Tuesday 26 July 2016

ولادت، جوانی کے حالات

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی سے 40 برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت اور بچپن کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرو بن عاص کی زبانی ایک روایت نقل کی ہے۔ کہ میں چند احباب کے ساتھ ایک جلسہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتہً غُل اٹھا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ خطاب کے گھر بیٹا ہوا ہے۔ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیدا ہونے پر غیر معمولی خوشی کی گئی تھی۔ ان کے سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں اور کیونکر معلوم ہوتے۔ اس وقت کس کو خیال تھا کہ یہ جوان آگے چل کر فاروق اعظم ہونے والا ہے۔ تاہم نہایت تشخیص اور تلاش سے کچھ کچھ حالات بہم پہنچے جن کا نقل کرنا ناموزوں نہ ہو گا۔

سن رشد پہنچ کر ان کے باپ خطاب نے ان کو جو خدمت سپرد کی وہ اونٹوں کو چرانا تھا۔ یہ شغل اگرچہ عرب میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قومی شعار تھا لیکن خطاب نہایت بے رحمی کے ساتھ ان سے سلوک کرتے۔ تمام دن اونٹ چرانے کا کام لیتے اور جب کبھی تھک کر دم لینا چاہتے تو سزا دیتے۔ جس میدان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ مصیبت انگیز خدمات انجام دینی پڑتی تھی۔ اس کا نام ضجنان تھا۔ جو مکہ معظمہ کے قریب قدید سے 10 میل کے فاصلہ پر ہے۔ خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو ان نہایت عبرت ہوئی، آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ اللہ اکبر ایک وہ زمانہ تھا کہ میں نمدہ کا کرتہ پہنے ہوئے اونٹ چرایا کرتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تو باپ کے ہاتھ سے مار کھاتا۔ آج یہ دن ہے کہ خدا کے سوا میرے اوپر کوئی حاکم نہیں۔ (طبقات ابن سعد)۔

شباب کا آغاز ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً معمول تھے ، عرب میں اس وقت جن چیزوں کی تعلیم دی جاتی تھی اور جو لازمہً شرافت خیال کی جاتی تھیں، نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری تھی، نسب دانی کا فن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں موروثی چلا آتا تھا، جاحظ نے کتاب البیان والبتیین میں بہ صریح لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے باپ اور دادا نفیل تینوں بڑے نساب تھے (طبقات ابن سعد، مطبوعہ مصر ص 117-122)، غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں جیسا کہ ہم ابھی لکھ آئے ہیں سفارت اور منافرۃ یہ دونوں منصب موروثی چلے آتے تھے اور ان کے انجام دینے کے لیے انساب کا جاننا سب سے مقدم امر تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انساب کا فن اپنے باپ سے سیکھا۔ جاحظ نے تصریح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو ہمیشہ اپنے باپ خطاب کا حوالہ دیتے تھے۔

پہلوانی اور کشتی کے فن میں بھی کمال حاصل تھا، یہاں تک کہ عکاظ کے دنگل میں معرکے کی کشتیاں لڑتے تھے ، عکاظ جبل عرفات کے پاس ایک مقام تھا جہاں سال کے سال اس غرض سے میلہ لگتا تھا کہ عرب کے تمام اہل فن جمع ہو کر اپنے کمالات کے جوہر دکھاتے تھے اس لیے وہی لوگ یہاں پیش ہو سکتے تھے جو کسی فن میں کمال رکھتے تھے۔ نابغہ، زبیانی، حسان بن ثابت، قیس بن ساعدہ، خنساء جن کو شاعری اور ملکۂ تقریر میں تمام عرب مانتا تھا، اسی تعلیم گاہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت علامہ بلاذری نے کتاب الاشراف میں با سند روایت نقل کی ہے کہ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فن میں پورا کمال حاصل کیا تھا۔

شہسواری کی نسبت ان کا کمال عموماً مسلم ہے۔ جاحظ نے لکھا ہے کہ وہ گھوڑے پر اچھل کر سوار ہوتے تھے اور اس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جلد بدن ہو جاتے تھے۔ قوت تقریر کی نسبت اگرچہ کوئی مصرح شہادت موجود نہیں لیکن یہ امر تمام مؤرخین نے باتفاق لکھا ہے کہ اسلام لانے سے پہلے قریش نے ان کو سفارت کا منصب دے دیا تھا۔ اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میں کمال رکھتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شاعری کا نہایت عمدہ مذاق رکھتے تھے اور تمام مشہور شعراء کے چیدہ اشعار ان کو یاد تھے اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ یہ مذاق انہوں نے جاہلیت میں ہی عکاظ کی تعلیم گاہ میں حاصل کیا ہو گا۔ کیونکہ اسلام لانے کے بعد وہ مذہبی اشغال میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اس قسم کے چرچے بھی چنداں پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ اور یہ وہ خصوصیت تھی جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ علامہ بلاذری نے بہ سند لکھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو قریش کے تمام قبیلے میں 17 آدمی تھے ، جو لکھنا جانتے تھے ، ان میں ایک عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ (فتوح البلدان بلاذری )۔

ان فنون سے فارغ ہو کر وہ فکر معاش میں مصروف ہوئے ، عرب میں معاش کا ذریعہ زیادہ تر تجارت تھا۔ اس لئے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا۔ اور یہی شغل ان کی بہت بڑی ترقیوں کا سبب ہوا، وہ تجارت کی غرض سے دور دور ملکوں میں جاتے تھے۔ اور بڑے بڑے لوگوں سے ملتے تھے۔ خود داری، بلند حوصلگی، تجربہ کاری، معاملہ دانی، یہ تمام اوصاف جو ان میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہو گئے تھے ، سب انہی سفروں کی بدولت تھے ، ان سفروں کے حالات اگرچہ نہایت دلچسپ اور نتیجہ خیز ہوں گے لیکن افسوس ہے کہ کسی مؤرخ نے ان پر توجہ نہیں کی۔ علامہ مسعودی نے اپنی مشہور کتاب " مروج الذہب" میں صرف اس قدر لکھا ہے کہ :
"عمر بن خطاب نے جاہلیت کے زمانے میں عراق اور شام کے جو سفر کئے ان سفروں میں جس طرح وہ عرب و عجم کے بادشاہوں سے ملے اس کے متعلق بہت سے واقعات ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب اخبار الزمان اور کتاب الاوسط میں لکھا ہے۔ "
علامہ موصوف نے جن کتابوں کا حوالہ دیا اگرچہ وہ فن تاریخ کی جان ہیں۔ لیکن قوم کی بد مذاقی سے مدت ہوئی ناپید ہو چکیں۔علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ میں نے صرف اس غرض سے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان حالات کا پتہ لگ سکے۔ قسطنطنیہ کے تمام کتب خانے چھان مارے۔ لیکن کچھ کامیابی نہیں ہوئی۔ محدث بن عساکر نے " تاریخ دمشق" میں جس کی بعض جلدیں میری نگاہ سے گزریں ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سفر کے بعض واقعات لکھے ہیں۔ لیکن ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔
مختصر یہ کہ عکاظ کے معرکوں اور تجارت کے تجربوں نے ان کو تمام عرب میں روشناس کرا دیا اور لوگوں پر ان کی قابلیت کے جوہر روز برزر کھلتے گئے۔ یہاں تک کہ قریش نے ان کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا۔ جب کوئی پرخطر معاملہ پیش آتا تو انہی کو سفیر بنا کر بھیجتے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔