جب خالدؓ نے رومی لشکر کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو انہوں نے اپنے لشکر کو آگے بڑھنے اور رومیوں پر زبردست حملہ کرنے کا حکم دیا۔ عکرمہ کے دستے کا زور کیا کم تھا جو اب خالدؓ کے لشکر نے قیامت ڈھانی شروع کی۔ رومیوں کے لیے اب کوئی جائے فرار نہ تھی۔ پیچھے واقوصہ کی ہول ناک گھاٹی اور گہرے کھڈے ان کا راستہ روکے ہوئے تھے اور سامنے سے مسلمانوں کا لشکر انہیں بے دریغ قتل کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ خالدؓ تلوار ہاتھ میں لیے سب سے آگے آگے تھے۔ اس موقع پر مسلمان عورتیں بھی اپنے مردوں سے کم نہ رہیں اور انہوں نے بھی بہادری کے جوہر دکھائے۔ چنانچہ ابوسفیان کی بیٹی جویریہ نے جو نمونہ اس موقع پر دکھایا اس نے اس واقعے کی یاد تازہ کر ی جو غزوہ احد کے موقع پر اس کی والدہ ہند کے ذریعے سے ظہور پذیر ہوا تھا۔
رومی بھی اپنی مدافعت میں جان توڑ کر لڑے۔ جو مسلمان ان کے قابو میں آ گیا زندہ نہ بچ سکا۔ رومیوں کی شجاعت اور جواں مردی کی وجہ سے خاصی دیر تک لڑائی کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ شام ہو گئی مگر لڑائی جاری رہی۔ عکرمہ اور ان کے ہاتھ پر موت کی بیعت کرنے والے لوگوں میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹا۔ یہ لوگ معرکے کے آغاز سے انجام تک انتہائی جواں مردی سے دشمن کے سامنے ڈٹے رہے اور بڑھ چڑھ کر حملے کرتے رہے۔ سورج غروب ہونے پر رومیوں میں ضعف کے آثار پیدا ہونے لگے۔ ان کے سواروں کے چہروں سے شدید تھکاوٹ کے آثار ہویدا تھے اور وہ بھاگنے کے لیے کسی راستے کی تلاش میں تھے لیکن اس وقت ان کے لیے کوئی راہ فرار نہ تھی۔ واقوصہ کی گھاٹی ان کے پیچھے تھی اور مسلمان ان کے آگے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔
خالدؓ نے اندازہ کر لیا کہ رومی سواروں کا فرار ان کے ساتھیوں کے لیے مزید کمزوری کا باعث ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آدمیوں کو ایک طرف ہٹ جانے کا حکم دیا۔ جب ان سواروں نے راستہ کھلا دیکھا تو بے تحاشا گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس راستے سے نکلتے چلے گئے اور سر زمین شام میں منتشر ہو گئے۔ جب میدان رومی سواروں سے خالی ہو گیا تو خالدؓ اپنے سوار اور پیدل دستے لے کر رومیوں کے پیدل دستوں پر ٹوٹ پڑے اور ان کا صفایا کرنا شروع کیا
بالآخر رومی دن بھر کی صعوبت کشی سے افسردہ ومضمحل ہوکر مسلمانوں کے مقابلہ پر جم نہ سکے ،پیچھے ہٹے اور ہٹتے ہٹتے دامن کوہ میں پہنچے ؛لیکن مسلمان ان کے ساتھ ساتھ بڑھتے بڑھتے اور دھکیلتے ہوئے گئے،جب پیچھے ہٹنے اور بھاگنے کی جگہ نہ ملی تو ادھر ادھر کو پھوٹ پھوٹ کر ان کا سیلاب نکلا،مسلمانوں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا ،بہت سے پانی میں ڈوب کر بہت سے خندق میں گرکر ہلاک ہوئے ،ایک لاکھ تیس ہزار رومی لقمہ اجل ہوئے باقی اپنی جان بچاکر بھاگ نکلے ،ان مفرورین میں سوار زیادہ تھے پیدل قریباً سب مارےگئے ۔
رومیوں کی کامل شکست ہو چکی تھی۔ مسلمان ان کی لشکر گاہ میں داخل ہوئے۔ خالدؓ نے ہرقل کے بھائی تذارق کے خیمے میں رات گزاری۔ صبح کو جب انہوں نے میدان میں نگاہ دوڑائی تو حد نظر تک کسی رومی کا نشان دکھائی نہ دیتا تھا۔ جو میدان ایک روز قبل رومی افواج قاہرہ سے بھرپور تھا، جہاں بڑے قیمتی جنگی گھوڑے جولانیاں دکھاتے تھے، جہاں ہر طرف عالی شان اور بلند و بالا خیموں کی قطاریں نظر آتی تھیں۔ وہاں اب ہو کا عالم طاری تھا، نہ کسی رومی کا نام و نشان نظر آتا تھا نہ کسی گھوڑے کا ۔ عالی شان اور بلند و بالا خیمے موجود تھے لیکن مالکوں سے خالی تھے اور ان کی جگہ مسلمان ان میں آرام کر رہے تھے۔ یہ نظارہ دیکھ کر خالدؓ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور انہوں نے اللہ کے اس عظیم الشان احسان کا شکر ادا کرنے کے لیے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا لیے۔
جنگ یرموک میں مسلمان شہداء کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ اس لڑائی میں تین ہزار مسلمان شہید ہوئے تھے جن میں جلیل القدر صحابہ اور بڑے بڑے بہادروں اور شہسواروں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔
اس جنگ کا انجام رومیوں کے لیے بہت حسرت ناک تھا۔ ان کی تمام امیدیں خاک میں مل گئی تھیں۔ تمام منصوبے ملیا میٹ ہو گئے تھے۔ ہرقل ان دنوں حمص میں مقیم تھا جونہی اس نے اپنے لشکر کی عبرت ناک شکست کی خبر سنی وہ ایک شخص کو اپنا قائم مقام بنا کر خود وہاں سے بھاگ گیا۔ ادھر مسلمانوں نے جنگ یرموک سے فراغت حاصل کرتے ہی اردن کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور تھوڑے ہی عرصے میں اسے رومیوں سے پاک کرا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے دمشق کا رخ کیا اور اس کا محاصرہ کر لیا۔
1 comments:
سابقہ موضوعات خاصے مستند اور مصدقہ لگ رہے تھے لیکن یہاں پہنچ کر میں اٹک گیا ہوں۔ میرے علم کی حد تک جنگ یرموک 636ء میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوئی ہے جو بہت بڑی جنگ تھی۔ اس ویب سائٹ کے علاوہ کسی جگہ حضرت ابوبکر کے دور خلافت کے حوالے سے یرموک کی کسی جنگ کا تذکرہ پڑھنے کو نہیں ملتا۔ اگر تو دو الگ الگ جنگیں یرموک میں لڑی گئی ہیں تو مصنف کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔