Tuesday 26 July 2016

وفاتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

ابوبکرؓ نے اپنی تجہیز وتکفین کے متعلق بھی ورثاء کو وصیت کر دی تھی۔ ان کی ہدایت تھی کہ انہیں دو کپڑوں میں کفن دیا جائے جو وہ بالعموم پہنا کرتے تھے کیونکہ نئے کپڑے پہننے کا زیادہ حق دار زندہ شخص ہے۔ غسل اسماء بنت عمیس دیں اور اگر وہ اکیلی یہ کام نہ کر سکیں تو اپنے بیٹے عبدالرحمن کو بھی ساتھ ملا لیں۔
ابوبکرؓ اپنی تجہیز و تکفین کے متعلق ہدایات دینے میں مشغول تھے کہ مثنیٰ عراق سے مدینہ پہنچے اور باریابی کی اجازت چاہی۔ انہوں نے باوجود حد درجہ نقاہت کے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ مثنیٰ نے درخواست کی کہ عراق کی صورت حال کے پیش نظر ان لوگوں کو اسلامی فوج میں داخل ہونے کی اجازت دے دیجئے جو مرتد ہو گئے تھے اور اب اپنے کیے پر پشیمان ہیں۔ انہوں نے عمرؓ کو بلا کر کہا کہ شام ہونے سے پہلے پہلے مثنیٰ کی مدد کے لیے فوج روانہ کر دو، میری وفات تمہیں ایسا کرنے سے مطلق نہ روکے۔
جس روز ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمرؓ کی خلافت کے لئے تحریر لکھوائی اورمسلمانوں کو اس کی اطلاع دی،وہ صدیق اکبرؓ کی زندگی کا آخری دن تھا،اُسی روز حضرت مثنیٰ بن حارثہ جو حیرہ(عراق) سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تھے مدینہ منورہ پہنچے،وحضرت مثنیٰ جب مدینہ میں پہنچے تو صدیق اکبرؓ کی زندگی کے صرف چند گھنٹے باقی تھے،انہوں نے مثنیٰ سے تمام حالات سُنے اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مثنیٰ کے ساتھ فوج جمع کرکے ضرور اورجلد روانہ کرنا۔جب حضرت عمرؓ آپ کے پاس سے باہر نکلے تو آپ نے فرمایا،اے اللہ میں نے عمرؓ کو مسلمانوں کی بہتری اور فتنہ وفساد کے خطرہ کو دور کرنے کے لئے اپنے بعد خلیفہ منتخب کیا ہے میں نے جو کچھ کیا ہے مسلمانوں کی بھلائی کے لئے کیا ہے تو دلوں کے حال سے خوب واقف ہے،میں نے مسلمانوں سے مشورہ بھی لے لیا ہے اوراُن میں سے اُس شخص کو جو سب سے بہتر قوی اورمسلمانوں کی بھلائی چاہنے والا اورامین ہے اُن کا والی بنایا ہے،پس تو میرا خلیفہ اُن میں قائم رکھ وہ تیرے بندے ہیں اور اُن کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے اُن کے والیوں کو نیک بنا اورعمرؓ کو بہتر خلیفہ بنا اوراُس کی رعیت کو اُس کے لئے اچھی رعیت بنادے۔
ابوبکرؓ کی وفات21جمادی الاخریٰ13ھ (مطابق22اگست634ئ) پیر کو سورج غروب ہونے کے بعد ہوئی اور اسی رات انہیں دفن کر دیا گیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر تریسٹھ برس کی تھی۔ وصیت کے مطابق ان کی بیوی اسماء بنت عمیس نے انہیں غسل دیا اور ان کے بیٹے عبدالرحیم نے جسم پر پانی ڈالا۔ اس کے بعد ان کی نعش اسی چارپائی پر رکھ کر مسجد نبوی میں لے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر اٹھا کر قبر میں اتارا گیا تھا۔
مسجد نبوی میں ان کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار اور منبر کے درمیان رکھا گیا۔ نماز عمرؓ نے پڑھائی۔ اس کے بعد جنازہ عائشہؓ کے حجرے میں لے گئے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ان کے لیے قبر تیار کی گئی تھی۔
ابوبکرؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں اس طرح دفن کیا گیا کہ ان کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھواں کے متوازی تھا۔ قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد سب لوگ با چشم گریاں حجرے سے باہر نکل آئے اور خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں چھوڑ آئے۔ زندگی بھر دونوں ساتھ رہے۔ یہ رفاقت مرنے کے بعد بھی ختم نہ ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے محبوب خادم اپنے آقا کے برابر ہی آرام کر رہا ہے۔
حضرت علیؓ کے تا ثرات
جس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خبر وفات مدینہ میں پھیلی تمام شہر میں کہرام وتلاطم برپا ہوگیا اور وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کا نقشہ دوبارہ لوگوں کی نگاہوں میں پھرنے لگا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس خبر کو سُنا توروپڑے اورروتے ہوئے آپ کے مکان پر آئے،دروازہ پر کھڑے ہوکر فرمانے لگے:
"اے ابوبکرؓ خدا تم پر رحم کرے بخدا تم تمام امت میں سب سے پہلے ایمان لائے اورایمان کو اپنا خُلق بنایا،تم سب سے زیادہ صاحب ایقان،سب سے غنی اورسب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ونگہداشت کرتے،سب سے زیادہ اسلام کے حامی اور خیر خواہ مخلوق تھے،تم خلق،فضل،ہدایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر تھے،اللہ تعالیٰ تم کو اسلام اورمسلمانوں کی طرف سے بہترین جزادے،تم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی،جب دوسروں نے تکذیب کی اوراس وقت رسولِ خدا کی غم خواری کی جب دوسروں نے بخل کیا جب لوگ نصرت وحمایت سے رُکے ہوئے تھے تم نے کھڑے ہوکر رسول خدا کی مدد کی خدا نے تم کو اپنی کتاب میں صدیق کہا "وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ"تم اسلام کی پشت وپناہ اورکافروں کو بھگانے والے تھے نہ تمہاری حجت بے راہ ہوئی اورنہ تمہاری بصیرت ناتواں ہوئی،تمہارے نفس نے کبھی بزدلی نہیں دکھائی،تم پہاڑ کی مانند مستقل مزاج تھے تند ہوائیں نہ تم کو اکھاڑ سکیں،نہ ہلاسکیں،تمہاری نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ضعیف البدن قوی الایمان،منکسر المزاج،اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ،زمین پر بزرگ،مومنوں میں بڑے ہیں نہ تمہارے سامنے کسی کو طمع ہوسکتی ہے نہ خواہش کمزور تمہارے نزدیک قوی اورقوی کمزور تھا،یہاں تک کہ کمزور کا حق دلادو اورزور آور سے حق لے لو"۔

صحابہ کی بے چینی اور بے قراری یقینا حق بجانب تھی۔ ابوبکرؓ نے اسلام کی سربلندی کی خاطر جو مشکلات اور تکالیف برداشت کیں اور جس طرح اپنے آپ کو اس کی خدمت کے لیے وقف کیا اس کی نظیر اور کوئی نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنے پاک نمونے سے دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں بھی دین کی تڑپ پیدا کر دی تھی۔ انہوں نے ہر قسم کی سختیاں جھیل کر اور ایمان و استقامت اور عزم و استقلال سے کام لے کر اسلام کو ہر امکانی خطرے سے بچایا اور اس راہ میں اپنی جان کی بھی پروا نہ کی۔ اللہ نے خلیفہ اول کے عہد میں مومنوں کا امتحان لیا تھا۔ وہ اس امتحان میں پورے اترے اور خلیفہ کے ایمان و ایقان اور مسلمانوں کی جرأت و ہمت کی بدولت اسلام عرب کی حدود سے نکل کر رومی اور ایرانی مقبوضات میں دور دور تک پھیل گیا۔ ابوبکرؓ کے ذریعے سے اللہ جو کام کرانا چاہتا تھا جب وہ پورا ہو چکا تو اس نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔
اگر ابوبکرؓ، عمرؓ کو جانشین مقرر نہ کرتے تو نہ معلوم اس کا کیا نتیجہ نکلتا ۔ یہ آخری کارنامہ جو ابوبکرؓ نے انجام دیا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کی بدولت اسلام عروج کی آخری منزل تک پہنچ گیا۔ عمرؓ کے عہد میں اسلام کو جو ترقی نصیب ہوئی اسے دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ عمرؓ کا انتخاب خدائی انتخاب تھا جو اسی کی دی ہوئی توفیق سے ابوبکرؓ نے کیا۔ اس انتخاب میں زبان ابوبکرؓ کی لیکن مشیت خدا کی کام کر رہی تھی۔
لاریب ابوبکرؓ اور عمرؓ وہ مقدس وجود تھے جنہوں نے اپنے آپ کو دنیوی آلائشوں سے کلیتہً پاک کر کے خالصتہ اللہ کے لیے وقف کر دیا تھا۔ دونوں کی طبیعتیں مختلف تھیں ۔ لیکن مقاصد ایک ہی تھے یعنی عدل و انصاف کا قیام اور اعلاء کلمتہ الحق۔۔۔۔ دونوں بزرگوں نے ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی زندگیاں یکسر وقف کر دی تھیں اور دونوں نہایت درجہ کامیاب و کامران ہو کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے۔
اللہ ابوبکرؓ پر فضل فرمائے اور انہیں اس دنیا کی طرح بہشت میں بھی اپنی نوازش ہائے بے پایاں سے نواز کر اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ دے آمین!

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔