Tuesday, 26 July 2016

خالد رضی اللہ عنہ کا اہلِ حیرہ کے ساتھ معاھدہ

خالدؓ کوامید تھی کہ ہم قوم ہونے کی وجہ سے یہ عراقی عرب ضرور اسلام قبول کر لیں گے ۔ لیکن انہیں بے حد تعجب ہوا کہ جب انہوں نے بدستو ر عیسائی رہنے پر اصرار کیا۔ خالدؓ نے فرمایا:
’’مجھے تم سے اس جواب کی امید نہ تھی۔ کفرکا رستہ یقینا ہلاکت کی طرف جاتاہے۔ احمق ترین عرب وہ ہے جو عربی شاہراہ ترک کر کے عجمی راہ اختیار کرتاہے‘‘۔
لیکن خالدؓ کی باتوں کا ان سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا اورانہوں نے بدستور عیسائی رہنےپر اصرار کیا۔ اس ی وجہ غالباً یہ ہو گی کہ وہ مذہبی آزادی کے حق سے پوری طرح فائدہ اتھانا چاہتے ہوں گے اور اسلامی سپہ سالار کی طرف سے اسلام قبول کرنے کی دعوت کو اپنے حقوق میں ناجائز مدافعت تصورکرتے ہوں گے۔ دوسرا سبب یہ ہو سکتاہے کہ انہیں خیال ہو گا کہ نہ معلوم مسلمانوں کو عراق میں ثبات و استقلال میسر آتا ہے یا نہیں اور ان کی حکومت برقرار رہتی ہے یا نہیں ۔ اس لیے ان غیریقینی حالات میں مذہب کیوں تبدیل کریں۔
خالدؓ نے سرداران حیرہ سے اسی لاکھ نوے ہزار درہ سالانہ جزیے پر صلح کی تھی اس سلسلے میں باقائدہ صلح نامہ لکھا گیا:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ وہ عہد نامہ ہے جو خالدؓ بن ولید نے سرداران حیرہ عدہ بن عدی‘ عمرو بن عدی‘ عمرو بن المسیح‘ ایاس بن قبیصتہ الطائی اور حیری بن اکال سے کیا ہے۔ اہل حیرہ نے یہ عہد نامہ تسلیم کر لیا ہے اور اسے اپنے سرداروں کو اس کی تکمیل کے لیے مجاز گرداناہے۔ عہد نامے کے مطابق اہل حیرہ کو ایک لاکھ نوے ہزار درہم سالانہ جزیہ ادا کرنا ہو گا۔ یہ جزیہ ان کے پادریوں اور راہبوں سے بھی لیا جائے گا البتہ محتاجوں اپاہجوں اور تارک الدنیا راہبوں کو معاف ہو گا۔
اگریہ جزیہ باقاعدہ ادا کیا جاتا رہا تو اہل حیرہ کی حفاظت کی ساری ذمہ داری مسلمانو ں پر ہو گی اگر وہ حفاظت میں ناکام رہے تو جزیہ نہ لیاجائے گا اگرقول یا فعل کے ذریعے سے بدعہدی کی گئی تو یہ ذمہ داری ختم سمجھی جائے گی یہ معاہدہ ربیع الاول ۱۲ھ میں لکھا گیا‘‘۔

اہل حیرہ نے جزیے کے علاوہ خالدؓ کو کچھ تحفے بھی دیے جو انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیے۔ انہوں نے خالدؓ کوکہلا بھیجا کہ اگر یہ تحفے جزیے میں شامل ہیں تو خیر ورنہ انہیں جزیے کی رقم میں شامل کر کے باقی رقم اہل حیرہ کو واپس کر دو۔
جب حیرہ کی فتح کی تکمیل ہو چکی تو خالدؓ نے آٹھ نفل بہ طور شکرانہ پڑھے۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’جنگ موتہ کے دن میرے ہاتھ میں نوتلواریں ٹوٹیں تھیں لیکن جس قدر سخت مقابلہ مجھے اہل فارس سے پیش آیا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور اہل فارس میں سے الیس والوں نے جس جواںمردی سے میرا مقابلہ کیا اس کی نظیر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی‘‘۔
فتح کے بعد خالدؓ نے حیرہ کو مسلمانوں کافوجی مستقر اور مفتوحہ علاقے کا دارالحکومت بنایا۔ یہ پہلا اسلامی دارالحکومت تھا جو جزیرہ عرب کے باہر قائم کیا گیا تھا۔ پھر بھی یہاں کا نظم و نسق آپ نے مقامی سرداروں ہی کے ہاتھوں میں رہنے دیا۔ و ہ اپنی اس قدر حوصلہ افزائی سے بہت خوش ہوئے اور دل و جان سے ان کی اطاعت و فرماں برداری کا دم بھرنے اورحیرہ اور اس کے گرد و نواح میں سکون و اطمینان کی فضا پیدا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہونے لگے۔ جب حیرہ ے قریبی باشندوں نے دیکھا کہ اہل حیرہ اسلامی عدل انصاف سے کاملاً بہرہ ورہو رہے ہیں ، انہیں اپنے مذہب پر قائم رہنے مذہبی رسوم ادا کرنے اور عبادات بجا لانے کی پوری آزادی حاصل ہے اور وہ اطمینان سے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں اوردوسری طرف ایرانی حکومت ان کی طرف سے بالکل غافل ہے تو انہوں نے بھی خالدؓ سے مصالحت کرنے اور ان کی اطاعت قبول کرنے کا ارادہ کر لیا۔ انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کی حکومت میں غریب کاشت کار بڑے اطمینان سے کھیتی باڑی میں مشغول ہیںَ مسلمان نہ صرف ان سے مطلق تعرض نہیں کرتے بلکہ ایرانی زمینداروں کے ہاتھوں انہیں جن مظالم اور سختیوں سے گزرناا پڑتا تھا ان کا وجود بھی باقی نہیں مسلمان ان کے حقوق کی پوری نگہداشت کرتے ہیں تو ان کے دل بے اختیار مسلمانوں کی طرف مائل ہو گئے۔
سب سے پہلے جس شخص نے خالدؓ کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھایا وہ دیر ناطف کا پادری صلوبابن نسطونا تھا اس نے بانقیا اور بسما کے ان قصبات کی ساری اراضی کے لگان کی ذمہ داری قبول کرلی جو دریائے فرات کے کنارے واقع تھی۔ کسریٰ کے موتیوں کے علاوہ اس نے اپنی ذات ور خاندان کی طرفف سے دس ہزار دینار دینے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ باقاعدہ یہ معاہدہ لکھا گیا۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ معاہدہ خالد بن ولیدؓ کی جانب سے صلوبا نسطونا اور اس کی قم کے لیے لکھا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق تم سے دس ہزار ددرہم سالانہ جزیہ وصول کیا جائے گا۔ کسریٰ کے موتی اس کے علاوہ ہوں گے۔ یہ رقم مستطیع اور کمانے والے افراد کے ان کی آمدنی اور حیثیت کے مطابق سالانہ وصول کی جائے گی اس جزیے کے بدلے مسلمانوں کی طرف بانقیا اوربسما کی بستیوں کی حفاظت کی جائے گی۔ تمہیں اپنی قوم کانقیب مقرر کیا جاتاہے جسے تمہاری قوم قبول کرتی ہے۔ اس معاہدے پر میں اور میرے ساتھ کے سب مسلمان رضاامند ہیں اور اسے قبول کرتے ہیں اور اسی طرح تمہاری قوم بھی اس پر رضامند ہے اوراسے قبول کرتی ہے‘‘۔
صلوبا کے بعد عراق کے دوسرے زمینداروں نے بھی خالدؓ کی اطاعت قبول کر لی فلالیج سے ہرمزو جرد تک کے علاقے بیس لاکھ درہ پر مصالحت ہوئی۔ اس طرح وہ سارا علاقہ جوجنوب میں خلیج فارس سے شمال میں حیرہ تک اور مغرب میں جزیرہ عرب سے مشرق میں دریائے دجلہ تک پھیلاہواتھا خالدؓ کے زیر نگیں آ گیا۔ انہوں نے ان علاقوں میں امراء مقرر کے بھیجے جن کے سپرد امن و امان اور شہری نظام بحال کرنے کے علاوہ خراج کی وصولی کاکا بھی تھا۔ علاوہ بریں انہوں نے مختلف شہروں میں فوجی دستے بھی متعین کیے تاکہ اگر کوئی بغاوت پھوٹ پڑے یا کسی جانب سے حملے کا خطرہ ہو تو اس کا تدارک کیاجا سکے۔ ان دستوں کے تقرر سے شوریدہ لوگوں کے حوصلے بالکل پست ہو گئے ہیں او ر وہ اسلامی حکومت سے بغاوت کا خیال بھی دل میں نہ لا سکے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔