Tuesday 26 July 2016

فتح دمشق

جنگ یرموک میں رومی لشکر شکست فاش کھا کر بھاگا اورمقامِ فحل میں جاکر رُکا ہرقل نے احکام جاری کئے جن کے موافق فحل میں بھی اور دمشق میں بھی رومی لشکر عظیم مقابلہ کے لئے فراہم ہوگیا، دمشق کی خوب مضبوطی کرلی گئی، اورفلسطین وحمص کی طرف سے بوقت ضرورت دمشق والوں کو مزید کمک بھیجنے کا اہتمام بھی ہوگیا، افواج دمشق کا سپہ سالار اعظم ہرقل نے نسطاس بن نسطورس کو مقرر کیا اورہامان نامی بطریق دمشق کا گورنر پہلے سے وہاں موجود تھا اسلامی لشکر ابھی یرموک ہی میں خیمہ زن تھا،حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے فاروقؓ اعظم کے حکم کے موافق لشکرِ عراق پر جو خالد بن ولیدؓ کے ہمراہ عراق سے آیا تھا،ہاشم بن عتبہ کو امیر مقرر کرکے عراق کی جانب روانہ کردیا،ایک دستہ فوج فحل کی جانب روانہ کیا، باقی فوج کے چند حصے کرکے ایک حصہ ذوالکلاعؓ کی سرداری میں روانہ کیا کہ دمشق اورحمص کے درمیان مقیم رہ کر اُس فوج کو جو ہر قل حمص سے دمشق والوں کی کمک کو روانہ کرے روکیں، ایک حصہ کو فلسطین ودمشق کے درمیان متعین کیا کہ فلسطین کی طرف سے رومی فوجوں کو دمشق کی جانب نہ آنے دیں، باقی فوج لے کر حضرت ابو عبیدہؓ خود دمشق کی جانب متوجہ ہوئے،دمشق پہنچنے سے پہلے مقام غوطہ کو فتح کیا،آخر ماہِ رجب ۱۳ ھ میں اسلامی لشکر نے دمشق کا محاصرہ کرلیا،شہر میں کافی فوج تھی، لیکن رومیوں کی جرأت نہ ہوئی، کہ میدان میں نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے انہوں نے شہر کی مضبوط فصیلوں اوراپنے سامان مدافعت کی پناہ لینی مناسب سمجھی، حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح باب الحابیہ کی جانب خیمہ زن ہوئے،حضرت خالد بن ولیدؓ اورحضرت عمروبن العاصؓ باب توما کی جانب اُترے،حضرت شرجیلؓ بن حسنہ فرادیس کی جانب اوریزید بن ابی سفیان باب صغیر وباب کیسان کی جانب فروکش ہوئے، اس طرح دمشق کے چاروں طرف اسلامی لشکر نے محاصرہ ڈال دیا،محصورین شہر کی فیصلوں پر چڑھ کر کبھی پتھروں کی بارش منجنیقوں کے ذریعہ کرتے کبھی تیروں کا مینہ برساتے مسلمان بھی اُن کے جواب دینے میں کوتاہی نہ کرتے اس طرح یہ محاصرہ ماہ رجب ۱۳ھ سے ۱۶محرم ۱۴ ھ تک چھ مہینے جاری رہا، ہر قل نے حمص سے دمشق والوں کی کمک کے لئے جو فوجیں روانہ کیں اُن کو ذوالکلاعؓ نے دمشق تک پہنچنے نہ دیا؛کیونکہ وہ اسی غرض کے لئے دمشق وحمص کے درمیان مقیم تھے جب چھ مہینے گذر گئے تو دمشق والے ہر قل کی امداد سے مایوس ہوگئے اوراُن میں مقابلہ کرنے کا جوش کم ہونے لگا تو حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح نے اس حالت سے بروقت مطلع ہوکر اور محاصرہ کو زیادہ طول دینا مناسب نہ سمجھ کر ہر سمت کے سرداروں کو حکم دیا کہ کل شہر پر حملہ آوری ہوگی۔
مسلمانوں کی اس جنگی تیاری اورحملہ آوری کا حال معلوم کرکے امراء دمشق کے ایک وفد نے باب توما کی جانب سے حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس آکر امان طلب کی،حضرت خالد بن ولید نے اُن کو امان نامہ لکھدیا اوربلا مقابلہ شہر کے اندر داخل ہوئے،خالد بن ولیدؓ نے جو امان نامہ دمشق والوں کو لکھ دیا اُس کا مضمون اس طرح تھا۔
‘‘خالد بن ولیدؓ نے دمشق والوں کو یہ رعایتیں دی ہیں کہ جب اسلامی لشکر دمشق میں داخل ہوگا تو دمشق والوں کو امان دی جائے گی اُن کی جان ومال اورگرجوں پر کوئی تصرف نہ کیا جائے گا نہ شہر دمشق کی شہر پناہ منہدم کی جائے گی نہ کسی مکان کو مسمار ومنہدم کیا جائے گا،اسلامی لشکر کا کوئی شخص شہر والوں کے کسی مکان میں سکونت اختیار نہ کرے گا، مسلمان اوران کا خلیفہ بجز نیکی کے کوئی بُرا سلوک دمشق والوں سے نہ کریں گے جب تک کہ دمشق والے جزیہ ادا کرتے رہیں گے’’
ادھر خالد بن ولیدؓ صلح کے ذریعہ شہر میں داخل ہوئے،ٹھیک اُسی وقت باقی ہر سہ جوانب سے اسلامی سردار سیڑھیاں لگا لگا کر اور دروازے توڑ توڑ کر قہر وغلبہ کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے،وسط شہر میں خالدؓ اور ابو عبیدہؓ کی ملاقات ہوئی،ابو عبیدہؓ نے کہا کہ ہم نے شہر کو بزور شمشیر فتح کیا ہے ،خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ میں نے بمصالحت شہر پر قبضہ کیا ہے، بعض روایات کی رُو سے معلوم ہوتا ہے کہ بطریق ہامان نے خود امراء دمشق کو بھیج کر خالد بن ولید سے عہد نامہ لکھوا لیا تھا، اوروہ مسلمانوں کے حملہ کی طاقت اورنیچے کو دیکھنا چاہتا تھا کہ اگر مسلمان اپنے متفقہ حملے اورپوری کوشش میں ناکام رہے اور بزور شمشیر دمشق میں داخل نہ ہوسکے تو آئندہ بھی مدافعت کو جاری رکھا جائے گا اورخالدؓ کے عہد نامہ کو کوئی وقعت نہ دی جائے گی۔
لیکن اگر مسلمان اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے اور زبردستی شہر میں داخل ہوئے تو اس عہد نامہ کے ذریعے اُس برتاؤ سے محفوظ رہیں گے،جو بزور شمشیر فتح کئے ہوئے شہر کے ساتھ آئین جنگ کے موافق کیا جاتا ہے ادھر ابو عبیدہؓ بزور شمشیر شہر میں داخل ہوئے اوراُدھر دمشق والوں نے خود دروازہ کھول کر خالد بن ولیدؓ کو شہر کے اندر بلالیا،بہر حال کوئی بات ہوئی،یہ ضرور ہوا کہ خالد بن ولیدؓ بذریعہ مصالحت داخل دمشق ہوئے اور ابو عبیدہؓ بن جراح بزورِ شمشیر۔
وسط شہر میں جب دونوں سردار ملاقی ہوئے تو یہ مسئلہ در پیش ہوا کہ دمشق بزور شمشیر مفتوح سمجھا جائے یا بمصالحت،بعض شخصوں نے کہا کہ خالد بن ولیدؓ چونکہ افواجِ اسلامی کے سپہ سالار اعظم نہ تھے ،لہذا اُن کا عہد نامہ جائز نہیں سمجھا جائے گا ایسا عہد نامہ صرف ابو عبیدہؓ لکھ سکتے تھے ،حضرت ابو عبیدہؓ نے فرمایا کہ مسلمانوں کا کوئی ایک معمولی سپاہی بھی جو عہد و اقرار کرلے گا وہ تمام مسلمانوں کو تسلیم کرنا پڑے گا لہذا خالد بن ولیدؓ کا عہد نامہ جائز سمجھا جائے گا ،اس پر یہ رائے پیش کی گئی کہ وسط شہر سے باب توما تک نصف شہر بذریعہ مصالحت سمجھا جائے گا، اورباقی نصف شہر بذریعہ شمشیر مسخر تصور کیا جائے؛ لیکن حضرت ابو عبیدہؓ نے اس کو بھی پسند نہ فرمایا اور تمام شہر خالد بن ولیدؓ کے عہد نامہ کے موافق بمصالحت مفتوح سمجھا گیا اوران تمام باتوں پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا جن کی نسبت خالد بن ولیدؓ نے اپنے عہد نامے میں تصریح فرمادی تھی،ابن خلدون کی روایت کے موافق خالد بن ولیدؓ بزور شمشیر باب توما کی طرف سے داخل ہوئے ،تو شہر والوں نے باقی دروازوں کے سامنے والے سرداروں سے مصالحت کرکے اُن کو فوراً بمصالحت شہر میں داخل کیا، بہرحال مسلمانوں نے دمشق والوں کے ساتھ مصالحانہ سلوک کیا اور شہر والوں کو کوئی آزار نہیں پہنچایا ابو عبیدہؓ بن جراح نے یزید بن ابی سفیان کو دمشق کا عامل مقرر کیا اوررومی سرداروں نیز سپاہیوں کو دمشق سے نکل کر جہاں اُن کا جی چاہا چلے جانے دیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔