اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ حکم صدیقی کے مطابق عیاض بن غنمؓ نے بالائی عراق پر حملہ کیا تھا،حضرت خالد بن ولیدؓ کو تو بہت جلد قبائل ورؤسا سے گزر کر ایرانی سرداروں اورایرانی فوجوں سے مقابلہ پیش آگیا تھا،اگر چہ عرب سردار اور عیسائی قبائل بھی برسر مقابلہ تھے ؛لیکن وہ ایرانیوں سے جدا نہ تھے،حضرت عیاض بن غنمؓ جو بالائی عراق پر حملہ آور ہوئے تھے، اُن کو ابھی تک عیسائی خود مختار رؤسا سے فرصت نہیں ملی تھی وہ جس علاقے میں مصروف پیکار تھے وہ علاقہ عراق جزیرہ،ایران،شام کا مقام اتصال تھا،اوراسی لئے ان کی معرکہ آرائیوں کا اثر جس قدر دربارِ ایران پر پڑ سکتا تھا،اُسی قدر دربارِ ہر قل پر بھی پڑرہاتھا جس زمانے میں حضرت خالد بن ولید نے عین التمر کو فتح کیا اُس وقت حضرت عیاض بن غنمؓ عرب کے مشرک ونصرانی قبائل کو زیرکرتے ہوئے دومۃ الجندل کے حکمرانوں سے برسر مقابلہ تھے،علاقہ دومۃ الجندل میں دو رئیس تھے،ایک اکیدر بن عبدالملک (جس کا ذکر اوپر حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات میں آچکا ہے) دوسرا جودی بن ربیعہ،یہ دونوں رئیس متفق ومتحد ہوکر عیاض بن غنمؓ کے مقابلہ میں صف آرا تھے اور انہوں نے ارد گرد کے تمام نصرانی قبائل کو اپنے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ میں شریک و متحد کرلیا تھا،
جب ابوبکرؓ ولید سے عراق کے متعلق تما م رپورٹیں حاصل کر چکے تو انہیں عیاض کی مدد کے لیے دومتہ الجندل جانے کا حکم دیا ۔ جب ولید وہاں پہہنچے تو دیکھا کہ عیاض بن غنم دومتہ الجندل کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ اورجواباً دومتہ الجندل والوں نے عیاض کا محاصرہ کر کے ان کا راستہ مسدود کر رکھا ہے۔ عیاض سے بات چیت کرنے اورتمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد ولیدنے محسوس کیا کہ عیاض اپنی فوج کی مدد سے نہ دومتہ الجندل والوں کو شکست دے سکتے ہیں اورنہ ا ن کے چنگل سے نکل سکتے ہیں۔ ولید نے ان سے کہا کہ حالات میں عقل کی ایک بات زبردست لشکر سے مفید ثابت ہوتی ہے۔ اگر تم میری مانوتو خالدؓ کے پاس قاصد بھیج کر ان سے اعانت چاہو۔
عیاض کے لیے ولید کی بات ماننے کے سواکوئی چارہ نہ تھا کیونکہ انہیں دومتہ الجندل پہنچے ہوئے سال بھر ہو چکا تھا اور ابھی تک فتح کی کوئی شکل نظر نہ آتی تھی۔ انہوں نے اپنے قاصد کو خالدؓ کے پاس روانہ کیا اور قاصد ان کے پاس اس وقت پہنچا جب وہ عین التمر کی فتح سے فارغ ہو چکے تھے۔ خالدؓ نے خط پڑھا۔ اس کے لفظ لفظ سے گھبراہٹ اور پریشانی عیاں تھی۔ انہوں نے عیاض کے نام ایک مختصر خط د ے کر قاصد کوفوراً واپس کر دیا تاکہ عیاض کی پریشانی کچھ کم ہو جائے خط میں لکھا تھا:
’’خالد بن ولیدؓ کی طرف سے عیاض کے نام۔ میں بہت جلدتمہارے پاس آتا ہوں۔ تمہارے پاس اونٹیناں آنے والی ہیں جن پرکالے زہریلے ناگ سوار ہیںَ فوج کے دستے ہیں جن کے پیچھے اور دستے ہیں‘‘َ
عیاض کے نام خالدؓ کے اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حیرہ میں بے کار پڑے رہنے کی وجہ سے حضرت خالدؓ کو کس قدر گھبراہٹ لاحق تھی اور انبار و عین التمر کی جنگیں اور فتوحات بھی ان کی آتش شوق کو سرد نہ کر سکی تھیں۔ اسی وجہ سے عیاض کا بلاوا پہنچتے ہی وہ دومتہ الجندل جانے کے لیے فوراً تیار ہو گئے۔
خالدؓ نے عویم بن کاہل اسلمی کو عین التمر میں اپنا نائب مقرر کیا اور خود فوج لے کر دومتہ الجندل روانہ ہوئے۔ دومتہ الجدل اورعین التمر کے درمیان تین سو میل کا فاصلہ ے۔ یہ مسافت خالدؓ نے دس روز سے بھی کم عرصے میں طے کر لی۔ شمال سے جنوب کی طرف جاتے ہوئے درمیان میں شامل اورنفوذ کے خوف ناک اور لق و دق صحرا پڑتے تھے جن میں سے گزرتے ہوئے سینکڑوں خطرات کا سامنا تھا۔ لیکن خالدؓ تمام خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ جب وہ دومتہ الجندل کے قریب پہنچے تو اہل شہر کو ان کی آمد کی اطلاع ہوئی تو وہ حیران و ششدر رہ گئے اور ان کے سردار سر جوڑ کر بیٹھ گئے اورآئندہ اقدامات کے متعلق غورکرنا شروع کردیا۔
دومتہ الجندل میں اس وقت جو قبائل ڈیرے ڈالے پڑے تھے ان کی تعداد اس وقت سے کئی گنا زیادہ تھی جب ایک سال قبل عیاض بن غنم ان کی سرکوبی کے لیے پہنچے تھے وجہ یہ تھی کہ بنوکلب بہرا ء اور غسان کے قبائل اپنے ساتھ کئی اور قبائل کو ملا کر عراق سے دومتہ الجندل چلے آئے تھے اور خالدؓ کے ہاتھوں اپنی عبرتناک شکستوں کا بدلہ عیاض سے لینا چاہتے تھے۔ ان قبائل کی روزافزوں آمد کے باعث عیاض کے لیے انتہائی صبر آزما حالات پیدا ہو گئے تھے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ان کے مقابلے کے لیے کیا تدابیر اختیار کریں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا بات تھی کہ مسلمانوں نے دومتہ الجندل پر تو اتنی مبذول کی اور اسے ہر قیمت پر فتح کرلینا چاہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدمیں دوبار اس پر چڑھائی ہوئی اور آخر اکیدر سے دوستی کا معاہدہ کر کے اسے اسلامی عمل داری میں شامل کر لیا گیا حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں مسلمان سال بھر تک اس کا محاصرہ کیے پڑے رہے اور اس وقت تک دم نہ لیا جب تک اسے کاملاً مطیع کرکے اپنی حکومت میں دوبارہ اسے شامل نہ کر لیا۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دومتہ الجندل کی جغرافیائی حالت ایسی تھی کہ اس پر قبضہ کرنا ہر حالت میں ناگریر تھا ۔ دومتہ الجندل اس راستے کے سرے پر واقع ہے جہاں اسے ایک طرف حیرہ اورعراق کو راستہ جاتا ہے اور دوسری طرف شام کو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ شام اور جزیرہ عرب کی سرحدوں پر امن رہے اور رومی فوجیں مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر سرزمین عرب میں نہ گھس آئیں اسی لیے آ پ نے دومتہ الجندل کو اپنے زیر نگیں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش فرمائی۔ یہی حال حضرت ابوبکرؓ کا تھا۔ ان کے زمانے میں اسلامی فوجیں ایک طرف عراق میں ایرانی فوجوں سے نبرد آزما تھیں تو دوسری طرف شام کی سرحدپر رومیوں سے مصروف پیکار تھیں۔ اور ضروری تھا کہ یہ اہم مقام مسلمانوں کے قبضے میں رہے۔ یہی وجہ تھی کہ عیاض بن غنم ایک سال تک اس کا محاصرہ کیے پڑے رہے اور سخت مشکلات کے باوجود وہاں سے ہٹنے کا نام نہ لیا۔ جب خالدؓ کو دومتہ الجندل پہنچنے کے لیے کہا گیا تو وہ بھی بلا توقف اس کی جانب روانہ ہو گئے اگر خدانخواستہ دومتہ الجندل مسلمانوں کے قبضے میں نہ آتا تو نہ صرف عراق میں ان کی فتوحات کا کوئی بھروسا نہ ہوتا بلکہ شام کی فتح بھی ناممکن ہو جاتی۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔