Tuesday 26 July 2016

غزوۃَ احد - 3 ہجری

غزوہ احد میں تیراندازوں کے جگہ سے ہٹنے کے بعد خالد نے دفعتاً عقب سے بڑے زور و شور کے ساتھ حملہ کیا۔ مسلمان چونکہ ہتھیار ڈال کر غنیمت میں مصروف ہو چکے تھے۔ اس ناگہانی زد کو نہ روک سکے ، کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر پتھروں اور تیروں کی بوچھاڑ کی۔ یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ پیشانی پر زخم آیا اور رخساروں میں مغفر کی کڑیاں چبھ گئیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک گڑھے میں گر پڑے۔ اور لوگوں کی نظر سے چھپ گئے۔ اس برہمی میں یہ غُل پڑ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مارے گئے۔ اسی خبر نے مسلمانوں کے استقلال کو متزلزل کر دیا۔ اور جو جہاں تھا وہیں سراسیمہ ہو کر رہ گیا۔
تمام روایتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو کچھ تو ایسے سراسیمہ ہوئے کہ انہوں نے مدینہ آ کر دم لیا۔ کچھ لوگ جان پر کھیل کر لڑتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد جینا بیکار ہے۔ بعضوں نے مجبور و مایوس ہو کر سپر ڈال دی کہ اب لڑنے سے کیا فائدہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس تیسرے گروہ میں تھے۔ علامہ طبری میں بسند متصل جس کے رواۃ حمید بن سلمہ، محمد بن اسحاق، قاسم بن عبد الرحمٰن بن رافع ہیں، روایت کی ہے کہ اس موقع پر جب انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چند مہاجرین اور انصار کو دیکھا کہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے ہیں، تو پوچھا کہ بیٹھے کیا کرتے ہو، ان لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ نے جو شہادت پائی۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے کہ رسول اللہ کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے تم بھی انہی کی طرح لڑ کر مر جاؤ۔ یہ کہہ کر کفار پر حملہ آور ہوئے اور شہادت حاصل کی (طبری 4)۔ قاضی ابو یوسف نے خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ انس بن نضر میرے پاس سے گزرے اور مجھ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کیا گزری۔ میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ شہید ہوئے۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ شہید ہوئے تو ہوئے خدا تو زندہ ہے۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے کھینچ لی۔ اور اس قدر لڑے کہ شہادت حاصل کی (کتاب الخراج )۔ ابن ہشام میں ہے کہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ میں ستر زخم کھائے۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اخیر تک کس قدر صحابہ ثابت قدم رہے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف سات انصار اور دو قریشی یعنی سعد اور طلحہ رہ گئے تھے۔ نسائی اور بیہقی میں بسند صحیح منقول ہے کہ گیارہ انصار اور طلحہ کے سوا اور کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہیں رہا تھا۔ محمد بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 14 آدمیوں کا نام لیا ہے۔ اسی طرح اور بھی مختلف روایتیں ہیں (یہ پوری تفصیل فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 میں ہے )۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ان روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ لوگ جب ادھر ادھر پھیل گئے تو کافروں نے دفعتاً عقب سے حملہ کیا۔ اور مسلمان سراسیمہ ہو کر جو جہاں تھا وہ وہیں رہ گیا۔ پھر جس طرح موقع ملتا گیا لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچتے گئے۔
بہرحال یہ امر تمام روایتوں سے ثابت ہے کہ سخت برہمی کی حالت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان جنگ سے نہیں ہٹے۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زندہ ہونا معلوم ہوا تو فوراً خدمت میں پہنچے۔ طبری اور سیرت ہشام میں ہے۔
" پھر جب مسلمانوں نے رسول اللہ کو دیکھا تو آنحضرت کے پاس پہنچے اور آپ لوگوں کو لے کر پہاڑ کے درہ پر چڑھ گئے اس وقت آپ کے ساتھ حضرت علی، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر بن العوام اور حارث بن صمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے۔ "
علامہ بلاذری صرف ایک مؤرخ ہیں جنہوں نے انساب الاشراف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حال میں یہ لکھا ہے :یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں تھے جو احد کے دن بھاگ گئے تھے۔ لیکن خدا نے ان کو معاف کر دیا۔ "علامہ بلاذری نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنی خلافت کے زمانے میں لوگوں کے روزینے مقرر کئے تو ایک شخص کے روزینے کی نسبت لوگوں نے کہا اس سے زیادہ مستحق آپ کے فرزند عبد اللہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس کا باپ احد کی لڑائی میں ثابت قدم رہا تھا۔ اور عبد اللہ کا باپ (یعنی حضرت عمر) نہیں رہا تھا۔ لیکن یہ روایت قطع نظر اس کے درایۃً غلط ہے ، کیونکہ معرکہ جہاد سے بھاگنا ایک ایسا ننگ تھا۔ جس کو کوئی شخص علانیہ تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ اصول روایت کے لحاظ سے بھی ہم اس پر اعتبار نہیں کر سکتے ، علامہ موصوف نے جس رواۃ کی سند سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ان میں عباس بن عبد اللہ الباکسائے اور فیض بن اسحاق ہیں اور دونوں مجہول الحال ہیں۔ اس کے علاوہ اور تمام روایتیں اس کے خلاف ہیں۔
اس بحث کے بعد ہم پھر اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں۔ خالد ایک دستہ فوج کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف بڑھے ، رسول اللہ اس وقت تیس (30) صحابہ کے ساتھ پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے۔ ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند مہاجرین اور انصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اور ان لوگوں کو ہٹا دیا۔ (سیرۃ ابن ہشام -5 و طبری 1)۔ ابو سفیان سالار قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ اس گروہ میں محمد ہیں یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارہ کیا کہ کوئی جواب نہ دے۔ ابو سفیان نے پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا نام لے کر کہا کہ یہ دونوں اس مجمع میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے کچھ جواب نہ دیا تو بولا کہ "ضرور یہ لوگ مارے گئے "۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رہا نہ گیا، پکار کر کہا " او دشمن خدا! ہم سب زندہ ہیں" ابو سفیان نے کہا اعل ھبل " اے ہبل (ایک بت کا نام تھا) بلند ہو" رسول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا جواب دو اللہ اعلیٰ و اجل یعنی خدا بلند و برتر ہے۔ (سیرت ہشام و طبری 5)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔