Tuesday 26 July 2016

خالد رضی اللہ عنہ کا ہرمز سے مقابلہ


ہرمز کی بستی خلیج فارس اورکاظمہ کے سرحدی شہر سے قریب صحرا کے کنارے واقع ہے ایرانیوں کی طرف سے ہرمز اس علاقے کا حاکم تھا جو حسب و نسب اور شرف و عزت میں اکثر امرائے ایران سے بڑھا ہو ا تھا۔ ایرانی معززین کی عادت تھی کہ وہ معمولی ٹوپیوں کے بجائے قیمتی ٹوپیاں پہنتے تھے۔ حسب و نسب وار عزت و شرف میں جو شخص جس مرتبے کا ہوتا تھا اسی مناسبت سے قیمتی ٹوپی پہنتا تھا سب سے بیش قیمت ٹوپی ایک لاکھ درہم کی ہوتی تھی جسے وہی شخص پہن سکتا تھا جس کی بزرگی سلم الثبوت ہو اور جو شرف و عزت اور توقیر و وجاہت میں کمال درجے کو پہنچا ہو ۔ہرمز کے مرتبے کا اندازہ اا امر سے ہو سکتا ہے کہ اس کی ٹوپی کی قیمت بھی ایک لاکھ درہم تھی جسے کوئی کم درجے کاامیر ہرگز نہ پہن سکتا تھا۔ ایرانیوں کے نزدیک تو اس کی وجاہت مسلم الثبوت تھی لیکن عراق کی حدود میں بسنے والے عر ب اسے انتہائی نفرت کی نگاہو ں سے دیکھتے تھے۔ کیونکہ وہ ان عربوں پر تمام سرحدی امراء سے زیادہ سختی کرتا تھا۔ عربوں کی اس سے نفرت اس حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ وہ کسی شخص کی خباثت کا ذکر کرتے ہوئے ہرمز کانام بہ طور ضرب المثل لینے لگے تھے۔ چنانچہ کہتے تھے :
فلاں شخص تو ہرمز سے بھی زیادہ خبیث ہے۔
فلاں شخص ہرمز سے بھی زیادہ بدفطرت اور بدطینت ہے۔
فلاں شخص ہرمز سے بھی زیادہ احسان فراموش ہے۔
یہی وجہ تھی کہ جزیرہ عرب کی حدود میں بسنے والے عرب اپنے بھائیوں پر مظالم کی داستانیں سن کر صبر نہ کر سکتے تھے۔ اور وقتاً فوقتاً ہرمز کے علاقے پر چھاپے مار کر اس کا آرام و سکون برباد کیے رکھتے تھے۔ ہرمز ایک طرف عربوں کے درپے چھاپوں اور غارت گری سے عاجز رہتاتھا دوسری طرف ہندوستان کے بحری قزاق اسے چین سے نہ بیٹھنے دیتے تھے۔ وہ کشتیوں میں سوار ہو کر آتے اوراس کے علاقے میں غارت گری کر کے واپس چلے جاتے۔
خالد ؓ یمامہ سے دس ہزار کی جمعیت لے کر عراق روانہ ہوئے تھے۔ عراق کی سرحد پر انہوں نے مثنیٰ کو دو ہزار کی جمعیت کے ساتھ اپنا منتطر پایا۔ انہوں نے لشکر کو تین حصوںمیں تقسیم کر دیا اور ہر حصہ فوج کو ہدایت کی کہ وہ مختلف راستوں سے ہوتا ہوا حفیر پہنچ جائے۔ پہلا لشکر جس کے سردار مثنیٰ بن حارثہ تھے خالدؓ کے کوچ سے دو روز پہلے روانہ ہو گیا دوسرا لشکر جس کی قیادت عدی بن حاتم کر رہے تھے اگلے روز روانہ ہوا۔ تیسرے روز خالدؓ بھی لشکر لے کر روانہ ہوئے ان لشکروں کی روانگی سے قبل خالدؓ نے ہرمز کو ایک خط بھی بھیجا تھا جس میں لکھا تھا:
’’تم اسلام لے آئو۔ امن میں رہو گے اگر یہ بات منظور نہیں تو ذمی بن کر ہماری سلطنت میں شامل ہونا اور جزیہ دینا قبول کرو۔ اگریہ پیش کش بھی تمہیں منظور نہیں تو بعد میں پچھتانے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا ۔ اس صورت میں تم اپنے سوا کسی کو ملامت نہ کرنا کیونکہ ہم اپنے ساتھ ایک ایسی قوم کو لا رہے ہیں جو موت کی اتنی ہی عاشق ہے جتنے تم لوگ زندگی کے شائق ہو‘‘۔
جب ہرمز کو یہ خط ملا تو اس نے شہنشاہ اردشیر کو پیش آمدہ حالات کی اطلاع دی اورخود لشکر جمع کرکے خالدؓ کے مقابلے کے لیے کواظم روانہ ہو گیا۔ راستے میں اسے معلوم ہوا کہ خالدؓ نے اپنے لشکروں کو حفیر میں جمع ہونے کی ہدایت کی ہے ۔ چنانچہ اس نے حفیر کا رخ کیا اور تیزی سے سفر کرتا ہوا خالدؓ سے پہلے وہاں پہنچ کر پانی پر ڈیرے ڈال دے۔ جب خالدؓ وہاں پہنچے تو انہیں ایسی جگہ اترنا پڑا کہ جہاں پانی کانام ونشا ن تک نہ تھا لوگوں نے ان سے اس مشکل کا ذکر کیا تو فرمایا:
’’فکر کی کوئی بات نہیں اسی جگہ پڑائو ڈالواور دشمن کے ساتھ بے جگری سے لڑنے کے لیے تیار ہو جائو۔ مجھے یقین ہے کہ پانی آخر کار ااسی فریق کا قبضہ ہو گا جو لڑائی میں استقلال اور صبر و استقامت کا ثبوت دے گا‘‘۔
ہرمز نے میمنہ اور میسرہ پر شاہی خاندان کے دو آدمیوں قباذ اور انوشجان کو متعین کر رکھا تھا لڑائی شرو ع ہونے سے پہلے ہرمز اپنی صفوں سے باہر نکلا اور خالد ؓ کو دعوت مبارزت دی۔ اسے خالدؓ کی بہادری اور شجاعت جوانمبردی اور عظیم مرتبے کا خوب علم تھا اور جانتاتھا کہ اس نے خالدؓ پر قابو پر کر انہیں قتل کر دیا تو ایرانیوں کا اگر کامل فتح نہیں تو کم از کم آدھی فتح ضرور مل جائے گی لیکن اسے یہ بھی علم تھا کہ خالدؓ کو قتل کرنا اور ان پرقابو پانا آسان نہیں اس لیے اس نے فریب دہی سے کام لیا اور اپنے چند سواروں کو اس کام پر مامور کر دیا کہ جونہی وہ خالدؓ کو آتا دیکھیں فوراً اس پر جھپٹ پڑیں اور قتل کر دیں۔
ادھر جب خالدؓ نے ہرمز کی آواز سنی تو گھوڑ ے سے اترکر پیدل ہی اس کے مقابلے کے لیے رانہ ہوئے۔ قریب پہنچ کر تلوار کھینچی اورہرمز پر حملہ آور ہوئے۔ اس اثناء میں ہرمز کے مقرر کردہ سوارون نے کمین گاہوں سے نکل کر خالد کو قتل کرنا اور ہرمز کو ان کے ہاتھ سے چھڑانا چاہا۔ لیکن مسلمان کچی گولیاں نہ کھیلے تھے۔ قعقاع بن عمرو نے جو بہت غور سے دشمن کی حرکات و سکنات جانچ رہے تھے۔ جونہی ایرانی سواروں کو کمین گاہوںسے نکلتے دیکھا فوراً اپنے دستے کے ہمراہ ادھر کا دخ کیا اور خالدؓ کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی انہیں تلواروں کی باڑوں پر رکھ لیا۔ ایک روایت میں اس لڑائی کی تفصیل بھی آئی ہے کہ اول حضرت خالدؓ نے وار کیا ہرمز نے فوراً پیچھے ہٹ کر اور پینترا بدل کر وار خالی دیا اورپھر نہایت پھرتی سے حضرت خالد پر تلوار کا وار کیا،حضرت خالد بن ولیدؓ نے فوراً بیٹھک کے ساتھ آگے سمٹ کر اس کی کلائی تھام کر تلوار چھین لی،ہرمز تلوار چھنواتے ہی حضرت خالد کو لپٹ گیا اورکشتی کی نوبت پہنچی،حضرت خالدؓ نے اس کی کمر پکڑ کر اُٹھایا اورزمین پر اس زور سےپٹکا کہ پھر وہ حرکت نہ کرسکا ،اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور سرکاٹ کر پھینک دیا اور اپنی صفوں میں واپس چلے آئے۔
اب دونوں فوجوں میں دست بہ دست جنگ شروع ہو چکی تھی لیکن اپنے سپہ سالار کے مارے جانے کی وجہ سے ایرانیوں کی کمر ہمت ٹوٹ چکی تھی۔ وہ زیادہ دیرتک مسلمانوں کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکے اور شکست کھا کر بھاگنے لگے۔
مسلمانوں نے رات کے اندھیرے میں ان کا تعاقب کیا اور دریائے فرات کے بڑے پل (جسر اعظم) تک جہاں آج کل بصرہ آباد ہے۔ انہیں قتل کرتے چلے گئے۔ ان مفرورین میں قباذ اورانوشجان شامل تھے جنہیں ہرمز نے میمنہ او رمیسرہ کاسردارمقررکر رکھا تھا۔
دشمنو ں پرپوری طرح قابوپا لینے کے بعد خالدؓ نے معقل بن مقرن المرفی کو ابلہ جا کر مال غنمیت اور قیدیو کو اکٹھا کرنے کا حکم دیا اور مثنیٰ بن حارثہ کو شکست خوردہ مفرور لشکر کا پیچھا کرنے کی ہدایت کی۔ چنانچہ معقل نے ابلہ کا رخ کیااور مثنیٰ ہزیمت خوردہ لشکر کے تعاقب میں روانہ ہوئے۔ بعض مورخین معقل کے ابلہ جانے کا واقعہ تسلیم نہیں کرتے ان کاخیال ہے کہ جیسا کہ ہم اس سے پہلے بھی ذکر کر چکے ہی۔ یہ ہے کہ مسلمانوں نے ابلہ کو حضرت عمرؓ بن خطاب کے عہد میں فتح کیا ۔ اس کے برعکس بعض مورخین کا بیان ہے کہ معقل نے ابلہ فتح کر لیا تھالیکن بعد ازاں اسے ایرانیوں نے واپس لے لیا۔ حضرت عمرؓ کے عہد می عرب دوبارہ اس پر قابض ہو گئے موخر الذکر روایت اور سوید بن قطبہ کے ہاتھوں ابلہ کی تسخیر کی روایت میں (جو ہم پہلے درج کر چکے ہیں) تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ سوید بن قطبہ نے خالدؓ کی اعانت سے ابلہ فتح کیا ہو اور معقل نے جنگ کاظم کے بعد خالدؓ کے حکم کے مطابق صرف مال غنیمت جمع کرنے اور قیدی اکٹھے کرنے پراکتفا کیا ہو۔

عراق کی اس سب سے پہلی لڑائی کو غزوہ ذات السلاسل کا بھی نام دیا جاتاہے۔ کیونکہ اس جنگ میں ایرانیوں نے اپنے آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ لیا تھا تاکہ کوئی بھی شخص میدان جنگ سے فرار نہ ہو سکے۔ لیکن بعض لوگ ا س روایت کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے جنگ کاظمہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ یہ جنگ کاظمہ کے قریب لڑی گئی تھی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔