Tuesday, 26 July 2016
حضرت ابو بکر صدیق کی حکمتِ عملی
Posted by
Islamichistory
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو تمام ملک عرب میں بدامنی اورہلچل پیدا ہوئی تو ایک طرف ایرانیوں نے دوسری طرف رومیوں نے ان خبروں کو بڑے اطمینان ومسرت کے ساتھ سنا ،دنیا میں پہلی ہی مرتبہ تمام براعظم عرب نے ایک سلطنت اورایک متحدہ طاقت کی شکل میں اپنے آپ کو جلوہ افروز کیا تھا اور اسی لئے رومیوں اور ایرانیوں کے درباروں نے اس ملک کو غور والتفات اورفکر تردد کی نگاہ سے دیکھا تھا اوریہ دونوں حکومتیں بجائے خود الگ الگ اس جدید عربی طاقت یعنی حکومت اسلام کو مٹادینے اور فنا کردینے پر آمادہ تھیں،وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے ساتھ ہی ارتداد کی خبروں نے ان دونوں حکومتوں کو بتادیا تھا کہ ملک عرب کے پامال کرنے اورآئندہ خطرات کے مٹادینے کا یہ بہترین وقت ہے؛چنانچہ ایک طرف ہرقل کی فوجیں شام میں اوردوسری طرف ایران کی فوجیں عراق میں جمع ہونے لگیں،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مآل اندیشی،زرف نگاہی،موقعہ شناسی اور مستعدی کا اس طرح بھی اندازہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے فتنہ ارتداد کو جلد سے جلدمٹایا اوراس فتنہ کے فرو کرنے کے بعد ایک دن بھی ضائع کئے بغیر فوراً رومیوں اورایرانیوں کے روکنے اور مدافعت کرنے کے لئے تمام ملک عرب کو آمادہ کردیا اگر حضرت صدیق اکبرؓ چند روز اورفتنۂ ارتداد مٹانے پر قادر نہ ہوتے یا فتنۂ ارتداد کے مٹ جانے کے بعد چند روز تساہل وتامل میں گزاردینے تو مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی دارالخلافت اسلام رومیوں یا ایرانیوں کے محاصرہ میں آکر مسلمانوں کے لئے عرصۂ حیات تنگ کرچکا ہوتا،حیرت ہوتی ہے کہ صدیق اکبرؓ نے کیسا سخت واہم کام کیسے نازک ومحدود وقت میں کس احتیاط اورکس خوبی سے انجام دیا اور اسلام کی روحانی ومادی،حالت اور معنوی وظاہری شان کو کس عظمت وجبروت کے ساتھ قائم رکھا،اب آگے رومیوں اورایرانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائیاں شروع ہوتی ہیں،جو حالت ملک شام کی تھی کہ اس کے جنوبی حصہ میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں عرب مستنصرہ کی تھیں،بالکل یہی حالت عراق وعرب کی تھی کہ اس میں بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں عربوں کی تھیں،جن میں سے اکثر ایرانی شہنشاہی کے ماتحت اوربعض ایرانی دربار سے گورنر مقرر ہوکر آتے اورحکومت کرتے تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق نے جب لشکر اسامہؓ کو شام کی طرف روانہ کیا تھا تو وہ ایرانیوں سے غافل نہ تھے،اُنہوں نے اس خطرناک حالت اور ان تشویش افزاایام میں جب کہ خود مدینہ منورہ کی حفاظت اورملک عرب کے صوبوں میں فتنۂ ارتداد کے مٹانے کے لئے فوجوں کی بے حد ضرورت تھی،ایک چھوٹا سا دستہ مذکورہ بالا گیارہ لشکروں کی روانگی سے پہلے مثنیٰ بن حارثہؓ شیبانی کی سرداری میں عراق کی جانب روانہ کردیا تھا اور مثنیٰ کو حکم دیا تھا کہ عراق میں پہنچ کر کسی بھی جگہ جم کر لڑائی کی تمہید نہ ڈالیں ؛بلکہ بطریق چپا دل چھاپے مارتے اورعراقی رئیسوں کو ڈراتے رہیں،اس سے مدعا صدیق اکبرؓ کا یہ تھا کہ جب تک ملکِ عرب کا فتنہ ارتداد فرو ہو اس وقت تک ایرانیوں کو ملک عرب پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوسکے اور وہ مسلمانوں کی پریشانیوں اور مصیبتوں سےپورے طور پر واقف نہ ہوسکیں یہی مقصد صدیق اکبرؓ نے لشکر اسامہؓ کے ذریعہ حاصل کرنا چاہا تھا کہ رومی لوگوں کو عرب کی جانب حملہ آور ہونے کی یکایک جرأت نہ ہوسکے ۔
جس وقت یمامہ میں خالد بن ولید اوریمن اور ا س کی نواح میں مہاجر بن ابی امیہ اور عکرمہ بن ابوجہل مرتد ین کی سرکوبی کے لیے مصروف عمل تھے اسی وقت سب لوگوں کو یقین ہو گیا تھا کہ اب جزیرہ عرب میں صرف خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمانروائی ہو گی اور آئندہ کسی فتنہ پرداز شخص کو شور و شر کرنے اور بغاوت کی آگ بھڑکانے کی جرات نہ ہو سکے گی مگر عام لوگوں کے برعکس حضرت ابوبکرؓ نے خوش فہمی سے کا م نہ لیا۔ یہ بات بعید از قیاس تھی کہ فساد کے شعلے ایک بار دب جانے کے بعد دوبارہ بھڑک اٹھتے اور ایک بار پھر جزیرہ عرب میں اتنشار پیدا کر دیتے۔ حضرت ابوبکرؓ تمام حالات کا بہ نظر غائر جائزہ لے رہے تھے اور سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ عرب قبائل کی شورش انگیزی کے خطرے سے بچنے کے لیے کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ان کی توجہات کو ایران اور شام کی طرف منعطف کر دیا جائے تاکہ انہیں حکومت کے خلاف سر اٹھانے اور بغاوت کرنے اور فسا د برپا کرنے کا کوئی موقع ہی نہ مل سکے۔ اس غرض کے لیے اللہ پہلے ہی سے سامان کر چکا تھا۔ صحرائے شام میں عرب قبائل کثرت سے آباد تھے اور ان سے امید کی جا سکتی تھی کہ وہ بھی دین اسلام کو اسی خندہ پیشانی سے قبول کر لیں جس طرح ان کے ہم قوم اورہم اصل لوگوں نے قبول کر لیا تھا اور وہ بھی اپنے ہم وطنوں کے ساتھ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی میں شریک ہو جائیں۔
یہ خیالات اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے غرض ہر د حضرت ابوبکرؓ کے دماغ میں چکر لگاتے رہتے تھے۔ پھر بھی اس کا مطلب یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ نعوذ باللہ وسعت سلطنت کی ہوس تھی اور ایک وسیع علاقے پر اقتدار قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ ان کا منشا صرف یہ تھا کہ مسلمانوں ک واطمینان نصیب ہو اور وہ بے روک ٹوک احکا م دین پر عمل کر سکیں اور اسلام کی تبلیغ کے راستے میں انہیں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ لوگوں کو اطمینان اسی وقت نصیب ہو سکتا ہے جب حکومت کی بنیاد عدل و انصاف پر ہو اوراس میں ہوا و ہوس کابالکل دخل نہ ہو۔ عدل و انصاف پر قائم ہونے والی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ حاکم اعلیٰ ہر قسم کی نفسانی خواہشات سے یکسر پاک ہو اور اس میں خود غرضی و نفس پرستی کا شائبہ تک نہ ہو۔ مزید برآن وہ رعایا پر حد درجہ شفیق اور مہربان ہو۔
حضرت ابوبکرؓ اس معیار پر سو فیصد پورے اترتے تھے۔ وہ اپنے واسطے کسی عہدے اور مرتبے کے خواہش مند نہ تھے۔ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں انہوں نے کبھی اپنی ذات کو اجاگر کرنے کی کوشش نہ کی۔ رعایا پر وہ جس درجہ شفیق اور مہربان تھے اس کے بیان کی حاجت نہیں۔ عدل و انصاف کو وہ ہر چیز پر مقدم رکھتے اور اس کے قیام میں اپنی جان اور اہل عیال تک کو فراموش کردیتے تھے اس کے علاوہ سلطنت کے تمام امور کی نگہداشت انتہائی حز و احتیاط سے کرتے تھے۔
حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا پہلا سال زیادہ تر مرتدین کی شورش کا مقابلہ کرنے میں گزرا۔ مسلمان ہمہ تن اس فتنے کو فرو کرنے میں مصروف تھے اور جو ق در جوق اسلامی لشکروں میں شامل ہو کر جہاد کے لیے اطراف ملک میں جا رہے تھے۔ لیکن اس نازک ترین موقع پر حضرت ابوبکرؓ انتظامی اور ملکی امور میں سے غافل نہ رہے۔ اسی وجہ سے جنگہائے ارتداد کے دوران یں ان ے اور ان کے عمال و قائدین کے درمیان کثرت سے خط و کتابت ہوئی جو تاریخوں میں محفوظ ہے۔ جنگہائے ارتدد کے باعث چونکہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا پہلا سال سخت مصروفیت کا گزرا۔ اس لیے انہوںنے حج کے موقع پر اپنی جگہ عتاب بن اسید کوامیر الحج بنا کر بھیج دیا۔
جب تک مرتدین سے جنگیں جاری رہیں حضرت ابوبکرؓ کے لیے کسی اور جانب توجہ منعطف کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ جب مرتدین کا مکمل قلع قمع ہو چکا اور چپے چپے پر اسلامی حکومت کی عمل داری قائم ہو چکی تو حضرت ابوبکرؓ کی توجہ اسی ضروری مسئلے پر مبذول ہوئی کہ اعلا کلمۃ الحق اور دین حقہ کی اشاعت کے لیے مسلمانوں کو آئندہ کیا قدم اٹھانا اوراپنی جدوجہد کو کس شکل میں مرتکز کرنا چاہیے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔