک اور عہد لیا۔ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں۔ جیسے حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانب سے کفیل ہوئے تھے اور میں اپنی قوم یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔ ان سب نے کہا : جی ہاں۔( ابن ہشام ۱/۴۴۳، ۴۴۴، ۴۴۶ 3 ابن ہشام ۱/۴۴۷، زاد المعاد ۲/۵۱)

مکمل تحریر >>

بیعت کی دفعات اور مدینہ والوں کا عزم


رسول اللہﷺ نے قرآن کی تلاوت ، اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی ترغیب دینے کے بعد فرمایا : میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس پر حضرت براء ؓ بن معرور نے آپﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا:
ہاں! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے! ہم یقینا اس چیز سے آپﷺ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں...لہٰذا اے اللہ کے رسول ! آپ ہم سے بیعت لیجئے۔ ہم اللہ کی قسم! جنگ کے بیٹے ہیں اور ہتھیار ہمارا کھلونا ہے۔ ہماری یہی ریت باپ دادا سے چلی آرہی ہے۔
حضرت کعب ؓ کہتے ہیں کہ حضرت براء رسول اللہﷺ سے بات کرہی رہے تھے کہ ابو الہثیم بن تیہان نے بات کاٹتے ہوئے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے اور کچھ لوگوں...یعنی یہود...کے درمیان -عہد وپیمان کی- رسیاں ہیں اور اب ہم ان رسیوں کو کاٹنے والے ہیں ، تو کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم ایسا کر ڈالیں پھر اللہ آپﷺ کو غلبہ وظہور عطا فرمائے تو آپﷺ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف پلٹ آئیں۔
یہ سن کر رسول اللہﷺ نے تبسم فرمایا، پھر فرمایا : (نہیں)بلکہ آپ لوگوں کا خون میرا خون اور آپ لوگوں کی بربادی میری بربادی ہے۔ میں آپ سے ہوں اور آپ مجھ سے ہیں۔ جس سے آپ جنگ کریں گے اس سے میں جنگ کروں گا اور جس سے آپ صلح کریں گے اس سے میں صلح کروں گا۔ (ابن ہشام ۱/۴۴۲)
بیعت کی شرائط کے متعلق گفت وشنید مکمل ہوچکی ، اور لوگوں نے بیعت شروع کرنے کا ارادہ کیا تو صفِ اول کے دو مسلما ن جو ۱۱ نبوت او ر ۱۲ نبوت کے ایام حج میں مسلمان ہوئے تھے۔ یکے بعد دیگرے اٹھے تاکہ لوگوں کے سامنے ان کی ذمے داری کی نزاکت اور خطرناکی کو اچھی طرح واضح کردیں اور یہ لوگ معاملے کے سارے پہلو ؤں کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد ہی بیعت کریں۔ اس سے یہ بھی پتہ لگانا مقصود تھا کہ قوم کس حد تک قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب لوگ بیعت کے لیے جمع ہوگئے تو حضرت عباس ؓ بن عبادہ بن نضلہ نے کہا : تم لوگ جانتے ہوکہ ان سے (اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا ) کس بات پر بیعت کررہے ہو ؟ جی ہاں کی آوازوں پر حضرت عباسؓ نے کہا: تم ان سے سرخ اور سیاہ لوگوں سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔ اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ جب تمہارے اموال کا صفایا کردیا جائے گا اور تمہارے اشراف قتل کر دیئے جائیں گے تو تم ان کا ساتھ چھوڑ دوگے تو ابھی سے چھوڑ دو۔ کیونکہ اگر تم نے انہیں لے جانے کے بعد چھوڑ دیا تو یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہوگی اور اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کے باوجود عہدنبھاؤ گے جس کی طرف تم نے انہیں بلایا ہے تو پھر بے شک تم انہیں لے لو۔ کیونکہ یہ اللہ کی قسم دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔
اس پر سب نے بیک آواز کہا : ہم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر انہیں قبول کرتے ہیں۔ ہاں ! اے اللہ کے رسول ! ہم نے یہ عہد پورا کیا تو ہمیں اس کے عوض کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا : جنت۔ لوگوں نے عرض کی: اپنا ہاتھ پھیلائیے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیلا یا اور لوگوں نے بیعت کی۔ (ایضاً ۱/۴۴۶)
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ اس وقت ہم بیعت کرنے اٹھے تو حضرت اسعد بن زرارہ نے ... جو ان ستر آدمیوں میں سب سے کم عمر تھے...آپﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے : اہل یثرب ! ذراٹھہر جاؤ۔ ہم آپ کی خدمت میں اونٹوں کے ۲کلیجے مار کر (لمبا چوڑا سفر کرکے ) اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آج آپﷺ کو یہاں سے لے جانے کے معنی ہیں سارے عرب سے دشمنی ، تمہارے چیدہ سرداروں کا قتل ، اور تلواروں کی مار۔ لہٰذا اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو تب تو انہیں لے چلو۔اور تمہارا اجر اللہ پر ہے اور اگر تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو انہیں ابھی سے چھوڑ دو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول عذر ہوگا۔( مسند احمد حضرت جابرؓ سے ۳/۳۲۲۔ بیہقی ، سنن کبریٰ ۹/۹)

مکمل تحریر >>

دوسری بیعتِ عقبہ


نبوت کے تیرہویں سال موسم حج - جون ۶۲۲ ء - میں یثرب کے ستر سے زیادہ مسلمان فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ تشریف لائے۔ یہ اپنی قوم کے مشرک حاجیوں میں شامل ہوکر آئے تھے اور ابھی یثرب ہی میں تھے ، یامکے کے راستے ہی میں تھے کہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کب تک رسول اللہﷺ کو یوں ہی مکے کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے ، ٹھوکریں کھا تے ، اور خوفزدہ کیے جاتے چھوڑے رکھیں گے ؟
پھر جب یہ مسلمان مکہ پہنچ گئے تو درپردہ نبیﷺ کے ساتھ سلسلۂ جنبانی شروع کی اور آخر کار اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ دونوں فریق ایام تشریق کے درمیانی دن - ۱۲؍ ذی الحجہ کو - منیٰ میں جمرہ ٔ اولیٰ، یعنی جمرہ ٔ عقبہ کے پاس جو گھاٹی ہے اسی میں جمع ہوں اور یہ اجتماع رات کی تاریکی میں بالکل خفیہ طریقے پر ہو۔یہی وہ اجتماع ہے جس نے اسلام وبت پرستی کی جنگ میں رفتارِزمانہ کا رخ موڑ دیا۔
حضرت کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں :
''ہم لوگ حج کے لیے نکلے۔ رسول اللہﷺ سے ایام تشریق کے درمیانی روز عَقَبہ میں ملاقات طے ہوئی اور بالآخر وہ رات آگئی جس میں رسول اللہﷺ سے ملاقات طے تھی۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزز سردار عبد اللہ بن حرام بھی تھے (جو ابھی اسلام نہ لائے تھے ) ہم نے ان کو ساتھ لے لیا تھا - ورنہ ہمارے ساتھ ہماری قوم کے جو مشرکین تھے ہم ان سے اپنا سارا معاملہ خفیہ رکھتے تھے - مگر ہم نے عبد اللہ بن حرام سے بات چیت کی اور کہا: اے ابوجابر ! آپ ہمارے ایک معزز اور شریف سربراہ ہیں اور ہم آپ کو آپ کی موجودہ حالت سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کل کلاں کو آگ کا ایندھن نہ بن جائیں۔ اس کے بعد ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور بتلایا کہ آج عقبہ میں رسول اللہﷺ سے ہماری ملاقات طے ہے۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ہمارے ساتھ عقبہ میں تشریف لے گئے اور نقیب بھی مقرر ہوئے۔ ''
حضرت کعبؓ واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہم لو گ حسبِ دستور اس رات اپنی قوم کے ہمراہ اپنے ڈیروں میں سوئے ، لیکن جب تہائی رات گزر گئی تو اپنے ڈیروں سے نکل نکل کر رسول اللہﷺ کے ساتھ طے شدہ مقام پر جا پہنچے۔ ہم اس طرح چپکے چپکے دبک کر نکلتے تھے جیسے چڑیا گھونسلے سے سکڑ کر نکلتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم سب عقبہ میں جمع ہوگئے۔ ہماری کل تعداد پچھتّر تھی۔ تہتر مرد اور دو عورتیں ایک ام عمارہ نسیبہ بنت کعب تھیں۔ جو قبیلہ بنومازن بن نجار سے تعلق رکھتی تھیں اور دوسری ام منیع اسماء بنت عمرو تھیں۔ جن کا تعلق قبیلہ بنوسلمہ سے تھا۔
ہم سب گھاٹی میں جمع ہو کر رسول اللہﷺ کا انتظار کر نے لگے اور آخر وہ لمحہ آہی گیا جب آپ تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عبا س بن عبد المطلب بھی تھے۔ وہ اگر چہ ابھی تک اپنی قوم کے دین پر تھے مگر چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے معاملہ میں موجود رہیں اور ان کے لیے پختہ اطمینان حاصل کرلیں۔ سب سے پہلے بات بھی انہیں نے شروع کی۔( ابن ہشام ۱/۴۴۰، ۴۴۱)
گفتگو کا آغاز اور حضرت عباس ؓ کی طرف سے معاملے کی نزاکت کی تشریح :
مجلس مکمل ہوگئی تو دینی اور فوجی تعاون کے عہد وپیمان کو قطعی اور آخری شکل دینے کے لیے گفتگو کا آغاز ہوا۔ رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس نے سب سے پہلے زبان کھولی۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ پوری صراحت کے ساتھ اس ذمہ داری کی نزاکت واضح کردیں جو اس عہد وپیمان کے نتیجے میں ان حضرات کے سر پڑنے والی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کہا:
خزرج کے لوگو ! عام اہل ِ عرب انصار کے دونوں ہی قبیلے، یعنی خزرج اور اوس کو خزرج ہی کہتے تھے - ہمارے اندر محمدﷺ کی جو حیثیت ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہماری قوم کے جو لوگ دینی نقطۂ نظر سے ہمارے ہی جیسی رائے رکھتے ہیں۔ ہم نے محمدﷺ کو ان سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں قوت وعزت اور طاقت وحفاظت کے اندر ہیں۔ مگر اب وہ تمہارے یہاں جانے اور تمہارے ساتھ لاحق ہونے پر مصر ہیں۔ لہٰذا اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم انہیں جس چیز کی طرف بلا رہے ہو اسے نبھالو گے اور انہیں ان کے مخالفین سے بچالو گے تب تو ٹھیک ہے۔ تم نے جو ذمے داری اٹھائی ہے اسے تم جانو لیکن اگر تمہارایہ اندازہ ہے کہ تم انہیں اپنے پاس لے جانے کے بعد ان کا ساتھ چھوڑ کر کنارہ کش ہوجاؤ گے تو پھر ابھی سے انہیں چھوڑ دو۔ کیونکہ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں بہر حال عزت وحفاظت سے ہیں۔
حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عباس ؓ سے کہا کہ آپ کی بات ہم نے سن لی۔ اب اے اللہ کے رسول ! آپ گفتگو فرمائیے اور اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے جو عہد وپیمان پسند کریں۔ (ابن ہشام ۱/۴۴۱ ، ۴۴۲)
اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم ذمے داری کو اٹھا نے اور اس پر خطر نتائج کو جھیلنے کے سلسلے میں انصارکے عزمِ محکم ، شجاعت وایمان اور جوش واخلاص کا کیا حال تھا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے گفتگو فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قرآن کی تلاوت کی، اللہ کی طرف دعوت دی اور اسلام کی ترغیب دی، اس کے بعد بیعت ہوئی۔

مکمل تحریر >>

حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام


حضرت اسعد ؓ نے حضرت مُصعب ؓ سے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہارے پاس ایک ایسا سردار آرہا ہے، جس کے پیچھے اس کی پوری قوم ہے۔ اگر اس نے تمہاری بات مان لی توپھر ان میں سے کوئی بھی نہ پچھڑے گا۔
حضرت مصعب ؓ نے حضرت سعد بن معاذ سے کہا : کیوں نہ آپ تشریف رکھیں اور سنیں۔ اگر کوئی بات پسند آگئی تو قبول کرلیں اور اگر پسند نہ آئی تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور ہی رکھیں گے۔ حضرت سعد نے کہا : انصاف کی بات کہتے ہو ، اس کے بعد اپنا نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے۔ حضرت مصعب ؓ نے ان پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت کی۔ ان کا بیان ہے کہ ہمیں حضرت سعد کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے زبان کھولی اور فرمایا : تم لوگ اسلام لاتے ہو تو کیا کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا :آپ غسل کرلیں، پھر حق کی شہادت دیں ، پھر دورکعت نماز پڑھیں۔ حضرت سعدؓ نے ایسا ہی کیا۔
اس کے بعد اپنا نیزہ اٹھا یا اور اپنی قوم کی محفل میں تشریف لائے۔ لو گوں نے دیکھتے ہی کہا : ہم واللہ! کہہ رہے ہیں کہ حضرت سعدؓ جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسراہی چہرہ لے کر پلٹے ہیں۔ پھر جب حضرت سعدؓ اہل مجلس کے پاس آکر رکے تو بولے: اے بنی عبد الاشہل ! تم لو گ اپنے اندر میرا معاملہ کیسا جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے سردار ہیں۔ سب سے اچھی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور ہمارے سب سے بابرکت پاسبان ہیں۔ انہوں نے کہا : اچھا تو سنو ! اب تمہارے مردوں اور عورتوں سے میری بات چیت حرام ہے جب تک کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان نہ لاؤ۔ ان کی اس بات کا یہ اثر ہواکہ شام ہوتے ہوتے اس قبیلے کا کوئی بھی مرد اور کوئی بھی عورت ایسی نہ بچی جو مسلمان نہ ہوگئی ہو۔ صرف ایک آدمی جس کا نا م اُصیرم تھا اس کا اسلام جنگِ احد تک موخر ہوا۔ پھر احد کے دن اس نے اسلام قبول کیا اور جنگ میں لڑتا ہو ا کام آگیا۔ اس نے ابھی اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی نہ کیا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ اس نے تھوڑا عمل کیا اور زیادہ اجر پایا۔
حضرت مصعب ؓ ، حضرت اسعد ؓ بن زرارہ ہی کے گھر مقیم رہ کر اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انصار کا کوئی گھر باقی نہ بچا جس میں چند مرد اور عورت مسلمان نہ ہوچکی ہوں۔ صرف بنی امیہ بن زید اور خطمہ اور وائل کے مکانات باقی رہ گئے تھے۔ مشہور شاعر ابو قیس بن اسلت انہیں کا آدمی تھا اور یہ لوگ اسی کی بات مانتے تھے۔ اس شاعر نے انہیں جنگ خندق ( ۵ ہجری ) تک اسلام سے روکے رکھا۔ بہرحال اگلے موسمِ حج، یعنی تیرہویں سال نبوت کا موسمِ حج آنے سے پہلے حضرت مصعب بن عمیرؓ کامیابی کی بشارتیں لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں مکہ تشریف لائے اور آپﷺ کو قبائل یثرب کے حالات ، ان کی جنگی اور دفاعی صلاحیتوں ، اور خیر کی لیاقتوں کی تفصیلات سنائیں۔ (ابن ہشام ۱/۴۳۵-۵۳۸ ، ۲/۹۰، زادالمعاد ۲/۵۱)
مکمل تحریر >>

مدینہ میں اسلام کا سفیر


مدینہ میں اسلام کا سفیر :
بیعت پور ی ہوگئی اور حج ختم ہو گیا تو نبیﷺ نے ان لوگوں کے ہمراہ یثرب میں اپنا پہلا سفیر بھیجا تا کہ وہ مسلمانوں کو اسلامی احکام کی تعلیم دے اور انہیں دین کے دروبست سکھائے اور جو لوگ اب تک شرک پر چلے آرہے ہیں ان میں اسلام کی اشاعت کرے۔ نبیﷺ نے اس سفارت کے لیے سابقین اولین میں سے ایک جوان کا انتخاب فرمایا۔ جس کا نام اور اسم گرامی مصعب بن عمیر عبدریؓ ہے۔
حضرت مصعب بن عمیرؓ مدینہ پہنچے تو حضرت اسعد بن زرارہؓ کے گھر نزول فرماہوئے۔ پھر دونوں نے مل کر اہلِ یثرب میں جوش خروش سے اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ حضرت مصعب ؓ مُقری کے خطاب سے مشہور ہوئے۔ (مقری کے معنی ہیں پڑھانے والا۔ اس وقت معلم اور استاد کو مقری کہتے تھے )
تبلیغ کے سلسلے میں ان کی کامیابی کا ایک نہایت شاندار واقعہ یہ ہے کہ ایک روز حضرت اسعد بن زرارہؓ انہیں ہمراہ لے کر بنی عبد الاشہل اور بنی ظفر کے محلے میں تشریف لے گئے اور وہاں بنی ظفر کے ایک باغ کے اندر مرق نامی کنویں پر بیٹھ گئے، ان کے پاس چند مسلمان بھی جمع ہوگئے۔ اس وقت تک بنی عبد الاشہل کے دونوں سردار، یعنی حضرت سعد بن معاذ ؓ اور حضرت اُسید بن حضیر (مسلمان نہیں ہوئے تھے ) بلکہ شرک ہی پر تھے۔ انہیں جب خبر ہوئی تو حضرت سعد ؓ نے حضرت اُسید سے کہا کہ ذرا جاؤ اور ان دونوں کو ، جو ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بنانے آئے ہیں ، ڈانٹ دو اور ہمارے محلے میں آنے سے منع کردو۔ چونکہ اسعد بن زرارہ میری خالہ کا لڑکا ہے (اس لیے تمہیں بھیج رہا ہوں ) ورنہ یہ کام میں خود انجام دے دیتا۔
اسید ؓ نے اپنا حربہ اٹھا یا اور ان دونوں کے پاس پہنچے۔ حضرت اسعد ؓ نے انہیں آتا دیکھ کر حضرت مصعب ؓ سے کہا :یہ اپنی قوم کا سردار تمہارے پا س آرہا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ سے سچائی اختیار کرنا۔ حضرت مصعب ؓ نے کہا : اگر یہ بیٹھا تو اس سے بات کروں گا۔ اُسَیْد پہنچے تو ان کے پاس کھڑے ہوکرسخت سست کہنے لگے۔ بولے : تم دونوں ہمارے یہاں کیوں آئے ہو ؟ ہمارے کمزوروں کو بیوقوف بناتے ہو؟ یاد رکھو ! تمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو ہم سے الگ ہی رہو۔
حضرت مصعبؓ نے کہا : کیوں نہ آپ بیٹھیں اور کچھ سنیں۔ اگر کوئی بات پسند آجائے تو قبول کرلیں۔ پسند نہ آئے تو چھوڑ دیں۔حضرت اسید نے کہا : بات منصفانہ کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد اپنا حربہ گاڑکر بیٹھ گئے۔ اب حضرت مصعب ؓ نے اسلام کی بات شروع کی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ ان کا بیان ہے کہ واللہ! ہم نے حضرت اُسید ؓ کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے زبان کھولی تو فرمایا: یہ تو بڑا عمدہ اور بہت ہی خوب تر ہے۔ تم لوگ کسی کو اس دین میں داخل کرنا چاہتے ہوتو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا : آپ غسل کرلیں۔ کپڑے پاک کرلیں۔ پھر حق کی شہادت دیں، پھر دو رکعت نماز پڑھیں۔ انہوں نے اٹھ کر غسل کیا۔ کپڑے پاک کیے۔ کلمۂ شہادت ادا کیا اور دورکعت نماز پڑھی، پھر بولے : میرے پیچھے ایک اورشخص ہے ، اگر وہ تمہارا پیرو کار بن جائے تو اس کی قوم کا کوئی آدمی پیچھے نہ رہے گا اور میں اس کو ابھی تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ (اشارہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی طرف تھا )
اس کے بعد حضرت اُسید ؓ نے اپنا حربہ اٹھا یا اور پلٹ کر حضرت سعد ؓ کے پاس پہنچے۔ وہ اپنی قوم کے ساتھ محفل میں تشریف فرماتھے۔ (حضرت اُسید کو دیکھ کر) بولے: میں واللہ! کہہ رہا ہوں کہ یہ شخص تمہارے پاس جو چہرہ لے کر آرہا ہے یہ وہ چہرہ نہیں ہے جسے لے کر گیا تھا۔ پھر جب حضر ت اُسید محفل کے پاس آن کھڑے ہوئے تو حضرت سعد ؓ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے کیا کیا ؟ انہوں نے کہا : میں نے ان دونوں سے بات کی تو واللہ! مجھے کوئی حرج تو نظر نہیں آیا۔ ویسے میں نے انہیں منع کردیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ ہم وہی کریں گے جو آپ چاہیں گے۔
اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنی حارثہ کے لوگ اسعدبن زرارہ کو قتل کر نے گئے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اسعد آپ کی خالہ کا لڑکا ہے۔ لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کا عہد توڑ دیں۔ یہ سن کر سعد غصے سے بھڑک اٹھے اور اپنا نیز ہ لے کر سیدھے ان دونوں کے پاس پہنچے۔ دیکھا تو دونوں اطمینان سے بیٹھے ہیں۔ سمجھ گئے کہ اُسید کا منشا یہ تھا کہ آپ بھی ان کی باتیں سنیں لیکن یہ ان کے پاس پہنچے تو کھڑے ہو کر سخت سست کہنے لگے۔ پھر اسعد بن زرارہ کو مخاطب کر کے بولے : اللہ کی قسم اے ابو امامہ !اگر میرے اور تیرے درمیان قرابت کا معاملہ نہ ہوتا تو تم مجھ سے اس کی امید نہ رکھ سکتے تھے۔ ہمارے محلے میں آکر ایسی حرکتیں کرتے ہو جو ہمیں گوارا نہیں ؟

مکمل تحریر >>

پہلی بیعتِ عقبہ


جیسا کہ پہلے گزر چکا نبوت کے گیارہویں سال موسم ِ حج میں یثرب کے چھ آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور رسول اللہﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ اپنی قوم میں جاکر آپﷺ کی رسالت کی تبلیغ کریں گے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال موسمِ حج آیا ( یعنی ذی الحجہ ۱۲ نبوی، مطابق جولائی ۶۲۱ء ) تو بارہ آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں حضرت جابر بن عبد اللہ بن رئاب کو چھوڑ کر باقی پانچ وہی تھے جو پچھلے سال بھی آچکے تھے اور ان کے علاوہ سات آدمی نئے تھے۔ جن کے نام یہ ہیں :
1 معاذ بن الحارث ، ابن عفراء قبیلۂ بنی النجار (خزرج)
2 ذکوان بن عبد القیس ؍؍ بنی زریق ( ؍؍ )
3 عباد ہ بن صامت ؍؍ بنی غنم (؍؍ )
4 یزید بن ثعلبہ ؍؍ بنی غنم کے حلیف (؍؍ )
5 عباس بن عبادہ بن نضلہ ؍؍ بنی سالم (؍؍ )
6 ابوالہیثم بن التیہان ؍؍ بنی عبد الاشہل (اوس)
7 عویم بن ساعدہ ؍؍ بنی عمرو بن عوف (؍؍)
ان میں صرف اخیر کے دوآدمی قبیلۂ اوس سے تھے۔ بقیہ سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تھے۔( ابن ہشام ۱/۴۳۱تا ۴۳۳)
ان لوگوں نے رسول اللہﷺ سے منیٰ میں عقبہ کے پاس ملاقات کی اور آپﷺ سے چند باتوں پر بیعت کی۔ یہ باتیں وہی تھیں جن پر آئندہ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ کے وقت عورتوں سے بیعت لی گئی۔
عقبہ (ع ، ق، ب تینوں کو زبر ) پہاڑ کی گھاٹی، یعنی تنگ پہاڑی گزرگاہ کو کہتے ہیں۔ مکہ سے منیٰ آتے جاتے ہوئے منیٰ کے مغربی کنارے پر ایک تنگ پہاڑی راستے سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہی گزرگاہ عَقَبَہ کے نام سے مشہور ہے۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جس ایک جمرہ کو کنکری ماری جاتی ہے وہ اسی گزرگاہ کے سرے پر واقع ہے اس لیے اِسے جمرہ ٔ عقبہ کہتے ہیں۔اس جمرہ کا دوسرا نام جمرہ کبریٰ بھی ہے۔ باقی دو جمرے اس سے مشرق میں تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔ چونکہ منیٰ کا پورا میدان ، جہاں حجاج قیام کرتے ہیں۔ ان تینوں جمرات کے مشرق میں ہے۔ اس لیے ساری چہل پہل ادھر ہی رہتی ہے اور کنکریاں مارنے کے بعد اس طرف لوگوں کی آمد ورفت کا سلسلہ ختم ہوجاتا تھا۔ اسی لیے نبیﷺ نے بیعت لینے کے لیے اس گھاٹی کو منتخب کیا اور اسی مناسبت سے اس کو بیعت عقبہ کہتے ہیں۔ اب پہاڑ کاٹ کر یہاں کشادہ سڑکیں نکال لی گئی ہیں۔
عَقَبَہ کی اس بیعت کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
آؤ! مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ کروگے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے۔ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان سے گھڑ کر کوئی بہتان نہ لاؤ گے اور کسی بھلی بات میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔ جو شخص یہ ساری باتیں پوری کرے گا اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا پھر اسے دنیا ہی میں اس کی سزادے دی جائے گی تویہ اس کے لیے کفارہ ہوگی اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا۔ پھر اللہ اس پر پردہ ڈال دے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ چاہے گا تو سزادے گا اور چاہے گا تو معاف کردے گا۔ حضرت عبادہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس پر آپﷺ سے بیعت کی۔
(صحیح بخاری ، باب بعد باب حلاوۃ الایمان ۱/۷ ، باب وفود الانصار ۱/۵۵۰ ، ۵۵۱،(لفظ اسی با ب کا ہے ) باب قولہ تعالیٰ اذا جاء ک المؤمنات ۲/۷۲۷ ، باب الحدود کفارۃ ۲/۱۰۰۳ )

مکمل تحریر >>

معراج کی جزئیات کی پسِ پردہ حکمتیں اور اسرار


اس واقعۂ معراج کی جزئیات کے پس پردہ مزید جو حکمتیں اور اسرار کا رفرما تھے ان کی بحث کا اصل مقام اسرارِ شریعت کی کتابیں ہیں۔ البتہ چند موٹے موٹے حقائق ایسے ہیں ، جو اس مبارک سفر کے سر چشموں سے پُھوٹ کر سیرت نبوی کے گلشن کی طرف رواں دواں ہیں، اس لیے یہاں مختصرا ًانہیں قلمبند کیا جارہا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اسراء میں اسراء کا واقعہ صرف ایک آیت میں ذکر کر کے کلام کا رخ یہود کی سیاہ کاریوں اور جرائم کے بیان کی جانب موڑدیا ہے۔ پھرانہیں آگاہ کیا ہے کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھی اور صحیح راہ ہے۔ قرآن پڑھنے والے کو بسا اوقات شبہ ہوتا ہے کہ دونوں باتیں بے جوڑ ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اس اسلوب کے ذریعے یہ اشارہ فرمارہا ہے کہ اب یہود کو نوعِ انسانی کی قیادت سے معزول کیا جانے والا ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن سے ملوث ہونے کے بعد انہیں اس منصب پر باقی نہیں رکھا جاسکتا۔ لہٰذا اب یہ منصب رسول اللہﷺ کو سونپا جائے گا اور دعوت ِ ابراہیمی کے دونوںمراکز ان کے ماتحت کردیئے جائیں گے۔ بلفظ دیگر اب وقت آگیا ہے کہ روحانی قیادت ایک امت سے دوسری امت کو منتقل کردی جائے۔ یعنی ایک ایسی امت سے جس کی تاریخ غدر وخیانت اور ظلم وبدکاری سے بھری ہوئی ہے ، یہ قیادت چھین کر ایک ایسی امت کے حوالے کردی جائے جس سے نیکیوں اور بھلائیوں کے چشمے پھوٹیں گے اور جس کا پیغمبر سب سے زیادہ درست راہ بتانے والے قرآن کی وحی سے بہرہ ور ہے۔
لیکن یہ قیادت منتقل کیسے ہوسکتی ہے جب کہ اس امت کا رسول مکے کے پہاڑوں میں لوگوں کے درمیا ن ٹھوکریں کھا تا پھر رہا ہے ؟ اس وقت یہ ایک سوال تھا جو ایک دوسری حقیقت سے پردہ اٹھا رہا تھا اور وہ حقیقت یہ تھی کہ اسلامی دعوت کا ایک دور اپنے خاتمے اور اپنی تکمیل کے قریب آلگا ہے اور اب دوسرا دور شروع ہونے والا ہے جس کا دھارا پہلے سے مختلف ہوگا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آیا ت میں مشرکین کو کھلی وارننگ اور سخت دھمکی دی گئی ہے۔ ارشاد ہے :
وَإِذَا أَرَ‌دْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْ‌يَةً أَمَرْ‌نَا مُتْرَ‌فِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْ‌نَاهَا تَدْمِيرً‌ا (۱۷: ۱۶)
''اور جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے اصحا ب ِ ثروت کو حکم دیتے ہیں مگر وہ کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں، پس اس بستی پر (تباہی کا ) قول برحق ہوجاتا ہے اور ہم اسے کچل کر رکھ دیتے ہیں۔''
وَإِذَا أَرَ‌دْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْ‌يَةً أَمَرْ‌نَا مُتْرَ‌فِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْ‌نَاهَا تَدْمِيرً‌ا (۱۷: ۱۷)
''اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی قوموں کو تباہ کر دیا اور تمہارا رب اپنے بندوں کے جرائم کی خبر رکھنے اور دیکھنے کے لیے کافی ہے۔''
پھر ان آیات کے پہلو بہ پہلو کچھ ایسی آیات بھی ہیں جن میں مسلمانوں کو ایسے تمدنی قواعد وضوابط اور دفعات ومبادی بتلائے گئے ہیں جن پر آئندہ اسلامی معاشرے کی تعمیر ہونی تھی۔ گویا اب وہ کسی ایسی سرزمین پر اپنا ٹھکانا بناچکے ہیں، جہاں ہر پہلو سے ان کے معاملات ان کے اپنے ہاتھ میں ہیں اور انہوں نے ایک ایسی وحدت متماسکہ بنالی ہے جس پر سماج کی چکی گھوما کرتی ہے۔ لہٰذا ان آیات میں اشارہ ہے کہ رسول اللہﷺ عنقریب ایسی جائے پناہ اور امن گاہ پالیں گے جہاں آپﷺ کے دین کو استقرار نصیب ہوگا۔
یہ اسرا ء ومعراج کے بابرکت واقعے کی تہہ میں پوشیدہ حکمتوں اور راز ہائے سر بستہ میں سے ایک ایسا راز اور ایک ایسی حکمت ہے جس کا ہمارے موضوع سے براہ راست تعلق ہے۔ اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ اسے بیان کردیں۔ اسی طرح کی دوبڑی حکمتوں پر نظر ڈالنے کے بعد ہم نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اسراء کا واقعہ یا تو بیعت عقبۂ اولیٰ سے کچھ ہی پہلے کا ہے یا عقبہ کی دونوں بیعتوں کے درمیان کاہے۔ واللہ اعلم

مکمل تحریر >>

واقعہَ معراج اور قریش کا رویہ


علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے صبح کی اور اپنی قوم کو ان بڑی بڑی نشانیوں کی خبردی جواللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلائی تھیں تو قوم کی تکذیب اور اذیت وضررسانی میں اور شدت آگئی۔ انہوں نے آپﷺ سے سوال کیا کہ بیت المقدس کی کیفیت بیان کریں۔ اس پر اللہ نے آپﷺ کے لیے بیت المقدس کو ظاہر فرمادیا اور وہ آپﷺ کی نگاہوں کے سامنے آگیا۔ چنانچہ آپﷺ نے قوم کو اس کی نشانیاں بتلانا شروع کیں اور ان سے کسی بات کی تردید نہ بن پڑی۔ آپﷺ نے جاتے اور آتے ہوئے ان کے قافلے سے ملنے کا بھی ذکر فرمایا اور بتلایا کہ اس کی آمد کا وقت کیا ہے۔ آپﷺ نے اس اونٹ کی بھی نشاندہی کی جو قافلے کے آگے آگے آرہا تھا پھر جیسا کچھ آپﷺ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا ، لیکن ان سب کے باوجود ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوا اور ان ظالموں نے کفر کرتے ہوئے کچھ بھی ماننے سے انکار کردیا۔ (زاد المعاد ۱/۴۸ دیکھئے : صحیح بخاری ۲/۶۸۴ صحیح مسلم ۱/۹۶ ، ابن ہشام ۱/۴۰۲ ، ۴۰۳)
کہاجاتا ہے کہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو اسی موقع پر صدیق کا خطاب دیا گیا۔ کیونکہ آپ نے اس واقعے کی اس وقت تصدیق کی جبکہ اور لوگوں نے تکذیب کی تھی۔ (ابن ہشام ۱/۳۹۹)
معراج کا فائدہ بیان فرماتے ہوئے جو سب سے مختصر اور عظیم بات کہی گئی وہ یہ ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَ‌ىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَ‌كْنَا حَوْلَهُ لِنُرِ‌يَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‌ ﴿١﴾ (۱۷: ۱)
''تاکہ ہم (اللہ تعالیٰ) آپ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔''
اور انبیاء کرام کے بارے میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ ارشاد ہے۔
وَكَذَٰلِكَ نُرِ‌ي إِبْرَ‌اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ (۶: ۷۵)
''اسی طرح ہم نے ابراہیم ؑ کو آسمان وزمین کا نظامِ سلطنت دکھلایا اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو۔''
اور موسی علیہ السلام سے فرما یا :
لِنُرِ‌يَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَ‌ى ﴿٢٣﴾ (۲۰: ۲۳)
''تاکہ ہم تمہیں اپنی کچھ بڑی نشانیاں دکھلائیں۔''
پھر ان نشانیوں کے دکھلانے کا جو مقصد تھا۔ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد
وَكَذَٰلِكَ نُرِ‌ي إِبْرَ‌اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ (۶: ۷۵) (تاکہ یقین کرنے والوں میں سے ہو) کے ذریعے واضح فرمادیا۔
چنانچہ جب انبیاء کرام علیہم السلام کے علوم کو اس کے مشاہدات کی سند حاصل ہوجاتی تھی تو انہیں عین الیقین کا وہ مقام حاصل ہوجاتا تھا جس کا اندازہ لگا نا ممکن نہیں کہ ''شنید ہ کے بود مانند دیدہ'' اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ کی راہ میں ایسی ایسی مشکلات جھیل لیتے تھے جنہیں کوئی اور جھیل ہی نہیں سکتا۔ درحقیقت ان کی نگاہوں میں دنیا کی ساری قوتیں مل کر بھی مچھرکے پَر کے برابر حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ اسی لیے وہ ان قوتوں کی طرف سے ہونے والی سختیوں اور ایذا رسانیوں کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔

مکمل تحریر >>

سفرِ معراج کے اہم واقعات


اسکے بعد اللہ جبار جل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپﷺ اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دوکمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ اس کے بعد آپﷺ واپس ہوئے یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپﷺ کو کس چیز کا حکم دیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: پچاس نمازوں کا ، انہوں نے کہا :آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ اپنے پروردگار کے پاس واپس جایئے ، اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آپﷺ کو جبار تبار ک و تعالیٰ کے حضور لے گئے ، اور وہ اپنی جگہ تھا ...بعض طرق میں صحیح بخاری کا لفظ یہی ہے ...اس نے دس نمازیں کم کردیں اور آپﷺ نیچے لائے گئے۔ جب موسی ٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو انہیں خبر دی۔ انہوں نے کہا: آپﷺ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپﷺ کی آمد ورفت برابر جاری رہی۔ یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں اس کے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام نے آپﷺ کوواپسی اور طلب تخفیف کا مشور ہ دیا۔ مگر آپﷺ نے فرمایا: اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہورہی ہے۔ میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ پھرجب آپﷺ مزید کچھ دور تشریف لے گئے تو ندا آئی کہ میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔ (زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔ صحیح روایات میں ثابت شدہ اضافات کے ساتھ)
اس کے بعد ابن قیمؒ نے اس بارے میں اختلاف ذکر کیا ہے کہ نبیﷺ نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا یا نہیں؟پھر امام ابن تیمیہؒ کی ایک تحقیق ذکر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھنے کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی صحابی اس کا قائل ہے اور ابن عباس سے مطلقاً دیکھنے اور دل سے دیکھنے کے جو دوقول منقول ہیں۔ ان میں سے پہلا دوسرے کے منافی نہیں اس کے بعد امام ابن قیم لکھتے ہیں کہ سور ہ ٔ نجم میں اللہ تعالیٰ کا جویہ ارشاد ہے :
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ (۵۳: ۸)
''پھر وہ نزدیک آیا اور قریب تر ہوگیا ''
تو یہ اس قربت کے علاوہ ہے جو معراج کے واقعے میں حاصل ہوئی تھی کیونکہ سورۂ نجم میں جس قربت کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام کی قربت وتَدَلّی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ اور ابن مسعودؓ نے فرمایا ہے اور سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے بر خلاف حدیث معراج میں جس قربت وتدلّی کا ذکر ہے۔اس کے بارے میں صراحت ہے کہ یہ رب تبارک وتعالیٰ سے قربت وتدلّی تھی اور سورہ ٔ نجم میں اس کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا ہے۔ بلکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺ نے انہیں دوسری بار سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ، اور یہ حضرت جبریل ؑ تھے۔ انہیں محمدﷺ نے ان کی اپنی شکل میں دومرتبہ دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ واللہ اعلم
(زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔ نیز دیکھئے: صحیح بخاری۔ ۱/۵۰ ، ۴۵۵ ، ۴۵۶ ، ۴۷۰ ، ۴۷۱، ۴۸۱، ۵۴۸،۵۴۹ ، ۵۵۰،۲/۶۸۴ صحیح مسلم ۱/۹۱، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۹۵، ۹۶)



بعض طرق میں آیا ہے کہ اس دفعہ بھی نبیﷺ کے ساتھ شق صدر (سینہ چاک کیے جانے ) کا واقعہ پیش آیا اور آپﷺ کو اس سفر کے دوران کئی چیز یں دکھلائی گئیں۔
آپﷺ پر دودھ اور شراب پیش کی گئی، آپﷺ نے دودھ اختیار فرمایا۔ اس پر آپﷺ سے کہا گیا کہ آپﷺ کو فطرت کی راہ بتائی گئی ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت پالی اور یا درکھئے کہ اگر آپﷺ نے شراب لی ہوتی تو آپﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی۔
آپﷺ نے جنت میں چار نہریں دیکھیں۔ دوظاہری اور دوباطنی ، ظاہری نہریں نیل وفرات تھیں۔یعنی ان کا عنصر تھا اور باطنی دونہریں جنت کی دونہریں ہیں۔ (نیل وفرات دیکھنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آپﷺ کی رسالت نیل وفرات کی شاداب وادیوں کو اپنا وطن بنائے گی۔ واللہ اعلم )
آپﷺ نے مالک ، داروغۂ جہنم کو بھی دیکھا، وہ ہنستا نہ تھا اور نہ اس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت تھی ، آپﷺ نے جنت وجہنم بھی دیکھی۔
آپﷺ نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں۔ ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگا رے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے نکل رہے تھے۔
آپﷺ نے سود خوروں کوبھی دیکھا۔ ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آلِ فرعون کو آگ پر پیش کر نے کے لیے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے۔
آپﷺ نے زنا کا روں کو بھی دیکھا۔ ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے پہلو بہ پہلو سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا۔ یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے تھے۔
آپﷺ نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہر وں پر دوسروں کی اولاد داخل کر دیتی ہیں۔ (یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں ، لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے ) آپﷺ نے انہیں دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑ ے بڑے ٹیڑھے کا نٹے چبھا کر انہیں آسمان وزمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے۔
آپﷺ نے آتے جاتے ہوئے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا۔ آپﷺ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا۔ اس وقت قافلہ سورہا تھا، پھر آپﷺ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپﷺ کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔
(سابقہ حوالے۔ نیز ابن ہشام ۱/۳۹۷ ، ۴۰۲ -۴۰۶ اور کتب تفاسیر ، تفسیر سورۂ اسراء )

مکمل تحریر >>

اسراء اور معراج


نبیﷺ کی دعوت وتبلیغ ابھی کا میابی اور ظلم وستم کے اس درمیانی مرحلے سے گزر رہی تھی اور افق کی دور دراز پہنائیوں میں دھندلے تاروں کی جھلک دکھائی پڑنا شروع ہوچکی تھی کہ اِسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا۔ یہ معراج کب واقع ہوئی ؟ اس بارے میں اہلِ سیر کے اقوال مختلف ہیں ، البتہ سورۂ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے۔ ان اقوال کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: زادا لمعاد ۲/۴۹ مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۱۴۸ ، ۱۴۹ ، رحمۃ للعالمین۱/۷۶
ائمہ حدیث نے اس واقعے کی جو تفصیلات روایت کی ہیں ہم اگلی سطور میں ان کا حاصل پیش کر رہے ہیں۔
ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ صحیح قول کے مطابق رسول اللہﷺ کو آپ کے جسم مبارک سمیت بُراق پر سوار کر کے حضرت جبریل علیہ السلام کی معیت میں مسجد حرام سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، پھر آپﷺ نے وہاں نزول فرمایا اور انبیاء علیہم السلام کی امامت فرماتے ہوئے نماز پڑھائی اور بُراق کومسجد کے دروازے کے حلقے سے باندھ دیا تھا۔
اس کے بعد اسی رات آپﷺ کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دورازہ کھلوایا۔ آپﷺ کے لیے دروازہ کھولا گیا۔ آپﷺ نے وہا ں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے آپﷺ کو مرحبا کہا۔ سلام کا جواب دیا اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔ اللہ نے آپﷺ کو ان کے دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں اور بائیں جانب بدبختوں کی روحیں دکھلائیں۔
پھر آپﷺ کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا اور دروازہ کھلوایا گیا۔ آپﷺ نے وہاں حضر ت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا۔ دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا۔ دونوں نے سلام کا جواب دیا ، مبارک باددی اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر تیسرے آسمان پر لے جایا گیا، آپﷺ نے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اور سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک باددی اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر چوتھے آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپﷺ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔ مرحبا کہا ، اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپﷺ نے حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام کو دیکھا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک بادد ی اوراقرار نبوت کیا۔
پھر آپﷺ کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاں آپﷺ کی ملاقات حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ہوئی۔ آپﷺ نے سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا: مرحبا کہا ، اور اقرار نبوت کیا۔ البتہ جب آپﷺ وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے۔ ان سے کہا گیا: آپ کیوں رورہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : میں اس لیے رورہا ہوں کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث کیا گیا اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگو ں سے بہت زیادہ تعداد میں جنت کے اندر داخل ہوں گے۔
اس کے بعد آپﷺ کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا۔ وہاںآپﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔ آپﷺ نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا ، مبارک باد دی اور آپﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
اس کے بعد آپﷺ کو سِدرَۃُ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ اس کے بیر (پھل) ہجر کے ٹھلیوں جیسے اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے۔ اس پر سونے کے پتنگے ، روشنی اور مختلف رنگ چھا گئے ۔پھر آپ کے لیے بیت معمور کو بلند کیا گیا۔ اس کے بعد آپ کو جنت میں داخل کیا گیا، اس میں موتی کے گنبد تھے اور اس کی مٹی مشک تھی۔ اس کے بعد آپﷺ کو مزید اوپر لے جایا گیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ ایک ایسی برابر جگہ نمودار ہوئے جہاں قلموں کے چرچراہٹ سنی جارہی تھی۔

مکمل تحریر >>

معجزہِ شق القمر پر اعتراض کہ اسکا تاریخ کی کتابوں میں ذکر نہیں


معجزہ شق القمر (چاند دو ٹکڑے ہونا یا چاند پھٹنا) کے متعلق جو اشکالات (اعتراضات) مشہور ہیں سب کے جواب علماء نے دئیے ہیں۔ انگریز دور میں پادری فنڈر نے مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے ساتھ مناظرہ میں وہ اشکالات پیش کئے تھے۔ مولانا نے ایسے جواب دئیے کے لاجواب ہُوا (یہ جوابات مولانا کی کتاب اظہار الحق کی اردو شرح از مفتی تقی عثمانی صاحب بائبل سے قرآن تک کی تیسری جلد میں صفحہ ۱۱۵پر دیکھے جا سکتے ہیں۔)۔ مفتی عنایت ﷲ صاحب نے رسالہ الکلام المبین میں بھی بعض اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ یہاں اُس کی نقل کی گنجائش نہیں، مفتی صاحب نے بعض راجاوُں کے دیکھنے کے بھی مستند حوالے دیے ہیں۔ مولانا رفیع الدین صاحب کا ایک مستقل رسالہ ان عتراضات کے جواب میں ہے۔

ہندوستان کی مشہور تاریخ فرشتہ ( مصنف محمد قاسم فرشتہ ۱۰۱۵ ہجری)میں بھی اس کا ذکر موجود ہے جو انھوں نے بحوالہ کتاب " تحفۃ المجاہدین " میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت عرب سے قدم گاہ ِحضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کے لئے سراندیپ(لنکا) کو آتے ہوئے ساحلِ مالا بار ( ہند ) پر اتری ، ان بزرگوں نے وہاں کے راجہ سامری سے ملاقات کی اور معجزۂ شق القمر کا ذکر کیا، راجہ نے اپنے منجموں کو پرانے رجسٹرات کی جانچ پڑتال کا حکم دیا، چنانچہ منجموں نے بتلایاکہ فلاں تاریخ کو چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا،اس تحقیق کے بعد راجہ نے اسلام قبول کر لیا، ہندوستان کے بض شہروں میں اس کی تاریخ محفوظ کی گئی اور ایک عمارت تعمیر کر کے اُس کی تاریخ" شبِ انشقاقِ قمر" کے نام سے مقرر کی گئی۔

یہ اعتراض کہ کہیں تاریخ میں اس کا ذ کر نہیں ۔ اُس کا عقلی جواب یہ ہے کہ مہا بھارت جیسی عظیم الشان لڑائی کا ذکر بھی کسی اور تاریخ میں نہیں تو اُس کو بھی غلط کہنا چاہیے اور توریت شریف میں ہے کہ حضرت یوشع علیہ السلام کے لیے آفتاب ٹھہر گیا تھا اُس کو بھی کسی اہلِ تاریخ نے نہیں لکھا حالانکہ یہ واقعہ دن کا ہے اور شق القمر رات کو ہُوا جس کا پہلے سے کسی کو خیال نہ تھا جیسا کہ خسوف وکسوف (چاند کو گرہن لگنا وغیرہ کے معاملے میں) میں پہلے سے خبر ہوتی ہے تو دیکھنے والے تیار ہو جاتے ہے۔

علاوہ بریں تعصب مذہبی (اسلام سے بغض) وہ چیز ہے کہ ایسی خبروں کی روایت میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اِس کا ثبوت حال کا واقعہ ہے ۵ شعبان 1345 مطابق 7 فروری 1927کو پیش آیا کہ مغرب کے وقت حضرت محمد ﷺ کا نام مبارک آسمان پر نظر آیا اور اُس کو صدہا آدمیوں نے اور مختلف مقامات پر جیسے الہ آباد ٫ جبل پور٫ سکھر وغیرہ میں نصف گھنٹہ تک دیکھا اور مسلمان اخباروں نے چھاپا لیکن ہندو اخباروں نے نہیں چھاپا ۔ راقم (مصطفی خان بجنوری ) نے اخباروں کی یہ متعصبانہ کاروائی دیکھ کر بعض مقامات سے اُس کی تصدیق کرائ ۔چناچہ چھیالیس اشخاص کے نام مع ولدیت سکونت و دستخط بقایا و نشان انگھوٹا راقم کے پاس موجود ہیں جس میں بہت سے ہندو بھی ہیں۔ اس واقعہ کو اس وقت صرف چار سال کے قریب گزرے ہیں مگر تاریخ دانوں سے پوچھئے تو کوئ پتہ نہ دیگا ۔ خصوصاّ غیر مسلم لوگ جن میں یورپین بھی شامل ہیں جو حواداثات کی تلاش اور تحقیق کے مدعی ہیں وہ بھی تعصب کی وجہ سے اغماص کر گئے ہیں ۔ پس اگر معجزہ شق القمر کی روایت کسی غیر مسلم تاریخ میں نہ ہو تو کیا تعجب کی بات ہے ۔ اہلِ اسلام کی کتب حدیث میں نہایت صحیح اور مسلسل سندوں کے ساتھ جن میں کسی شک و شبہ کی گنجا ئش نہیں موجود ہے اور راوایت اس کے درجہ تواتر کے قریب تک پہنچ گئ ہے۔

جما عت اصحاب حضرت علیؓ وابن عباسؓ وابن عمرؓ وجبیر بن معطم بن حزیفہ بن الیمان اورانس بن مالکؓ نے اِس قصہ کو راوایت کیا ہے تو اہلِ تاریخ کا ذ کر کرنا نقصان دہ بهی نہیں اور یہ جواب علی سبیل النزیل ہے ورنہ بعض مُورخین نے ذ کر بھی کیا ہے ۔ چناچہ تاریخ فرشتہ نے ملیبار کے راجہ کا شق القمر کو دیکھنا نقل کیا ہے۔
(اسلام اور عقلیات صفحہ ۲۹۴)

مکمل تحریر >>

شق القمر کا واقعہ


اسلامی دعوت مشرکین کے ساتھ اسی کشمکش کے مرحلے سے گزر رہی تھی کہ اس کائنات کا نہایت عظیم الشان اور عجیب وغریب معجزہ رونما ہوا۔ نبیﷺ کے ساتھ مشرکین کے مجادلات کے جو بعض نمونے گزر چکے ہیں ان میں یہ بات بھی موجود ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبو ت پر ایمان لانے کے لیے خرق عادت نشانیوں کا مطالبہ بھی کیا تھا اور قرآن کے بیان کے مطابق انہوں نے پورا زور دے کر قسم کھائی تھی کہ اگر آپﷺ نے ان کی طلب کردہ نشانیاں پیش کردیں تو وہ ضرور ایمان لائیں گے مگر اس کے باوجود ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا اور ان کی طلب کرد ہ کوئی نشانی پیش نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی سنت رہی ہے کہ جب کوئی قوم اپنے پیغمبر سے کوئی خاص نشانی طلب کر ے ، اور دکھلائے جانے کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو اس کی قوم کی مہلت ختم ہوجاتی ہے اور اسے عذاب عام سے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ چونکہ اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی اور اسے معلوم تھا کہ اگر قریش کو ان کی طلب کردہ کوئی نشانی دکھلا بھی دی جائے تو وہ فی الحال ایمان نہیں لائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ارشاد ہے :
وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْ‌نَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ يَجْهَلُونَ (۶: ۱۱۱)
''یعنی اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیں ، اور مردے ان سے باتیں کریں اور ہر چیز ان کے سامنے لا کر اکٹھا کردیں تو بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ سوائے اس صورت کے کہ اللہ چاہ جائے۔ مگر ان میں سے اکثر نادانی میں ہیں۔''
اور اللہ کویہ بھی معلوم تھا کہ اگر کوئی نشانی نہ بھی دکھلائی جائے لیکن مزید مہلت دے دی جائے تو آگے چل کر یہی لوگ کوئی نشانی دیکھے بغیر ایمان لائیں گے۔ اس لیے انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی طلب کردہ کوئی نشانی نہیں دکھلائی ، اور خود نبیﷺ کو بھی اختیار دیا کہ اگر آپ چاہیں تو ان کی طلب کردہ نشانی ان کو دکھلادی جائے لیکن پھرایمان نہ لانے پر انہیں ساری دنیا سے سخت تر عذاب دیا جائے گا اور چاہیں تو نشانی نہ دکھلائی جائے اور توبہ و رحمت کا دروازہ ان کے لیے کھول دیا جائے۔ اس پر نبیﷺ نے بھی یہی آخری صور ت اختیار فرمائی کہ ان کے لیے توبہ ورحمت کا دروازہ کھول دیا جائے۔( مسند احمد ۱/۳۴۲، ۳۴۵)
تو یہ تھی مشرکین کو ان کی طلب کردہ نشانی نہ دکھلانے کی اصل وجہ لیکن چونکہ مشرکین کو اس نکتے سے کوئی سروکار نہ تھا، اس لیے انہوں نے سوچا کہ نشانی طلب کرنا آپ کو خاموش اور بے بس کرنے کا بہتر ین ذریعہ ہے۔ اس سے عام لوگوں کو مطمئن بھی کیا جاسکتا ہے کہ آپﷺ پیغمبر نہیں بلکہ سخن ساز ہیں۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ چلو اگر یہ نامزد نشانی نہیں دکھلاتے تو کسی تعیین کے بغیر کوئی بھی نشانی طلب کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ کیا کوئی بھی نشانی ایسی ہے جس سے ہم یہ جان سکیں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ؟اس پر آپﷺ نے اپنے پروردگار سے سوال کیا کہ انہیں کوئی نشانی دکھلا دے۔ جواب میں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے ، اور فرمایا کہ انہیں بتلا دو آج رات نشانی دکھلائی جائے گی۔ (الدر المنثور بحوالہ ابو النعیم فی الدلائل ۶/۱۷۷)اور رات ہوئی تو اللہ نے چاند کو دوٹکڑے کر کے دکھلادیا۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی ا للہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل مکہ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ آپ انہیں کوئی نشانی دکھلائیں۔ آپ نے انہیں دکھلادیا کہ چاند دوٹکڑے ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے دونوں ٹکڑوں کے درمیان میں حراء پہاڑ کو دیکھا۔ (صحیح بخاری مع فتح الباری ۷/۲۲۱ح ۳۸۶۸ )
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ چاند دوٹکڑے ہوا، اس وقت ہم لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ منی ٰ میں تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: گواہ رہو اور چاند کا ایک ٹکڑا پھٹ کر پہاڑ ( یعنی جبل ابو قبیس ) کی طرف جارہا۔ (( صحیح بخاری مع فتح الباری ًح ۳۸۶۹))
چاند کے دوٹکڑے ہونے کا یہ معجزہ بہت صاف تھا۔ قریش نے اسے بڑی وضاحت سے کافی دیر تک دیکھا اور آنکھ مل مل کر اور صاف کر کرکے دیکھا اور ششدر رہ گئے لیکن پھر بھی ایمان نہیں لائے ، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور حقیقت یہ ہے کہ محمد نے ہماری آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔ اس پر بحث ومباحثہ بھی کیا۔ کہنے والوں نے کہا کہ اگر محمد نے تم پر جادو کیا ہے تو وہ سارے لوگوں پر تو جادو نہیں کر سکتے۔ باہر والوں کو آنے دو ،دیکھو کیا خبر لے کر آتے ہیں۔ اس کے بعد ایسا ہو ا باہر سے جو کوئی بھی آیا اس نے اس واقعے کی تصدیق کی، لیکن پھر بھی ظالم ایمان نہیں لائے اور اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔
یہ واقعہ کب پیش آیا۔ علامہ ابن حجرؒ نے اس کا وقت ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے لکھا ہے۔ (فتح الباری ۶/۶۳۸)
یعنی ۸ نبوت ، علامہ منصور پوری نے۹ نبوت لکھا ہے(رحمۃ للعالمین ۳/۱۵۹)
مگر یہ دونوں بیانات محل نظر ہیں۔ کیونکہ ۸ اور ۹ نبوت میں قریش کی طرف سے آپﷺ اور بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کا مکمل طور پر بائیکاٹ چل رہا تھا، بات چیت تک بند تھی اور معلوم ہے کہ یہ واقعہ اس قسم کے حالات میں پیش نہیں آیا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے اس کی ایک آیت ذکر کرکے اس سورۃ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ جب نازل ہوئی تو میں مکہ میں ایک کھیلتی ہوئی بچی تھی۔(صحیح بخاری تفسیر سورۂ قمر) یعنی یہ عمر کا
وہ مرحلہ تھا جس میں اس قسم کی باتیں یاد بھی ہوجاتی ہیں اور بچپن کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔ یعنی ۵، ۶ ، برس کی عمر ، لہٰذا واقعہ شق قمر کے لیے ۱۰ یا ۱۱ نبوت زیادہ قرین قیاس ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے اس بیان سے کہ اس وقت ہم منیٰ میں تھے۔ یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ حج کا زمانہ تھا یعنی قمری سال اپنے خاتمے پر تھا۔شق قمر کی یہ نشانی شاید اس بات کی بھی تمہید رہی ہو کہ آئندہ اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آئے تو ذہن اس کے امکان کو قبول کرسکیں۔ واللہ اعلم

مکمل تحریر >>

یثرب کی چھ سعادت مند روحیں


گیارہویں سن نبوت کے موسم حج (جولائی ۶۲۰ء ) میں اسلامی دعوت کو چند کارآمد بیج دستیاب ہوئے۔ جو دیکھتے دیکھتے سروقامت درختوں میں تبدیل ہوگئے اور ان کی لطیف اور گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر مسلمانوں نے برسوں ظلم وستم کی تپش سے راحت ونجات پائی۔ یہاں تک کہ واقعات کا رخ بد ل گیا اور خط تاریخ مڑ گیا۔
اہل مکہ نے رسول اللہﷺ کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا جو بیڑا اٹھا رکھا تھا اس کے تئیں نبیﷺ کی حکمت عملی یہ تھی کہ آپ رات کی تاریکی میں قبائل کے پاس تشریف لے جاتے۔ تاکہ مکے کا کوئی مشرک رکاوٹ نہ ڈال سکے۔
اسی حکمت عملی کے مطابق ایک رات آپﷺ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ کو ہمراہ لے کر باہر نکلے۔ بنو ذُہل اور بنو شیبان بن ثعلبہ کے ڈیروں سے گزرے تو ان سے اسلام کے بارے میں بات چیت کی۔ انہوں نے جواب تو بڑا امید افزا دیا ، لیکن اسلام قبول کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ اور بنو ذُہل کے ایک آدمی کے درمیان سلسلہ نسب کے متعلق بڑا دلچسپ سوال وجواب بھی ہوا۔ دونوں ہی ماہر انساب تھے۔ (مختصرالسیرہ للشیخ عبد اللہ ص ۱۵۰تا ۱۵۲)
اس کے بعد رسول اللہﷺ منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا۔ آپﷺ نے سیدھے ان کا رخ کیا اور ان کے پاس جاپہنچے، یہ یثرب کے چھ جوان تھے اور سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ نام یہ ہیں :
اسعد بن زُرَارَہ (قبیلۂ بنی النَّجار )
عوف بن حارث بن رفاعہ (ابن عَفْراء )
رافع بن مالک بن عجلان (قبیلۂ بنی زُریق )
قطبہ بن عامر بن حدیدہ (قبیلۂ بنی سلمہ )
عقبہ بن عامر نابی (قبیلہ بنی حرام بن کعب )
حارث بن عبد اللہ بن رِئاب (قبیلۂ بنی عبید بن غنم )
یہ اہل یثرب کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اپنے حلیف یہود مدینہ سے سنا کرتے تھے کہ اس زمانے میں ایک نبی بھیجا جانے والا ہے اور اب جلد ہی وہ نمودار ہوگا۔ ہم اس کی پیروی کرکے اس کی معیت میں تمہیں عادِ ارَم کی طرح قتل کر ڈالیں گے۔ (زاد المعاد ۲/۵۰ ،ابن ہشام ۱/۴۲۹ ، ۵۴۱)
رسول اللہﷺ نے ان کے پاس پہنچ کر دریافت کیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا :ہم قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : یعنی یہود کے حلیف ؟ بولے: ہاں۔ فرمایا : پھر کیوں نہ آپ حضرات بیٹھیں،کچھ بات چیت کی جائے، وہ لوگ بیٹھ گئے۔ آپﷺ نے ان کے سامنے اسلا م کی حقیقت بیان فرمائی۔ انہیں اللہ عزوجل کی طرف دعوت دی اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا : بھئی دیکھو ! یہ تو وہی نبی معلوم ہوتے ہیں جن کا حوالہ دے کر یہود تمہیں دھمکیاں دیا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہود تم پر سبقت نہ کرنے پائیں، اس کے بعد انہوں نے فوراًآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرلی اور مسلمان ہوگئے۔
یہ یثرب کے عقلاء الرجال تھے۔ حال ہی میں جنگ گزرچکی تھی ، اور جس کے دھویں اب تک فضا کو تاریک کیے ہوئے تھے ، اس جنگ نے انہیں چور چور کردیا تھا۔ اس لیے انہوں نے بجا طور پر یہ توقع قائم کی کہ آپﷺ کی دعوت ، جنگ کے خاتمے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے کہا : ہم اپنی قوم کو اس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ کسی اور قوم میں ان کے جیسی عداوت ودشمنی نہیں پائی جاتی۔ امید ہے کہ اللہ آپﷺ کے ذریعے انہیں یکجا کردے گا۔ ہم وہاں جاکر لوگوں کو آپﷺ کے مقصد کی طرف بلائیں گے اور یہ دین جو ہم نے خود قبول کر لیا ہے ان پر بھی پیش کریں گے۔ اگر اللہ نے آپﷺ پر ان کو یکجا کردیا تو پھر آپ سے بڑھ کر کوئی اور معزز نہ ہوگا۔
اس کے بعد جب یہ لوگ مدینہ واپس ہوئے تو اپنے ساتھ اسلام کا پیغام بھی لے گئے، چنانچہ وہاں گھر گھر رسول اللہﷺ کا چرچا پھیل گیا۔
( ابن ہشام ۱/۴۲۸ ، ۴۳۰)
مکمل تحریر >>

شاعر طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام


یہ سوجھ بوجھ کے مالک اور قبیلہ ٔ دوس کے سردار تھے۔ ان کے قبیلے کو بعض نواحی یمن میں امارت یا تقریبا ًامارت حاصل تھی۔ وہ نبوت کے گیارہویں سال مکہ تشریف لائے تو وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اہل مکہ نے ان کا استقبال کیا اور نہایت عزت واحترام سے پیش آئے۔ پھر ان سے عرض پرداز ہوئے کہ اے طفیل ! آپ ہمارے شہر تشریف لائے ہیں اور یہ شخص جو ہمارے درمیان ہے اس نے ہمیں سخت پیچیدگی میں پھنسا رکھا ہے۔ ہماری جمعیت بکھیر دی ہے اور ہمارا شیرازہ منتشر کردیا ہے۔ اس کی بات جادو کاسا اثر رکھتی ہے کہ آدمی اور اس کے باپ کے درمیان اور آدمی اس کے بھائی کے درمیا ن اور آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان تفرقہ ڈال دیتی ہے۔ ہمیں ڈرلگتا ہے کہ جس افتاد سے ہم دوچار ہیں کہیں وہ آپ پر اور آپ کی قوم پر بھی نہ آن پڑے۔ لہٰذا آپ اس سے ہرگز گفتگو نہ کریں اور اس کی کوئی چیز نہ سنیں۔
حضرت طفیل ؓ کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ مجھے برابر اسی طرح کی باتیں سمجھاتے رہے یہاں تک کہ میں تہیہ نے کرلیاکہ نہ آپ کی کوئی چیز سنوں گا نہ آپﷺ سے بات چیت کروں گا۔ حتیٰ کہ جب میں صبح کو مسجد حرام گیا تو کان میں روئی ٹھونس رکھی تھی کہ مبادا آپﷺ کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ جائے ، لیکن اللہ کومنظور تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتیں مجھے سنا ہی دے۔ چنانچہ میں نے بڑا عمدہ کلام سنا، پھر میں نے اپنے جی میں کہا: ہائے مجھ پر میری ماں کی آہ وفغاں ! میں تو واللہ! ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا شاعر آدمی ہوں ، مجھ پر بھلا برا چھپا نہیں رہ سکتا ، پھر کیوں نہ میں اس شخص کی بات سنوں؟اگر اچھی ہوئی تو قبول کرلوں گا، بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا۔ یہ سوچ کر میں رک گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پلٹے تو میں بھی پیچھے ہولیا۔ آپﷺ اندر داخل ہوئے تو میں بھی داخل ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آمد کا واقعہ اور لوگوں کے خوف دلانے کی کیفیت ، پھر کان میں روئی ٹھونسنے ، اور اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن لینے کی تفصیلات بتائیں۔ پھر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات پیش کیجیے۔ آپﷺ نے مجھ پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ اللہ گواہ ہے میں نے اس سے عمدہ قول اور اس سے زیادہ انصاف کی بات کبھی نہ سنی تھی۔ چنانچہ میںنے وہیں اسلام قبول کرلیا اور حق کی شہادت دی۔ اس کے بعد آپﷺ سے عرض کیا کہ میری قوم میں میری بات مانی جاتی ہے میں ان کے پاس پلٹ کرجاؤں گا اور انہیں اسلام کی دعوت دوں گا۔ لہٰذا آپﷺ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے کوئی نشانی دے دے، آپﷺ نے دعا فرمائی۔
حضرت طفیل کو جو نشانی عطا ہوئی وہ یہ تھی کہ جب وہ اپنی قوم کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے پر چراغ جیسی روشنی پیدا کردی۔ انہوں نے کہا : یا اللہ ! چہرے کے بجائے کسی اور جگہ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اسے مثلہ کہیں گے، چنانچہ یہ روشنی ان کے ڈنڈے میں پلٹ گئی۔ پھر انہوں نے اپنے والد اور اپنی بیوی کو اسلام کی دعوت دی اور وہ دونوںمسلمان ہوگئے ، لیکن قبیلہ والوں نے ان کی بات نہ سنی تو حضورﷺ کے پاس آکر کہا کہ ان کے لئے بد دعا فرمائیے، لیکن حضورﷺ نے بجائے بد دعا کے یہ دعا کی کہ: اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے ، حضور ﷺ کی دعا کا اثر یہ ہوا کہ پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا اور غزوہ ٔ طائف کے موقع پر پورا قبیلہ دوس حاضر تھا، ان ہی میں حضرت ابو ہریرہؓ بھی تھے جن کی قسمت میں امام المحدثین بننا تھا، حضرت طفیلؓ حضو ر ﷺ کے وصال تک مدینہ میں رہے اور ۱۱ ہجری میں مسیلمہ بن کذّاب کے خلاف لڑتے ہوئے یمامہ میں شہید ہوئے ۔ ۔( ابن ہشام ۱/۱۸۲ ، ۱۸۵)

مکمل تحریر >>

ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام


یہ یثرب کے اطراف میں سکونت پذیر تھے۔ جب سوید بن صامت اور ایاس بن معاذ کے ذریعے یثرب میں رسول اللہﷺ کی بعثت کی خبر پہنچی تو غالباً یہ خبر ابوذرؓ کے کان سے بھی ٹکرائی اور یہی ان کے اسلام لانے کا سبب بنی۔
ان کے اسلا م لانے کا واقعہ صحیح بخاری میں تفصیل سے مروی ہے۔ سیّدنا ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ ابوذرؓ نے فرمایا : میں قبیلہ غفار کا ایک آدمی تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ مکے میں ایک آدمی نمودار ہوا ہے جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا : تم اس آدمی کے پاس جاؤ، اس سے بات کرو اور میرے پاس اس کی خبر لاؤ۔ وہ گیا ، ملاقات کی ، اور واپس آیا۔ میں نے پوچھا : کیا خبر لائے ہو ؟ بو لا : اللہ کی قسم! میں نے ایک ایسا آدمی دیکھا ہے جو بھلائی کا حکم دیتا ہے ، اور برائی سے روکتا ہے۔ میں نے کہا :تم نے تشفی بخش خبر نہیں دی۔ آخر میں نے خود توشہ دان اور ڈنڈا اٹھا یا اور مکہ کے لیے چل پڑا۔ (وہاں پہنچ تو گیا ) لیکن آپﷺ کو پہچانتا نہ تھا اور یہ بھی گوارا نہ تھا کہ آپ کے متعلق کسی سے پوچھوں۔چنانچہ میں زمزم کا پانی پیتا اور مسجد حرام میں پڑا رہتا۔ آخر میرے پاس سے علیؓ کا گزر ہوا۔ کہنے لگے: آدمی اجنبی معلوم ہوتا ہے۔ میں نے کہا : جی ہاں۔ انہوں نے کہا: اچھا توگھر چلو۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ نہ وہ مجھ سے کچھ پوچھ رہے تھے نہ میں ان سے کچھ پوچھ رہا تھا اور نہ انہیں کچھ بتاہی رہا تھا۔
صبح ہوئی تومیں اس ارادے سے پھر مسجد حرام گیا کہ آپﷺ کے متعلق دریافت کروں ، لیکن کوئی نہ تھا جو مجھے آپﷺ کے متعلق کچھ بتا تا۔ آخر میرے پاس پھر حضرت علیؓ گزرے (دیکھ کر) بولے: اس آدمی کوابھی اپنا ٹھکانہ معلوم نہ ہوسکا ؟ میں نے کہا : نہیں۔ انہوں نے کہا :اچھا تو میرے ساتھ چلو۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: اچھا تمہارا معاملہ کیا ہے ؟ اور تم کیوں اس شہر میں آئے ہو ؟ میں نے کہا: آپ راز داری سے کام لیں تو بتاؤں۔ انہوں نے کہا : ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔ میں نے کہا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہاں ایک آدمی نمودار ہوا ہے ، جو اپنے آپ کو اللہ کا نبی بتاتا ہے، میں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ وہ بات کر کے آئے مگراس نے پلٹ کر کوئی تشفی بخش بات نہ بتلائی۔ اس لیے میں نے سوچا کہ خود ہی ملاقات کر لوں۔ حضرت علیؓ نے کہا : بھئ تم صحیح جگہ پہنچے، دیکھو میرا رخ انھی کی طرف ہے۔ جہاں میں گھسوں وہاں تم بھی گھس جانا اور ہاں ! اگر میں کسی ایسے شخص کو دیکھوں گا جو تمہارے لیے خطرہ ہے تو دیوار کی طرف اس طرح جا رہوں گا گویا اپنا جوتا ٹھیک کررہا ہوں ، لیکن تم راستہ چلتے رہنا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ روانہ ہوئے اور میں بھی ساتھ ساتھ چل پڑا۔ یہاں تک کہ وہ اندر داخل ہوئے، اور میں بھی ان کے ساتھ نبیﷺ کے پاس جا داخل ہوا اور عرض پر داز ہوا کہ آپ(ﷺ )مجھ پر اسلام پیش کریں۔ آپﷺ نے اسلام پیش فرمایا اور میں وہیں مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے ابوذر ! اس معاملے کو پس پردہ رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جاؤ۔ جب ہمارے ظہور کی خبر ملے تو آجانا۔ میں نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں تو ان کے درمیان ببانگ دہل اس کا اعلان کروں گا۔ اس کے بعد میں مسجد الحرام آیا۔ قریش موجود تھے۔ میں نے کہا : قریش کے لوگو! أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ ''میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔''
لوگوں نے کہا : اٹھو۔ اس بے دین کی خبر لو ، لوگ اٹھ پڑے۔ مجھے اس قدر مارا گیا کہ مرجاؤں لیکن حضرت عباسؓ نے مجھے آبچایا۔ انہوں نے مجھے جھک کر دیکھا، پھر قریش کی طرف پلٹ کر بولے : تمہاری بربادی ہو۔ تم لوگ غفار کے ایک آدمی کو مارے دے رہو ؟ حالانکہ تمہاری تجارت گاہ اور گزر گاہ غفار ہی سے ہوکر جاتی ہے۔ اس پر لوگ مجھے چھوڑ کر ہٹ گئے۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو میں پھر وہیں گیا اور جوکچھ کل کہا تھا آج پھر کہا اور لوگوں نے پھر کہا: اٹھو !اس بے دین کی خبر لو۔ اس کے بعد پھر میرے ساتھ وہی ہوا جو کل ہوچکا تھا اور آج بھی حضرت عباسؓ ہی نے مجھے آبچایا، وہ مجھ پر جھکے پھر ویسی ہی بات کہی جیسی کل کہی تھی۔( صحیح بخاری : باب قصۃ زمزم ۱ؔ/۴۹۹ ، ۵۰۰ ، باب اسلام أبی ذر ۱/۵۴۴، ۵۴۵)

مکمل تحریر >>

ایمان کی شعاع مکہ سے باہر




جس طرح رسول اللہﷺ نے قبائل اور وفود پر اسلام پیش کیا ، اسی طرح افراد اور اشخاص کو بھی اسلام کی دعوت دی، اور بعض نے اچھا جواب بھی دیا۔ پھر اس موسم حج کے کچھ ہی عرصے بعد کئی افراد نے اسلام قبول کیا۔ ذیل میں ان کی مختصر روداد پیش کی جارہی ہے :
سوید بن صامت
:... یہ شاعر تھے۔ گہری سوجھ بوجھ کے حامل اور یثرب کے باشندے ، ان کی پختگی ، شعر گوئی اور شرف ونسب کی وجہ سے ان کی قوم نے انہیں کامل کا خطاب دے رکھا تھا۔ یہ حج یا عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے، رسول اللہﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ کہنے لگے : غالباً آپ(ﷺ ) کے پاس جو کچھ ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا میرے پاس ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس کیا ہے ؟ سوید نے کہا : حکمتِ لقمان۔ آپﷺ نے فرمایا :پیش کرو۔ انہوں نے پیش کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ کلا م یقینا اچھا ہے ، لیکن میرے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے بھی اچھا ہے۔ وہ قرآن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کیا ہے۔ وہ ہدایت اور نور ہے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور بولے : یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے۔ اس کے بعد وہ مدینہ پلٹ کر آئے ہی تھے کہ جنگ بُعاث سے قبل اوس وخزرج کی ایک جنگ میں قتل کر دیئے گئے۔ اغلب یہ ہے کہ انہوں نے ۱۱ نبو ی کے آغاز میں اسلام قبول کیا تھا۔
(الاستیعاب ۲/۶۷۷ ، اسد الغابہ ۲/۳۳۷)
ایاس بن معاذ : ...
یہ بھی یثرب کے باشندے تھے اور نوخیز جوان ۱۱ نبوت میں جنگ بُعاث سے کچھ پہلے اوس کا ایک وفد خزرج کے خلاف قریش سے حلف وتعاون کی تلاش میں مکہ آیا تھا۔ آپ بھی اسی کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ اس وقت یثرب میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان عداوت کی آگ بھڑ ک رہی تھی اور اوس کی تعداد خزرج سے کم تھی۔ رسول اللہﷺ کو وفد کی آمد کا علم ہوا تو آپﷺ ان کے پا س تشریف لے گئے اور ان کے درمیان بیٹھ کو یوں خطاب فرمایا : آپ لوگ جس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں کیا اس سے بہتر چیز قبول کرسکتے ہیں ؟ ان سب کہا: وہ کیا چیز ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس اس بات کی دعوت دینے کے لیے بھیجا ہے کہ وہ اللہ عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں۔ اللہ نے مجھ پر کتا ب بھی اتاری ہے، پھر آپﷺ نے اسلام کا ذکر کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔
ایاس بن معاذ بولے : اے قوم یہ اللہ کی قسم! اس سے بہتر ہے جس کے لیے آپ لوگ یہاں تشریف لائے ہیں، لیکن وفد کے ایک رکن ابو الحسیر انس بن رافع نے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ایاس کے منہ پر دے ماری اور بولا: یہ چھوڑو ! میری عمر کی قسم ! یہاں ہم اس کے بجائے دوسرے ہی مقصد سے آئے ہیں۔ ایاس نے خاموشی اختیار کر لی اور رسول اللہﷺ بھی اٹھ گئے۔ وفد قریش کے ساتھ حلف وتعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور یوں ہی ناکام مدینہ واپس ہوگیا۔
مدینہ پلٹنے کے تھوڑے ہی دن بعد ایاس انتقال کر گئے۔ وہ اپنی وفات کے وقت تہلیل وتکبیر اور حمد وتسبیح کر رہے تھے، اس لیے لوگوں کو یقین ہے کہ ان کی وفات اسلام پر ہوئی۔( ابن ہشام ۱/۴۲۷ ، ۴۲۸ ، مسند احمد ۵/۴۲۷)
ضماد ازدی :...
یہ یمن کے باشندے تھے اور قبیلہ ازد شنوء ہ کے ایک فرد تھے۔جھاڑ پھونک کرنا اور آسیب اتارنا ان کا کام تھا۔ مکہ آئے تو وہاں کے احمقوں سے سنا کہ محمدﷺ پاگل ہیں۔ سوچا کیوں نہ اس شخص کے پاس چلوں ہوسکتا ہے اللہ میرے ہی ہاتھوں سے اسے شفا دے دے۔ چنانچہ آپﷺ سے ملاقات کی ، اور کہا : اے محمد! (ﷺ ) میں آسیب اتارنے کے لیے جھاڑ پھونک کیا کرتا ہوں، کیا آپ(ﷺ ) کو بھی اس کی ضرورت ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا :
(( إن الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ، من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ، ومن یضللہ فلا ہادی لہ ، وأشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ ، أما بعد۔))
''یقینا ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ بھٹکا دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد(ﷺ ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اما بعد ! ''
ضماد نے کہا: ذرا اپنے یہ کلمات مجھے پھر سنا دیجیے۔ آپﷺ نے تین بار دہرایا، اس کے بعد ضماد نے کہا : میں کاہنوں ، جادوگروں اور شاعر وں کی بات سن چکا ہوں لیکن میں نے آپ (ﷺ ) کے ان جیسے کلمات کہیں نہیں سنے۔ یہ تو سمندر کی اتھاہ گہرائی کو پہنچے ہوئے ہیں۔ لائیے ! اپنا ہاتھ بڑھایئے ! آپ (ﷺ ) سے اسلام پر بیعت کروں اور اس کے بعد انہوں نے بیعت کرلی۔
( صحیح مسلم ، مشکاۃ المصابیح باب علامات النبوۃ ۲/۵۲۵)
مکمل تحریر >>

مختلف قبائل میں دعوتِ اسلام


مکہ والوں سے نا امید ہوکر آپ نے طائف کا قصد کیا تھا،وہاں والوں نے مکہ والوں سے بھی بدتر نمونہ دکھایا،مکہ والوں کی نفرت اورضد دم بدم ترقی پزیر تھی اوران کی شرارتیں اپنی کیفیت اورکمیت میں پہلے سے زیادہ اور سخت ہوتی جاتی تھیں،مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمت نہیں ہاری، طائف سے واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن قبائل میں جو مکہ کے ارد گرد تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رہتے تھے برابر جاتے اورتبلیغ اسلام فرماتے رہے؛
چنانچہ قبیلہ بنو کندہ اورقبیلہ بنو عبداللہ کی اقامت گاہوں میں پہنچے بنو عبداللہ سے آپ نے فرمایا اے بنو عبداللہ! تمہارا باپ عبداللہ تھا،تم بھی اسم با مسمیٰ یعنی اللہ کے بندے بن جاؤ،قبیلہ بنو حنیفہ کی بستی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے اُن ظالموں نے سارے عرب میں سب سے زیادہ نالائق طریق پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا۔
باہر سے جو مسافر مکہ میں آتے یا ایام حج میں دور دراز مقامات کے قافلے آتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس چلے جاتے اورتبلیغ اسلام فرماتے،مگر ابو لہب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں خاص کد تھی،وہ ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا ہوا پہنچ جاتا اورمسافروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے سے روکتا،بنو عامر، بنو شیبان،بنوکلب،بنومحارب، فزارہ،غسان،سلیم،عبس،حارث،عذرہ،ذھل،مرہ وغیرہ قبائل کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام دی۔
جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عامر کے سامنے اسلام پیش کیا تو ان میں سے ایک شخص فراس نامی نے کہا کہ اگر ہم مسلمان ہوجائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو تو کیا تم اپنے بعد ہم کو اپنا خلیفہ بناؤ گے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کام تو خدائے تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جس کو چاہے گا وہی میرا خلیفہ ہوجائے گا،یہ سُن کر اس شخص نے کہا کہ کیا خوب ! اس وقت تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع وحامی بن کر اپنی گردنیں کٹوائیں اورجب تم کامیاب ہوجاؤ تو دوسرے لوگ حکومت کا مزا اُڑائیں جاؤ ہم کو تمہاری ضرورت نہیں۔
(ابن سعد ۲/۲۱۶)

واضح رہے کہ ان ذکر کردہ ان سارے قبائل پر ایک ہی سال یا ایک ہی موسم حج میں اسلام پیش نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ نبوت کے چوتھے سال سے ہجرت سے پہلے کے آخری موسم حج تک دس سالہ مدت کے دوران پیش کیا گیا تھا اور کسی معین سال میں کسی معین قبیلے پر اسلام کی پیشی کی تعیین نہیں ہوسکتی، البتہ بیشتر قبائل کے پاس آپ دسویں سال تشریف لے گئے۔
جب قبیلہ بنو عامر اپنے علاقے میں واپس گیا تو اپنے ایک بوڑھے آدمی کو...جو کبر سنی کے باعث حج میں شریک نہ ہوسکا تھا...سارا ماجرا سنایا اور بتایا کہ ہمارے پاس قبیلۂ قریش کے خاندان بنوعبد المطلب کا ایک جوان آیا تھا جس کا خیال تھا کہ وہ نبی ہے۔ اس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اس کی حفاظت کریں، اس کا ساتھ دیں اور اپنے علاقے میں لے آئیں۔ یہ سن کر اس بڈھے نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا اور بولا : اے بنو عامر ! کیا اب اس کی تلافی کی کوئی سبیل ہے ؟ اور کیا اس ازدست رفتہ کو ڈھونڈھا جاسکتا ہے ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں فلاں کی جان ہے! کسی اسماعیلی نے کبھی اس (نبوت ) کا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا ،یہ یقینا حق ہے، آخر تمہاری عقل کہاں چلی گئی تھی ؟
(ابن ہشام ۱/۴۲۴، ۴۲۵)

مکمل تحریر >>

طائف سے مکہ واپسی


نخلہ سے روانہ ہوکر آپ کوہ حرا پر تشریف لائے اوریہاں مقیم ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض سردارانِ قریش کے نام پیغام بھیجا، مگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ضمانت اورپناہ میں لینے کے لئے تیار نہ ہوا، مطعم بن عدی کے پاس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا تو وہ بھی اگرچہ مشرک اورکافر تھا مگر عربی شرافت اورقوی حمیت کے جذبہ سے متاثر ہوکر فوراً اٹھ کھڑا ہوا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدھا کوہ حرا پر پہنچ کر اور آپ کو اپنے ہمراہ لے کر مکہ میں آیا،مطعم کے بیٹے ننگی تلواریں لے کر خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اس کے بعد مطعم اوراس کے بیٹوں نے ننگی تلواروں کے سائے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر تک پہنچادیا،قریش نے مطعم سے پوچھا کہ تم کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا واسطہ ہے؟
مطعم نے جواب دیا کہ مجھ کو واسطہ تو کچھ نہیں لیکن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حمایتی ہوں، جب تک وہ میری حمایت میں ہیں کوئی نظر بھر کر ان کو نہیں دیکھ سکتا،مطعم کی یہ ہمت اور حمایت دیکھ کر قریش کچھ خاموش سے ہو کر رہ گئے،ایک روایت میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ
(ابن ہشام ۱/۳۸۱ مختصراً ، زاد المعاد ۲/۴۶ ، ۴۷)
رسول اللہﷺ نے مطعم بن عدی کے اس حسنِ سلوک کو کبھی فراموش نہ فرمایا، چنانچہ بدر میں جب کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد قید ہوکر آئی اور بعض قیدیوں کی رہائی کے لیے حضرت جبیر بن مطعمؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا :
((لوکان المطعم بن عدي حیاً ثم کلمني فی ھؤلاء النتنی لترکتھم لہ۔))2
''اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا ، پھر مجھ سے ان بدبودار لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا۔''
( صحیح بخاری ۲/۵۷۳)

مکمل تحریر >>

دعوت کا تیسرا مرحلہ - مکہ سے باہر دعوت


قریش سے مایوس ہوکر آپ ﷺ بیرون مکہ بھی دعوت کا سلسلہ شروع کیا ، طائف کا سفر اس سلسلے کا پہلا سفر تھا لیکن وہاں سے بھی مایوسی ہوئی ۔ طائف سے واپسی پر وادی ٔ نخلہ میں جافروکش ہوئے۔ وادیٔ نخلہ میں آپﷺ کا قیام چند دن رہا۔ یہاں آپ کی جنوں کی ایک جماعت سے ملاقات ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید میں دوجگہ آیا ہے۔ ایک سورۃ الاحقاف میں ، دوسرے سورہ ٔ جن میں ، سورۃ الاحقاف کی آیات یہ ہیں :
وَإِذْ صَرَ‌فْنَا إِلَيْكَ نَفَرً‌ا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْ‌آنَ فَلَمَّا حَضَرُ‌وهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِ‌ينَ ﴿٢٩﴾ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِ‌يقٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٣٠﴾ يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ‌ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْ‌كُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣١﴾ (۴۶: ۲۹ - ۳۱ )
'' اور جب کہ ہم نے آپ کی طرف جنوں کے ایک گروہ کو پھیر اکہ وہ قرآن سنیں تو جب وہ( تلاوت) قرآن کی جگہ پہنچے توانہوں نے آپس میں کہا: چپ ہوجاؤ۔ پھر جب اس کی تلاوت پوری کی جاچکی تووہ اپنی قوم کی طرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے بن کر پلٹے۔ انہوں نے کہا: اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے۔ اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔اے ہماری قوم ! اللہ کے داعی کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا۔''
سورۂ جن کی یہ آیات ہیں :
قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ‌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْ‌آنًا عَجَبًا ﴿١﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّ‌شْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَن نُّشْرِ‌كَ بِرَ‌بِّنَا أَحَدًا ﴿٢﴾ (۷۲: ۱، ۲)
''آپ کہہ دیں : میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور باہم کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہیں کر سکتے۔'' (پندرہویں آیت تک )
(صحیح بخاری ، کتاب الصلاۃ ، باب الجہر بقراء صلاۃ الفجر ۱/۱۹۵)

یہ آیات جو اس واقعے کے بیان کے سلسلے میں نازل ہوئیں ان کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ کو ابتدائً جنوں کی اس جماعت کی آمد کا علم نہ ہوسکا تھا بلکہ جب ان آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو اطلاع دی گئی تب آپ واقف ہوسکے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی یہ آمد پہلی بار ہوئی تھی اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعد ان کی آمد ورفت ہوتی رہی۔
جنوں کی آمد اور قبولِ اسلام کا واقعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسری مدد تھی۔ جو اس نے اپنے غیب ِ مکنون کے خزانے سے اپنے اس لشکر کے ذریعے فرمائی تھی جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ، پھر اس واقعے کے تعلق سے جو آیات نازل ہوئیں ان کے بیچ میں نبیﷺ کی دعوت کی کامیابی کی بشارتیں بھی ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی کہ کائنات کی کوئی بھی طاقت اس دعوت کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی، چنانچہ ارشاد ہے :
وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّـهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (۴۶: ۳۲)
''جو اللہ کے داعی کی دعوت قبول نہ کرے وہ زمین میں (اللہ کو ) بے بس نہیں کرسکتا ، اور اللہ کے سوا اس کا کوئی کار ساز ہے بھی نہیں اور ایسے لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔''
اس نصرت اور ان بشارتوں کے سامنے غم والم اور حزن ومایوسی کے وہ سارے بادل چھٹ گئے جو طائف سے نکلتے وقت گالیاں اور تالیاں سننے اور پتھر کھانے کی وجہ سے آپﷺ پر چھائے تھے۔ آپﷺ نے عزم مصمم فرما لیا کہ اب مکہ پلٹنا ہے اور نئے سرے سے دعوتِ اسلام اور تبلیغ ِ رسالت کے کام میں چستی اور گرمجوشی کے ساتھ لگ جانا ہے۔ یہی موقع تھا جب حضرت زید بن حارثہؓ نے آپﷺ سے عرض کی کہ آپ مکہ کیسے جائیں گے جبکہ وہاں کے باشندوں، یعنی قریش نے آپ کو نکال دیا ہے ؟ اور جواب میں آپﷺ نے فرمایا : اے زید ! تم جو حالت دیکھ رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے کشادگی اور نجات کی کوئی راہ ضرور بنائے گا۔ اللہ یقینا اپنے دین کی مدد کر ے گا اور اپنے نبی کو غالب فرمائے گا۔

مکمل تحریر >>

اولین مسلمانوں کے حق پر جمے رہنے کے اسباب و عوامل - احساسِ ذمہ داری اور آخرت پر ایمان


صحابہ کرامؓ جانتے تھے کہ یہ مشتِ خاک جسے انسان کہا جاتا ہے اس پر کتنی بھاری بھرکم اور زبردست ذمہ داریاں ہیں اور یہ کہ ان ذمہ داریوں سے کسی صورت میں گریز اور پہلو تہی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس گریز کے جو نتائج ہوں گے وہ موجودہ ظلم وستم سے زیادہ خوفناک اور ہلاکت آفریں ہوں گے اور اس کے گریز بعد خود ان کو اور ساری انسانیت کو جو خسارہ لاحق ہوگا وہ اس قدر شدید ہوگا کہ اس ذمہ داری کے نتیجہ میں پیش آنے والی مشکلات اس خسارے کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
حضور ﷺتعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے ان کے نفوس کا تزکیہ اور نہایت دقیق اور گہری تربیت دے رہے تھے اور روح کی بلندی ، قلب کی صفائی ، اخلاق کی پاکیزگی، مادیات کے غلبے سے آزادی ، شہوات کی مقاومت اور رب السموات والارض کی کشش کے مقامات کی جانب ان کے نفوسِ قدسیہ کی حدی خوانی فرمارہے تھے۔ آپﷺ ان کے دلوں کی بجھتی ہوئی چنگاری کو بھڑکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل کردیتے تھے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور زار ہدایت میں پہنچارہے تھے۔ انہیں اذیتوں پر صبر کی تلقین فرماتے تھے اور شریفانہ درگزر اور قہرِ نفس کی ہدایت دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی دینی پختگی فزوں تر ہوتی گئی اور وہ شہوات سے کنارہ کشی ، رضائے الٰہی کی راہ میں جاںسپاری ، جنت کے شوق ، علم کی حرص، دین کی سمجھ ، نفس کے محاسبے ، جذبات کو دبانے ، رجحا نات کو موڑنے ، ہیجانات کی لہروں پر قابو پانے اور صبر وسکون اور عزّووقار کی پابندی کرنے میں انسانیت کا نادرہ ٔ روز گار نمونہ بن گئے۔
یہ صحابہ میں بھی احساسِ ذمہ داری کی تقویت کا باعث تھا۔ صحابہ کرامؓ اس بات کا غیر متزلزل یقین رکھتے تھے کہ انہیں رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ پھر ان کے چھوٹے بڑے اور معمولی و غیرمعمولی ہر طرح کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے بعد یا تو نعمتوں بھری دائمی جنت ہوگی یا عذاب سے بھڑکتی ہوئی جہنم۔ اس یقین کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ اپنی زندگی امید وبیم کی حالت میں گزارتے تھے۔ یعنی اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتے تھے اور اس کے عذاب کا خوف اور ان کی کیفیت وہی رہتی تھی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ :
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَ‌بِّهِمْ رَ‌اجِعُونَ ﴿٦٠﴾ (۲۳: ۶۰)
''وہ جو کچھ کرتے ہیں دل کے اس خوف کے ساتھ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے۔''
انہیں اس کا بھی یقین تھا کہ دنیا اپنی ساری نعمتوں اور مصیبتوں سمیت آخرت کے مقابل مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں اور یہ یقین اتنا پختہ تھا کہ اس کے سامنے دنیا کی ساری مشکلات ، مشقتیں اور تلخیاں ہیچ تھیں ، اس لیے وہ ان مشکلات اور تلخیوں کوکوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔

مکمل تحریر >>

اولین مسلمانوں کے حق پر جمے رہنے کے اسباب و عوامل - قرآن کی بشارتیں


یہ کبھی اشارتاً اور کبھی صراحتاً...نازل ہوتی تھیں۔ چنانچہ ایک طرف حالات یہ تھے کہ مسلمانوں پر پوری روئے زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ بنی ہوئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ اب وہ پنپ نہ سکیں گے بلکہ ان کا مکمل صفایا کردیا جائے گا مگر دوسری طرف ان ہی حوصلہ شکن حالات میں ایسی آیات کا نزول بھی ہوتا رہتا تھا جن میں پچھلے انبیاء کے واقعات اور ان کی قوم کی تکذیب وکفر کی تفصیلات مذکور ہوتی تھیں اور ان آیات میں ان کا جو نقشہ کھینچا جاتا تھا وہ بعینہٖ وہی ہوتا تھا جو مکے کے مسلمانوں اور کافروں کے مابین درپیش تھا۔
اس کے بعد یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ ان حالات کے نتیجے میں کس طرح کافروں اور ظالموں کو ہلاک کیا گیا اور اللہ کے نیک بندوں کو روئے زمین کا وارث بنایا گیا۔ اس طرح ان آیات میں واضح اشارہ ہوتا تھا کہ آگے چل کر اہل مکہ ناکام ونامراد رہیں گے اور مسلمان اور ان کی اسلامی دعوت کامیابی سے ہمکنار ہوگی، پھر انہی حالات وایام میں بعض ایسی بھی آیتیں نازل ہوجاتی تھیں جن میں صراحت کے ساتھ اہل ایمان کے غلبے کی بشارت موجود ہوتی تھی۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٧١﴾ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُ‌ونَ ﴿١٧٢﴾ وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ ﴿١٧٣﴾ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّىٰ حِينٍ ﴿١٧٤﴾ وَأَبْصِرْ‌هُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُ‌ونَ ﴿١٧٥﴾ أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ ﴿١٧٦﴾ فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنذَرِ‌ينَ ﴿١٧٧﴾ (۳۷: ۱۷۱ - ۱۷۷ )
''اپنے فرستادہ بندوں کے لیے ہمارا پہلے ہی یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ ان کی ضرور مدد کی جائے گی اور یقینا ہمارا ہی لشکر غالب رہے گا۔ پس (اے نبیﷺ ) ایک وقت تک کے لیے تم ان سے رخ پھیر لو اور انہیں دیکھتے رہو عنقریب یہ خود بھی دیکھ لیں گے۔ کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں تو جب وہ ان کے صحن میں اتر پڑے گا تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوجائے گی۔''
نیز ارشاد ہے :
سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ‌ ﴿٤٥﴾ (۵۴: ۴۵)
''عنقریب اس جمعیت کو شکست دے دی جائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔''
ایک جگہ پیغمبروں کا تذکرہ کر تے ہوئے ارشاد ہوا :
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لِرُ‌سُلِهِمْ لَنُخْرِ‌جَنَّكُم مِّنْ أَرْ‌ضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَ‌بُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ ﴿١٣﴾ وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْ‌ضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ ﴿١٤﴾ (۱۴: ۱۳،۱۴)
''کفار نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے ضرور نکال دیں گے یا یہ کہ تم ہماری ملت میں واپس آجاؤ۔ اس پر ان کے رب نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو یقینا ہلاک کردیں گے اور تم کو ان کے بعد زمین میں ٹھہرائیں گے۔یہ (وعدہ) ہے اس شخص کے لیے جومیرے پاس کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری وعید سے ڈرے۔''
اسی طرح جس وقت فارس وروم میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور کفار چاہتے تھے کہ فارسی غالب آجائیں کیونکہ فارسی مشرک تھے اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی غالب آجائیں۔ کیونکہ رومی بہر حال اللہ پر ، پیغمبروں پر ، وحی پر ، آسمانی کتابوں پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے کے دعویدار تھے لیکن غلبہ فارسیوں کو حاصل ہوتا جارہا تھا تو اس وقت اللہ نے یہ خوشخبری نازل فرمائی کہ چند بر س بعد رومی غالب آجائیں گے، لیکن اسی ایک بشارت پر اکتفاء نہ کی بلکہ اس ضمن میں یہ بشارت بھی نازل فرمائی کہ رومیوں کے غلبے کے وقت اللہ تعالیٰ مومنین کی بھی خاص مدد فرمائے گا جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہے :
وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَ‌حُ الْمُؤْمِنُونَ ﴿٤﴾ بِنَصْرِ‌ اللَّـهِ (۳۰: ۴،۵)
''یعنی اس دن اہل ایمان بھی اللہ کی (ایک خاص ) مدد سے خوش ہوجائیں گے۔''
(اور آگے چل کر اللہ کی یہ مدد جنگ بدر کے اندر حاصل ہونے والی عظیم کامیابی اور فتح کی شکل میں نازل ہوئی )

یاد رہے کہ یہ بشارتیں کچھ ڈھکی چھپی نہ تھیں، بلکہ معروف ومشہور تھیں اور مسلمانوں ہی کی طرح کفار بھی ان سے واقف تھے۔ چنانچہ جب اسود بن مطلب اور اس کے رفقاء صحابہ کرامؓ کو دیکھتے تو طعنہ زنی کرتی ہوئے آپس میں کہتے کہ لیجئے !آپ کے پاس روئے زمین کے بادشاہ آگئے ہیں۔ یہ جلد ہی شاہانِ قیصر وکسریٰ کو مغلوب کرلیں گے۔ اس کے بعد وہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے۔( السیرہ الحلبیہ ۱/۵۱۱، ۵۱۲)
بہر حال صحابہ کرامؓ کے خلاف اس وقت ظلم وستم اور مصائب وآلام کا جو ہمہ گیر طوفان بر پاتھا اس کی حیثیت حصولِ جنت کی ان یقینی امیدوں اور تابناک وپر وقار مستقبل کی ان بشارتوں کے مقابل اس بادل سے زیادہ نہ تھی جو ہوا کے جھٹکے سے بکھر کر تحلیل ہوجاتا ہے۔
علاوہ ازیں رسول اللہﷺ اہل ایمان کوایمانی مرغوبات کے ذریعے مسلسل روحانی غذا فراہم کررہے تھے۔

مکمل تحریر >>

اولین مسلمانوں کے حق پر جمے رہنے کے اسباب و عوامل - قرآن کا نزول


انہی پر خطر مشکل ترین اور تیرہ وتار حالات میں ایسی سورتیں اور آیتیں بھی نازل ہورہی تھیں جن میں بڑے ٹھوس اور پر کشش انداز سے اسلام کے بنیادی اصولوں پر دلائل وبراہین قائم کیے گئے تھے اور اس وقت اسلام کی دعوت انہی اصولوں کے گردش کر رہی تھی۔ ان آیتوں میں اہل اسلام کو ایسے بنیادی امور بتلائے جارہے تھے ، جن پر اللہ تعالیٰ نے عالم انسانیت کے سب سے باعظمت اور پر رونق معاشرے، یعنی اسلامی معاشرے کی تعمیر وتشکیل مقدر کر رکھی تھی۔ نیز ان آیات میں مسلمانوں کے جذبات واحساسات کو پامردی وثبات قدمی پر ابھارا جارہا تھا۔ اس کے لیے مثالیں دی جارہی تھیں اور اس کی حکمتیں بیان کی جاتی تھیں :
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّ‌اءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّ‌سُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ‌ اللَّـهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ‌ اللَّـهِ قَرِ‌يبٌ ﴿٢١٤﴾ (۲:۲۱۴)
''تم سمجھتے ہوکہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ وہ سختیوں اور بد حالیوں سے دوچار ہوئے اور انہیں جھنجوڑ دیا گیا۔ یہاں تک کہ رسول اور جولوگ ان پر ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سنو ! اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔''
اور انہی کے پہلو بہ پہلو ایسی آیات کا نزول بھی ہورہا تھا جن میں کفار ومعاندین کے اعتراضات کے دندان شکن جواب دیئے گئے تھے، ان کے لیے کوئی حیلہ باقی نہیں چھوڑا تھا اور انہیں بڑے واضح اور دوٹوک الفاظ میں بتلادیا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی گمراہی اورعناد پر مصررہے توا س کے نتائج کس قدر سنگین ہوں گے۔ اس کی دلیل میں گزشتہ قوموں کے ایسے واقعات اور تاریخی شواہد پیش کیے گئے تھے جن سے واضح ہوتا تھا کہ اللہ کی سنت اپنے اولیاء اور اعداء کے بارے میں کیا ہے۔ پھر اس ڈراوے کے پہلو بہ پہلو لطف وکرم کی باتیں بھی کہی جارہی تھیں اور افہام وتفہیم اور ارشاد ورہنمائی کا حق بھی ادا کیا جارہا تھا تاکہ باز آنے والے اپنی کھلی گمراہی سے باز آسکیں۔
درحقیقت قرآن مسلمانوں کو ایک دوسری ہی دنیا کی سیر کراتا تھا اور انہیں کائنات کے مشاہد ، ربوبیت کے جمال ، الوہیت کے کمال ، رحمت ورافت کے آثار اور لطف ورضا کے ایسے ایسے جلوے دکھاتا تھا کہ ان کے جذب وکشش کے آگے کوئی رکاوٹ برقرار ہی نہ رہ سکتی تھی۔
پھر انہیں آیات کی تہہ میں مسلمانوں سے ایسے ایسے خطاب بھی ہوتے تھے جن میں پروردگار کی طرف سے رحمت ورضوان اور دائمی نعمتوں سے بھری ہوئی جنت کی بشارت ہوتی تھی اور ظالم وسرکش دشمنوں اور کافروں کے ان حالات کی تصویر کشی ہوتی تھی ۔

مکمل تحریر >>

اولین مسلمانوں کے حق پر جمے رہنے کے اسباب و عوامل


ابتدائی مسلمانوں کے صبر و ثبات کو دیکھ کر گہری سوجھ بوجھ اور مضبوط دل ودماغ کا آدمی بھی حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور بڑے بڑے عقلاء دم بخود ہوکر پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کیا اسباب وعوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اس قدر انتہائی اور معجزانہ حد تک ثابت قدم رکھا؟
آخر مسلمانوں نے کس طرح ان بے پایاں مظالم پر صبر کیا جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل لرز اٹھتا ہے۔ باربار کھٹکنے اور دل کی تہوں سے ابھرنے والے اس سوال کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اسباب وعوامل کی طرف ایک سرسری اشارہ کردیا جائے۔
اللہ پر کامل ایمان اور معرفت:
ان میں سب سے پہلا اور اہم سبب اللہ کی ذاتِ واحد پر ایمان اور اس کی ٹھیک ٹھیک معرفت ہے۔ کیونکہ جب ایمان کی بشاشت دلوں میں جانشیں ہوجاتی ہے تو وہ پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور اسی کا پلہ بھاری رہتا ہے اور جو شخص ایسے ایمانِ محکم اور یقین کامل سے بہرہ ور ہو وہ دنیا کی مشکلات کو ...خواہ وہ جتنی بھی زیادہ ہوں اور جیسی بھی بھاری بھرکم ، خطرناک اور سخت ہوں...اپنے ایمان کے بالمقابل اس کا ئی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو کسی بند توڑ اور قلعہ شکن سیلاب کی بالائی سطح پر جم جاتی ہے۔ اس لیے مومن اپنے ایمان کی حلاوت ، یقین کی تازگی اور اعتقاد کی بشاشت کے سامنے ان مشکلات کی کوئی پروا ہ نہیں کرتا ۔۔پھر اسی ایک سبب سے ایسے اسباب وجود میں آتے ہیں جو اس صبر وثبات قدمی کو قوت بخشتے ہیں۔
حضور ﷺﷺ کی پر کشش قیادت:
نبیﷺ جو امت ِ اسلامیہ بلکہ ساری انسانیت کے سب سے بلند پایہ قائد ورہنماتھے۔ ایسے جسمانی جمال ، نفسانی کمال ، کریمانہ اخلاق ، باعظمت کردار اور شریفانہ عادات واطوار سے بہرہ ور تھے کہ دل خود بخود آپﷺ کی جانب کھنچے جاتے تھے اور طبیعتیں خودبخود آپﷺ پر نچھاور ہوتی تھیں کیونکہ جن کمالات پر لوگ جان چھڑکتے ہیں ان سے آپﷺ کو اتنا بھر پور حصہ ملا تھا کہ اتنا کسی اور انسان کو دیا ہی نہیں گیا۔
آپﷺ شرف دعظمت اور فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے۔ عفت وامانت ، صدق وصفا اور جملہ امورِ خیر میں آپﷺ کا وہ امتیاز ی مقام تھا کہ رفقاء تو رفقاء آپﷺ کے دشمنوں کو بھی آپﷺ کی یکتائی وانفرادیت پر کبھی شک نہ گزرا۔ آپﷺ کی زبان سے جو بات نکل گئی ، دشمنوں کو بھی یقین ہوگیا کہ وہ سچی ہے اور ہوکر رہے گی۔ واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ایک بار قریش کے ایسے تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے ہر ایک نے اپنے بقیہ دوساتھیوں سے چھپ چھپا کر تن تنہا قرآن مجید سنا تھا لیکن بعد میں ہر ایک کا راز دوسرے پر فاش ہوگیا تھا۔ انہی تینوں میں سے ایک ابو جہل بھی تھا۔ تینوں اکٹھے ہوئے تو ایک نے ابوجہل سے دریافت کیا کہ بتاؤ تم نے جو کچھ محمد (ﷺ ) سے سنا ہے اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے ؟ ابوجہل نے کہا : میں نے کیا سنا ہے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اور بنو عبد مناف نے شرف وعظمت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے (غرباء ومساکین کو ) کھلا یا تو ہم نے بھی کھلایا۔ انہوں نے داد ودہش میں سواریاں عطاکیں تو ہم نے بھی عطا کیں۔ انہوں نے لوگوں کو عطیات سے نوازا تو ہم نے بھی ایسا کیا یہاں تک کہ جب ہم اور وہ گھنٹوں گھنٹوں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوگئے اور ہماری اور ان کی حیثیت ریس کے دومقابل گھوڑوں کی ہوگئی تو اب بنوعبد مناف کہتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک نبی (ﷺ ) ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا بتایئے ہم اسے کب پاسکتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! ہم اس شخص پر کبھی ایمان نہ لائیں گے ، اور اس کی ہرگز تصدیق نہ کریں گے۔ (ابن ہشام ۱/۳۱۶)
چنانچہ ابوجہل کہا کرتا تھا : اے محمد (ﷺ ) ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے لیکن تم جو کچھ لے کر آئے ہو اس کی تکذیب کرتے ہیں اور اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ ﴿٣٣﴾ (۶: ۳۳)
''یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔'' (ترمذی : تفسیر سورۃ الانعام ۲/۱۳۲)
اس واقعے کی تفصیل گزر چکی ہے کہ ایک روز کفار نے نبیﷺ کو تین بار لعن طعن کی اور تیسری دفعہ میں آپﷺ نے فرمایا کہ اے قریش کی جماعت !میں تمہارے پاس ذبح لے کر آیا ہوں تو یہ بات ان پر اس طرح اثر کرگئی کہ جو شخص عداوت میں سب سے بڑھ کر تھا۔ وہ بھی بہتر سے بہتر جو جملہ پاسکتا تھا اس کے ذریعہ آپﷺ کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ گیا، اسی طرح آپﷺ کی ابو لہب کے بیٹے عتیبہ کے لیے بددعا، ابی بن خلف اور امیہ بن خلف کو چیلنج جیسے کئی واقعات کا ذکر ہوچکا ۔
یہ تو آپﷺ کے دشمنوں کا حال تھا۔ باقی رہے آپﷺ کے صحابہ ؓ اور رفقاء تو آپﷺ تو ان کے لیے دیدہ ودل اور جان وروح کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے دل کی گہرائیوں سے آپﷺ کے لیے حبِّ صادق کے جذبات اس طرح ابلتے تھے جیسے نشیب کی طرف پانی بہتا ہے اور جان ودل اس طرح آپﷺ کی طرف کھنچتے تھے جیسے لو ہا مقناطیس کی طرف کھنچتا ہے :
اس محبت وفداکاری اور جاں نثاری وجاںسپاری کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ کو یہ گوارانہ تھا کہ آپﷺ کے ناخن میں خراش آجائے یا آپﷺ کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی کیوں نہ کوٹ دی جائیں۔محبت و جاں سپاری کے کچھ اور بھی نادر واقعات ہم اپنی اس کتاب میں موقع بہ موقع نقل کریں گے۔ خصوصاً جنگ احد کے واقعات اور حضرت خبیب ؓ کے حالات کے ضمن میں۔

مکمل تحریر >>

عمرِ عائشہ رضی اللہ عنہ سے متعلق احادیث تاریخی روایات سے بھی میل کھاتی ہیں


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور انکے معاصرین سے منقول روایات ان تاریخی کتابوں سے بھی میل کھاتی ہیں جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوانحی خاکے درج ہیں۔ اِن میں اور اُن میں ذرا اختلاف نہیں ہے۔

سال پیدائش سے استدلال :
تمام تاریخی اور سوانحی کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش زمانہ اسلام میں ہوئی ہے، بعثت نبوی کے چار یا پانچ سال بعد۔
امام بیہقیؒ حدیث: لم اعقل ابوی الا وھما یدینان الدین پہ تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
وعائشة رضي الله عنها وُلدت على الإسلام ؛ لأن أباها أسلم في ابتداء المبعث ، وثابت عن الأسود عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوجها وهي ابنة ست ، وبنى بها وهي ابنة تسع ، ومات عنها وهي ابنة ثمان عشرة ، لكن أسماء بنت أبي بكر ولدت في الجاهلية ثم أسلمت بإسلام أبيها... وفيما ذكر أبو عبد الله بن منده حكاية عن ابن أبي الزناد أن أسماء بنت أبي بكر كانت أكبر من عائشة بعشر سنين ، وإسلام أم أسماء تأخر ، قالت أسماء رضي الله عنها : قدمت عليَّ أمي وهي مشركة . في حديث ذكرته ، وهي قتيلة ، مِن بني مالك بن حسل ، وليست بأم عائشة ، فإن إسلام أسماء بإسلام أبيها دون أمها ، وأما عبد الرحمن بن أبي بكر فكأنه كان بالغا حين أسلم أبواه ، فلم يتبعهما في الإسلام حتى أسلم بعد مدة طويلة ، وكان أسن أولاد أبي بكر " انتهى باختصار .
" السنن الكبرى " (6/203)
امام ذہبیؒ:
" عائشة ممن ولد في الإسلام ، وهي أصغر من فاطمة بثماني سنين ، وكانت تقول : لم أعقل أبوي إلا وهما يدينان الدين " انتهى .
" سير أعلام النبلاء " (2/139) .
حافظ ابن حجرؒ:
ولدت – يعني عائشة – بعد المبعث بأربع سنين أو خمس " انتهى .
" الإصابة " (8/16)
ان میں یہ بھی مذکور ہے کہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر آٹھ سال تھی۔ یہ بات بھی احادیث میں مذکور بات سے مکمل میل کھاتی ہے
ان کتابوں میں یہ بھی مذکور ہےکہ حضورﷺ کے وصال کےوقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ اس سے بھی یہ بات پتہ چلی کہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر نو سال تھی۔

2- سال وفات سے استدلال
تاریخی، سوانحی اور سیرت کی کتابوں میں یہ مذکور ہے انتقال کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 63‍ سال تھی۔ سال وفات: سن ستاون 57 ہجری ہے، اس سے بھی معلوم ہوا کہ ہجرت کے وقت آپؓ کی عمر چھ سال تھی(پس مجموعی طور سے تاریخی کتابوں سے جو عمریں نکلیں وہ تین ہوگئیں۔ نو سال، آٹھ سال اور چھ سال )اگر آپ کسر کو حذف کردیں جیسا کہ عربوں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ سن ولادت اور سن وفات کو گنتے نہیں ہیں تو ایسے میں آپؓ کی عمر ہجرت کے وقت آٹھ سال ہوگی، اور نو مہینے بعد رخصتی کے وقت آپؓ کی عمر نو سال ہوگی۔

3- عمروں کے درمیان فرق سے استدلال
مذکورہ بالا حساب اس وقت بھی درست بیٹھتا ہے جب آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی عمروں کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حضرت اسماء ؓ حضرت عائشہؓ سے کتنی بڑی تھیں۔ امام ذہبی لکھتے ہیں:
وكانت – يعني أسماء - أسن من عائشة ببضع عشرة سنة " انتهى . " سير أعلام النبلاء " (2/188)
ترجمہ: حضرت اسماء حضرت عائشہ سے دس اور کچھ سال بڑی تھیں
ابو نعیم لکھتے ہیں:
عن أسماء أنها ولدت : " قبل مبعث النبي صلى الله عليه وسلم بعشر سنين " انتهى .
بعثت نبوی سے دس سال پہلے حضرت اسماء کی ولادت ہوئی ۔
پہلا حوالہ دوسرے حوالے کی وضاحت کررہا ہے۔ ان دو حوالوں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دونوں بہنوں کے درمیان چودہ پندرہ سال کا فرق تھا۔پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سال ولادت چار پانچ ہجری ہوا

کیا حضرت اسما حضرت عائشہ سے صرف دس سال بڑی تھیں؟ :
اب ہم بعض لوگوں کے اس دعوے کا جائزہ لیں گے کہ حضرت اسماءؓ اور حضرت عائشہؓ کے درمیان جو فرق تھا وہ دس سال کا تھا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دس سال فرق والی روایت سندا صحیح نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر ہم اسکو سندا صحیح مان بھی لیں تو اس روایت کا مطلب وہ بیان کیا جانا چاہئے جو بخاری اور مسلم کی روایات سے لگا کھاتا ہو، نہ کہ یہ کہ اس مشکوک روایت کی وجہ سے بخاری و مسلم کی صحیح روایات کو ساقط کردیا جائے۔ غرض اِس کو اُن کے تابع کیا جائے گا ناکہ اُن کو اِس کے آئیے اس روایت کا حال دیکھتے ہیں۔ دو سندوں سے منقول ہے یہ روایت

پہلی سند : رواه ابن عساكر في " تاريخ دمشق " (69/10) قال : أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد المالكي ، أنا أحمد بن عبد الواحد السلمي ، أنا جدي أبو بكر ، أنا أبو محمد بن زبر ، نا أحمد بن سعد بن إبراهيم الزهري ، نا محمد بن أبي صفوان ، نا الأصمعي ، عن ابن أبي الزناد قال : فذكره .

دوسری سند : رواه ابن عبد البر في " الاستيعاب في معرفة الأصحاب " (2/616) قال : أخبرنا أحمد بن قاسم ، حدثنا محمد بن معاوية ، حدثنا إبراهيم بن موسى بن جميل ، حدثنا إسماعيل بن إسحاق القاضي ، حدثنا نصر بن علي ، حدثنا الأصمعي قال : حدثنا ابن أبي الزناد ، قال : قالت أسماء بنت أبي بكر ، وكانت أكبر من عائشة بعشر سنين أو نحوها .

منصف اہل علم جب اس روایت میں غور کریں گے تو ان پر یہ بات ظاہر ہوگی کہ اس روایت کے ظاہر پر عمل کرنا اور اِس کی وجہ سے تمام صحیح روایات کو پس پشت ڈال دینا علم و تحقیق کے نام پر زیادتی ہے ظلم ہے۔ ایسا تین وجہوں سے ہے
پہلی وجہ : عبد الرحمن بن ابی الزناد منفرد ہیں۔ صرف یہی دس سال کا فرق بیان کرتے ہیں۔ ( انکا کوئی متابع نہیں ) جبکہ اس کے خلاف نقطہ نظر کے دلائل جو اوپر مذکور ہوچکے ہیں وہ ایک تو بکثرت ہیں، دوسرے متعدد لوگوں سے منقول بھی ہیں۔ اور یہ مشہور و معروف بات ہے کہ کثرت کو قلت پر ترجیح ہوتی ہے

دوسری وجہ: اکثر اہل علم نے عبد الرحمن بن ابی الزناد کی تضعیف کی ہے۔ ان کے بارے میں ائمہ فن کے اقوال دیکھئے
قول الإمام أحمد فيه : مضطرب الحديث . وقول ابن معين : ليس ممن يحتج به أصحاب الحديث . وقول علي بن المديني : ما حدث بالمدينة فهو صحيح ، وما حدث ببغداد أفسده البغداديون ، ورأيت عبد الرحمن - يعنى ابن مهدى - خطط على أحاديث عبد الرحمن بن أبى الزناد ، وكان يقول فى حديثه عن مشيختهم ، ولقنه البغداديون عن فقهائهم ، عدهم ، فلان وفلان وفلان . وقال أبو حاتم : يكتب حديثه ولا يحتج به . وقال النسائي : لا يحتج بحديثه . وقال أبو أحمد بن عدى : وبعض ما يرويه ، لا يتابع عليه
تهذيب التهذيب " (6/172)

لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ امام ترمذیؒ نے سنن ترمذی میں عبد الرحمن بن ابی الزناد کی توثیق کی ہے تو تنہا حضرت امام ترمذیؒ کی یہ توثیق اِس مفصل جرح اور تضعیف کے خلاف ہے جو ائمہ فن کے حوالے سے ابھی اوپر مذکور ہوئی۔ ائمہ فن کی یہ تضعیف امام ترمذی کی توثیق پر مقدم ہوگی خاص طور سے اس وقت تو ضرور مقدم ہوگی جب عبد الرحمن بن ابی الزناد تن تنہا ایک ایسی بات بیان کریں (دس سال کا فرق ) جو احادیث اور تاریخی کتابوں میں مذکور بات کے یکسر خلاف ہو

تیسری وجہ: عبد الرحمن بن ابی الزناد کی سند سے آنے والی صحیح ترین روایت کے الفاظ دیکھئے: و کانت اکبر من عائشة بعشر سنین او نحوھا
ترجمہ: اسماءؓ عائشہؓ سے دس سال بڑی تھیں یا اس کے قریب قریب
یہ ‌" او نحوھا" کے الفاظ بذات خود دلالت کررہے ہیں کہ راوی کو عمر ٹھیک ٹھیک یاد نہیں ہے۔ اس سے بھی روایت میں ضعف آتا ہے۔
( خلاصہ کلام): مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں اہل انصاف علماء، دانشوران اور اسکالرز کیلئے ہرگز مناسب نہیں کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الزناد کی مشکوک روایت کی وجہ سے صحیح روایات اور مضبوط دلائل کو رد کردیں، پس پشت ڈال دیں۔۔

: نوٹ: واضح رہے مذکورہ بالا تاریخی روایتیں جو ہم نے اوپر نقل کی ہیں اِن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارا اعتماد اور استدلال کی بنیاد ان تاریخی روایتوں پر ہے۔ نہیں! حاشا و کلا! ہمارے استدلال کی بنیاد تو سند صحیح سے منقول روایات ہیں، مگر چونکہ یہ تاریخی روایات سند صحیح سے منقول روایات سے میل کھا رہی تھیں اس لئے ہم نے صرف تائیدی طور سے نقل کیا ہے۔

مکمل تحریر >>

نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کی عمر کے متعلق احادیث پر ملحدین کے اعتراضات کا جواب


گزشتہ تحریر میں ہم نے ماضی اور حال کی مثالوں سے تفصیل پیش کی تھی کہ حضرت عائشہ کی نو سال کی عمر میں شادی کوئی عجیب بات نہیں تھی وہ عاقلہ اور بالغہ تھیں۔ یہ دلائل سب کے سامنے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اپنی علمی کم مائیگی کی بناء پر ان احادیث صحیحہ پر زبان طعن دراز کرتے نظر آتے ہیں جن میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقت رخصتی نو (۹) سال بیان کی گئی ہے ۔ انکے موقف کو دیکھا جائے تو انکا یہ اعتراض کسی اصول کی بناء پر نہیں اور نہ ہی اسکی بنیاد کوئی "علم " ہے ۔ بلکہ اپنے ذززہن سے قائم کردہ ایک مفروضے اورصرف اپنی عقل کوتاہ پر بنیاد رکھ کر انہوں نے ان احادیث صحیحہ کو طعن کا نشانہ بنایا ہے ۔
عمر امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق انکے نقطہ نظر اور اعتراضات پرتبصرہ پیش کرنے سے پہلے یہ عرض کردیں کہ شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال اور رخصتی کے وقت نو سال کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے کہ اس میں یہ غور کیا جائے کہ مسئلہ کا کونسا پہلو صحیح ہے اور کونسا غلط؟ یہ تو ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اسکے ٹھوس ہونے کی چند وجوہات ہیں۔

1. عمر سے متعلق خود عمر والے کی صراحت :۔
عمر سے متعلق خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صراحت موجود ہے۔یہ صراحت بخاری اور مسلم دونوں میں ہے جنکو قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتابیں مانا گیا ہے۔ حدیث دیکھئے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی ، پھر ہم مدینہ ( ہجرت کرکے ) آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا ۔ یہاں آکر مجھے بخار چڑھا اوراس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے ۔ پھر مونڈھوں تک خوب بال ہوگئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں ، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوںنے مجھے پکا را تو میں حاضر ہوگئی ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے ۔ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑکر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جارہاتھا ۔ تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا ۔ پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں ۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں ، جنہوںنے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیر وبرکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو ، میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کردیا اور انہوں نے میری آرائش کی ۔ اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اورانہوں نے مجھے آپ کے سپرد کردیا میری عمر اس وقت نو سال تھی ۔
صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار
رواه البخاري (3894) ومسلم (1422)
اس روایت میں صراحت کے ساتھ عمر کا بیان آیا ہے

کیا ہشام بن عروہ اس حدیث کے تنہا راوی ہیں ؟
بعض حضرات دعوی کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا روایت کی صرف ایک ہی سند ہے ۔ حالانکہ متعدد سندوں سے یہ روایت منقول ہے۔ مشہور ترین سند ھشام کی ہے (ھشام بن عروة عن ابیه عن عائشة ) یہ: صحیح ترین روایت بھی ہے کیونکہ یہ عروہ بن زبیر سے آرہی ہے اور عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے احوال سے سب سے زیادہ واقف تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا انکی خالہ تھیں
دوسری سند: سندِ اعمش ہے (اعمش عن ابراھیم عن الاسود عن عائشة ) یہ سند مسلم میں ہے۔ حدیث نمبر: 1422
تیسری سند: سندِ محمد بن عمرو ہے (محمد بن عمرو عن یحی بن عبد الرحمن بن حاطب عن عائشة )یہ سند ابو داؤد میں ہے۔ حدیث نمبر: 4937
مزید یہ کہ شیخ ابو اسحاق حوینی نے عروہ بن زبیر اور ھشام بن عروہ دونوں کے متابعین بھی جمع کئے ہیں
متابعین عروہ بن زبیر : اسود بن یزید، قاسم بن عبد الرحمن، قاسم بن محمد بن ابی بکر، عمرہ بنت عبد الرحمن، یحی بن عبد الرحمن بن حاطب
متابعین ھشام بن عروہ: ابن شہاب زہری، ابو حمزہ میمون
اس کے ساتھ ساتھ کہ شیخ حوینی نے مدنی،مکی وغیرہ ان رواة کو بھی جمع کیا ہے جو ھشام بن عروہ سے اس حدیث کو نقل کرتے ہیں
مدنی رواة: ابو الزناد عبد اللہ بن ذکوان، عبد الرحمن بن ابی الزناد، عبد اللہ بن محمد بن یحی بن عروہ
مکی رواة: سفیان بن عیینہ، جریر بن عبد الحمید؟
بصری رواة: حماد بن سلمہ، حماد بن زید، وھییب بن خالد وغیرہ
خلاصہ یہ کہ راویوں کی اتنی بڑی تعداد اس شبہ کے ازالہ کیلئے کافی ہے کہ ھشام بن عروہ تنہا اس روایت کو بیان کرنے والے ہیں ۔۔

کیا ہشام بن عروہ کا حافظہ آخر عمر میں بگڑ گیا تھا؟
بخاری کی مذکورہ بالا روایت پر دوسرا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ھشام بن عروہ کا حافظہ آخر عمر میں بگڑ گیا تھا۔ یہ الزام علماء فن رجال میں صرف ابن قطانؒ لگاتے ہیں، ان کے علاوہ اور کوئی ایسی بات نہیں کہتا۔ مگر ابن قطانؒ کا یہ الزام درست نہیں ہے۔ ہشام بن عروہ پہ تبصرہ فرماتے ہوئے امام ذہبی بیان فرماتے ہیں
ترجمہ: ہشام بن عروہ بڑے آدمی ہیں، حجہ ہیں، امام ہیں، بوڑھاپے میں حافظہ بگڑا تو تھا مگر ہمہ وقت بگڑا نہیں رہتا تھا، ابن قطان نے انکے بارے میں جو بات کہی ہے اسکا کوئی اعتبار نہیں، حافظہ بگڑا ضرور تھا مگر ایسا نہیں بگڑا تھا جیسا انتہائی بوڑھے لوگوں کا بگڑ جاتا ہے۔ وہ صرف چند باتیں بھولے تھے،اور اِس میں کوئی خرابی نہیں ، بھول سے کون محفوظ ہے؟ آخر عمر میں جب ھشام بن عروہ عراق آئے تھے تو آپ نے اہل علم کے ایک بڑے مجمع میں احادیث بیان کی تھیں، اس مجمع میں چند ہی احادیث ایسی تھیں جنکو آپ صحیح سے بیان نہ کرسکے تھے (اکثر آپ نے درست بیان کی تھیں ) اس طرح کی صورت حال کا سامنا دیگر بڑے لوگوں کو بھی اپنی آخری عمر میں کرنا پڑا تھا جن میں امام مالک، امام شعبہ امام وکیع جیسے دیگر بڑے نام آتے ہیں۔ اس الزام سے صرف نظر کیجئے۔ بڑے بڑے ائمہ کو کمزور راویوں کے درجے میں لانے سے بچیں۔ ہشام بن عروہ شیخ الاسلام تھے۔
(" ميزان الاعتدال " (4/301-302) .

ہم نے کئی اہل علم کو بھی یہ اعتراض دہراتے دیکھا حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ایک عظیم راوی کی حیثیت کو مشکوک کرنا، اس سے منسوب تمام ذخیرۂ حدیث کو عوام کی نظر میں بے اعتبار کرنے پر منتج ہو سکتا ہے ۔اگر وہ اس اڑتے ہوئے نعرے پر اعتبار فرمانے کے بجائے رجال و تراجم کی کتب کی طرف رجوع کر تے تو اس بے سروپا اعتراض کی حقیقت اور ایک جلیل القدر راویِ حدیث کی مکمل تصویر سامنے آسکتی تھی ۔۔ اس طرح کی ا یک رخی تصویریں پیش کرنا کسی طرح بھی مسلم علمی روایت کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔
اہل غلو کی شاید یہ مجبوری ہوتی ہے کہ انھیں صرف اپنے مطلب کی بات سے غرض ہوتی ہے اور کسی کونے کھدرے سے کوئی بات دریافت ہوجائے تو وہ ٹڈے کی ٹانگ پر ہاتھی کا خول چڑھا لیتے ہیں۔
(جاری ہے)

مکمل تحریر >>

عمرِ عائشہ رضی اللہ عنہ پر مستشرقین کے اعتراضات کا جواب


مستشرقین اور ملحدین نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے نکاح کے سلسلہ میں جس مفروضہ کی بنیاد پر ناروا اور بیجاطریقہ پر لب کو حرکت اور قلم کوجنبش دی ہے' اگر عرب کے اس وقت کے جغرافیائی ماحول اور آب و ہوا کا تاریخی مطالعہ کریں تو اس کا کھوکھلا پن ثابت ہوجاتا ہے۔
ہر ملک وعلاقے کے ماحول کے مطابق لوگوں کے رنگ وروپ ،جسمانی وجنسی بناوٹ اورعادت واطوار جس طرح باہم مختلف ہوتے ہیں اسی طرح سن بلوغت میں بھی کافی تفاوت و فرق ہوتا ہے ۔ جن ممالک میں موسم سرد ہوتا ہے وہاں بلوغت کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جہاں موسم گرم ہوتا ہے وہاں بلوغت جلد وقوع پذیر ہوجاتی ہے ۔ مثلاً عرب ایک گرم ملک ہے ۔وہاں کی خوراک بھی گرم ہوتی ہے جوکہ عموماً کھجور اور اونٹ کے گوشت پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لئے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا 9سال کی عمر میں بالغ ہوجانا بعید از عقل نہیں ۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی نسبت قابل وثوق روایات سے بھی یہ معلوم ہے کہ ان کے جسمانی قوی بہت بہتر تھے اور ان میں قوت نشو و نما بہت زیادہ تھی۔ ایک تو خود عرب کی گرم آب و ہوا میں عورتوں کے غیرمعمولی نشوونماکی صلاحیت ہےدوسرے عام طورپر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیرمعمولی استعداد ہوتی ہے، اسی طرح قدوقامت میں بھی بالیدگی کی خاص صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے بہت تھوڑی عمر میں وہ قوت حضرت عائشہ رضی الله عنہا میں پیدا ہوگئی تھی جو شوہر کے پاس جانے کے لیے ایک عورت میں ضروری ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو خود ان کی والدہ نے بدون اس کے کہ آنحضرت صلى الله علیه وسلم کی طرف سے رخصتی کا تقاضا کیاگیاہو، خدمتِ نبوی میں بھیجا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ کوئی ماں اپنی بیٹی کی دشمن نہیں ہوتی؛ بلکہ لڑکی سب سے زیادہ اپنی ماں ہی کی عزیز اور محبوب ہوتی ہے۔ اس لیے ناممکن اور محال ہے کہ انھوں نے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت واہلیت سے پہلے ان کی رخصتی کردیا ہو ۔

اسلامی تاریخ سے مثالیں:
اسلامی کتابوں میں ایسے بہت واقعات نقل کیے گئے ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب کے معاشرے میں نو (9) سال کی عمر میں بچہ جنم دینا عام بات اور اس عمر میں نکاح کرنارواج تھا۔ ان لوگوں کے لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔چند واقعات ،
(1) ابوعاصم النبیل کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک سو دس (110) ہجری میں پیدا ہوئیں اور میں ایک سو بائیس( 122) ہجری میں پیدا ہوا۔ (سیر اعلاالنبلاء جلد7رقم1627) یعنی بارہ سال کی عمر میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کی والدہ کی شادی دس سے گیارہ سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔
(2) عبداللہ بن عمر و اپنے باپ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے ۔
( تذکرة الحفاظ جلد1ص93)
(3) ہشام بن عروہ نے فاطمہ بنت منذر سے شادی کی اور بوقت زواج فاطمہ کی عمر نو سال تھی ۔ (الضعفاء للعقیلی جلد4رقم 1583، تاریخ بغداد 222/1)
(4) عبداللہ بن صالح کہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک عورت نو سال کی عمر میں حاملہ ہوئی اور اس روایت میں یہ بھی درج ہے کہ ایک آدمی نے ان کو بتایاکہ اس کی بیٹی دس سال کی عمر میں حاملہ ہوئی ۔ (کامل لابن عدی جلد5ر قم 1015)
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں عبداللہ بن عامر سے کرائی (تاریخ ابن عساکر جلد70) ۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ عباد بن عباد المہلبی فرماتے ہیں میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی نو سال کی عمر میں اس نے بیٹی کو جنم دیا اور اس کی بیٹی نے بھی نو سال کی عمر میں بچہ جنم دیا ۔(سنن دارقطنی جلد3کتاب النکاح رقم 3836) ان

ماضی قریب اور حال کی مثالیں:
اس طرح کے کئی حوالے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں تھا ، آج کل بھی اخباروں میں اس قسم کی خبریں چھپتی رہتی ہیں ۔
ماضی قریب میں اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہواکہ 8سال کی بچی حاملہ ہوئی اور 9سال کی عمر میں بچہ جنا ۔ (روزنامہ DAWN 29 مارچ1966)
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ایک دفعہ اپنے ایک انٹر ویو بتاتے ہیں کہ : ''حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں میرے ذہن میں بھی کافی شکوک وشبہات تھے۔بطور پیشہ میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں۔ ایک دن میرے پاس ایک مریضہ آئی جس کی عمر تقریباً 9سال تھی اور اسے حیض آرہے تھے۔ تو مجھے اس روایت کی سچائی اور حقانیت پر یقین آگیا '۔
علاوہ ازیں روزنامہ جنگ کراچی میں 16اپریل 1986ء کوایک خبر مع تصویرکے شائع ہوئی تھی جس میں ایک نو سال کی بچی جس کا نام (ایلینس) تھا اور جو برازیل کی رہنے والی تھی بیس دن کی بچی کی ماں تھی۔
اس طرح روزنامہ آغاز میں یکم اکتوبر 1997کوایک خبر چھپی کہ (ملتان کے قریب ایک گاؤں میں)ایک آٹھ سالہ لڑکی حاملہ ہوگئی ہے اور ڈاکٹروں نے اس خدشہ کا اعلان کیا ہے کہ وہ زچکی کے دوران ہلاک ہوجائے.پھر 9دسمبر 1997کو اسی اخبار میں دوسری خبر چھپی کہ ''ملتان (آغاز نیوز) ایک آٹھ سالہ پاکستانی لڑکی نے ایک بچہ کو جنم دیا ہے. ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچہ صحت مند ہے ۔
جب پاکستان جیسے جیسے معتدل اور متوسط ماحول وآب و ہوا والے ملک میں آٹھ برس کی لڑکی میں یہ استعداد پیدا ہوسکتی ہے تو عرب کے گرم آب و ہوا والے ملک میں ۹/ سال کی لڑکی میں اس صلاحیت کا پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
انٹرنیٹ پر بھی اس عمر کی لڑکیوں کے ہاں بچوں کی پیدائش کی بیسوں خبریں موجود ہیں، دو تین ماہ پہلے ایک خبر نظر سے گزری تھی جس میں یورپ کی ایک لڑکی کا بتایا گیا تھا کہ وہ بارہ سال کی عمر میں ماں بن گئی، اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے نکاح پر اعتراض کرنے والے انہی ملحدین نے اسے ورلڈ ریکارڈ قرار دیا تھا..
مکمل تحریر >>

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے نکاح


تنہائی کے اضطراب میں، مصیبتوں کے ہجوم میں اور ستمگاریوں کے تلاطم میں ساتھ دینے والی آپ صلى الله علیه وسلم کی غمگسار بیوی ام الموٴمنین حضرت خدیجہ-رضی الله عنہا کا رمضان ۱۰ ء نبوت میں جب انتقال ہوگیا تو آپ صلى الله علیه وسلم نے چار سال بعد یہ ضروری سمجھا کہ آپ صلى الله علیه وسلم کے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہوں جنہوں نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی میں کھولی ہو اور جو نبی صلى الله علیه وسلم کے گھرانے میں آ کر پروان چڑھیں، تاکہ ان کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موٴثر ترین ذریعہ بن سکیں۔
چنانچہ اس مقصد کے لیے مشیت الٰہی نے حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کو منتخب فرمایا اور شوال ۳ ء قبل الہجرہ مطابق ۶۲۰/ مئی میں حضرت عائشہ رضی الله عنہاسے آپ صلى الله علیه وسلم کا نکاح ہوا، اس وقت حضرت عائشہ کی عمر جمہور علماء کے یہاں چھ سال تھی اور تین سال بعد جب وہ ۹ سال کی ہوچکی تھیں اور اُن کی والدئہ محترمہ حضرت ام رومان رضی الله عنہا نے آثار و قرائن سے یہ اطمینان حاصل کرلیا تھا کہ وہ اب اس عمر کو پہنچ چکی ہیں کہ رخصتی کی جاسکتی ہے تو نبی اکرم صلى الله علیه وسلم کے پاس روانہ فرمایا اور اس طرح رخصتی کا عمل انجام پایا۔ (مسلم جلد۲، صفحہ ۴۵۶، اعلام النساء صفحہ ۱۱، جلد ۳، مطبوعہ بیروت)
حضرت عائشہؓ ، حضرت ابو بکر صدیقؓ کی صاحبزادی تھیں، ماں کا نام زینب بنت عو یمر اور کنیت اُمّ رومان تھی۔آپ پہلے جبیر بن مطعم کے صاحبزادے سے منسوب تھیں۔حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد حضرت خولہ ؓبنت حکیم نے آنحضرت ﷺسے نکاح کی تحریک کی، آپﷺ نے رضا مندی ظاہر کی، خولہؓ نے ا ُم رومان سے کہا تو انھوں نے حضرت ابو بکرؓ سے ذکر کیا، حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ جبیربن مطعم سے و عدہ کرچکا ہوں اور میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ لیکن مطعم نے خود اس بناء پر انکار کردیا کہ اگر حضرت عائشہؓ اس کے گھر آگئیں تو گھر میں اسلام کا قدم آجائے گا ، اس طرح وہ بات ختم ہو گئی اور حضرت ابو بکرؓ نے حضور اکرم ﷺسے آپ کا نکاح کردیا۔ چار سو درہم مہر قرار پایا ۔لیکن مسلم میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم ہوتا تھا، (سیرت النبی -جلد اول)

حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے والدین کا گھر تو پہلے ہی نوراسلام سے منور تھا، عالمِ طفولیت ہی میں انہیں کا شانہٴ نبوت تک پہنچادیا گیاتاکہ ان کی سادہ لوح دل پر اسلامی تعلیم کا گہرا نقش مرتسم ہوجائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوئہ حسنہ اور آنحضور صلى الله علیه وسلم کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (۲۲۱۰) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔
حضرت عائشہؓ جیسی ذہین خاتون کا آپﷺ سے نکاح ہونے میں منشائے ربّانی یہ تھا کہ وہ کمی جو حضورﷺ سے قریب ہونے میں عام خواتین کو مانع تھی وہ اس ذاتِ مقدس سے پوری ہو جائے،یہی وجہ تھی کہ خواتین زیادہ تر اپنے مسائل آپ ہی کے توسط سے حضور ﷺ کے گوش گذار کرتی تھیں یا پھر وہ نمائندہ بن کر مخصوص مسائل کے بارے میں کُرید کُریدکر سوالات کرتی تھیں،یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کی ذات سے اُمت کو ایک تہائی علم فقہ ملا،حضرت عائشہؓ کی بے شمار فضیلتیں ہیں ، اس کے علاوہ اُمت کو ان کے ذریعہ بے شمار سعادتیں ملیں ، ، حضرت جبر یل ؑ نے آپ کو دوبار سلام کیا اور جبریل ؑ کو دو بار ان کی اصلی حالت میں دیکھا، حضور ﷺ نے انہیں اس بات کی خوش خبری دی کہ وہ جنت میں بھی ان کی زوجہ ہوں گی(سیرت احمد مجتبی- مصباح الدین شکیل)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے سلسلہ میں معاندینِ اسلام کی طرف سے یہ شکوک و شبہات قائم کئے جاتے ہیں کہ انکی کم سنی کی شادی پیغمبرِ اسلام صلى الله علیه وسلم کے لئے موزوں اور مناسب نہ تھی، ان شکوک و شبہات کا جواب شروع دن سے علمائے اسلام دیتے آئے ہیں، ماضی قریب میں کچھ لوگوں نے ان اعتراضات کا جواب دینے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ حضرت عائشہ کے نکاح سلسلے میں مذکور احادیث کی تکذیب اور بلاوجہ کی تاویلات کرتے ہوئے انکے کم سنی کے نکاح کا ہی انکار کردیا جائے۔نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
حضرت عائشہ کے نو سال کی عمر میں حضور ﷺ سے شادی کے متعلق مستشرقین کے اعتراضات، متجددین کی تاویلات اور احادیث پر کیے گئے اعتراضات کا تحقیقی و تفصیلی جواب آئندہ تحاریر میں اقساط میں پیش کیا جائے گا ۔

مکمل تحریر >>