خالدؓ نے اس ایک مہینے کے دوران میں رومیوں کی ترتیب اور صف بندی کا بہ غور مطالعہ کر لیا تھا۔ انہوں نے ان کے مقابلے کے لیے ایک ایسا طریقہ استعمال کرنا چاہا جو نہ صرف رومیوں پر رعب ڈالنے والا ہو بلکہ اس کے ذریعے سے فتح بھی حاصل ہو سکے۔ انہوں نے اسلامی لشکر کو اڑتیس دستوں میں تقسیم کیا (ہر ایک دستہ کم و بیش ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا) اور فرمایا:
’’ تمہارے دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ کثرت تعداد پر نازاں ہے۔ اس کے مقابلے میں یہی تدبیر مناسب ہے کہ ہم اپنی فوج کے بہت سے دستے بنا لیں تاکہ دشمن کو ہماری تعداد اصل سے بہت زیادہ نظر آئے۔‘‘
قلب میں انہوں نے اٹھارہ دستے رکھے اور ابو عبیدہ کو ان کا سردار بنایا۔ ان دستوں میں عکرمہ بن ابوجہل اور قعقاع بن عمرو بھی شامل تھے۔ میمنہ پر دس دستے متعین کیے اور ان کا سردار عمرو بن عاص کو بنایا۔
ان دستوں میں شرحبیل بن حسنہ بھی تھے۔ میسرہ پر دس دستے متعین کیے اور ان کا سردار یزید بن ابی سفیان کو مقرر کیا۔ ہر دستے کا علیحدہ سردار بھی تھا جو میمنہ، میسرہ اور قلب کے سرداروں سے احکام حاصل کرتا تھا۔ ان دستوں کے سردار وہ لوگ تھے جو بہادری، جواں مردی اور شجاعت میں اپنی نظیر آپ تھے، مثلاً قعقاع بن عمرو، عکرمہ بن ابوجہل، صفوان بن ا میہ وغیرہ۔
خالدؓ نے اس ترتیب کے علاوہ لشکر کا ایک ہر اول دستہ بھی بنایا تھا۔ جس پر غیاث بن اشیم مقرر تھے۔ قاضی کی خدمت ابوالدراء کے سپرد ہوئی۔ لشکر کے قاری مقداد تھے جو لشکر کو سورۂ انفال پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ سامان کے افسر عبداللہ بن مسعود تھے۔ واعظ ابو سفیان تھے۔ وہ لشکر میں گشت کرتے رہتے اور ہر دستے کے سامنے ٹھہر کر کہتے:
’’ اللہ اللہ! تم حامیان عرب ہو اور دین اسلام کے مددگار۔ تمہارے مد مقابل حامیان روم اور شرک کے مددگار ہیں۔ اے اللہ آج کی جنگ صرف تیرے نام کے لیے ہے۔ اے اللہ! اپنے بندوں پر اپنی مدد نازل فرما۔‘‘
ہر شخص کے سامنے پچھلی جنگوں کے منظر آ گئے جن میں کفار بے پناہ طاقت سے مسلمانوں کے مقابلے میں آئے لیکن ایمانی قوت کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی اور ہر ایک بار انہیں انتہائی ذلت و رسوائی سے پسپا ہونا پڑا۔
مسلمانوں میں اس وقت اتنا جوش و خروش پیدا ہو چکا تھا کہ شام آنے کے بعد سے اب تک پیدا نہ ہوا تھا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ خالدؓ نے آج فتح حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جب خالدؓ کسی کام کا ارادہ رک لیں تو کوئی طاقت انہیں باز نہیں رکھ سکتی۔ ادھر انہوں نے رومیوں کو پوری طاقت و قوت سے میدان جنگ میں صفیں باندھتے ہوئے دیکھا۔ وہ مسلمانوں کی طاقت کو کلیۃً ختم کر دینے کے ارادے سے میدان میں آئے تھے
جس طرح مسلمانوں کو رومیوں کی تیاری کی اطلاع مل گئی تھی اسی طرح رومیوں کو بھی مسلمانوں کی نقل و حرکت کا حال معلوم ہو گیا۔ غالباً اس علاقے کے رہنے والے کچھ بدو دونوں لشکروں کے درمیان جاسوسی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ خالدؓ کو منجملہ دیگر اطلاعات کے یہ اطلاع بھی ملی کہ ان کے آنے کی وجہ سے رومیوں کے بعض سرداروں کے دلوں میں سخت گھبراہٹ اور بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔ ان گھبرائے ہوئے بے چین سرداروں میں ’’ چرچہ‘‘ بھی شامل تھا۔ یہ شخص یا تو عربی النسل تھا یا تھا تو رومی لیکن سالہا سال سے شام میں رہنے کے باعث عربی بہت اچھی طرح جانتا تھا اور اسے مسلمانوں کی بہت سی باتوں کا بخوبی علم تھا۔ جب اس کے جاسوسوں نے اسے خالدؓ کی بے نظیر اور عظیم الشان فتوحات کی اطلاع دی تو بے اختیار اس کے دل میں خالدؓ سے ملنے اور ان سے گفتگو کی خواہش پیدا ہوئی۔ خالدؓ کو بھی اس کی اس خواہش کا علم ہو گیا۔ جب باہان نے رومی دستوں کو مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو چرچہ ہر اول دستے پر متعین تھا۔ اس نے موقع غنیمت جان کر خالدؓ کو پکارا۔ خالدؓ فوج سے نکل کر آئے اور دونوں لشکروں کے درمیان اسے ملے دونوں میں باتیں ہونے لگیں۔ رومیوں نے یہ سمجھا کہ چرچہ کو مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور شور سے حملہ کیا اور انہیں اپنی جگہ سے پیچھے ہٹا دیا۔
عکرمہ خالدؓ کے خیمے کے سامنے اپنا دستہ لیے کھڑے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں رومیوں کے حملے کی تاب نہ لا کر پیچھے ہٹنے لگے تو غیرت و حمیت ان کی رگ رگ میں سرایت کر گئی اورانہوں نے چلا کر رومیوں سے کہا:
’’ میں رسول اللہ جیسے مقدس انسان ے ہر میدان میں لڑتا رہا ہوں، کیا آج کی لڑائی تم سے ڈر کر بھاگ جاؤں گا؟ واللہ! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ ساتھیوں کی طرف مڑے اور کہا:
’’ آؤ، موت کے لیے کون بیعت کرتا ہے؟‘‘
یہ سن کر ضرار بن ازور، حارث بن ہشام، ان کے لڑکے عمرو بن عکرمہ اورچار سو دو سرے بہادر معزز مسلمانوں اور شہسواروں نے عکرمہ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی اور عکرمہ انہیں لے کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔ رومیوں کے پاؤں اس ناگہانی حملے کی وجہ سے لڑ کھڑا گئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عین اسی وقت چرچہ نے خالدؓ سے گفتگو کے نتیجے میں اسلام قبول کر لیا اور اپنا دستہ لے کر مسلمانوں سے مل گیا۔ یہ امر رومیوں میں مزید بدحواسی اور ابتری پیدا کرنے کا موجب ہوا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔