ابوبکرؓ کی حکومت جزیرہ نمائے عرب تک محدود نہ تھی بلکہ عرب سے بھی باہر نکل کر دور دور تک پھیل گئی تھی اور وہ اسلامی سلطنت کا قیام عرب کے علاوہ عراق اور شام میں بھی عمل پذیر ہو چکا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیر عربی علاقوں میں اسلامی سلطنت کا قیام محض چند حملوں کا نتیجہ تھا جن میں اتفاق سے مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہو گئی یا اس انقلاب نے، جس کی نشان دہی ہم پہلے کر آئے ہیں، ان فتوحات کے لیے راستہ صاف کیا اور اس طرح مسلمانوں کو دنیا کے ایک وسیع خطے میں اسلامی سلطنت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کا موقع مل گیا؟
اسلام کی ابتدائی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے کسی شخص سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اسلامی افواج کی کامیابی کو وقتی اور اتفاقی قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ فتوحات و حوادث کے ایک لمبے سلسلے کی کڑی ہیں۔ اسلام نے دنیا میں آ کر جو انقلاب پیدا کیا اس کا برپا ہونا لابدی تھا۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات ایک انقلاب پذیر قوت اپنے اندر رکھتی تھیں اور نا ممکن تھا کہ یہ قوت اپنا اثر دکھائے بغیر رہتی۔
اسلام کو طاقت و قوت بخشنے والے عوامل میں عقیدے کی حریت کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ اسلام آزادی ضمیر کا سب سے بڑا علم بردار ہے اور دین کے معاملے میں کسی شخص پر جبر کاروادار نہیں۔ گو اس کی دعوت ساری دنیا کے لیے عام ہے لیکن وہ کسی شخص کو اپنا عقیدہ بدلنے پر مجبور نہیں کرتا۔ ہاں، یہ امید ضرور رکھتا ہے کہ اس کی پیش کردہ تعلیمات پر لوگ غور کریں۔ اسے اطمینان ہے کہ جو لوگ سچے دل سے ان تعلیمات کا مطالعہ کریں گے ان کے لیے انہیں قبول کیے بغیر چارہ نہ ہو گا۔ کیونکہ وہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں اور عقل سلیم انہیں قبول کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر سکتی۔
جہاں اسلام آزادی ضمیر کا سب سے بڑا علم بردار ہے وہاں اسلام کے مخالف آزادی ضمیر کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر لوگوں کو عقائد و اعمال میں آزادی دے دی گئی اور انہیں اختیار دے دیا گیا کہ وہ جو مذہب اور طریقہ چاہیں اختیار کر لیں تو اسلام کی پاک تعلیم انہیں اپنی طرف کھینچ لے گی اور ان کے حق میں سوا نامرادی اور ناکامی کے اور کچھ نہ آئے گا۔
اسلام نے آزادی ضمیر کا جو اصول دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اس پر مسلمانوں نے پوری طرح عمل کر کے دکھا دیا۔ انہوں نے لاتعداد ممالک فتح کیے لیکن کسی شخص کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے جو شہر کو فتح کیا وہاں کے باشندوں کو کامل مذہبی آزادی دے دی۔ جو شخص بہ رضا و رغبت اسلام قبول کر لیتا اسے وہی حقوق مل جاتے جو دوسرے مسلمانوں کو ملے ہوئے تھے لیکن جو شخص اپنے آبائی مذہب پرقائم رہنا چاہتا اسے جزیہ اد اکرنا پڑتا تھا۔ جزیہ کوئی تاوان نہ تھا جو غیر مسلموں سے نفرت و حقارت کے باعث ان پر عائد کیا گیا ہو بلکہ اس کی حیثیت زکوٰۃ کی طرح ایک ٹیکس کی تھی جو سلطنت کی طرف سے ان کی حفاظت کے بدلے ان پر عائد کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اہل عراق اور اہل شام سے صلح کے جو معاہدات کیے گئے ان میں یہ صراحت کر دی گئی تھی کہ غیر مسلموں سے جزیہ صرف ان کے مال و جان کی حفاظت کے بدلے وصول کیا جائے گا۔ اور اسلامی حکومت ذمہ دار ہو گی کہ غیر مسلم اپنے اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کر سکیں اور دینی عبادات بے خوفی سے بجا لا سکیں۔ آج بھی کتب تاریخ میں جو معاہدات محفوظ ہیں ان میں اسلامی حکومت کی طرف سے غیر مسلموں کے گرجوں، کلیساؤں، معبدوں، مذہبی پیشواؤں اور راہبوں کی حفاظت کی شقیں موجود ہیں۔ اگر کبھی ایسی صورت حال پیش آ جاتی کہ مسلمان اپنے مواعید کی بجا آوری سے قاصر ہو جاتے تو نہ صرف آئندہ کے لیے جزیہ لینا بند کر دیا جاتا بلکہ پچھلی وصول کی ہوئی رقم بھی انہیں واپس کر دی جاتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیوں کے ہاتھوں قائم شدہ حکومت، جس کی بنیاد حریت و مساوات اور اخوت و محبت کے اصولوں پر قائم کی گئی تھی، رومی شہنشاہیت سے یکسر مختلف تھی اور آج کل کی جمہوریتیں بھی افادیت کے لحاظ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اسلامی سلطنت کا مقصد قطعاً نہ تھا کہ لوگوں کو عربوں کا مطیع و منقاد بنایا جائے اور انہیں رومیوں اور ایرانیوں کی غلامی سے نکال کر عربوں کی غلامی میں دے دیا جائے۔ اس کے برعکس اس کا اولیں مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو آزادی کی فضا میں سانس لینے کا موقع دیا جائے اور ان کے درمیان اخوت و مروت اور رحمت و شفقت کے ناقابل شکست رشتے پیدا کر دئیے جائیں۔ اسلامی سلطنت میں مفتوح اقوام کا درجہ فاتحین سے کسی طرح کم نہ تھا۔ مفتوح اقوام عربوں کی طرح تمام بنیادی حقوق سے بہرہ ور تھیں۔ جو شخص اسلام لے آتا تھا اس سے مسلمانوں کا سا برتاؤ کیا جاتا تھا اور جو شخص اپنے آبائی مذہب پر قائم رہنا چاہتا تھا اسے وہ تمام حقوق حاصل ہوتے تھے جو عرب کے دوسرے غیر مسلموں کو حاصل تھے۔ عرب فاتحین نے اپنے کسی بھی فعل سے یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ عربوں اور غیر عربوں میں تفریق کے حامی ہیں۔ اہل عراق اور اہل شام میں جو لوگ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے ان سے وہی سلوک کیا گیاجو نجران اور عرب کے دوسرے علاقوں کے عیسائیوں سے کیا جاتا تھا۔ بے شک مسلمان ان لوگوں میں اسلام کی تبلیغ اور ان پر اتمام حجت کرنے میں کوئی دقیقہ سعی فرو گزاشت نہ کرتے تھے لیکن اس کے باوجو داگر کوئی شخص ان کی دعوت پر کان نہ دھرتا اور اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتا تھا تو یہ خدائی فرمان ذہن میں رکھ کر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے تھے:
من اھتدی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیھا وما انا علیکم بوکیل۔
(جو شخص ہدایت قبول کرتا ہے اس کا فائدہ خود اسی کو پہنچے گا اور جو شخص گمراہی کے راستے پر گامزن رہنا چاہتا ہے اس کے نقصان کا ذمہ دار بھی وہ خود ہے۔ اے رسول ! ان لوگوں سے کہہ دو میرا کام صرف یہ ہے کہ تم لوگوں تک آواز پہنچا دوں، ماننا یا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔ تمہاری ہدایت اور گمراہی کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔