Tuesday 26 July 2016

ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نظامِ حکومت

اسلام نے حکومت کا جو نظام تجویز کیا تھا ابوبکرؓ کو مفتوحہ ممالک میں اسے پوری طرح رائج کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ عراق میں خالدؓ بن ولید نے بلدیاتی نظم و نسق کا کام خود وہاں کے باشندوں کے سپرد کر رکھا تھا۔ مسلمان صرف عام نگرانی اور سیاسی امور کی نگہداشت کرتے تھے۔ اس طرح کوئی باقاعدہ منظم حکومت معرض وجود میں نہ آ سکی۔ جنگی صورت حال کے پیش نظر ایک عبوری طرز حکومت اختیار کر لیا گیا اور پیشتر توجہ جنگی امور کی تکمیل پر دی گئی۔
شام کا حال بھی عراق سے مختلف نہ تھا۔ شورائی نظام حکومت یہاں کے باشندوں کے لیے اسلام کی طرح بالکل نئی چیز تھا۔ فتوحات اسلامیہ کے وقت یہاں مطلق العنانی دور دورہ تھا۔ شہنشاہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا اور من مانی کرتا تھا۔ پادری اور راہب شہنشاہ کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے اور مطلق العنانی کو جائز ٹھہرانے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملاتے تھے۔ ایک طرف حکومت کے دباؤ دوسری طرف مذہبی پیشواؤں کے وعظ کے نتیجے میں عوام الناس اپنے فرماں رواؤں کو انتہائی تقدیس کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے تھے اور انہیں ان کے آگے سجدہ کرنے میں بھی باک نہ تھا۔ اسلامی فتوحات کے موقع پر جب انہوں نے ایسے نظام حکومت کا مشاہدہ کیا جس کی بنیاد عدل و انصاف اور شوریٰ پر تھی اور جہاں اس شاہی کروفر اور رعب و دبدبہ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جسے دیکھنے کے وہ صدیوں سے عادی تھے تو ان کے دل بے اختیار اسلام کی طرف مائل ہونے شروع ہوئے اور انہوں نے بڑی گرمجوشی سے مسلمانوں کا خیر مقدم کیا۔ اسلام کی طرف لوگوں کے اس میلان کے باعث مسلمانوں کی سلطنت بڑھتی ہی چلی گئی اور اس کے ڈانڈے ایک طرف ہندوستان اور دوسری طرف افریقہ سے جا ملے۔ مسلمان جہاں بھی گئے حق و صداقت، عدل و انصاف اور ایمان و صداقت کا علم لہراتے ہوئے گئے اور حریت و مساوات اور محبت و شفقت کے بیج ہر زمین میں بو دئیے۔
ابوبکرؓ کو اتنی مہلت نہ مل سکی کہ وہ عرب اور دوسرے مفتوحہ علاقے میں اسلامی نظام حکومت کاملاً رائج کر سکتے۔ ان دنوں اس سلسلے میں جو کام ہوا وہ ابتدائی نوعیت کا تھا۔ بعد میں آنے والے خلفاء کے عہد میں سلطنت نے جس طرح منظم صورت اختیار کر لی تھی اور جس طرح باقاعدہ محکموں کا قیام عمل میں آ چکا تھا اس طرح ابوبکرؓ کے عہد میں نہ تھا۔ ان کے عہد میں نہ حکومت نے باقاعدہ تنظیمی شکل اختیار کی تھی اور نہ مختلف محکمے قائم ہوئے تھے۔
اس کے دو طبعی سبب تھے:
اول یہ کہ ابوبکرؓ کا عہد پچھلے تمام زمانوں سے مختلف تھا اور انہیں بالکل نئے سرے سے ایسے وقت میں ایک حکومت کی تشکیل کرنی پڑی تھی۔ جب پچھلی تہذیبیں دم توڑ چکی تھیں اور ان کی جگہ ایک نئی تہذیب نے لے لی تھی۔ عقائد کے لحاظ سے ایک انقلاب آ چکا تھا اور جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا تھا۔ فکر و نظر کے انداز بدل چکے تھے اور معاشرے میں زبردست تبدیلی آ چکی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں قلیل وقفے کے اندر ایک بالکل نیا نظام حکومت رائج کرنا کس قدر دشوار امر تھا۔
منظم حکومت عمل میں نہ آنے کا دوسرا سبب یہ تھا کہ وہ زمانہ حرب و پیکار کا تھا۔ ابوبکرؓ کی حکومت عسکری حکومت کہلانے کی زیادہ مستحق تھی۔ جنگ و جدل کے مواقع پر مقررہ نظم و نسق کا قیام تک ناممکن ہوتا ہے چونکہ ایسے علاقے میں ایک منظم حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکے جہاں اسلام سے قبل نظم و نسق کا وجود ہی نہ تھا۔
خلافت کے بعد ابوبکرؓ کوسب سے پہلے مرتدین کا سامنا کرنا پڑا اور پہلا سال ان کی بغاوتیں فر وکرنے میں گزر گیا۔ ابھی مرتدین سے جنگوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ایرانیوں سے جھڑپیں شروع ہو گئیں اور ابوبکرؓ کی توجہ عراق کی طرف منعطف ہو گئی۔ عراق میں کامل امن و امان نہ ہوا تھا کہ شام پر چڑھائی کا مسئلہ در پیش ہو گیا۔ اس صورت میں نظام حکومت وسیع بنیادوں پر قائم کرنا اور اس کی تفاصیل طے کرنا ناممکن تھا۔ اس وقت ابوبکرؓ کے سامنے دو بڑے مقصد تھے اور انہیں کی تکمیل میں وہ ہمہ تن مشغول رہتے تھے۔ اول مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر کے انہیں دشمن کے مقابلے کے لیے تیار کرنا، دوم دشمن پر فتح حاصل کر کے وسیع اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنا۔
ابوبکرؓ کی عسکری حکومت کا نظام اس بدوی طریق کے زیادہ قریب تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے بھی پہلے قبائل عرب میں رائج تھا۔ اس وقت حکومت کے پاس کوئی منظم لشکر موجود نہ تھا بلکہ ہر شخص اپنے طور پر جنگی خدمات کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا تھا۔ جب طبل جنگ پر چوٹ پڑتی اور لڑائی کا اعلان کر دیا جاتا توقبائل ہتھیار لے کر نکل پڑتے اور دشمن کی جانب کوچ کر دیتے۔ ہر قبیلے کا سردار ہی اپنے قبیلے کی قیادت کے فرائض انجام دیتا تھا۔ ان کی عورتیں بھی انہیں ہمت دلانے اور جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے ساتھ ہوتی تھیں۔ سامان رسد اور اسلحہ کے لیے وہ مرکزی حکومت کی طرف نہ دیکھتے تھے بلکہ خود ہی ان چیزوں کا انتظام کرتے تھے۔ حکومت کی طرف سے انہیں تنخواہ بھی ادا نہ کی جاتی تھی بلکہ وہ مال غنیمت ہی کو اپنا حق الخدمت سمجھتے تھے۔
میدان جنگ میں جو مال غنیمت حاصل ہوتا تھا اس کا 4/5 حصہ جنگ میں حصہ لینے والوں کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا تھا اور پانچواں حصہ خلیفہ کی خدمت میں دار الحکومت ارسال کر دیا جاتا تھا جسے وہ بیت المال میں جمع کر دیتا تھا۔ خمس کے ذریعے سے سلطنت کے معمولی مصارف پورے کیے جاتے تھے اور مدینہ کے مفلس و قلاش اور محتاج لوگوں کی امداد کی جاتی تھی۔ ابوبکرؓ کی خواہش تھی کہ جونہی خمس مدینہ پہنچے اسے تقسیم کر دیا جائے اور ایک درہم بھی آئندہ کے لیے اٹھا نہ رکھا جائے۔ بعض لوگوں نے ان کے سامنے تجویز پیش کی کہ بیت المال پر پہرے دار مقرر کیے جائیں لیکن انہوں نے یہ تجویز نامنظور کر دی کیونکہ بیت المال میں کچھ بچتا ہی نہ تھا جس کی حفاظت کے لیے پہرے دار مقرر کیے جاتے۔

ابوبکرؓ کی حکومت کا نظام نہایت سادہ اور بدویانہ طرز کا تھا۔ اپنے عہد کی منظم او رمتمدن سلطنتوں کا رنگ انہوں نے بالکل قبول نہ کیا۔ عہد رسالت سے اتصال کے باعث ان کا عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے بڑی حد تک مشابہ ہے۔ ابوبکرؓ بھولے سے بھی وہ کام نہ کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند کرتے تھے اور وہ کام کرنا سعادت سمجھتے تھے جو آپ نے کیا تھا لیکن وہ جامد مقامدین کی طرح نہ تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نمونہ اختیار کرنے کی وجہ سے ان کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھل چکا تھا۔ یہی اجتہاد تھا جس کے باعث اللہ نے ان کے ذریعے سے عراق اور شام فتح کرائے اور ان کے ہاتھ سے ایسی متحدہ سلطنت کی بنیاد رکھوائی جس کا دستور العمل احکام الٰہی اور شوریٰ پر مبنی تھا۔ وہ افراط و تفریط سے ہمیشہ پاک اور اللہ کے نور سے حصہ لے کر ہمیشہ صراط مستقیم پر گامزن رہے۔ یہ خیال ہر وقت ان کے دل میں جاگزیں رہتا تھا کہ جہاں وہ بندوں کے سامنے جواب دہ ہیں وہاں اللہ کے سامنے بھی جواب دہ ہیں او روہ قیامت کے دن ان سے ان کے تمام اعمال کا حساب لے گا۔ اللہ اور بندوں کے ساتھ جواب دہی کا یہی تصور تھا جس نے ہمیشہ آپ کو صراط مستقیم پر گامزن کیے رکھا اور ان کا ایک قدم ایک لمحے کے لیے بھی جادہ استقامت سے ہٹنے نہ پایا۔
ابوبکرؓ کے بعد اسلامی حکومت مختلف ادوار میں سے گزرتی رہی۔ عمرؓ بن خطاب نے ایرانی اور رومی سلطنتوں کا نظام حکومت سامنے رکھ کر مختلف شعبوں کی تشکیل کی لیکن کتاب اللہ اور اس کی مقررہ حدود سے مطلق تجاوز نہ کیا۔ عثمانؓ اور علیؓ کے عہد میں عمرؓ کا مقررہ طرز حکومت ہی جاری رہا۔ خلافت راشدہ کے بعد جب سلطنت امویوں کے ہاتھ میں آئی تو شورائی طرز حکومت کی جگہ موروثی بادشاہی نے لے لی۔ عباسیوں کے زمانے میں بھی موروثی بادشاہی کا سلسلہ قائم رہا۔ عباسیوں کے عہد میں سلطنت پر اہل روم اور اہل ایران کا اثر اس قدر بڑھ گیا کہ خلفاء ان کے ہاتھوں میں بے بس ہو کر رہ گئے۔ا یران اور روم کی مکمل فتح عمرؓ اور عثمانؓ کے عہد میں ہوئی تھی۔ لیکن اس وقت سلطنت پر عجمی باشندوں کا ثر بہت کم تھا۔ امویوں کے عہد میں ان کا اثر قدرے بڑھا مگر سلطنت عربی رنگ میں رنگی رہی۔ عباسیوں نے چونکہ خلافت اہل ایران کی مد دسے حاصل کی تھی۔ اس لیے ان کے عہد میں ان لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا اور آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ خلفاء ان کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلیاں بن کر رہ گئے۔
اس اثناء میں علماء اسلام، جن میں اکثریت غیر عربوں کی تھی، حکومت کے لیے قواعد اور تفاصیل مرتب کرنے میں مصروف رہے۔ ان علماء میں اکثر اختلاف ہو جاتا تھا جو بعض اوقات بڑھتے بڑھتے فساد اور شورش کی صورت اختیار کر لیتا تھا اور حاکم وقت کو سختی سے اسے فرو کرنا پڑتا تھا۔ کتنا بڑا فرق تھا ابوبکرؓ کی اور امویوں اور عباسیوں کی حکومتوں میں۔ اول الذکر حکومت بالکل سادہ تھی لیکن اس کی وجہ سے ایک دن کے لیے بھی ملک کے امن و امان میں خلل نہ پڑا۔ موخر الذکر حکومتیں شان و شوکت کے لحاظ سے جواب نہ رکھتی تھی، بڑے بڑے علماء و فضلاء حکومت کا آئین تیار کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن اندرونی بغاوتوں نے ان سلطنتوں کو ایک دن کے لیے چین سے نہ بیٹھنے دیا اور یہ ہمیشہ داخلی جھگڑوں اور خانہ جنگیوں ہی میں مصروف رہیں۔
ابوبکرؓ کا ایمان تھا کہ جس طرح ہمیں ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دہ ہونا پڑے گا اسی طرح امور سلطنت کی انجام دہی کے سلسلے میں وہ بندوں کے سامنے بھی جواب دہ ہیں۔ اللہ اور بندوں کی اسی جواب دہی کے ڈر سے وہ جب بھی کسی اہم کام میں ہاتھ ڈالتے اللہ کے احکام کو پیش نظر رکھتے اور لوگوں کے سامنے وہ معاملہ رکھ کر ان سے بھی مشورہ لیتے۔ اسی طرح جب کوئی معاملہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا تو جب تک اس کے بارے میں خوب غور و فکر نہ کر لیتے اور اس کے نتائج و عواقب کو اچھی طرح جانچ نہ لیتے فیصلہ نہ فرماتے۔ مرض الموت میں بھی ان کا طرز عمل یہی رہا او ر وہ برابر مسلمانوں کی آئندہ فلاح و بہبود کے طریقوں پر غور فرماتے رہے۔ اسی دوران میں مثنیٰ شیبانی عراق سے مدینہ آئے اور باریابی کی اجازت چاہی تو انہوں نے باوجود حد درجہ ضعف و نقاہت کے انہیں اپنے پاس بلوا لیا اور بڑے غور سے ان کی معروضات سنیں۔ اسی وقت عمرؓ کو حکم دیا کہ شام ہونے سے پیشتر مثنیٰ کی مدد کے لیے مسلمانوں کا لشکر عراق روانہ کر دیا جائے۔ غرض اس طرح ابوبکرؓ زندگی کے آخری سانس تک اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں مصروف رہے۔

ابوبکرؓ کا قیام جس مکان میں تھا وہ بہت معمولی اور دیہاتی طرز کا تھا ۔ اگر وہ چاہتے تو خلافت کے بعد اس کی حالت درست کر سکتے تھے لیکن خلافت کے پورے عہد میں مکان جوں کا توں رہا اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ آئی۔ اسی طرح مدینہ کا مکان بدستور پہلی ہیئت پر قائم رہا۔ خلافت کے بعد چھ مہینے تک وہ روزانہ پیدل سخ سے مدینہ آتے تھے اور شاذ و نادر ہی کبھی گھوڑا استعمال کرتے تھے۔ خلافت سے پہلے وہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ جب خلافت کا کام بڑھا اور سلطنت کی ذمہ داریاں زیادہ ہوئیں تو تجارت کے لیے وقت دینا مشکل ہو گیا۔ اس لیے انہوں نے لوگوں سے فرمایا کہ انصرام سلطنت اور تجارت کا کام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا۔ چونکہ رعایا کی دیکھ بھال اور اس کی خبر گیری تجارت سے زیادہ ضروری ہے اس لیے میرے اہل و عیال کے واسطے اتنا وظیفہ مقرر کر دیا گیا جس سے ان کا اور ان کے اہل و عیال کا گزارہ چل سکے۔ لیکن جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو حکم دیا، جو وظیفہ میں نے بیت المال سے لیا ہے وہ سارے کا سارا واپس کر دو، اس کی ادائی کے لیے میری فلاں زمین بیچ دی جائے اور آج تک میں نے مسلمانوں کا جو مال اپنے اوپر خرچ کیا ہے اس زمین کو فروخت کر کے وہ پوری کی پوری رقم ادا کر دی جائے۔ چنانچہ جب ان کی وفات کے بعد عمرؓ خلیفہ ہوئے اور وہ رقم ان کے پاس پہنچی تو وہ رو پڑے اور کہا:
ابوبکرؓ! تم نے اپنے جانشین کے سر پر بہت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے۔
جو شخص ان اعلیٰ صفات اور خصائل کا مال ہو اسے آخر کس چیز کا ڈر ہو سکتا تھا اور کس شخص کی مجال تھی کہ ان پر زبان طعن دراز کرتا۔ تمام مسلمانوں بلکہ سارے عرب میں ان کی عقل و خرد ، اصابت رائے، صدق مقال ، ایمان و اخلاص اور قربانی و ایثار کے بے نظیر جذبے کی وجہ سے ان کا بیحد احترام کیا جاتا تھا۔ اگرچہ ان صفات حسنہ سے ان کی زندگی کا کوئی بھی دور خالی نہ رہا لیکن ان کا اظہار جس طرح خلافت کی ذمہ داریاں تفویض ہونے کے بعد ہوا پہلے نہ ہو سکا۔ انہیں باتوں کو دیکھتے ہوئے کسی بھی شخص نے ان بلند مقاصد کے بارے میں شک نہ کیا اور کسی بھی جانب سے ان کے احکام کی بجا آوری میں کسی قسم کے تردد کا اظہار نہ کیا گیا۔

عُمال خلافتِ صدیقی

حضرت ابوبکرصدیقؓ کے عہدِ خلافت میں امین الملت حضرت ابو عبیدؓہ بن الجراح بیت المال کے افسر اورمہتمم تھے،محکمہ قضا حضرت فاروق اعظمؓ کے سپرد تھا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عثمان غنی کو کتابت اور دفتر کا کام سپرد تھا، ان حضرات میں سے جب کوئی موجود نہ ہوتا تو دوسرا جو کوئی موجود ہوتا اس کام کو انجام دے لیتا تھا ،مکہ معظمہ میں حضرت عتابؓ بن اسید عامل تھے،جن کا انتقال اُسی روز ہوا جس روز حضرت ابوبکرؓ نے وفات پائی،طائف کے عامل حضرت عثمان بن العاصؓ تھے،صنعا میں مہاجربن اُمیہؓ اورحضرت موت میں زیاد بن لبیدؓ عامل تھے،صوبہ غولان میں یعلیٰ بن اُمیہؓ ،یمن میں ابو موسیٰ اشعریؓ،جند میں معاذ بن جبلؓ ،بحرین میں علاء بن حضرمیؓ،دومۃ الجندل میں عیاض بن غنمؓ،عراق میں مثنیٰ بن حارثؓ عامل یا گور نر کے عہدے پر مقرر تھے،ابو عبیدہؓ بن الجراح آخر میں سپہ سالاری کی خدمت میں مامور ہوکر شام کی طرف بھیجے گئے تھے،یزید بن ابی سفیانؓ،عمرو بن العاصؓ،شرجیلؓ بن حسنہ بھی سپہ سالاری کی خدمات پر ملک شام میں مصروف تھے ،خالد بن ولید خلافت صدیقی میں سپہ سالارِ اعظم کے عہدے پر فائز اورخلافتِ صدیقی سے وہی نسبت رکھتے تھے جو رستم کو کیکاؤس وکیخسرو کی سلطنت سے تھی۔
اولاد وازواج
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی پہلی بیوی قتیلہ بنت عبدالعزیر ی تھی،جس سے عبداللہ بن ابی بکر اوراُن کے بعد اسماء بنت ابی بکرؓ (عبداللہ بن زبیرؓ کی والدہ) پیدا ہوئے،دوسری بیوی آپ کی اُم رومان تھیں،ان کے بطن سے عبدالرحمن بن ابی بکرؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ پیدا ہوئے،جب حضرت ابوبکر صدیق مسلمان ہوئے،توپہلی بیوی کے مسلمان ہونے کے بعد بھی آپ نے دو نکاح اور کئے ایک اسماء بنتِ عمیسؓ کے ساتھ جو جعفر بن ابی طالب کی بیوہ تھیں، اُن کے بطن سے محمد بن ابی بکرؓ پیدا ہوئے،دوسرا نکاح حبیبہ بنتِ خارجہ انصاریہؓ سے جو قبیلہ خزرج سے تھیں ،ان کے بطن سے ایک بیٹی اُم کلثوم آپ کی وفات کے بعد پیدا ہوئیں۔

مرض الموت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے وظیفے کا بھی خیال آیا۔ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر ہدایت کی کہ میں نے دور خلافت میں بیت المال سے جو رقم لی تھی اسے واپس کر دیا جائے اور اس غرض سے میری فلاں زمین بیچ کر اس سے حاصل شدہ رقم بیت المال میں جمع کرا دی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب کی وصیت کے مطابق ان کے متعلقین نے بیت المال سے لی ہوئی رقم عمرؓ کو لوٹائی تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اللہ ابوبکرؓ پر رحم فرمائے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد کسی بھی شخص کو ان پر اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ نہ آئے۔
وفات کے وقت ابوبکرؓ کے پاس ایک بھی دینار یا درہم نہ تھا۔ انہوں نے ترکے میں ایک غلام، ایک اونٹ اور ایک مخملی چادر چھوڑی۔ اس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد ان چیزوں کو عمرؓ کے پاس بھیج دیا جائے۔ وصیت کے مطابق جب یہ چیزیں عمرؓ کے پاس پہنچیں تو وہ رو پڑے اور کہا:
ابوبکرؓ نے اپنے جانشین پر بہت سخت بوجھ ڈال دیا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔