جب خالدؓکو انبار اور اس کے نواحی علاقے کی طرف سے اطمینان ہو گیاتو زبرقان بن بدر کو اپنانائب بنا کر انبار میں چھوڑا اور خود عین التمر کا قصد کیا جو عراق اور صحرائے شام کے دریان صحرا کے کنارے واقع ہے۔ انبار سے عین التمر تک پہنچنے میں تین دن لگے۔ ایرانیوں کی طرف سے وہاں کا حاکم مہران بن بہرام چوبین تھا۔ اس نے شہر کی حفاظت کے لیے ایرانیوں کی ایک بھاری فوج جمع کر رکھی تھی۔ ایرانی فوجوں کے علاوہ بنی تغلب اور نمر اورایاد کے بدوی قبائل بھی عقبہ بن ابی عقبہ اور ہذیل کے زیر سرکردگی بھاری تعداد میں مہران کے پاس جمع تھے ۔
عقبہ بن عقبہ نے خالد بن ولیدؓ کے قریب پہنچنے کی خبر سُن کر مہران بن بہرام ایرانی سپہ سالار سے کہا کہ عربوں کی لڑائی کو عرب ہی خوب جانتے ہیں،لہذا آپ اول ہم کو اسلامی لشکر کا مقابلہ کرنے دیجئے،مہران نے اس بات کو بخوشی منظور کرلیا ،عقبہ فوج لے کر آگے بڑھا اور خالدؓ کے راستے میں حائل ہو گیا۔ لڑائی شروع ہوئی تو بڑی پھرتی سے کمند پھینک کر عقبہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اپنے سردار کا یہ حشر دیکھ کر بدوئوں کے چھکے چھوٹ گئے اور انہوں نے بے تحاشا بھاگنا شروع کر دی۔مسلمانو ں نے ان کا پیچھا کیا اور سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ االبتہ ہذیل اور بعض دوسرے سرداران لشکر بچ کر نکل گئے۔
مہران بڑے اطمینان سے قلعے میں فروکش تھا اور اسے یقین تھا کہ بدو ضرور مسلمانوں کا حملہ روک لیں گے لیکن جب اس نے یہ ماجرا دیکھاتوبہت سٹپٹایا اور فوج لے کر قلعہ سے بھاگ گیا۔ قلعے میں جو فوج رہ گئی تھی وہ پہلے اس کی حفاظت کے لیے متعین تھی یا وہ بدوجو عقبہ کے لشکر میں شامل تھے اور شکست کھا کے قلعے میں پناہ گزیں ہو گئے تھے۔
خالدؓ نے آگے بڑھ کر قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ کچھ رو ز تو قلعے والے دروازے بند کیے محاصرے کامقابلہ کرتے رہے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان میں خالدؓ کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے تو انہوں نے اس شرط پر دروازے کھولنے کی پیش کش کی کہ ان کی جان بخشی کر دی جائے لیکن خالدؓ نے غیر مشروط طورپر ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کر دیا۔ آخر انہیں یہ مطالبہ ماننا ہی پڑا اور قلعے کے دروازے کھول دیے گئے۔ خالدؓ نے سب لوگوںکو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
حضرت خالدبن ولید نے انبار اور عین التمر کی فتح کے بعد ولید بن عقبہ کو خمس دے کر فتح کی خوش خبری کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیجا ۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر تمام حالات سے آگاہ کیا اور بتایاکہ خالدؓ نے ان کے احکام نظر انداز کرتے ہوئے حیرہ اس لیے چھوڑا اورانبار و عین التمر پر اس لیے چڑھائی کی کہ انہیں حیرہ میں قیام کیے ہوئے پورا ایک سال ہو گیا تھا اور عیاض کا کچھ پتا نہ تھا اور وہ کب دومتہ الجندل سے فارغ ہو کر خالدؓ کی مدد کے لیے حیرہ پہنچتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ بھی عیاض کی سست روی سے تنگ آ چکے تھے اور ان کا خیا ل تھا کہ وہ مسلمانوں کے حوصلے پست کر رہے ہیں۔ اگر دشمن کو خالدؓ کے ان کارنامو ں کی اطلاعات ن ملتیں رہتیں جو انہوں نے عراق میں انجام دیے تو یقیناوہ عیاض کی کمزوری سے فائد ہ اٹھا کر مسلمانوں کو سخت زک پہنچاتے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔