Tuesday 26 July 2016

غزوہَ بدر - 2 ہجری

سن 1 ہجری (623 عیسوی) سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعات اور حالات در حقیقت سیرۃ نبوی کے اجزاء ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جو لڑائیاں پیش آئیں غیر قوموں سے جو معاہدات عمل میں آئے وقتاً فوقتاً جو انتظامات جاری کئے گئے ، اشاعت اسلام کے لئے جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان میں سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شرکت کے بغیر انجام پایا ہو، لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر تمام واقعات پوری تفصیل کے ساتھ لکھے جائیں تو کتاب کا یہ حصہ سیرۃ نبوی سے بدل جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ کارنامے گو کتنے ہی اہم ہوں لیکن چونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلسلۂ حالات سے وابستہ ہیں، اس لئے جب قلمبند کئے جائیں گے تو تمام واقعات کا عنوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نامی قرار پائے گا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارنامے ضمناً ذکر میں آئیں گے۔ اس لئے ہم نے مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ یہ واقعات نہایت اختصار کے ساتھ لکھے جائیں۔ اور جن واقعات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاص تعلق ہے ان کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا جائے۔ اس صورت میں اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارنامے نمایاں ہو کر نظر نہ آئیں گے۔ کیونکہ جب تک کسی واقعہ کی پوری تصویر نہ دکھائی جائے اس کی اصل شان قائم نہیں رہتی تاہم اس کے سوا اور کوئی تدبیر نہ تھی۔
اب ہم اختصار کے ساتھ ان واقعات کو لکھتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب مدینہ کو ہجرت کی تو قریش کو خیال ہوا کہ اگر مسلمانوں کا جلد استیصال نہ کر دیا جائے تو وہ زور پکڑ جائیں گے۔ اس خیال سے انہوں نے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کیں۔ تاہم ہجرت کے دوسرے سال تک کوئی قابل ذکر معرکہ نہیں ہوا، صرف اس قدر ہوا کہ دو تین دفعہ قریش چھوٹے چھوٹے گروہ کے ساتھ مدینہ کی طرف بڑھے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر پا کر ان کو روکنے کے لئے تھوڑی تھوڑی سی فوجیں بھیجیں اور وہ وہیں رک گئے۔

غزوہ بدر سن 2 ہجری (624 عیسوی)
2 ہجری (624 عیسوی) میں بدر کا واقعہ پیش آیا جو نہایت مشہور معرکہ ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ اس معرکہ میں رائے و تدبیر، جانبازی و پامردگی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست و بازو رہے۔ لیکن ان کی شرکت کی مخصوص خصوصیات یہ ہیں :
(1) قریش کے تمام قبائل اس معرکہ میں آئے۔ لیکن بنو عدی یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبیلے میں سے ایک متنفس بھی شریک جنگ نہیں ہوا۔ (طبری کبیر میں ہے : ولم یکن بقی من قریش بطن الانفر منھم نا سالاناس الا بنی عدی بن کعب لم یخرج رجل واحد )۔ اور یہ امر جہاں تک قیاس کیا جا سکتا ہے صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رعب و ذات کا اثر تھا۔
(2)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ان کے قبیلے اور حلفاء کے 12 آدمی شریک جنگ تھے۔ جن کے نام یہ ہیں : زید، عبد اللہ بن سراقہ، عمرو بن سراقہ، واقد بن عبد اللہ، خولی بن ابی خولی، عامر بن ربیعہ، عامر بن بکیر، خالد بن بکیر، ایاس بن بکیر، عاقل بن بکیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
(3)سب سے پہلے جو شخص اس معرکہ میں شہید ہوا وہ مھجع حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام تھا۔ (ابن ہشام )۔
(4) عاصی بن ہشام بن مغیرہ جو قریش کا ایک معزز سردار اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ماموں تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ (ابن حریر و استیعاب)۔
یہ بات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصیات میں شمار کی گئی ہے کہ اسلام کے معاملات میں قرابت اور محبت کا اثر ان پر کبھی غالب نہیں آ سکتا تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ اس کی پہلی مثال ہے۔
اس معرکہ میں مخالف کی فوج سے جو لوگ زندہ گرفتار ہوئے ان کی تعداد کم و بیش 70 تھی۔ اور ان میں اکثر قریش کے بڑے بڑے سردار تھے۔
اس بناء پر یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام صحابہ سے رائے لی۔ اور لوگوں نے مختلف رائیں دیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ اپنے ہی بھائی بند ہیں، اس لئے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اختلاف کیا اور کہا کہ اسلام کے معاملے میں رشتہ اور قرابت کو دخل نہیں۔ ان سب کو قتل کر دینا چاہیے۔ اور اسطرح کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے عزیز کو آپ قتل کر دے۔ علی عقیل کی گردن ماریں، حمزہ عباس کا سر اڑائیں، اور فلاں شخص جو میرا عزیز ہے اس کا کام میں تمام کروں (طبری 5)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شان رحمت کے اقتضاء سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پسند کی۔ اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
ما کان لنبی ان یکون لہ اسرٰی حتیٰ یثخن فی الارض الخ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔