Tuesday 26 July 2016

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابوبکرؓ کا کون سا کارنامہ سب سے زیادہ عظیم الشان ہے۔ مرتدین کی سرکوبی اور سر زمین عرب سے ارتداد کا مکمل خاتمہ؟عراق اور شام کی فتوحات جو اس عظیم الشان سلطنت کی بنیاد ثابت ہوئیں جس کی بدولت انسان کو تہذیب و تمدن سے آگاہی نصیب ہوئی؟ یا کلام اللہ کو جمع کرنے کا کام جو ایک امی نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جس نے اپنی روشنی سے دنیا بھر کو منور کر دیا۔یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بلاشبہ جمع قرآن کریم ابوبکرؓ کا سب سے بڑا اور مہتم بالشان کارنامہ ہے او راسی سے اسلام اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ برکت نصیب ہوئی۔
اس بیان کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ ہمیں جنگ ہائے مرتدین اور اسلامی سلطنت کے قیام کی اہمیت سے انکار ہے۔ بلاشبہ یہ دونوں کام انتہائی اہمیت رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک ابوبکرؓ کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اگر ابوبکرؓ مرتدین کی سرکوبی کے سوا اور کوئی کام نہ کرتے تو بھی یہ ایک کارنامہ ان کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہوتا۔ اسی طرح اگر وہ اسلامی سلطنت کے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے سوا اور کوئی کام ہاتھ میں نہ لیتے تو بھی یہ کارنامہ ان کا نام تاریخ کے صفحات پر تا ابد زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتا۔ لیکن جب ان عظیم الشان کارناموں کے ساتھ جمع قرآن کا مہتمم بالشان کارنامہ بھی ملا لیا جائے جو اپنی شان اور افادیت میں ان دونوں کارناموں سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے تو ہمیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مادر گیتی ابوبکرؓ جیسا فرزند پیدا کرنے سے قاصر ہے۔
اللہ ابوبکرؓ پر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے جن کی مخلصانہ مساعی اور پیہم جدوجہد کے نتیجے میں آج بھی ہمیں قرآن کی نعمت اعلیٰ اسی طرح میسر ہے جس طرح چودہ سو برس پیشتر صحابہ کرام کو میسر تھی۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس کارنامے کے تذکرے سے پہلے ان وجوہات کا تذکرہ ضروری ہے جن کی وجہ سے عہد نبوت میں قرآن ایک مصحف میں جمع نہیں ہوسکا تھا۔
۱۔ قرآن کریم یکبارگی نہیں بلکہ تیئیس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا۔۔یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا۔ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ صحابہ کرام کے مابین جب کسی آیت میں اختلاف ہوتا تو وہ مکتوب قرآن کی بجائے رسول اکرم ﷺ سے ہی رجوع کرلیتے۔

۲۔آپ ﷺ نے اسے اس لئے بھی ایک ہی مصحف میں جمع نہیں فرمایا کیونکہ قرآن میں نسخ واقع ہورہا تھا اگر آپ ﷺ اسے جمع کردیتے پھر کچھ حصے کی تلاوت منسوخ ہوجاتی تو یہ اختلاف اور دین میں اختلاط کا سبب بنتا۔آپ ﷺ بھی قرآن کریم کے بعض احکام یا تلاوت کے بارے میں منتظر رہتے کہ شاید کچھ منسوخ ہوجائے اس لئے بھی آپ ﷺ نے جمع نہیں کروایا۔ جب اس کا نزول مکمل ہوگیا اور زمانہ نسخ کے اختتام تک یہ قرآن سینوں میں محفوظ بھی رہا اورآپ ﷺ کی وفات ہوگئی تو اللہ تعالی نے خلفاء راشدین کو اس کے جمع کرنے کا الہام کردیا۔(البرہان از زرکشی ۱؍۲۳۵)

۳۔۔قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا، کبھی ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں، نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی، اگراس وقت قرآن ایک مصحف میں جمع کردیا جاتا تو یہ ترتیب ہر نزول کے وقت ہی تبدیلی کا سامنا کرتی۔۔
علامہ الخطابی کے الفاظ میں :
إنما لم يجمع القرآن في المصحف لما كان يترقبه من ورود ناسخ لبعض أحكامه أو تلاوته فلما انقضى نزوله بوفاته ألهم الله الخلفاء الراشدين ذلك وفاء بوعده الصادق بضمان حفظه على هذه الأمة فكان ابتداء ذلك على يد الصديق بمشورة عمر
رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے قرآن کو ایک مصحف کی صورت میں نہیں اکھٹا کیا کیونکہ انہیں کسی آیت یا حکم کی منسوخی کا انتظار کرنا تھا. مگر جب انکی وفات ہوئی اور نزول وحی منقطع ہو گئی "اور آخر کار نسخ بھی"۔ اللہ نے اس قرآن کی حفاظت کے متعلق اپنا سچا وعدہ پورا کرنے کے لیے یہ خیال خلفائے راشدین کے دل میں ڈالا. تب یہ عظیم فریضہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر سرانجام دیا. (الخطابی، بحوالہ فتح الباری)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔