خالدؓ کے ان اچانک حملوں ااور قبائل کے ان کے مقابلے سے عاجز رہنے کی خبریں عراق بھر میں پھیل چکی تھیں اور صحرا میں رہنے والے تمام قبائل سخت خوف زدہ ہو چکے تھے۔ انہوںنے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور ان کی اطاعت قبول کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ خالدؓ نے اپنی فوجوں کے ہمراہ دریائے فرات کے ساتھ ساتھ شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ وہ جہاں بھی پہنچتے وہاں کے باشندے ان سے مصالحت کر لیتے اور ان کی اطاعت کرنے کا اقرار کرتے۔ آخر وہ فراض پہنچ گئے جہاں شام عراق اورالجزیرہ کی سرحدیں ملتی تھیں۔
فراض عراق اور شام کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ اگر عیاض بن غنم کی قسمت یاوری کرتی تو وہ ابتدا ہی سے دومتہ الجندل فتح کر لیتے تو غالباًخالدؓ یہاں تک نہ پہنچتے کیونکہ حضرت ابوبکرؓ کا منشاء سارے عراق اور شام کو فتح کرنے کا نہ تھاا۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان دونوں ملکوں کی سرحدوں پر جو عرب سے ملتی ہیں امن و امان قائم ہو جائے اور ان اطراف سے ایرانی اور رومی عرب پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔ لیکن اللہ کو یہی منطور تھا کہ یہ دووں مملکتیں کاملاً مسلمانوں کے قبضے میں آجائیں۔ اس لیے اس نے ایسے اسباب پید ا کر دیے کہ خالدؓ عراقی قباء کو مطیع کرنے کی غرض سے انتہائی شمال میں چلے گئے اور اس طرح مسلمانوں کے لیے بالائی جانب سے شام پر حملہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔ ایرانی سرحدات سے رومیوں پر حملہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔ ایرانی سرحدات سے رومیوں پر حملہ کا راستہ کھل جانا ای ایسا معجزہ تھا جس کا خیال حضرت ابوبکرؓ کو بھی نہ آ سکا اور یہ کارنامہ ایک ایسے شخص کے ہاتھو ں رونما ہوا تھا جس کی نظیر پیدا کرنے سے عرب اور عجم کی عورتیں واقعی عاجز تھیں۔
فراض میں خالدؓ کو کام ایک مہینے تک قیا م کرنا پڑا۔ یہاں بھی انہوں نے ایسی جرات اور عزم و استقلا ل کا مظاہرہ کیا کہ وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ وہ چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے۔ مشرقی جانب ایرانی تھے اور جو ان کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے مغربی جانب رومی تھے جن کا یہ خیال تھا یکہ اگر اس وقت خالدؓ اور اس کی معمات کو تباہ و برباد نہ کیا گیا تو پھر یہ سلات روکے نہ رکے گا۔ رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان صرف دریئاے فرات حائل تھا ۔ ان کے علاوہ چاروں طرف بدوی قبائل آباد تھے۔ جن کے بڑے بڑے سرداروں کو قتل کر کے خالدؓ نے ان کے دلوں میں انتقام کی ایک نہ ختم ہونے والی آگ بھڑکا دی تھی۔ اس نازک صورت حال سے خالد لاعلم نہ تھے۔ اگر وہ چاہتے تو حیرہ واپس آ کراپنی قوت و طاقت میں اضافہ کرتے ہوئے پھر رومیوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہو سکتے تھے۔ انہوں نے ایساا نہ کیا کیونکہ دشمن کو سامنے دیکھ کر خالدؓ کے لیے صبر کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔ ان کی نظروں میں کیا ایرانی اور کیا اہ بادیہ سب حقیرتھے۔ ان کی عظیم الشان فوجوں کو نہ وہ پہلے کبھی خاطر میں لائے تھے اور نہ آئندہ خاطر میں لانے کو تیار تھے۔ اس لیے وہ بڑ ے اطمینان سے لڑائی کی تیاریوں میں مشغول تھے۔
ادھر رومیوں کو بھی خالدؓ سے واسطہ نہ پڑا تھا۔ اور وہ ان کے حملے کی شدت سے ناواقف تھے۔ جب اسلامی فوجیں فراض میں اکٹھی ہوئیں تو اور برابر ایک مہینے تک ان کے سامنے ڈیرے ڈلے رہیں تو انہیں بہت جوش آیا اور انہوںنے اپنے قریب کی ایرانی چوکیوں سے مدد مانگی۔ ایرانیوںنے بڑی خوشی سے رومیوں کی مدد کی کیونکہ مسلمانوں نے انہیں ذلیل و رسوا کر دیا تھا اوران کی شان و شوکت کو تباہ کر دیا تھال۔ اوران کا غرور خاک میں ملا دیا تھا ۔ ایرانیوں کے علاوہ تغلب ایاد اورنمر یک عربی النسل قبائل بھ رویوں کی پوری پوری مدد کی کیونکہ وہ اپنے رئوسا اور سر برآوردہ اشخاص کے قتل کو نہ بھولے تھے ۔ چنانچہ رومیوں‘ ایرانیوں اور عربی النسل قبائل کا ایک لشکر جرارمسلمانوں سے لڑنے کے لیے روانہ ہوا۔ دریائے فرات پر پہنچ کر انہوں نے مسلمانوں کو کہلا بھیجا کہ:
’’تم دریا کو عبور کر کے ہمارے پاس آئو گے یا ہم دریا کو عبور کر کے تمہاری طرف آئیں؟‘‘
خالد نے جواب دیا:
’’تم ہماری طرف آ جائو‘‘۔
چنانچہ دشمن کا لشکر دریا عبو ر کر کے دوسری جانب اترنا شروع ہوا۔ اس دوران میں خالدؓنے اپنے لشکر کی تنظیم اچھی طرح کر لی اور باقاعدہ صفیں قائم کر کے انہیں دشمن سے لڑنے کے لیے پوری طرح تیار کر دیا۔ جب لڑائی شرو ع ہونے کا وقت آیا تو رومی لشکر کے سپہ سالار نے فوج کو حکم دیا کہ تمام قبائل علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ کس گروہ نے زیادہ شان دار کارنامہ انجام دیا ہے۔ چنانچہ ساری فوج علیحدہ علیحدہ ہو گئی لڑائی شروع ہوئی تو خالدؓ نے اپنے دستوں کو حکم دیا کہ وہ چاروں طرف سے دشمن کے لشکر کوگھیر لیں اور انہیں ایک جگہ جمع کر کے اس طرح پے در پے حملے کریں کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ چنانچہ ایساہی ہوا۔ اسلامی دستوں نے رومی لشکر کو گھیر کر ایک جگہ جمع کر لیا اور ان پر زو ر سے حملے شروع کر دیے۔ رومیوں اور ان کے حلیفوں کا خیال تھا کہ وہ قبائل کو علیحدہ علیحدہ سلمانوں کے مقابلے میں بھیج کر لڑائی کو زیادہ طول دے سکیں گے۔ اور جب مسلمان تھک کر چور ہو جائیں گے تو ان پر بھرپور حملہ کر کے انہیں مکمل طورپر شکست دے دیں گے لیکن ان کا خیال خام ثابت ہوا اوران کی تدبیر خود ان پر الٹ پڑی۔ جب مسلمانوں نے انہی ایک جگہ جمع کر کے ان پر حملے شروع کیے تو وہ ان کی تاب نہ لا سکے اوربہت جلد شکست کھا کر میداان جنگ سے فرار ہونے لگے۔ لیکن مسلمان انہیں کہاں چھوڑنے والے تھے۔ انہوںنے ان کا پیچھا کیا اور دور تک انہیں قتل کرتے چلے گئے۔
تمام مورخین اس امر پر متفق ہیں کہ اس معرکے میں عین میدان جنگ میں بعد ازاں تعاقب میں دشمن کے ایک لاکھ آدمی کام آئے۔
فتح کے بعد خالدؓ نے دس روز قیام فرمایا اور ۵ ۲ ذی قعد ۱۲ھ کو انہوںنے اپنی فوج کو واپس حیرہ کی جانب کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔