Tuesday, 26 July 2016

واقعہَ حدیبیہ - 6 ہجری

6 ہجری میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، حدیبیہ پہنچ کر حضورﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ بھیجا۔ قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روک رکھا۔ اور جب کئی دن گزر گئے تو یہ مشہور ہو گیا کہ وہ شہید کر دیئے گئے۔ رسول اللہ نے یہ سن کر صحابہ سے جو تعداد میں چودہ سو تھے جہاد پر بیعت لی۔ اور چونکہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی تھی، یہ واقعہ بیعت الشجرۃ کے نام سے مشہور ہوا۔ قرآن مجید کی اس آیت میں " لقد رضی اللہ عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ" اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور آیت کی مناسبت سے اس کو بیعت رضوان بھی کہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بیعت میں شامل تھے ۔
قریش کو اصرار تھا کہ رسول اللہ مکہ میں ہر گز داخل نہیں ہو سکتے۔ بڑے رد و بدل کے بعد ان شرائط پر معاہدہ ہوا کہ اس دفعہ مسلمان الٹے واپس جائیں۔ اگلے سال آئیں۔ لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں، معاہدہ میں یہ شرط بھی داخل تھی کہ دس برس تک لڑائی موقوف رہے۔ اور اس اثناء میں اگر قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ کے ہاں چلا جائے تو رسول اللہ اس کو قریش کے پاس واپس بھیج دیں۔ لیکن مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص قریش کے ہاتھ آ جائے تو ان کو اختیار کہ اس کو اپنے پاس روک لیں۔ اخیر شرط چونکہ بظاہر کافروں کے حق میں زیادہ مفید تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہایت اضطراب ہوا۔ معاہدہ ابھی لکھا نہیں جا چکا تھا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی جائے۔ انہوں نے سمجھایا کہ رسول اللہ جو کچھ کرتے ہیں اسی میں مصلحت ہو گی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تسکین نہیں ہوئی۔ خود رسول اللہ کے پاس گئے اور اس طرح بات چیت کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! کیا آپ رسول خدا نہیں ہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! بے شک ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کیا ہمارے دشمن مشرک نہیں ہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ضرور ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! پھر ہم اپنے مذہب کو کیوں ذلیل کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا کے حکم کے خلاف نہیں کرتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ گفتگو اور خصوصاً انداز گفتگو اگرچہ خلاف ادب تھا، چنانچہ بعد میں ان کو سخت ندامت ہوئی۔ اور اس کے کفارہ کے لئے روزے رکھے۔ نفلیں پڑھیں، خیرات دی، غلام آزاد کئے ، (طبری 6 )۔

تاہم سوال و جواب کی اصل بناء اس نکتہ پر تھی کہ رسول کے کون سے افعال انسانی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور کون سے رسالت کے منصب سے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تمام باتوں کو منصب نبوت سے الگ سمجھتے تھے ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امتیاز مراتب کی جرات اس وجہ سے ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعدد احکام میں جب انہوں نے دخل دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر ناپسندیدگی نہیں ظاہر کی۔ بلکہ متعدد معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی تائید کی۔ قیدیان بدر، حجاب ازواج مطہرات، نماز بر جنازہ منافق، ان تمام معاملات میں وحی جو آئی اس تفریق اور امتیاز کی وجہ سے فقہ کے مسائل پر بہت اثر پڑا۔ کیونکہ جن چیزوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات منصب رسالت کی حیثیت سے نہ تھے ان میں اس بات کا موقع باقی رہا۔ کہ زمانے اور حالات موجودہ کے لحاظ سے نئے قوانین وضع کئے جائیں۔ چنانچہ اس معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زمانے اور حالات کی ضرورتوں سے بہت سے نئے نئے قاعدے وضع کئے جو آج حنفی فقہ میں بکثرت موجود ہیں۔

غرض معاہدہ صلح لکھا گیا اور اس پر بڑے بڑے اکابر صحابہ کے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی داخل تھے دستخط ثبت ہوئے۔ معاہدہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا کہ مجھ پر وہ سورۃ نازل ہوئی جو مجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیتیں پڑھیں " انا فتحنا لک فتحاً مبیناً" (صحیح بخاری واقعہ حدیبیہ)
محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان اور کفار بالکل الگ الگ رہتے تھے۔ صلح ہو جانے سے آپ میں میل جول ہوا۔ اور رات دن کے چرچے اسلام کے مسائل اور خیالات روزبروز پھیلتے گئے۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ دو برس کے اندر اندر جس کثرت سے لوگ اسلام لائے 18 برس قبل کی وسیع مدت میں نہیں لائے تھے۔ (فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 ذکر حدیبیہ)۔ جس بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح کی تھی اور لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فہم میں نہ آ سکی، وہ یہی مصلحت تھی۔ اور اسی بناء پر خدا نے سورۃ فتح میں اس صلح کو فتح سے تعبیر کیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔