ایرانیوں کی جانب سے کسی قدر اطمینان ہوچکا تھا اوراُمید نہ تھی کہ اب جلد وہ مدینہ منورہ پر فوج کشی کے خواب دیکھیں گے،جس وقت عرب کے ہر ایک حصہ میں فتنہ ارتداد فرو ہوگیا اورایرانی خطرہ کی اہمیت بھی کسی عجلت کی متقاضی نہ رہی تو اب سب سے مقدم اورسب سے زیادہ اہم ملک شام کا انتظام اوراُس طرف سے رومی وغسا فی خطرہ کی روک تھام تھی،شرجیل بن عمرو غسانی بادشاہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کو شہید کردیا تھا، جس کے بعد جنگ موتہ ہوئی،پھر رومیوں اورغسانیوں نے مل کر مدینہ منورہ پر فوج کشی کی تیاریاں کیں،جس کا حال سُن کر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوج لے کر تبوک تک تشریف لے گئے،مگر اُس وقت تک عیسائی پورے طور پر اتنے بڑے عربی واسلامی لشکر کے مقابلہ کی جرأت نہ کرسکے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سرحد شام پر رعب ڈال کر واپس تشریف لے آئے،اس کے بعد پھر خبر پہنچی کہ سرحدِ شام پر فوجی تیاریاں ہورہی ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُسامہ بن زیدؓ کو روانہ کیا،جو بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سرحد شام کی طرف گئے اور جو مقابل ہوا اس کو شکست دے کر جلدی سے واپس چلے آئے،کیونکہ فتنہ ارتداد کا اندرون ملک میں خوب زور شور تھا، فتنہ ارتداد کی روک تھام کے لئے حضرت ابوبکرؓ نے جب گیارہ لشکر تیار کرکے روانہ کئے تو اُن میں سے ایک لشکر حضرت خالد بن ولیدؓ کو دے کر حکم دیا کہ تم سرحدِ شام کی طرف جاؤ،حضرت ابوبکرصدیقؓ بھی شامی خطرہ کو محسوس کئے ہوئے تھے اور انہوں نے فتنۂ ارتداد کے فرو کرنے میں شامی خطرہ کو بخوبی پیش نظر رکھا تھا، جب ارتداد سے اطمینان ہوگیا تو انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو تو عراق کی طرف متوجہ کردیا کہ ایرانی خطرہ کی طرف سے اطمینان حاصل ہوا اورملک عرب کے ہر حصہ میں ایلچی بھیج کر لڑائی کے لئے جنگی سپاہیوں کو ہر قبیلہ سے طلب کیا،مدعا اس سے یہ تھا کہ عرب کی متحدہ طاقت سے رومی ایرانی شہنشاہیوں کا مقابلہ کیا جائے تاکہ ہمیشہ کے لئے عیسائیوں اورمجوسیوں کے خطرہ سے عرب کو نجات مل جائے، دوسرے عرب کے جنگ جو قبائل جو خاموش بیٹھنے کے عادی نہ تھے اُن کو ہر حصہ ملک سے طلب کرکے غیر مسلم دشمنوں کے مقابلہ میں شام و عراق کی طرف بھیج دیا جائے تاکہ عرب کے اتحاد وقوت اوراسلام کی مرکزی قوت کے لئے کسی اندرونی فتنہ کا اندیشہ باقی نہ رہے،اندریں صورت کہا جاسکتا ہے کہ فتنہ ارتداد بھی اسلامی فتوحات کا ایک بہت بڑا سبب تھا اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کی تدبیررائے نے اسلامی عظمت وشوکت کی نشو ونما کے لئے وہ کام کیا جو ایک تجربہ کار اورہوشیار مالی اپنے باغیچہ کی سرسبزی کے لئے کرسکتا ہے۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ بہت تھوڑے سے آدمی تھے لیکن وہ راستے سے صدیقی ہدایت کے موافق جس قدر مسلمان ہوسکے اپنے ہمراہ لیتے گئے،خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا گیا تھا کہ جہاں تک ہوسکے مرتدین کو درست کرنا اور عیسائی لشکر مقابلہ پر آئے تو حتی الامکان جنگ چپاول سے کام لینا ،میدان داری اورجم کر مقابلہ کرنے سے پرہیز کرناا ایسا حکم دینے کی وجہ یہ تھی کہ صدیقِ اکبرؓ سب سے اول عرب کو قابو میں لانا چاہتے تھے اورجب تک فتنہ ارتداد کلی طور پر فرونہ ہوجائے اس وقت تک ہر قل و کسریٰ کی فوجوں سے لڑائی چھیڑنا مناسب نہ سمجھتے تھے،جس طرح دوسرے سرداران لشکر کے ساتھ دربار خلافت سے خط وکتابت جاری تھا، اسی طرح خالد بن ولیدؓ کی نقل وحرکت سے بھی صدیق اکبر ؓ باخبر تھے اوربرابر خالد بن ولید ؓ کے پاس مدینہ منورہ سے احکام پہنچتے رہتے تھے ۔
ہر قل نے اسلامی لشکر کے حدود شام میں موجود ہونے کی خبر سُن کر اول سرحدی قبائل اور سرحد ی رؤسا کو مقابلے کے لئے ابھارا،لیکن جب یہ چھوٹے چھوٹے رئیس اور عرب مستنصرہ کے قبائل اسلامی لشکر کے مقابلہ میں مغلوب ہوتے گئے،تو قیصر روم ہر قل نے ہامان نامی رومی لشکر عظیم کےساتھ آگے بڑھایا جب عیسائی اوراسلامی فوجوں کا مقابلہ ہوا توہامان کے لشکر کو شکست ہوئی اورمسلمانوں کے ہاتھ بہت سامالِ غنیمت آیا،اس شکست کا حال سن کر ہر قل خود سلطنت قسطنطنیہ سے روانہ ہوکر ملک شام میں آیا اورتمام فوجوں کو جمع کرکے لڑائی کا اہتمام اُس نے براہ راست اپنے ہاتھ میں لیا،خالد بن ولیدؓ کے خط سے یہ تمام کیفیت صدیق اکبرؓ کو معلوم ہوئی،جس کا ان کو پہلے سے اندازہ تھا، اتفاقا جس روز یہ خط مدینہ میں پہنچا ہے اسی روز عکرمہؓ بن ابی جہل اپنی مہم سے فارغ ہوکر مدینے میں پہنچے تھے ،ساتھ ہی ملک کے ہر حصہ سے لڑائی کے لئے آمادہ اورجہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار ہو ہو کر قبائل آنے شروع ہوگئے تھے، صدیق اکبرؓ رضی اللہ عنہ نے عکرمہؓ بن ابی جہل کو فوراً خالد بن ولیدؓ کی طرف روانہ کردیا اُن کے بعد عمرو بن العاصؓ کو ایک لشکر دے کر روانہ کیا کہ خالد بن ولیدؓ اوراُن کے ہمراہیوں کو ساتھ لئے ہوئے فلسطین کے راستے حملہ آور ہوں، اُن کے بعد آئے ہوئے قبائل کی ایک فوج مرتب کرکے یزید بن ابی سفیان کو سردار بنا کر روانہ کیا اورحکم دیا کہ تم دمشق کی طرف حملہ آور ہو،پھر ایک اور فوج ترتیب دے کر اُس کا سردار حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح کو بنایا اورحکم دیا کہ تم حمص کی جانب جاکر حملہ کرو، اسی عرصہ میں شرجیل ؓ بن حسنہ عراق کی طرف سے مدینہ منورہ میں تشریف لائے تھے،صدیق اکبرؓ نے ایک اور لشکر مرتب فرما کر اُس کا سردار شرجیلؓ بن حسنہ کو مقرر فرمادیا اورحکم دیا کہ تم اُردن کی جانب سے حملہ کرو،اس طرح صدیق اکبرؓ نے چار لشکر مرتب فرما کر چار مختلف راستوں سے ماہِ محرم ۱۳ ھ میں روانہ کئے کہ ملک شام پر حملہ آور ہوں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔