Tuesday, 26 July 2016

فتح بابل و کوثی

ایرانیوں نے قادسیہ سے بھاگ کر بابل میں قیام کیا اور کئی نامور سرداروں نے مفرور لوگوں کو فراہم کرکے مقابلہ کی تیاریاں کیں،حضرت سعدؓ نے فتح کے بعد دو مہینے تک قادسیہ میں قیام فرمایا اور فاروق اعظمؓ کے حکم کا انتظار کیا دربار خلافت سے احکام کے وصول ہونے پر حضرت سعدؓ نے اہل وعیال کو تو قادسیہ ہی میں چھوڑا اورخود لشکر اسلامی کے ساتھ مدائن کی جانب روانہ ہوئے،اپنی روانگی سے پہلے حضرت زہرہ بن حیوٰۃ کو مقدمۃ الجیش بناکر آگے روانہ کیا زہرہ دشمنوں کو مارتے ہٹاتے محکوم بناتے ہوئے بڑھتے چلے جاتے تھے،یہاں تک کہ بابل کے قریب پہنچے ،یہاں حضرت سعدؓ بھی اپنی پوری فوج لے کر آپہنچے،ایرانی سرداروں نے حضرت سعدؓ کے آنے کی خبر سنی، تو وہ بابل میں قیام نہ کرسکے کچھ مدائن کی طرف چل دئے کچھ ہوازن اورنہاوند کی جانب چلے گئے اور راستے میں تمام پلوں کو توڑتے اور دریائے دجلہ اور اس کی نہروں اور ندیوں کو ناقابل عبور بناتے ہوئے گئے۔
ایرانیوں کے فرار و منتشر ہونے کی خبر سُن کر حضرت سعدؓ نے حضرت زہرہ کو حسب دستور آگے روانہ کیا اورخود بھی ان کے پیچھے بڑے لشکر کو لے کر متحرک ہوئے،حضرت زہرہؓ جب مقام کوثی پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہاں ایرانیوں کا مشہور سردار شہریار مقابلہ پر آمادہ ہے ،کوثی وہ مقام ہے جہاں نمرود نے ابراہیم خلیل اللہ کو قید کیا تھا،قید خانہ کی جگہ اس وقت تک محفوظ تھی،شہر یار حضرت زہرہؓ کے قریب پہنچنے کا حال سُن کر کوثی سے باہر نکلا اور مسلمانوں کے مقابل صف آرا ہوکر میدان میں آگے بڑھ کر للکارا کہ تمہارے سارے لشکر میں جو سب سے زیادہ بہادر جنگ جو ہو وہ میرے مقابلے پر آئے یہ سُن کر حضرت زہرہؓ نے جواب دیا کہ میں خود تیرے مقابلہ پر آنے کو تیار تھا؛ لیکن اب تیری لن ترانی سن کر تیرے مقابلہ پر اس لشکر میں سے کسی ادنیٰ ترین غلام کو بھیجتا ہوں کہ وہ تیرے غرور کا سر نیچا کردے،یہ کہہ کر آپ نے نائل بن جعثم اعرج کو جو قبیلہ بنو تمیم کا غلام تھا اشارہ کیا ،حضرت نائل بن جعثم فوراً گھوڑا نکال کر میدان میں شہر یار کے مقابل پہنچے،شہر یار اُن کو نہایت کمزور دیکھ کر ان کی طرف بڑھا اورگردن پکڑ کر کھینچا اورزمین پر گرا کر ان کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا، اتفاقاً شہریار کا انگوٹھا حضرت نائل کے منہ میں آگیا، انہوں نے اُس کو اس زور سے چبایا کہ شہر یار بے تاب ہوگیا، اورحضرت نائل فوراً اٹھ کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اوربلا توقف خنجر نکال کر اس کا پیٹ چاک کردیا،شہر یار کے مارے جاتے ہی تمام ایرانی فوجیں بھاگ پڑیں،شہر یار کی زرہ،قیمتی پوشاک ،زرین تاج اور ہتھیار سب نائل کو ملے حضرت سعدؓ نے کوثی پہنچ کر شہر یار کے مارے جانے اورکوثی کے فتح ہونے کا حال سُنا اور اس مقام کو جاکر دیکھا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام قید رہے تھے ،پھر حضرت نائل کو حکم دیا کہ شہر یار کی پوشاک پہن کر اورشہر یار کے تمام ہتھیار لگا کر آئیں ؛چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی اور لشکرِ اسلام اس نظارہ کو دیکھ کر خدائے تعالیٰ کی حمد و ثنا میں مصروف ہوا۔

بہرہ شیر کی فتح
بہرہ شیر ایک مقام کا نام تھا جو مدائن کے قریب ایک زبردست قلعہ اور شہر تھا، بہرہ شیر میں شاہی باڈی گارڈ کا ایک زبردست رسالہ اور دارالسلطنت کی حفاظت کے لئے نہایت زبردست اوربہادر فوج رہتی تھی،مدائن اوربہرہ شیر کے درمیان دریائے دجلہ حائل تھا، بہرہ شیر اس طرف تھا اوردجلہ کے اُس طرف مدائن تھا، شہنشاہِ ایران کبھی بہرہ شیر میں بھی آکر رہتا تھا،یہاں بھی شاہی ایوان اورشاہی کارخانے موجود تھے،اسلامی لشکر کوثی سے آگے بڑھا،تو بہرہ شیر پہنچنے تک کئی مقامات پر ایرانیوں کا مقابلہ کرنا پڑا اوران کو شکست دے کر راستے سے ہٹانا پڑا ،یہاں تک کہ مسلمانوں نے بہرہ شیر کا محاصرہ کرلیا،یہ محاصرہ تین مہینے تک جاری رہا،آخر محصورین سختی سے تنگ آکر مقابلہ پر آمادہ ہوئے،اور شہر پناہ سے باہر مقابلے پرآئے، بالآخر مقتول و مفرور ہوئے اوراسلامی لشکر فاتحانہ بہرہ شیر میں داخل ہوا بہرہ شیر کے مفتوح ہوتے ہی یزد جرد نے مدائن سے بھاگنے اوراموال وخزائن کے مدائن سے منتقل کرنے کی تدابیر اختیار کیں ،مدائن سے یزد جرد کا معہ خزائن کے بھاگ جانا مسلمانوں کے لئے خطرات کا بدستور باقی رہنا تھا۔
مکمل تحریر >>

جنگِ قادسیہ

حضرت مغیرہؓ کے رخصت ہوتے ہی رستم نے اپنی فوج کوتیاری کا حکم دے دیا،دونوں لشکروں کے درمیان ایک نہر حائل تھی،رستم کے پاس پیغام بھیجا کہ تم نہر کے اس طرف آکر لڑو گے یا ہم کو نہر کے اس طرف آنا چاہئے،حضرت سعدؓ نے کہلا بھجوایا کہ تم ہی نہر کے اس طرف آجاؤ؛چنانچہ تمام ایرانی لشکر نہر کو عبور کرکے میدان میں آکرجم گیا،میمنہ و میسرہ اور ہر اول وساقہ وغیرہ لشکر کے ہر ایک حصہ کو رستم نے جنگی ہاتھیوں اور زرہ پوش سواروں سے ہر طرح مضبوط ومکمل بنایا،خود قلب لشکر میں قیام کیا،یہ ایرانی لشکر جو زیادہ سے زیادہ تیس ہزار کے اسلامی لشکر کے مقابلہ میں آمادہ جنگ ہوا پونے دولاکھ سے زیادہ اور ہرطرح اسلامی لشکر کی نسبت سامان حرب سے مسلح تھے،سپہ سالار لشکر اسلام حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے دنبل نکل رہے تھے اور عرق النساء کے درد کی بھی آپ کو شکایت تھی،لہذا نہ گھوڑے پر سوار ہوسکتے تھے نہ چل پھر سکتے تھے،میدان جنگ میں اسلامی لشکرگاہ کے سرے پر ایک پرانے زمانہ کی بنی ہوئی پختہ عمارت کھڑی تھی،حضرت سعدؓ خود اس عمارت کی چھت پر گاؤ تکیہ کے سہارے بیٹھ گئے اور اپنی جگہ میدان جنگ کا سردار خالد بن عرفطہؓ کو تجویز کیا ؛لیکن لڑائی کے نقشے اورمیدان جنگ کے اہم تغیر و تبدل کو حضرت سعدؓ نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھا، یعنی برابر حضرت خالد بن عرفطہؓ کے پاس ہدایات روانہ کرتے رہے،ایرانی لشکر کی تیاریوں کی خبر سن کر اسلامی لشکر بھی جنگ کی تیاری میں مصروف ہوگیا تھا، حضرت عمرو بن معد یکربؓ حضرت عاصم بن عمروؓ ،حضرت ربعیؓ، حضرت عامرؓ وغیرہ حضرات نے حضرت سعدؓ کے حکم کے موافق تمام لشکر اسلام میں گشت لگا کر لوگوں کو جہاد اورجنگ پر آمادہ کیا،شعراء نے رجز خوانی شروع کی،قاریوں نے سورہِ انفال کی تلاوت سے تمام لشکر میں ایک جوش اورہیجانی کیفیت پیدا کردی۔
بہرحا ل دونوں فوجیں مسلح ہوکر ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوگئیں، سب سے پہلے لشکر ایران کی طرف سے ہرمزنامی ایک شہزادہ میدان میں نکلا جو زرین تاج پہنے ہوئے تھا اورایران کے مشہور پہلوانوں میں شمار ہوتا تھا،اس کے مقابلے کے لئے حضرت غالب بن عبداللہ اسعدؓ اسلامی لشکر سے نکلے حضرت غالبؓ نے میدان میں جاتے ہی ہرمز کو گرفتار کرلیا اور گرفتار کرکے حضرت سعدؓ کے پاس لاکر ان کے سپرد کرگئے ،اس کے بعد ایک اور زبردست شہسوار اہل فارس کی جانب سے نکلا،ادھر حضرت عاصمؓ اُس کے مقابلے کو پہنچے،طرفین سے ایک ایک دو دو وارہی ہونے پائے تھے کہ ایرانی شہسوار بھاگا،حضرت عاصمؓ نے اس کا تعاقب کیا لشکر فارس کی صف اول کے قریب پہنچ کر اُس کے گھوڑے کی دُم پکڑ کر روک لیا اورسوار کو اُس کے گھوڑے سے اٹھا کر اور اپنے آگے زبردستی بٹھا کر گرفتار کر لائے ،یہ بہادری دیکھ کر لشکر ایران سے ایک اوربہادر چاندی کا گرز لئے ہوئے نکلا اس کے مقابلے پر حضرت عمرو بن معدیکربؓ نکلے اور گرفتار کرکے لشکر اسلام میں لے آئے،رستم نے اپنے کئی سرداروں کو اس طرح گرفتار ہوتے ہوئے دیکھ کر فوراً جنگ مغلوبہ شروع کردی اورسب سے پہلے ہاتھیوں کی صف کو مسلمانوں کی طرف ریلا،ہاتھیوں کے اس حملہ کو قبیلہ بحیلہ نے روکا،لیکن ان کا بہت نقصان ہوا،حضرت سعدؓ نے جو بڑے غور سے میدان کا رنگ دیکھ رہے تھے،فورا بنی اسد کے لوگوں کو بحیلہ کی کمک کے لئے حکم دیا،بنو اسد نے آگے بڑھ کر خوب خوب داد مردانگی دی،لیکن جب ان کی بھی حالت نازک ہوئی،توحضرت سعدؓ نے فوراً قبیلہ کندہ کے بہادروں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا،بنو کندہ نے آگے بڑھ کر اس شان سے حملہ کیا کہ اہل فارس کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ پیچھے ہٹنے لگے،رستم نے یہ رنگ دیکھ کر تمام لشکر ایران کو مجموعی طاقت سے یکبارگی حملہ کرنے کا حکم دیا،اس متفقہ سخت حملہ کو دیکھ کر حضرت سعدؓ نے تکبیر کہی اورتمام اسلامی لشکر نے حضرت سعدؓ کی تقلید میں تکبیر کہہ کر ایرانیوں پر حملہ کیا گویادوسمندر ایک دوسرے پر امنڈ آئے،یا دو پہاڑ ایک دوسرے سے ٹکرائے فریقین کی فوجیں ایک دوسرے میں خلط ملط ہوگئیں ،اس حالت میں ایرانیوں کے جنگی ہاتھیوں نے اسلامی لشکر کو سخت نقصان پہنچانا شروع کیا،حضرت سعدؓ نے فوراً تیر اندازوں کو حکم دیا کہ ہاتھیوں پر اور ہاتھیوں کے سواروں پر تیر اندازی کرو،حضرت عاصمؓ نے نیزہ لے کر ہاتھیوں پر حملہ کیا،اُن کی تقلید میں دوسرے بہادروں نے بھی ہاتھیوں کی سونڈھوں پر تلواروں اورنیزوں سے زخم پہنچانے شروع کردئے،تیر اندازوں نے ایسے تیر برسائے کہ فیل نشینوں کو جوابی تیر اندازی کی مہلت ہی نہ ملی،نتیجہ یہ ہوا کہ ہاتھ پیچھے ہٹے اوربہادروں کے لئے میدان میں شمشیر زنی کے جوہر دکھانے کے مواقع ملے صبح سے شام تک میدان کارزار گرم رہا رات کی تاریکی نے لڑائی کو کل کے لئے ملتوی کردیا یہ دوشنبہ کا روز تھا محرم ۱۴ ھ کا واقعہ ہے۔
اگلے دن علی الصبح بعد نماز فجر حضرت سعد بن وقاصؓ نے سب سے پہلے کل کے شہداء کو قادسیہ کے مشرق کی جانب دفن کرایا،کل کے شہداء کی تعداد پانچ سو تھی،زخمیوں کی مرہم پٹی کا سامان رات ہی میں کردیا گیا تھا،شہداء کے دفن سے فارغ ہوکر اسلامی لشکر نے اپنی صفیں مرتب کیں،ایرانی بھی میدان میں آڈٹے ابھی لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی کہ ملک شام سے روانہ کئے ہوئے لشکر کے قریب پہنچنے کی خبر پہنچی،ملک شام سے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے حضرت ہاشم بن عتبہؓ کی سرداری میں لشکر عراق کو واپس بھیجا تھا،اس لشکر کے مقدمۃ الجیش پر حضرت قعقاع بن عمروؓ افسر تھے اور وہ ایک ہزار کا مقدمۃ الجیش لئے ہوئے سب سے پہلے قادسیہ پہنچے اورحضرت سعدؓ کو بڑے لشکر کے پہنچنے کی خوشخبری سُنا کر خود اجازت لے کر میدان میں نکلے اور مبارز طلب کیا ان کے مقابلہ پر بہمن جادویہ آیا طرفین سے داد سپہ گری دی گئی اور جوہردکھائے گئے،لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت قعقاع کے ہاتھ سے بہمن جادویہ ہلاک ہوا اس کے بعد کئی مشہور ونامور ایرانی بہادر میدان میں نکلے اور مقتول ہوئے،بالآخر رستم نے عام حملہ کا حکم دیا اوربڑے زورو شور سے لڑائی ہونے لگی،ہاشم بن عتبہؓ نے میدان جنگ کے گرم ہونے کا حال سُن کر اپنی چھ ہزار فوج کے بہت سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردئے اورحکم دیا کہ تھوڑے وقفہ سے ایک ایک حصہ تکبیر کہتا ہوا داخل ہو،اس طرح شام تک یکے بعد دیگرے یہ دستے لشکر اسلام میں داخل ہوتے اورایرانی اس طرح پیہم کمک دستوں کی آمد دیکھ دیکھ کر خوف زدہ ہوتے رہے،آج بھی ہاتھیوں کا لشکر اسلام کے لئے بہت سخت تھا،لیکن مسلمانوں نے ایک نئی تدبیر یہ کی کہ اونٹوں پر بڑی بڑی جھولیں ڈالیں وہ بھی ہاتھیوں کی طرح مہیب نظر آتے اور ایرانیوں کے گھوڑے ان کو دیکھ دیکھ کر بدکنے لگے،جس قدر ہاتھیوں سے اسلامی لشکر کو نقصان پہنچتا تھا،اسی قدر ایرانی لشکر کو ان مصنوعی ہاتھیوں سے نقصان پہنچنے لگا،آج حضرت قعقاعؓ نے بہت سے ایرانی سرداروں اورمشہور شہسواروں کو قتل کیا،شام تک بازار جنگ گرم رہا آج ایک ہزار مسلمان اوردس ہزار ایرانی میدان جنگ میں کام آئے۔

تیسرے روز حضرت سعد بن وقاصؓ نے نماز فجر سے فارغ ہوتے ہی اول شہداء کی لاشوں کے دفن کرنے کا انتظام کیا مجروحوں کو عورتوں کے سپرد کیا گیا کہ وہ مرہم پٹی کریں،اس کے بعد دونوں فوجیں میدان جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں،آج بھی ایرانیوں نے ہاتھیوں کو آگے رکھا؛ لیکن قعقاعؓ وعاصمؓ نے مل کر فیل سفید پر جو تمام ہاتھیوں کا سردار تھا حملہ کیا اور اُس کو مارڈالا ،فیل سفید کے مارے جانے کے بعد ایک دوسرے ہاتھی پر حملہ ہوا،تو وہ میدان سے اپنی جان بچا کر بھاگا،اس کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر دوسرے ہاتھیوں نے بھی تقلید کی اوراس طرح آج ہاتھیوں کا وجود بجائے اس کے کہ اسلامی لشکر کو نقصان پہنچاتا خود ایرانیوں کے لئے نقصان رساں ثابت ہوا،آج بھی بڑے زور کی لڑائی ہوئی اورصبح سے شام تک جاری رہی،غروب آفتاب کے بعد تھوڑی دیر کے لئے دونوں فوجیں ایک دوسرے سے جدا ہوئیں اورپھر فوراً مستعد ہوکر ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوگئیں ۔
مغرب کے وقت سے شروع ہوکر صبح تک لڑائی جاری رہی،تمام رات لڑائی کا شور وغل اورہنگامہ برپا رہا نہ پوری کیفیت حضرت سعدؓ کو معلوم ہوسکتی تھی نہ رستم کو غرض یہ رات بھی ایک عجیب قسم کی رات تھی،سپہ سالار اسلام حضرت سعدؓ رات بھر دُعا میں مصروف رہے،آدھی رات کے بعد انہوں نے میدان جنگ کے شور وغل میں حضرت قعقاعؓ کو آواز سنی کہ وہ اپنے لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ سب سمٹ کر قلب پر حملہ کرو اور رستم کو گرفتار کرلو،اس آواز نے نہ صرف حضرت سعدؓ کو تسکین دی ؛بلکہ تمام مسلمانوں میں ازسر نو طاقت پیدا کردی،تمام دن اورتمام رات لڑتے ہوئے غازیان اسلام تھک کر چور چور ہوگئے تھے،مگر اب پھر ہر قبیلہ کے سردار نے اپنی اپنی قوم کو مقابلہ کے لئے برانگیختہ کیا،بڑے زور شور سے تلوار چلنے لگی حضرت قعقاع کی رکابی فوج لڑتی ہوئی اس مقام تک پہنچ گئی،جہاں رستم ایک تخت زریں پر بیٹھا ہوا اپنی فوج کو لڑا رہا تھا اورحصہ فوج کو احکام بھیج رہا تھا،اسلامی حملہ آوروں کے قریب پہنچنے پر رستم خود تخت سے اتر کر لڑنے لگا جب زخمی ہوا تو پیٹھ پھیر کر بھاگا حضرت ہلال بن علقمہؓ نے بڑھ کر بھاگتے ہوئے برچھے کا وار کیا جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی اورنہر میں گرپڑا ،ہلال نے فورا گھوڑے سے کود کر ااورجھک کر رستم کی ٹانگیں پکڑ کر باہر کھینچ لیا اوراس کا کام تمام کرکے فورا رستم کے تخت پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے پکارا کہ خدا کی قسم میں نے رستم کو قتل کردیا ہے،اس آواز کے سنتے ہی اسلامی فوج نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور ایرانیوں کے ہوش وحواس باختہ ہوگئے،ایرانی میدان سے بھاگے،لشکر ایران میں سواروں کی تعداد تیس ہزار تھی،جن میں بمشکل تیس سوار بھاگ کر اپنی جان بچاسکے،باقی سب میدان جنگ میں مارے گئے، ۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کے کل چھ ہزار آدمی شہید ہوئے۔
حضرت سعدؓ نے رستم کا تمام سامان اسلحہ ہلال بن علقمہ کو دیا اورقعقاع وشرجیل کو تعاقب کے لئے روانہ کیا؛ لیکن ان سے بھی پہلے حضرت زہرہ بن حیوٰۃ ایک دستہ فوج لے کر مفرور ایرانیوں کے پیچھے روانہ ہوچکے تھے،راستے میں ایک مقام پر جالینوس مفروروں کو روک روک کر مجتمع کررہا تھا حضرت زہرہ نے اس کو قتل کردیا اوراس کے تمام مال وسامان پر قبضہ کرکے حضرت سعدؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت سعدؓ کوجالینوس کا سامان اُن کے حوالے کرنے میں تامل ہوا اوراس معاملہ میں دربار خلافت سے اجازت طلب کی ،فاروق اعظمؓ نے حضرت زہرہؓ کی ستائش کی اورجالینوس کا اسباب انہیں کودے دینے کا حکم دیا۔
حضرت سعدؓ نے میدان جنگ کا ہنگامہ فرو ہونے کے بعد مال غنیمت فراہم کیا فوراً حضرت فاروقؓ کی خدمت میں فتح کی خوشخبری کا خط لکھا اورایک تیز رفتار شتر سوار کو دے کر مدینہ کی طرف روانہ کیا یہاں فاروق اعظمؓ کا یہ حال تھا کہ روزانہ صبح اُٹھ کر مدینے میں واپس آجاتے تھے،ایک روز حسب دستور باہر تشریف لے گئے دُور سے ایک شتر سوار نظر پڑا اُس کی طرف لپکے ،قریب پہنچ کر دریافت کیا کہ کہاں سے آتے ہو اُس نے کہا کہ میں قادسیہ سے آرہا ہوں اور خوشخبری لایا ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عظیم عطا کی، فاروق اعظمؓ نے اُس سے لڑائی کی کیفیت اورفتح کے تفصیلی حالات دریافت کرنے شروع کئے اور شہسوار کی رکاب پکڑے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے مدینے میں داخل ہوئے ،شتر سوار حالات سناتا جاتا تھا اوراپنے اونٹ پر سوار مدینے میں دربار خلافت کی جانب چلا جاتا تھا،شہر میں داخل ہوکر شتر سوار نے دیکھا کہ ہر شخص جو سامنے آتا ہے فاروق اعظمؓ کو امیر المومنین کہہ کر سلام علیک کرتا ہے،تب اُس کو معلوم ہوا کہ جو شخص میرے ساتھ پیدل چل رہا ہے وہ خلیفہ وقت ہے یہ معلوم کرکے وہ ڈرا اور اونٹ سے اترنا چاہا،لیکن فاروق اعظمؓ نے کہا کہ تم حالات سناتے جاؤ،اوربدستور اپنے اونٹ پر سوار چلے چلو،اسی طرح گھر تک آئے ،مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچ کر لوگوں کو جمع کیا اور فتح کی خوشخبری سب کو سُنائی، ایک نہایت پُر اثر تقریر فرمائی جس کا خاتمہ اس طرح تھا:
"بھائیو! میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تم کو اپنا غلام بنانا چاہوں، میں تو خود اللہ تعالیٰ کا غلام ہوں،البتہ خلافت کا کام میرے سپرد ہے،اگر میں یہ کام اس طرح انجام دوں کہ تم آرام سے اپنے گھروں میں اطمینان سے زندگی بسر کرو تو یہ میری خوش نصیبی ہے اوراگر خدانخواستہ میری یہ خواہش ہو کہ تم لوگ میرے دروازے پر حاضری دیا کرو تو یہ میری بد بختی ہوگی میں تم کو تعلیم دیتا ہوں اورنصیحت کرتا ہوں لیکن صرف قول سے نہیں عمل سے بھی۔"
مکمل تحریر >>

اسلامی سفارت ایران میں

اس سفارت میں جو قادسیہ سے مدائن کی جانب روانہ ہوئے مندرجہ ذیل حضرات شامل تھے،نعمان بن مقرنؓ قیس بن زراراہؓ اشعثؓ بن قیس، فرات بن حبانؓ،عاصم بن عمرؓ، عمرو بن معدیکربؓ، مغیرہ بن شعبہؓ، معنی بن حارثہؓ، عطار بن حاجبؓ، بشیر بن ابی رہم،حنظلہ بن الربیعؓ،عدی بن سہیلؓ، یہ تمام حضرات اپنے عربی گھوڑوں پر سوار راستے میں رستم کے لشکر کو چھوڑتے ہوئے سیدھے مدائن پہنچے،وہاں یزد جرد نے اُن سفیروں کے آنے کی خبر سُن کر دربار کو خوب آراستہ کیا،جب یہ اسلامی سفیر دربار میں اپنی سادہ وسپاہیانہ وضع کے ساتھ داخل ہوئے،تو تمام دربار ان کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔
اول یزد جرد نے ان سے معمولی سوالات کئے اوراُن کے باصواب جواب پاکر دریافت کیا کہ تم لوگوں کو ہمارے مقابلے کی جرأت کیسے ہوئی اور تم کس طرح اس بات کو بھول گئے کہ تمہاری قوم اس دنیا میں ذلیل و احمق سمجھی جاتی ہے ،کیا تم اس بات کو بھی بھول گئے ہو کہ جب کبھی تم لوگوں سے کوئی سرکشی یا بغاوت دیکھی جاتی تھی تو ہم اپنی سرحدوں کے عاملوں اور صوبے داروں کو حکم دیا کرتے تھے کہ تم کو سیدھا کردیں؛چنانچہ وہ تم کو ٹھیک بنادیا کرتے تھے۔
یہ سُن کر حضرت نعمانؓ بن مقرن نے جواب دیا، کہ ہم دنیا سے بت پرستی اور شرک مٹانے کی کوشش کرتے اورتمام دنیا کے سامنے اسلام پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہی کے ذریعہ انسان سعادت انسانی حاصل کرسکتا ہے،اگر کوئی شخص اسلام قبول نہیں کرتا تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی حفاظت وسرپرستی میں سپرد کردے اورجزیہ ادا کرے لیکن اگر وہ اسلام اور ادائے جزیہ دونوں باتوں سے انکار کرتا ہے تو اُس کے اورہمارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔

قیس بن زرارہ کی تقریر
یرذجرداس گفتگو کو سُن کر برافروختہ ہوا لیکن ضبط کرکے بولا کہ تم لوگ محض وحشی لوگ ہو تمہاری تعداد بھی کم ہے،تم ہمارے ملک کے کسی حصہ کی طمع نہ کرو،ہم تم پر اس قدر احسان کرسکتے ہیں کہ تم کو کھانے کے لئے غلہ اورپہننے کے لئے کپڑا دے دیں اور تمہارے اوپر کوئی ایسا حاکم مقرر کردیں ،جو تمہارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے،اس بات کو سُن کر حضرت قیس بن زراراہ آگے بڑھے اور کہا کہ یہ لوگ جو تمہارے سامنے موجود ہیں،رؤسا وشرفائے عرب ہیں اور شرفائے عرب ایسی لغو باتوں کا جواب دینے سے شرم کرتے ہیں میں تمہاری باتوں کا جواب دیتا ہوں اوریہ سب میری باتوں کی تصدیق کرتے جائیں گے ،
سنو! تم نے جو عرب کی حالت اوراہل عرب کی کیفیت بیان کی درحقیقت ہم اس سے بھی بدرجہا زیادہ خراب وناقص حالت میں تھے؛ لیکن خدائے تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل واحسان کیا کہ ہماری ہدایت کے لئے نبی بھیجا،جس نے ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت کی اور حق وصداقت کے دشمنوں کو مغلوب وذلیل کیا اوردنیا میں فتوحات ہونے کا ہم کو وعدہ دیا پس تمہارے لئے اب مناسب یہی ہے کہ تم ہم کو جزیہ دینا منظور کرویا اسلام قبول کرو ورنہ ہمارے تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کردے گی۔
یزد جرد اس کلام کو سُن کر آپے سے باہر ہوگیا اُس نے کہا اگر سفیروں کا قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم کو ضرور قتل کردیتا ،پھر اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ ایک مٹی کی ٹوکری بھر کر لاؤ اور جو شخص ان میں سردار ہے ان کے سر پر رکھ دو اوراسی حالت میں اس کو مدائن سے باہر نکال دو،پھر بولا کہ رستم بہت جلد تم سب کو قادسیہ کی خندق میں دفن کردے گا، اتنے میں مٹی کی ٹوکری آگئی حضرت عاصمؓ نے فوراً اُٹھ کر وہ ٹوکری اپنے کاندھےپر اٹھالی اورکہا کہ میں اس وفد کا سردار ہوں،یہ سب حضرات یزد جردکے دربار سے نکلے اوراپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر مٹی کی وہ ٹوکری لئے ہوئے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس پہنچے اورکہا کہ ملک ایران کی فتح مبارک ہو،خدائے تعالیٰ نے ان کے ملک کی مٹی ہم کو عطا کی ہے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی اس تفاول سے بہت ہی خوش ہوئے۔
ان سفراء کی واپسی کے بعد دربار ایران سے رستم کے پاس ساباط میں تازہ احکام پہنچے اورکمک سردار بھی روانہ کئے گئے ،ساٹھ ہزار فوج کا بڑا حصہ خاص رستم کے زیر کمان تھا،مقدمۃ الجیش کا سردار جالینوس تھا جس کے ہمراہ چالیس ہزار کا لشکر تھا،بیس ہزار فوج ساقہ میں تھی ،میمنہ پر تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ ہرمزان اورمیسرہ پر تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ مہران بن بہرام رازی تھا اس طرح کل ایرانی لشکر کی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار تک پہنچ گئی،اس کے علاوہ ایک سو جنگی ہاتھی قلب میں رستم کے ساتھ تھے پچھیتر ہاتھی میمنہ میں اور پچھیتر میسرہ میں ،بیس ہاتھی مقدمۃ الجیش میں اورتیس ساقہ میں تھے،اس ترتیب وسامان کے ساتھ رستم ساباط سے روانہ ہوکر مقام کو ثا میں پہنچا اوروہاں خیمہ زن ہوا،قادسیہ اور مدائن کے درمیان تیس چالیس کوس کا فاصلہ تھا ایرانی اوراسلامی لشکروں کا فاصلہ اب بہت ہی کم رہ گیا تھا طرفین سے چھوٹے چھوٹے دستے ایک دوسرے پر چھاپہ مارنے اور سامان رسد لوٹنے کے لئے ہر روز روانہ ہوتے رہتے تھے،رستم لڑائی کو ٹالنا چاہتا تھا،اس لئے اس نے مدائن سے قادسیہ تک پہنچنے میں چھ مہینے صرف کردئے،مقام کوثا سے روانہ ہوکر رستم قادسیہ کے سامنےپہنچا اورمقام عتیق میں خیمہ زن ہوا ،دربار ایران سے بار بار رستم کے پاس تقاضوں کے پیغام آتے تھے کہ جلد عربوں کا مقابلہ کرو، رستم یہ چاہتا تھا کہ بلا مقابلہ کام چل جائے تو اچھا ہے؛چنانچہ اس نے قادسیہ پہنچ کر سعد بن ابی وقاصؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اپنے کسی سفیر کو ہمارے پاس بھیج دو تاکہ ہم اس سے مصالحت کی گفتگو کریں۔
حضرت سعد بن وقاصؓ نے حضرت ربعی بن عامرؓ کو سفیر بناکر رستم کے پاس روانہ کیا رستم نے بڑے تکلف اور شان وتجمل کے ساتھ دربار کیا،سونے کا تخت بچھوایا اوراُس کے چاروں طرف دیباوحریر اور رومی قالینوں کا فرش کرایا،تکیوں اور شامیانوں کی جھالریں سچے موتیوں کی تھیں،غرض حضرت ربعی بن عامرؓ اس شان وشوکت والے دربار میں داخل ہوئے اور گھوڑے کو ایک گاؤ تکئے سے جولبِ فرش پڑا ہوا تھا باندھ کر تیر کی اَنی ٹیکتے ہوئے اوراس فرش کو چاک وسوراخ دار بناتے ہوئے تخت کی طرف بڑھے اوربڑھ کر رستم کے برابر جا بیٹھے لوگوں نے ربعیؓ کو تخت سے نیچے اتارنا اور ان کے ہتھیاروں کو علیحدہ کرنا چاہا،توحضرت ربعیؓ نے جواب دیا کہ میں تمہارے یہاں تمہارا طلبیدہ آیا ہوں،خود اپنی کوئی استدعا لے کر نہیں آیا،ہمارے مذہب میں اس کی سخت ممانعت ہے کہ ایک شخص خدا بن کر بیٹھے اور باقی آدمی بندوں کیطرح ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑے ہوں،رستم نے اپنے آدمیوں کو خود منع کردیا کہ کوئی شخص اس کے حال سے معترض نہ ہو مگر کچھ سوچ کر ربعیؓ خود رستم کے پاس سے اُٹھے اورتخت سے اتر کر خنجر سے زمین پر بچھے ہوئے قالین اورفرش کو چاک کرکے نیچے سے خالی زمین نکال کر اُس پر بیٹھ گئے اور رستم سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہم کو تمہارے اس پر تکلف فرش کی بھی ضرورت نہیں ہمارے لئے خدائے تعالیٰ کا بچھا یا ہوا فرش یعنی زمین کافی ہے اس کے بعد رستم نے ترجمان کے ذریعہ حضرت ربعیؓ سے سوال کیا کہ اس جنگ وپیکار سے تمہارا مقصد کیا ہے؟
حضرت ربعیؓ نے جواب دیا کہ ہم خدائے تعالیٰ کے بندوں کو دنیا کی تنگی سے دارِ آخرت کی وسعت میں لانا ،ظلم اورمذاہب باطلہ کی جگہ عدل اوراسلام کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں،جوشخص عدل اور اسلام پر قائم ہوجائے گا،ہم اس سے اوراس کے ملک واموال سے معترض نہ ہوں گے جو شخص ہمارے راستے میں حائل ہوگا،ہم اس سے لڑیں گے یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جائیں گے یا فتح مند ہوں گے،اگر تم جزیہ دینا منظور کرو گے،تو ہم اُس کو قبول کرلیں گے اور تم سے معترض نہ ہوں گے اورجب کبھی تم کو ہماری ضرورت ہوگی،تمہاری مدد کو موجود ہوں گے اور تمہارے جان ومال کی حفاظت کریں گے،یہ باتیں سُن کر رستم نے سوال کیا کہ کیا تم مسلمانوں کے سردار ہو؟ حضرت ربعیؓ نے جواب دیا کہ نہیں میں ایک معمولی سپاہی ہوں،لیکن ہم میں ہر ایک شخص خواہ ادنی ہو،اعلیٰ کی طرف سے اجازت دے سکتا ہے،اورہر متنفس ہر معاملے میں پورا اختیار رکھتا ہے ،یہ سُن کر رستم اوراس کے درباری دنگ رہ گئے،پھر رستم نے کہا کہ تمہاری تلوار کا نیام بہت بوسیدہ ہے،ربعیؓ نے فورا تلوار نیام سے کھینچ کر کہا کہ اس پر آب ابھی دکھائی گئی ہے،پھر رستم نے کہا کہ تمہارے نیزے کا پھل بہت چھوٹا ہے،یہ لڑائی میں کیا کام دیتا ہوگا،حضرت ربعیؓ نے فرمایا کہ یہ پھل سیدھا دشمن کے سینے کو چھید تا ہوا پار ہوجاتا ہے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آگ کی چھوٹی سی چنگاری تمام شہر کو جلا ڈالنے کے لئے کافی ہوتی ہے، اسی قسم کی نوک جھونک کی باتوں کے بعد رستم نے کہا کہ اچھا ہم تمہاری باتوں پر غور کرلیں،اور اپنے اہل الرائے اشخاص سے مشورہ بھی لے لیں،ربعیؓ وہاں سے اُٹھے اوراپنے گھوڑے کے پاس آکر اُس پر سوار ہوکر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی خدمت میں پہنچے ۔
دوسرے روز رستم نے حضرت سعدؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ آج بھی میرے پاس اپنے ایلچی کو بھیج دیجئے، حضرت سعدؓ نے حضرت حذیفہؓ بن محصن کو روانہ کیا،حضرت حذیفہ بھی اسی انداز میں اور اسی آزادانہ روش سے گئے،جیسے کہ حضرت ربعیؓ گزشتہ روز گئے تھے،حضرت حذیفہ رستم کے سامنے پہنچ کر گھوڑے سے نہ اُترے؛بلکہ گھوڑے پر چڑھے ہوئے اس کے تخت کے قریب پہنچ گئے،رستم نے کہا کہ کیا سبب ہے کہ آج تم بھیجے گئے ہو اورکل والے صاحب نہیں آئے، حضرت حذیفہ نے کہا کہ ہمارا سردار عدل کرتا ہے،ہر خدمت کے لئے ہر ایک شخص کوموقع دیتا ہے کل ان کی باری تھی،آج میری باری آگئی،رستم نے کہا کہ تم ہم کو کتنے دنوں کی مہلت دے سکتے ہو،حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ آج سے تین روز تک کی۔ رستم یہ سُن کر خاموش ہوا اورحضرت حذیفہ ؓ اپنے گھوڑے کی باگ موڑ کر سیدھے اسلامی لشکر گاہ کی طرف روانہ ہوئے،آج بھی حضرت حذیفہؓ کی بے باکی اورحاضر جوابی سے تمام دربار حیران وششد رہ گیا اگلے روز رستم نے پھر لشکر اسلام سے ایک سفیر کو طلب کیا،آج حضرت سعدؓ نے مغیرہ بن شعبہؓ کو روانہ کیا،حضرت مغیرہؓ کو رستم نے لالچ بھی دینا چاہا اورڈرانے کی بھی کوشش کی ؛لیکن حضرت مغیرہؓ نے نہایت سخت اورمعقول جواب دیا،جس سے رستم کو غصہ آیا اور اس نے کہا کہ میں اب تم سے ہرگز صلح نہ کروں گا اورتم سب کو قتل کرڈالوں گا،حضرت مغیرہؓ وہاں سے اُٹھ کر اپنے لشکر گاہ کی جانب چلے آئے۔
مکمل تحریر >>

حضرت سعد بن ابی وقاص عراق میں

حضرت مثنیٰ بن حارثہؓ نے فوت ہوتے وقت اپنی جگہ حضرت بشیر بن حصامہ کو اپنی فوج کا سردار تجویز فرمادیا تھا،اس وقت آٹھ ہزار فوج مثنیٰ کے پاس موجود تھی،فاروق اعظمؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے لئے راستہ اور راستے کی منزلیں بھی خود مقرر فرمادی تھیں اورروزانہ ہدایات بھیجتے رہتے تھے اور لشکر اسلام کی خبریں منگاتے رہتے تھے جب حضرت سعد بن وقاصؓ مقام ثعلبہ سے مقام سیراف کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں قبیلۂ بنی اسد کے تین ہزار جوان جو فاروق اعظم کے حکم نامہ کے موافق سررہگذر منتظر تھے،سعد ؓ کی فوج میں شامل ہوگئے،مقام سیراف میں پہنچے،تویہاں اشعث بن قیس حکم فاروقی کے موافق اپنے قبیلے کے دو ہزار غازیوں کو لے کر حاضر اورلشکر سعدؓ میں شامل ہوئے،اُسی جگہ حضرت مثنیٰ کے بھائی معنی بن حارثہ شیبانی سعدؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ تمام ضروری ہدایتیں جو حضرت مثنیٰ نے فوت ہوتے وقت فوج اور دشمن کی جنگ کے متعلق بیان فرمائی تھیں بیان کیں اسی جگہ وہ آٹھ ہزار کا لشکر بھی جو حضرت مثنیٰ کے پاس تھا،لشکرِ سعدؓ میں آکر شامل ہوگیا۔
حضرت سعدؓ بن وقاص نے اس جگہ لشکر اسلام کا جائزہ لیا تو بیس اور تیس ہزار کے درمیان تعداد تھی جس میں تین سو صحابی ایسے تھے، جو بیعت رضوان میں موجود تھے اورسترصحابی ایسے تھے جو غزوہ بدر میں میں شریک تھے،حضرت سعد بن وقاص ابھی مقام سیراف ہی میں مقیم تھے فاروق اعظمؓ کا فرمان اُن کے نام پہنچا کہ قادسیہ کی طرف بڑھو اورقادسیہ میں پہنچ کر اپنے مورچے ایسے مقام پر قائم کرو کہ تمہارے آگے فارس کی زمین ہو اور تمہارے پیچھے عرب کے پہاڑ ہوں،اگر اللہ تعالیٰ تم کو فتح نصیب کرے تو جس قدر چاہو بڑھتے چلے جاؤ،لیکن خدانخواستہ معاملہ برعکس ہو تو پہاڑ پر آکر ٹھہرو اورپھر خوب چوکس ہوکر حملہ کرو، حضرت سعدؓ نے اس حکم کے موافق مقام سیراف سے کوچ کیا اورزبیرؓ بن عبداللہ بن قتادہ کو مقدمۃ الجیش کا، عبداللہ بن المعتصم کو میمنہ کا ،شرجیل بن السمط کندی کو میسرہ کا،عاصم بن عمرو تمیمی کو ساقہ کا سردار مقرر کیا،لشکر سعدؓ میں سلمانؓ فارسی سامان رسد کے افسر اعلیٰ تھے،عبدالرحمن بن ربیعہ باہلی قاضی وخزانچی تھے،ہلال ہجری مترجم اورزیاد بن ابی سفیان کاتب یاسیکریٹری تھے،حضرت سعدؓ اپنا لشکر لئے ہوئے مقام سیراف سے قادسیہ کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں مقام عذیب آیا جہاں ایرانیوں کا میگزین تھا، اس پر قبضہ کرتے ہوئے قادسیہ پہنچے،قادسیہ پہنچ کر لشکرِ فارس کے انتظار میں قریباً دو ماہ انتظار کرنا پڑا اس زمانہ میں لشکر اسلام کو جب سامان رسد کی ضرورت ہوتی تو ایرانی علاقوں پر مختلف دستے چھاپے مارتے اورضروری سامان حاصل کرتے۔

مدائن سے رستم کی روانگی
دارالسلطنت ایران میں پیہم خبریں پہنچنی شروع ہوئیں کہ قادسیہ میں عربی لشکر کا قیام ہے اورفرات وغیرہ کا درمیانی علاقہ عربوں نے لوٹ کر ویران کردیا ہے،قادسیہ کے متصلہ علاقوں کے لوگ دربار میں شاکی بن کر پہنچنے شروع ہوئے کہ جلد کچھ تدارک ہونا چاہئیے ،ورنہ ہم سب مجبوراً عربوں کی فرماں برداری اختیار کرلیں گے،دربار ایران میں رستم بہت عقلمند اورتجربہ کار شخص تھا،اس کی رائے آخر تک یہی رہی،کہ عربوں کو اُن کے حال پر آزاد چھوڑدیا جائے اورجہاں تک ممکن ہوجنگ و پیکار کے مواقع کو ٹلادیا جائے،لیکن یزد جرد شہنشاہ ایران نے ان خبروں کو سُن کر رستم اپنے وزیر جنگ کو طلب کیا اورحکم دیا تو خود لشکر عظیم لے کر قادسیہ کی طرف روانہ ہو اور عربوں کے روز روز کے جھگڑے کو پورے طور پر ختم کردے، رستم چاہتا تھا کہ یکے بعد دیگرے دوسرے سرداروں کو روانہ کرے اور مسلسل طور پر لڑائی کے سلسلہ کو جاری رکھے،لیکن یزد جرد کے اصرار پر مجبورا رستم کو مدائن سے روانہ ہونا پڑا، رستم نے مدائن سے روانہ ہوکر مقام ساباط میں قیام کیا اورملک کے ہر حصہ سے افواج آ آ کر اس کے گرد جمع ہونی شروع ہوئیں یہاں تک کہ ڈیڑھ لاکھ ایرانی لشکر ساباط میں رستم کے گرد فراہم ہوگیا جو ہر طرح سامان حرب سے مسلح اور لڑائی کے جوش وشوق میں ڈوبا ہوا تھا حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے دربار خلافت میں ایرانیوں کی جنگی تیاریوں اور نقل وحرکت کے حالات بھیجے ،فاروق اعظمؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو لکھا کہ تم ایرانیوں کی کثرت افواج اورساز وسامان کی فراوانی دیکھ مطلق خائف ومضطر نہ ہو ؛بلکہ خدائے تعالیٰ پر بھروسہ رکھو اورخدائے تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرتے رہو اورقبل ازجنگ چند آدمیوں کی ایک سفارت یزد جرد شاہ ایران کے پاس بھیجو تاکہ وہ دربارِ ایران میں جاکر دعوت اسلام کے فرض سے سبکدوش ہوں اور شاہِ فارس دعوت اسلام کو قبول نہ کرے تو اس انکار کا وبال بھی اُس پر پڑے،اس حکم کے پہنچنے پر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے لشکر اسلام سے سمجھ دار خوش گفتار ،وجیہہ ،بہادر اورذی حوصلہ حضرات کو منتخب کرکے قادسیہ سے مدائن کی جانب روانہ کیا۔
مکمل تحریر >>

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خود ایرانیوں کے مقابلے پر آمادہ ہونا

فاروق اعظمؓ کو یہ حالت مدینہ منورہ میں ذیقعدہ کے مہینے میں معلوم ہوئی،آپ نے اُسی وقت ایک حکم تو مثنی بن حارثہ کے نام بھیجا کہ ربیعہ اورمضر کے قبائل کو جو عراق اور مدینہ کے درمیان نصف راستے سے اس طرف آباد ہیں،خود اپنے پاس طلب کرو اوراپنی جمعیت کو اس طرح طاقتور بناؤ اورمخدوش علاقے کو خالی کرکے سرحد عرب کی طرف سمٹ آؤ، ساتھ ہی اپنے تمام عاملوں کے نام احکام روانہ کئے کہ ہر قبیلے سے جنگ جو لوگ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے بھیجے جائیں،ان احکام کی روانگی کے بعد آپ حج بیت اللہ کے لئے مدینہ سے مکہ معظمہ کی جانب روانہ ہوئے ،حج بیت اللہ سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تو ملک کے ہر حصے سے لوگوں کے گروہ آنے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام میدان مدینہ آدمیوں سے پُر نظر آنے لگا فاروق اعظمؓ نے حضرت طلحہؓ کو ہر اول کا سردار مقرر فرمایا زبیر بن العوام کو میمنہ پر اورعبدالرحمن بن عوف کو میسرہ پر مقرر فرما کر خود سپہ سالار بن کر اورفوج لے کر روانگی کا عزم فرمایا ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بُلا کر مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا اورفوج لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور چشمہ ضرار پر آکر قیام کیا اس تمام فوج میں لڑائی کے لئے بڑا جوش پیدا ہوگیا تھا کیونکہ خلیفہ وقت خود اس فوج کا سپہ سالار تھا۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ کا خود ایران جانا مناسب نہیں معلوم ہوتا ،فاروق اعظم ؓ نے تمام سرداران فوج اور عام لشکری لوگوں کو ایک جلسۂ عظیم میں مخاطب کرکے مشورہ طلب کیا،تو کثرت رائے خلیفۂ وقت کے ارادے کے موافق ظاہر ہوئی، یعنی لشکری لوگوں نے خلیفہ وقت کے حیثیت سپہ سالار ملک ایران کی طرف جانے کو مناسب سمجھا لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے فرمایا کہ میں اس رائے کو ناپسند کرتا ہوں خلیفہ وقت کا خود مدینہ سے تشریف لے جانا خطرہ سے خالی نہیں؛ کیونکہ اگر کسی سردار کو میدان جنگ میں ہزیمت حاصل ہو تو خلیفہ وقت بآسانی اُس کا تدارک کرسکتے ہیں ؛لیکن خدانخواستہ خود خلیفہ وقت کو میدان جنگ میں کوئی چشم زخم پہنچے تو پھر مسلمانوں کے کام کا سنبھلنا دشوار ہوجائے گا یہ سُن کر مدینہ منورہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی بلوائے گئے اور تمام اکابر صحابہؓ سے اس کے متعلق مشورہ کیا گیا،حضرت علیؓ اور تمام جلیل القدر صحابہؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی رائے کو پسند کیا ،فاروق اعظم نے دوبارہ لشکری لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ خود عراق کی جانب جانے کو تیار تھا لیکن صحابہ کرام کے تمام صاحب الرائے حضرات میرے جانے کو ناپسند کرتے ہیں،لہذا میں مجبور ہوں اور کوئی دوسرا شخص تمہارا سپہ سالار بن کر تمہارے ساتھ جائے گا،اب صحابہ کرام کی مجلس میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا کہ کس کو سپہ سالا ر عراق بنا کر بھیجا جائے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے انکار فرمایا، ابو عبیدہؓ وخالدؓ ملک شام میں مصروف پیکار تھے۔
اسی غور وفکر کی حالت میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے فرمایا کہ میں ایک شخص کا نام لیتا ہوں کہ اُس سے بہتر دوسرا شخص نہیں بتایا جاسکتا یہ کہہ کر انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا نام لیا سب نے ان کی تائید کی اورحضرت عمر فاروق ؓ نے بھی پسند فرمایا ۔
سعد بن ابی وقاصؓ آنحضرت صلی اللہ کے ماموں اوربڑے عالی مرتبہ صحابی تھے اُن دنوں حضرت سعدؓ قبیلہ ہوازن کے صدقات کی وصولی پر مامور تھے،اُسی وقت اُن کو خط لکھ کر بھیجا گیا کہ فورا مدینہ کی طرف آؤ ؛چنانچہ حضرت سعد چند روز کے بعد فاروق اعظمؓ کی خدمت میں پہنچے لشکر مقام ضرار میں مقیم رہا فاروق اعظمؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو مناسب ہدایات کیں اور ہر ایک چھوٹے بڑے واقعےسے اطلاع دیتے رہنے کی تاکید کرکے اورسپہ سالار فواج بنا کر روانہ کیا،سعد بن ابی وقاصؓ چار ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے اوراٹھارہ منزلیں طے کرکے مقام ثعلبہ میں پہنچ کر مقیم ہوئے،سعدؓ کی روانگی کے بعد ہی فاروق اعظمؓ نے دو ہزار یمانی اور دوہزار نجدی بہادروں کا لشکر سعدؓ کی کمک کے لئے روانہ فرمایا جو سعد بن ابی وقاص ؓ سے آملے ،مثنیٰ بن حارثہ موضع ذی وقار میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی آمد کے منتظر آٹھ ہزار آدمیوں کا لشکر لئے ہوئے پڑے تھے کہ حضرت سعدؓ کے ساتھ مل کر فرات کی طرف بڑھیں،حضرت مثنیٰ بن حارثہؓ واقعہ جسر میں زخمی ہوگئے تھے اُن کے زخموں کی حالت روز بروز خراب ہوتی گئی،بالآخر جب کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ مقام ثعلبہ میں جاکر فروکش ہوئے ہیں،تو وہاں خبر پہنچی کہ حضرت مثنیٰ بن حارثہؓ نے انتقال فرمایا۔
مکمل تحریر >>

جنگِ کسکر

جالینوس جب شکست کھا کر مدائن میں پہنچا تو تمام دربار اوردارالسلطنت میں ہلچل مچ گئی ،رستم نے جو سلطنتِ ایران کا مدار المہام تھا ،سردربار اعلان کیا کہ کون سابہادر ہےجولشکر عرب کی پیش قدمی کو روک سکتا ہے اوراب تک کی ایرانی شکستوں کا انتقام عربوں سے لے سکتا ہے سب نے بالاتفاق کہا کہ بہمن جادویہ کے سوا اورکوئی ایسا تجربہ کار اوربہادر سپہ سالار نظر نہیں آتا ؛چنانچہ بہمن جادویہ کو رستم نے تین ہزار فوج اورتین سو جنگی ہاتھ نیز ہر قسم کا سامان جنگ اورسامان رسد دے کر روانہ کیا اوراس کی کمک کے لئے جالینوس کو مقرر کرکے بہمن جادویہ سے کہا کہ اگر اب کی مرتبہ بھی جالینوس میدان سے بھاگا تو ضرور اُس کی گردن اڑرادی جائے گی بہمن جادویہ کو درنش کا دیانی بھی دیا گیا، جس کی نسبت ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ جس فوج کے ساتھ یہ جھنڈا ہوتا ہے اس کو کبھی شکست نہیں ہوتی،بہمن جادویہ پورے سازوسامان اوربڑے کرو فر کے ساتھ مدائن سے روانہ ہوا راستے میں جس قدر شہر اورقصبے اور قرئیے آتے تھے،بہمن جادویہ ہر جگہ سے لوگوں کو عرب کے مقابلہ پر آمادہ کرکے اپنے ساتھ لیتا جاتا تھا،یہاں تک کہ وہ دریائے فرات کے کنارے مقام قس ناطف میں آکر مقیم ہوا، ادھر سے ابو عبید بن مسعودؓ اس لشکر عظیم کی آمد کا حال سُن کر مقام کسکر سے روانہ ہوئے اور دریائے فرات کے اس کنارے پر مقام مروحہ میں مقیم ہوئے چونکہ دریائے فرات بیچ میں حائل تھا،لہذا دونوں لشکر چند روز تک خاموش پڑے رہے بالآخر فریقین کی رضامندی سے دریائے فرات پر پُل تیار کیا گیا،جب پُل بن کر تیار ہوگیا، تو بہمن جادویہ نے ابو عبیدؓ کے پاس پیغام بھیجا کہ تم دریا کو عبور کرکے اس طرف آتے ہو یا ہم کو دریا کے اس طرف بلاتے ہو، اگرچہ دوسرے سرداروں کی رائے یہی تھی کہ اہل فارس کو دریا کے اس طرف بلانا چاہئے لیکن ابو عبیدؓ نے یہی پسند کیا کہ ہم دریا کے اس پار جاکر ایرانیوں کا مقابلہ کریں ؛چنانچہ وہ اسلامی لشکر لے کر دریا کے اس طرف گئے وہاں ایرانی لشکر اور دریائے فرات کے درمیان بہت ہی تھوڑا سا میدان تھا،جو لشکر اسلام کے پہنچنے سے کھچا کھچ بھر گیا،بہر حال صفیں آراستہ کرکے فریقین نے میدان کا رزار گرم کیا، بہمن جادویہ نے ہاتھیوں کی صف کو لشکر کے آگے رکھا، اُن پر تیر انداز بیٹھے ہوئے تھے، اوروہ لشکر اسلام پر تیر اندازی کررہے تھے مسلمانوں کے گھوڑوں نے اس سے پیشتر کبھی ہاتھی نہ دیکھے تھے لہذا جب مسلمان حملہ آور ہوتے اُن کے گھوڑے ہاتھیوں کو دیکھ کر بدکتے اوربے قابو ہوکر ادھر ادھر بھاگتے لڑائی کا یہ عنوان دیکھ کر ابو عبیدؓ نے حکم دیا کہ پیادہ ہوکر حملہ کرو، یہ حملہ بڑی جانبازی ومردانگی کے ساتھ کیا گیا،لیکن ہاتھیوں نے جب اسلامی صفوف پر حملہ کرنا اورکچلنا شروع کیا تو مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہونے لگیں ابو عبیدؓ نے بلند آواز سے لوگوں کو جرأت دلائی اورکہا کہ ہاتھیوں کی سونڈوں کو تلوار سے کاٹو، یہ کہہ کر انہوں نے خودہاتھیوں پر حملہ کیا،اوریکے بعد دیگرے کئی ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹ کر ان کے اگلے پاؤں تلوار کی ضرب سے کاٹے اوراس طرح ہاتھیوں کو گرا کر اُن کے سواروں کو قتل کیا۔
اپنے سپہ سالاروں کی یہ بہادری دیکھ کر دوسروں کو بھی جرأت ہوئی اور مسلمانوں نے ایرانی ہاتھیوں کے مقابلہ میں شیرانہ حملے کئے عین اس حالت میں کہ معرکہ کارزار تیزی سے گرم تھا،حضرت ابو عبیدؓ بن مسعود سپہ سالار لشکر اسلام پر جنگی ہاتھی نے حملہ کیا،ابوعبیدؓ نے نہایت چاپکدستی سے تلوار کا وار کیا اورہاتھی کی سونڈ کٹ کر الگ جاپڑی لیکن ہاتھی نے اسی حالت میں آگے بڑھ کر اُن کو گرادیا اورسینے پر پاؤں رکھ دیا جس سے ان کی پسلیاں چور چور ہوگئیں ابو عبیدؓ کی شہادت کے بعد اُن کے بھائی حکم نے فورا آگے بڑھ کر علم اپنے ہاتھ میں لیا لیکن وہ بھی ہاتھی پر حملہ آور ہوکر ابو عبید کی طرح شہید ہوگئے اُن کے بعد قبیلہ بنو ثقیف کے اور چھ آدمیوں نے یکے بعد دیگرے علم ہاتھ میں لیا اور جام شہادت نوش کی آٹھویں شخص جنہوں نے علم کو سنبھالا مثنی بن حارثہ تھے انہوں نے علم ہاتھ میں لیتے ہی مدافعت اور استقامت میں جرأت کا اظہار کیا لیکن لوگ اپنے سات سرداروں کو یکے بعد دیگرے قتل ہوتے دیکھ کر اور ہاتھیوں کی حملہ آوری کی تاب نہ لاکر فرار پر آمادہ ہوچکے تھے اُن بھاگنے والوں کو روکنے کے لئے عبداللہ بن مرثد ثقفی نے جاکر پُل کے تختے توڑدئے اوررسے کاٹ دئے اورکہا کہ لوگو اب بھاگنے کا راستہ بھی بند ہوگیا لہذا مرو جس طرح تمہارے بھائی اورتمہارے سردار شہید ہوچکے ہیں پُل کے ٹوٹنے سے یہ خرابی واقع ہوئی کہ لوگ دریا میں کود نے اورپانی میں غرق ہونے لگے ،حضرت مثنی بچی کھچی فوج کو سمیٹ کر اورابو مجہن ثقفی وغیرہ سرداروں کو ہمراہ لے کر میدان میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے ،ساتھ ہی پُل کے تیار کرنے کا حکم دیا اورتمام لشکر میں اعلان کرایا کہ میں ایرانی لشکر کو آگے بڑھنے سے روکے ہوئے ہوں حضرت مثنیٰ بڑی بہادری اور جانبازی کے ساتھ ایرانیوں کے حملے کو روکا اورجب مسلمان دریا کے دوسری طرف عبور کرگئے تب سب سے آخر میں خود پُل کے راستے اس طرف آئے مسلمانوں کی تعداد نو ہزار تھی،جس میں سے چار ہزار اور بروایت دیگر چھ ہزار شہید ہوگئے،حضرت سلیمان بن قیسؓ ،عتبہؓ، وعبداللہؓ پسران قبطی بن قیسؓ ،عبادہ بن قیسؓ بن المسکن، ابو امیہ فزاریؓ وغیرہ صحابی بھی انہیں شہدا میں شامل تھے،ایرانیوں کے بھی چھ ہزار آدمی مارے گئے لیکن اب تک کی تمام لڑائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا اس لڑائی میں نسبتاً زیادہ نقصان ہوا اوراسی لڑائی میں ایسا اتفاق بھی ہوا کہ مسلمان ایرانیوں کے مقابلہ سے فرار بھی ہوئے،لیکن ہر ایک شخص جو فرار کی عار گورا کرنے پر مجبور ہوا مدت العمر ندامت وشرمندگی سے لوگوں کو اپنا منہ نہ دکھانا چاہتا تھا، بہمن جادویہ کی اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ فرات کو عبور کرکے مسلمانوں پر جو بہت ہی تھوڑے اور خستہ حالت میں رہ گئے تھے حملہ آور ہوتا وہ وہیں سے مدائن کی جانب چل دیا،یہ لڑائی ماہ شعبان ۱۳ ھ کو واقع ہوئی۔
مکمل تحریر >>

ابو عبید بن مسعود رضی اللہ عنہ

فاروقِ اعظمؓ نے اپنی خلافت کے پہلے ہی ہفتے میں مثنیٰ بن حارثہؓ ،سعد بن عبیدؓ ،سلیط بن قیسؓ اورابو عبید بن مسعودؓ کو عراق کی جانب روانہ کردیا تھا،مثنیٰ بن حارثہؓ، مدینہ منورہ سے توباقی مذکورہ سرداروں کے ساتھ ہی روانہ ہوئے تھے،لیکن ابو عبید بن مسعودؓ جو لشکر عراق کے سپہ سالار اعظم بنا کر بھیجے گئے تھے ،راستے کے عرب قبائل سے بھی لوگوں کو ہمراہ لیتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے گئے اس لئے وہ عراق میں مثنیٰ بن حارثہؓ سے ایک ماہ بعد پہنچے،مثنیٰ بن حارثہؓ نے حیرہ میں پہنچ کر دیکھا کہ ایرانیوں نے تمام رؤساءِ عراق کو مسلمانوں کی مخالفت پر آمادہ کردیا ہے ایران کے دربار مدائن میں خراسان کا گورنر رستم آکر قابو یافتہ ہوگیا ہے،اُس نے فوجی تنظیم اورانتظامی سررشتوں کو خوب مضبوط کرلینے کے علاوہ قبائل کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ کرلینے میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے ،سو اد اورحیرہ کے مرزبان لڑائی کے لئے تلے ہوئے بیٹھے ہیں،مثنیٰ بنؓ حارثہ کے پہنچنے پر رستم نے ایک زبردست فوج مثنی کے مقابلہ کو روانہ کی، دوسری زبردست فوج شاہی خاندان کے ایک بہادر وتجربہ کار سپہ سالار نرسی کے ماتحت مقام کسکر کی جانب بھیجی اورتیسرا عظیم الشان لشکر جابان نامی سردار کے ماتحت نشیبی فرات کے سمت روانہ کیا جس نے مقام نمارق میں آکر چھاؤنی ڈال دی،حضرت مثنیؓ نے حیرہ سے نکل کر مقام خفان میں قیام کیا،اتنے میں ابو عبید بن مسعودؓ پہنچ گئے، انہوں نے تمام فوج کی سپہ سالاری اپنے ہاتھ میں لے لی مثنیٰ بن حارثہؓ کو سواروں کی سرداری سپرد کرکے مقام خفان ہی میں چھوڑا، اورخود مقام نمارق میں جابان پر حملہ آور ہوئے، بڑی خونریز جنگ ہوئی، آخر ابو عبیدؓ نے بذات خود اللہ اکبر کہہ کر لشکر ایرانی پر سخت حملہ کیا اوراُن کی صفوف کو درہم برہم کرکے جمعیت کو منتشر کردیا،مسلمانوں نے اپنے سپہ سالار کی اقتدا میں جی توڑ کر ایسے شیرانہ وجواں مردانہ حملے کئے کہ ایرانی میدان خالی چھوڑ کر بھاگ نکلے، ایرانی سپہ سالار جابان کو اسلامی لشکر کے ایک بہادر مطر بن فضہ ربیعی نے گرفتار کرلیا جس کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ سپہ سالار ہے، جابان نے اس سے کہا کہ تم مجھ کو گرفتار کرکے کیا کروگے میں تم کو دونہایت قیمتی غلام دوں گا، تم مجھ کو امان دے دو،مطر نے اس کو امان دے کر چھوڑ دیا جب وہ چھوٹ کر چلا تو ایک اورشخص نے اس کو پہچان کر گرفتار کرلیا اورحضرت ابو عبید بن مسعودؓ کے پاس لایا کہ یہ ایرانی سپہ سالار ہے،اس نے دھوکہ دے کر امان حاصل کی تھی، حضرت ابو عبیدؓ نے مطر بن فضہ کو بُلا کر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے اس کو امان دی ہے،ابو عبیدؓ نے فرمایا کہ جب ایک مسلمان نے اس کو امان دے دی ہے،تو اب اس کے خلاف عمل در آمد کرنا کسی مسلمان کو جائز نہیں ہوسکتا،یہ کہہ کر جابان کو بہ حفاظت میدان جنگ سے رخصت کردیا،جابان وہاں سے روانہ ہوکر اپنی مفرور فوج سے جاملا اور یہ تمام فراری مقامِ کسکر میں نرسی کے پاس پہنچے:

نرسی پیشتر سے تیس ہزار فوج لئے ہوئے کسکر میں مقیم تھا،اب جابان اوراُس کی ہزیمت خوردہ فوج بھی اُس کے پاس آگئی، دربار ایران کو جب جابان کی شکست کا حال معلوم ہوا تو رستم نے مدائن سے ایک عظیم الشان فوج جالینوس نامی سردار کی سرکردگی میں نرسی کی امداد کے لئے کسکر کی جانب روانہ کی،مگر حضرت ابو عبیدہؓ بن مسعود ثقفی نے جالینوس کے پہنچنے سے پہلے ہی نشیبی کسکر کے مقام سقاطیہ میں نرسی کے ساتھ جنگ شروع کردی،نرسی کے ساتھ شاہی خاندان کے دو اورماتحت سردار تھے،ان ایرانی شہزادوں نے قلب اورمیمنہ ومیسرہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر حملہ کیا، مسلمانوں کی فوج میں قلب لشکر کو حضرت ابو عبید لئے ہوئے تھے حضرت سعد بن عبیدؓ میمنہ کے سردار تھے،اورحضرت سلیط بن قیسؓ میسرہ کے حضرت مثنیٰ مقدمۃ الجیش کے افسر تھے، نہایت زور شور کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی،مثنیٰ بن حارثہؓ نے جب دیکھا کہ لڑائی طول کھینچ رہی ہے،تو انہوں نے اپنے دستے کو جدا کرکے اورچار کوس کا چکر کاٹ کر ایرانی فوج کے عقب میں پہنچ کر حملہ کیا،نرسی نے اس غیر مترقبہ حملہ کو روکنے کے لئے اپنی فوج کے ایک حصہ کو اُس طرف متوجہ کیا حضرت سعدؓ بن عبید نے ایک زبردست حملہ کیا اورخاص نرسی کے سرپر جاپہنچے ،ابو عبیدؓ بھی صفوں کو چیرتے اوردرہم برہم کرتے ہوئے ایرانی لشکر کے سمندر میں شناوری کرنے لگے یہ حالت دیکھ کر مسلمانوں نے نعرہ تکبیر کے ساتھ ایک زبردست حملہ کیا کہ ایرانی میدان کو خالی کرنے لگے،نرسی سعدؓ بن عبید کے مقابلہ میں نہ جم سکا اورجان بچا کر پیچھے ہٹا نرسی کے بھاگتے ہی تمام لشکر بھاگ پڑا حضرت مثنیٰ نے مفرور ین کا تعاقب کیا اورباقی لشکر نے قیدیوں کو سنبھال کر ایرانیوں کے خیموں اور بازاروں پر قبضہ کیا، اس کے بعد ابو عبیدؓ نے مثنیٰ ،عاصمؓ، اورسلیطؓ کو فوجی افسر دےکر ارد گرد کے اُن مقامات کی طرف روانہ کیا جہاں ایرانی لشکر کے موجود ہونے کی خبر پہنچی تھی، ان سرداروں نے ہر جگہ فتح حاصل کرکے تمام علاقہ سواد کو تسخیر کرلیا۔

جالینوس کسکر تک نہ پہنچنے پایا تھا کہ نرسی کو شکست فاش حاصل ہوگئی اس شکست کی خبر سُن کر وہ بافشیا میں رک گیا ،ابو عبیدؓ نے سقاطیہ اورکسکر سے روانہ ہوکر باقشیا میں جالینوس پر حملہ کیا اورجالینوس تابِ مقاومت نہ لاکر وہاں سے بھاگ اورمدائن میں جاکر دم لیا۔
مکمل تحریر >>

جنگِ فحل اور بیسان

یزید بن ابی سفیانؓ کو دمشق میں ضروری جمعیت کے ساتھ چھوڑ کر حضرت ابو عبیدہ بن جراح دمشق سے مقامِ فحل کی جانب بڑھے جہاں ہر قل کا نامی سردار سقلاء بن مخراق لاکھوں آدمیوں کا لشکر لئے ہوئے پڑا تھا،دمشق سے روانہ ہوتے وقت حضرت ابوعبیدہؓ نے خالد بن ولیدؓ کو مقدمۃ الجیش کا،شرجیل بن حسنہ کو قلب کا ،عمرو بن عاصؓ کو میمنہ کا، ضرار بن ازدر ؓ کو سواروں کا ،عیاض بن غنمؓ کو پیادوں کا افسر مقرر کیا اور خود میسرہ میں رہے،فحل کے قریب پہنچ کر اسلامی لشکر اپنے اپنے سرداروں کی ماتحتی میں مناسب موقعوں پر خیمہ زن ہوا،آدھی رات کے وقت رومیوں نے مسلمانوں کے قلب لشکر پر حملہ کیا،شرجیل بن حسنہؓ مقابل ہوئے،لڑائی کا شور وغل سُن کر تمام مسلمان سردار اپنا اپنا لشکر لے کر میدان میں آگئے اور ہنگامہ زور خورد پوری شدت اورتیزی سے گرم ہوا،یہ لڑائی کئی دن تک جاری رہی جس طرح دن کو معرکۂ کا رزار گرم رہتا تھا،اسی طرح رات کو بھی جاری رہتا تھا آخر رومی سردار سقلاء میدان جنگ میں اسی ہزار رومیوں کو مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کراکر خود بھی مقتول ہوا ،بقیہ السیف نے راہ فرار اختیار کی اور مسلمانوں کے لئے بے شمار مالِ غنیمت چھوڑ گئے،فتح فحل کے بعد اسلامی لشکر ہسیان کی جانب بڑھا۔

بیسان کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہاں بھی سخت مقابلہ کرنا پڑے گا،اسلامی لشکر نے شہر وقلعہ کا محاصرہ کرلیا اسی حالت میں خبر پہنچی کہ ایک رومی سردار زبردست فوج لئے ہوئے دمشق کی جانب گیا ہے تاکہ اس کو مسلمانوں کے قبضے سے نکال لے یہ خبر سُن کر ابو عبیدہؓ نے خالد بن ولیدؓ کو سواروں کا ایک دستہ دے کر دمشق کی جانب روانہ کیا رومی سردار جب دمشق کے قریب پہنچا تو یزید بن ابی سفیانؓ عامل دمشق اُس کے مقابلہ کو نکلے اور ہنگامۂ جدال وقتال گرم ہوا عین معرکۂ جنگ میں رومیوں کے پیچھے سے خالد بن ولیدؓ پہنچ کر حملہ آور ہوئے اوراس رومی لشکر سے ایک شخص بھی بچ کر بھاگنے کا موقع نہ پاسکا،سب کے سب میدان میں کھیت رہے،حضرت خالد بن ولیدؓ یہاں سے فارغ ہوتے ہی واپس ابو عبیدہؓ کی خدمت میں پہنچ گئے،بسیان والوں نے اول مسلمانوں کا مقابلہ کرنے اور حملہ آور ہونے میں کمی نہیں کی لیکن بالآخر اپنے آپ کو اسلامی لشکر کے مقابلے کے قابل نہ پاکر صلح کی درخواست کی اوراسلامی سپہ سالار نے بخوشی اس درخواست کو منظور کرکے اہل بسیان پر جزیہ مقرر کیا اورایک عامل وہاں مقرر فرمادیا،حضرت ابو عبیدہؓ نے ابو الاعوراسلمیؓ کو ایک دستہ فوج دے کر طبریہ کی جانب روانہ کیا تھا ،اہل طبریہ نے بیسان والوں کا انجام دیکھ کر ابوالاعور کو بمصالحت شہر سپر د کردیا۔

یزید بن ابی سفیانؓ نے دمشق کے انتظام پر قابو پاکر اپنے بھائی معاویہ بن ابی سفیان کو ایک دستہ فوج دے کر عرقہ کی جانب روانہ کیا،انہوں نے عرقہ کو فتح کرلیا،پھر یزید بن ابی سفیان صیداء حبیل وبیروت کی طرف متوجہ ہوئے اورمعمولی زود خورد کے بعد ان تمام مقامات پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اس طرح دمشق اورتمام علاقہ اردن مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔

فتح یرموک کے بعد ملک شام میں مذکورہ بالا فتوحات مسلمانوں کو حاصل ہوچکیں تو انہوں نے اب حمص کی طرف جہاں قیصر ہرقل فروکش تھا بڑھنے کی تیاریاں کیں اب ملک شام اور رومی لشکروں کے ساتھ مسلمانوں کی معرکہ آرائیوں کے حالات وواقعات بیان کرنے سے پیشتر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ملکِ عراق کے ان حالات وواقعات کو بھی بیان کردیا جائے،جو خلافت فاروقی کی ابتدا سے لے کر اب تک وقوع پذیر ہوئے تھے، اگر ہم ملکِ شام کے واقعات کی سیر کرتے ہوئے دور تک آگے بڑھ گئے تو پھر ملکِ عراق کے حالات بہت زیادہ پیچھے ہٹ کر شروع سے مطالعہ کرنے میں وہ لطف حاصل نہ ہوسکے گا جو شامی وعراقی معرکہ آرائیوں کی متوازی سیر اورتطابق زمانی کے صحیح تصور سے حاصل ہوسکتا ہے۔
مکمل تحریر >>

فتح دمشق

جنگ یرموک میں رومی لشکر شکست فاش کھا کر بھاگا اورمقامِ فحل میں جاکر رُکا ہرقل نے احکام جاری کئے جن کے موافق فحل میں بھی اور دمشق میں بھی رومی لشکر عظیم مقابلہ کے لئے فراہم ہوگیا، دمشق کی خوب مضبوطی کرلی گئی، اورفلسطین وحمص کی طرف سے بوقت ضرورت دمشق والوں کو مزید کمک بھیجنے کا اہتمام بھی ہوگیا، افواج دمشق کا سپہ سالار اعظم ہرقل نے نسطاس بن نسطورس کو مقرر کیا اورہامان نامی بطریق دمشق کا گورنر پہلے سے وہاں موجود تھا اسلامی لشکر ابھی یرموک ہی میں خیمہ زن تھا،حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے فاروقؓ اعظم کے حکم کے موافق لشکرِ عراق پر جو خالد بن ولیدؓ کے ہمراہ عراق سے آیا تھا،ہاشم بن عتبہ کو امیر مقرر کرکے عراق کی جانب روانہ کردیا،ایک دستہ فوج فحل کی جانب روانہ کیا، باقی فوج کے چند حصے کرکے ایک حصہ ذوالکلاعؓ کی سرداری میں روانہ کیا کہ دمشق اورحمص کے درمیان مقیم رہ کر اُس فوج کو جو ہر قل حمص سے دمشق والوں کی کمک کو روانہ کرے روکیں، ایک حصہ کو فلسطین ودمشق کے درمیان متعین کیا کہ فلسطین کی طرف سے رومی فوجوں کو دمشق کی جانب نہ آنے دیں، باقی فوج لے کر حضرت ابو عبیدہؓ خود دمشق کی جانب متوجہ ہوئے،دمشق پہنچنے سے پہلے مقام غوطہ کو فتح کیا،آخر ماہِ رجب ۱۳ ھ میں اسلامی لشکر نے دمشق کا محاصرہ کرلیا،شہر میں کافی فوج تھی، لیکن رومیوں کی جرأت نہ ہوئی، کہ میدان میں نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے انہوں نے شہر کی مضبوط فصیلوں اوراپنے سامان مدافعت کی پناہ لینی مناسب سمجھی، حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح باب الحابیہ کی جانب خیمہ زن ہوئے،حضرت خالد بن ولیدؓ اورحضرت عمروبن العاصؓ باب توما کی جانب اُترے،حضرت شرجیلؓ بن حسنہ فرادیس کی جانب اوریزید بن ابی سفیان باب صغیر وباب کیسان کی جانب فروکش ہوئے، اس طرح دمشق کے چاروں طرف اسلامی لشکر نے محاصرہ ڈال دیا،محصورین شہر کی فیصلوں پر چڑھ کر کبھی پتھروں کی بارش منجنیقوں کے ذریعہ کرتے کبھی تیروں کا مینہ برساتے مسلمان بھی اُن کے جواب دینے میں کوتاہی نہ کرتے اس طرح یہ محاصرہ ماہ رجب ۱۳ھ سے ۱۶محرم ۱۴ ھ تک چھ مہینے جاری رہا، ہر قل نے حمص سے دمشق والوں کی کمک کے لئے جو فوجیں روانہ کیں اُن کو ذوالکلاعؓ نے دمشق تک پہنچنے نہ دیا؛کیونکہ وہ اسی غرض کے لئے دمشق وحمص کے درمیان مقیم تھے جب چھ مہینے گذر گئے تو دمشق والے ہر قل کی امداد سے مایوس ہوگئے اوراُن میں مقابلہ کرنے کا جوش کم ہونے لگا تو حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح نے اس حالت سے بروقت مطلع ہوکر اور محاصرہ کو زیادہ طول دینا مناسب نہ سمجھ کر ہر سمت کے سرداروں کو حکم دیا کہ کل شہر پر حملہ آوری ہوگی۔
مسلمانوں کی اس جنگی تیاری اورحملہ آوری کا حال معلوم کرکے امراء دمشق کے ایک وفد نے باب توما کی جانب سے حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس آکر امان طلب کی،حضرت خالد بن ولید نے اُن کو امان نامہ لکھدیا اوربلا مقابلہ شہر کے اندر داخل ہوئے،خالد بن ولیدؓ نے جو امان نامہ دمشق والوں کو لکھ دیا اُس کا مضمون اس طرح تھا۔
‘‘خالد بن ولیدؓ نے دمشق والوں کو یہ رعایتیں دی ہیں کہ جب اسلامی لشکر دمشق میں داخل ہوگا تو دمشق والوں کو امان دی جائے گی اُن کی جان ومال اورگرجوں پر کوئی تصرف نہ کیا جائے گا نہ شہر دمشق کی شہر پناہ منہدم کی جائے گی نہ کسی مکان کو مسمار ومنہدم کیا جائے گا،اسلامی لشکر کا کوئی شخص شہر والوں کے کسی مکان میں سکونت اختیار نہ کرے گا، مسلمان اوران کا خلیفہ بجز نیکی کے کوئی بُرا سلوک دمشق والوں سے نہ کریں گے جب تک کہ دمشق والے جزیہ ادا کرتے رہیں گے’’
ادھر خالد بن ولیدؓ صلح کے ذریعہ شہر میں داخل ہوئے،ٹھیک اُسی وقت باقی ہر سہ جوانب سے اسلامی سردار سیڑھیاں لگا لگا کر اور دروازے توڑ توڑ کر قہر وغلبہ کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے،وسط شہر میں خالدؓ اور ابو عبیدہؓ کی ملاقات ہوئی،ابو عبیدہؓ نے کہا کہ ہم نے شہر کو بزور شمشیر فتح کیا ہے ،خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ میں نے بمصالحت شہر پر قبضہ کیا ہے، بعض روایات کی رُو سے معلوم ہوتا ہے کہ بطریق ہامان نے خود امراء دمشق کو بھیج کر خالد بن ولید سے عہد نامہ لکھوا لیا تھا، اوروہ مسلمانوں کے حملہ کی طاقت اورنیچے کو دیکھنا چاہتا تھا کہ اگر مسلمان اپنے متفقہ حملے اورپوری کوشش میں ناکام رہے اور بزور شمشیر دمشق میں داخل نہ ہوسکے تو آئندہ بھی مدافعت کو جاری رکھا جائے گا اورخالدؓ کے عہد نامہ کو کوئی وقعت نہ دی جائے گی۔
لیکن اگر مسلمان اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے اور زبردستی شہر میں داخل ہوئے تو اس عہد نامہ کے ذریعے اُس برتاؤ سے محفوظ رہیں گے،جو بزور شمشیر فتح کئے ہوئے شہر کے ساتھ آئین جنگ کے موافق کیا جاتا ہے ادھر ابو عبیدہؓ بزور شمشیر شہر میں داخل ہوئے اوراُدھر دمشق والوں نے خود دروازہ کھول کر خالد بن ولیدؓ کو شہر کے اندر بلالیا،بہر حال کوئی بات ہوئی،یہ ضرور ہوا کہ خالد بن ولیدؓ بذریعہ مصالحت داخل دمشق ہوئے اور ابو عبیدہؓ بن جراح بزورِ شمشیر۔
وسط شہر میں جب دونوں سردار ملاقی ہوئے تو یہ مسئلہ در پیش ہوا کہ دمشق بزور شمشیر مفتوح سمجھا جائے یا بمصالحت،بعض شخصوں نے کہا کہ خالد بن ولیدؓ چونکہ افواجِ اسلامی کے سپہ سالار اعظم نہ تھے ،لہذا اُن کا عہد نامہ جائز نہیں سمجھا جائے گا ایسا عہد نامہ صرف ابو عبیدہؓ لکھ سکتے تھے ،حضرت ابو عبیدہؓ نے فرمایا کہ مسلمانوں کا کوئی ایک معمولی سپاہی بھی جو عہد و اقرار کرلے گا وہ تمام مسلمانوں کو تسلیم کرنا پڑے گا لہذا خالد بن ولیدؓ کا عہد نامہ جائز سمجھا جائے گا ،اس پر یہ رائے پیش کی گئی کہ وسط شہر سے باب توما تک نصف شہر بذریعہ مصالحت سمجھا جائے گا، اورباقی نصف شہر بذریعہ شمشیر مسخر تصور کیا جائے؛ لیکن حضرت ابو عبیدہؓ نے اس کو بھی پسند نہ فرمایا اور تمام شہر خالد بن ولیدؓ کے عہد نامہ کے موافق بمصالحت مفتوح سمجھا گیا اوران تمام باتوں پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا جن کی نسبت خالد بن ولیدؓ نے اپنے عہد نامے میں تصریح فرمادی تھی،ابن خلدون کی روایت کے موافق خالد بن ولیدؓ بزور شمشیر باب توما کی طرف سے داخل ہوئے ،تو شہر والوں نے باقی دروازوں کے سامنے والے سرداروں سے مصالحت کرکے اُن کو فوراً بمصالحت شہر میں داخل کیا، بہرحال مسلمانوں نے دمشق والوں کے ساتھ مصالحانہ سلوک کیا اور شہر والوں کو کوئی آزار نہیں پہنچایا ابو عبیدہؓ بن جراح نے یزید بن ابی سفیان کو دمشق کا عامل مقرر کیا اوررومی سرداروں نیز سپاہیوں کو دمشق سے نکل کر جہاں اُن کا جی چاہا چلے جانے دیا۔
مکمل تحریر >>

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی

صدیق اکبرؓ نے خالد بن ولیدؓ کو افواج شام کا سپہ سالار اعظم بنا کر بھیجا تھا،حضرت خالد بن ولیدؓ ایک زبردست جنگ جو اور بے نظیر بہادر سپہ سالار تھے،عراق میں بھی اب تک خالد بن ولیدؓ ہی سپہ سالاراعظم تھے اوران کی حیرت انگیز بہادری اورجنگی قابلیت نے دربار ایران اور سا سانی شہنشاہی کو حیران وششد ر اور مرعوب بنادیا تھا ، رومی سلطنت کو بھی ابتداء اسی طرح مرعوب بنانے اورایک زبردست ٹکر لگانے کی ضرورت تھی،لہذا صدیق اکبرؓ نے سیف اللہ کو شام کی طرف سپہ سالار اعظم بنا کربھیجا اوران کا اندازہ نہایت صحیح ثابت ہوا؛ کیونکہ خالد بن ولیدؓ نے شام میں پہنچ کر یرموک کے میدان میں ایسی زبردست ٹکر لگائی کہ رومی شہنشاہ ہی کی کمر ٹوٹ گئی اور قیصر روم کے رعب وسطوت میں زلزلہ برپاہوگیا، ان ابتدائی لڑائیوں کے بعد لشکر اسلام کے قبضہ میں ایران و روم کے آباد وسرسبز صوبے آنے والے تھے اوردونوں شہنشاہیوں کی باقاعدہ افواج سے معرکہ آرائی ومیدان داری شروع ہونے والی تھی،لہذا اب ضرورت تھی کہ اسلامی افواج نہ صرف ایک فتح مند وملک گیر سالار کے زیر حکم کام کریں؛بلکہ ایک مدبر وملک دارافسر کی ماتحتی میں مصروف کار ہوں۔
فاروق اعظمؓ خالد بن ولیدؓ کی جنگی قابلیت کے منکر نہ تھے ؛بلکہ وہ خالد بن ولیدؓ کو کسی قدر غیر محتاط اورمشہور شخص سمجھتے تھے،ان کو شروع ہی سے یہ اندیشہ تھا کہ خالد بن ولیدؓ کی بے احتیاطی کہیں مسلمانوں کی کس جمعیت کو ہلاکت میں نہ ڈال دے ،صدیق اکبرؓ بھی اس احساس میں فاروق اعظمؓ کے مخالف نہ تھے؛ لیکن وہ عراق اور شام کے ابتدائی معرکوں میں خالد بن ولیدؓ کو ہی سب سے زیادہ موزوں اورمناسب سمجھتے تھے وہ خالد بن ولیدؓ کی سرداری کے نقائص کو خوبیوں کے مقابلے کمتر پاتے تھے اوراسی لئے انہوں نے دنیا کی دونوں سب سے بڑی طاقتوں (روم اورایران) کو سیف اللہ کی برش وتابانی دکھانی ضروری سمجھی،یہ مدعا چونکہ حاصل ہوچکا تھا،لہذا اب ضرورت نہ تھی،کہ خالد بن ولیدؓ ہی سپہ سالار اعظم رہیں، اس موقعہ پر اُن الفاظ کو ایک مرتبہ پھر پڑھو، جو صدیق اکبرؓ نے فاروق اعظم کو اپنے آخری وقت میں لشکر عراق کی نسبت فرمائے تھے اور جو اوپر درج ہوچکے ہیں،فاروقؓ اعظم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ:
خدائے تعالیٰ ابوبکرؓ پر رحم کرے کہ انہوں نے خالد بن ولیدؓ کی امارت کی پردہ پوشی کردی؛کیونکہ انہوں نے مجھ کو خالدؓ کے ہمراہیوں کی نسبت اپنے آخری وقت میں حکم دیا کہ عراق کی جانب واپس بھیج دینا ،لیکن خالدؓ کا کچھ ذکر نہیں کیا:
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے جو خالد بن ولیدؓ کی معزولی کا حکم دیا،وہ منشائے صدیقی کے خلاف نہ تھا اوریہ بھی کیسے ہوسکتا ہے کہ فاروق اعظمؓ خلیفہ ہوتے ہی سب سے پہلا کام وہ کرتے جو صدیق اکبرؓ کی منشا اورخواہش کے بالکل خلاف ہوتا،فاروقؓ اعظم کی خلافت کا حال شروع کرتے ہوئے عام طور پر مؤرخین اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ صدیق اکبرؓ نے فاروق اعظم کو لشکر اُسامہ سے اس لئے جدا کرکے اپنے پاس رکھا تھا کہ امور خلافت میں ان کے مشورے سے امداد حاصل کریں اور خلافت صدیقی کےپورے زمانے میں آخر وقت تک فاروق اعظم ؓ ہی صدیق اکبرؓ کے وزیر ومشیر رہے،صدیق اکبرؓ کا کوئی کام ایسا نہ تھا ،جس میں فاروق اعظم ؓ سے استخراج واستصواب نہ کرلیا گیا ہو،دنیا میں بہت سے لوگ ظاہر بیں ہوا کرتے ہیں اور وہ اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے بڑے بڑے آدمیوں سے ایسی باتوں کو منسوب کردینے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا کرتے،جن کو اُن بڑے آدمیوں سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا،فاروق اعظم نے خالد بن ولیدؓ کی بعض بے احتیاطیوں پر ضرور اظہار ناراضگی کیا؛ لیکن یہ اظہار ناراضگی بس وہیں تک تھا ،جہاں تک شریعت اوراُن کی تحقیق واجتہاد کا تعلق تھا،اس اظہار ناراضگی کو عداوت وعناد کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتا تھا نہ ہوا، وہ فاروقؓ اعظم جو اسیران بدر کی نسبت یہ آزادانہ حکم دے کہ جو جس کا عزیز ورشتہ دار ہے وہ اسی کے ہاتھ سے قتل کیا جائے، اس کی نسبت یہ رائے قائم کرلی کہ اُن کو خالدؓ سے کوئی کدیا ذاتی عداوت تھی،سراسر ظلم اور نہایت ہی رکیک وبیہودہ خیال ہے۔
فاروق اعظمؓ نے خالد بن ولیدؓ کو معزول کرکے درحقیقت امت محمدیہ پر بڑا احسان کیا اورایک ایسی نظیر پیدا کردی کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور خدمت دینی کے مقابلہ میں اپنی ہستی کو ہیچ سمجھنے کی مثال میں سب سے پہلے ہم خالد بن ولیدؓ ہی کا نام لیتے ہیں،خالدؓ بن ولید اگر مرتے دم تک افواج اسلام کے سپہ سالار اعظم رہتے ،تب بھی اُن کی بہادری اورجنگی قابلیت کے متعلق اس سے زیادہ کوئی شہرت نہ ہوتی جو آج موجود ہے، لیکن اس معزولی کے واقعہ نے خالدؓ بن ولید کی عظمت وعزت میں ایک ایسے عظیم الشان مرتبہ کا اضافہ کردیا ہے جس کے آگے اُن کی سپہ گری وبہادری کے مرتبہ کی کوئی حقیقت نہیں ہم ایک طرف خالد بن ولیدؓ کے جنگی کارناموں پر فخر کرتے ہیں تو دوسری طرف اُن کی للہیت اوراطاعت ِ اولی الامر کو فخر یہ پیش کرتے ہیں۔
بعض مورخین نے اپنی ایک یہ لطیف رائے بھی بیان کی ہے کہ خالد بن ولیدؓ کو چونکہ ہر ایک معرکہ میں فتح و فیروزی حاصل ہوتی رہی تھی، لہذا لوگوں کےدلوں میں خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ تمام فتوحات خالد بن ولیدؓ کی سپہ سالاری کے سبب مسلمانوں کی کامیابیاں اورفتح مند یاں کسی شخص سے وابستہ نہیں ہیں ؛بلکہ مشیت ایزدی اوراسلام کی برکات ان فتوحات کا اصل سبب ہے ،اس روایت کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ فاروق اعظمؓ نے جس طرح افواج شام کی سپہ سالاری میں تبدیلی فرمائی،اسی طرح افواجِ عراق کی سپہ سالاری سے بھی حضرت مثنیٰ بن حارثہ کو معزول کرکے ابو عبیدہؓ بن مسعود کا ماتحت بنادیا تھا،آج بھی اگر مسلمان اسلام کی پیروی میں صحابہ کرام کا نمونہ بن جائیں،تو وہی کامیابیاں اورفتح مندیاں جو قرون اولیٰ میں حاصل ہوئی تھیں پھر حاصل ہونے لگیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے خلیفہ مقرر ہونے کے بعد جو قابل تذکرہ جنگی انتظامات کئے،ان میں سب سے پہلا کام یہ تھا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کو افواجِ شام کی اعلیٰ سپہ سالاری سے معزول کرکے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو ملک شام کی اسلامی افواج کاسپہ سالاراعظم بنایا،اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی، اور حضرت خالد بن ولید نے حضرت ابوعبیدہ کی ماتحتی میں نہ صرف جان فروشی اور کافر کشی میں پہلے سے زیادہ مستعدی دکھلائی ؛بلکہ حضرت ابوعبدیہ کو ہمیشہ مفید ترین جنگی مشورے دیتے رہے،یہی وہ امتیاز خاص ہے جو حضرت خالد بن ولید کے مرتبہ اور عزت کو تمام دنیا کی نگاہ میں بہت بلند کردیتا اوراُن کو روئے زمین کا بے نظیر سپہ سالار اورسچا پکا مخلص انسان ثابت کرتا ہے کہ جس کے دل میں رضائے الہی کے سوا شہرت طلبی اورریا کانام ونشاں بھی نہ تھا، دوسرا کام فاروق اعظمؓ کا یہ تھا کہ انہوں نے ابو عبیدہؓ بن مسعود کو ایک فوج کے ساتھ عراق کی جانب روانہ کیا اوراُن کو ملک عراق کے تمام اسلامی افواج کا سپہ سالار اعظم مقرر کیا، ابو عبیدہؓ بن مسعود کے روانہ کرنے کے بعد تیسرا کام فاروقؓ اعظم کا یہ تھا کہ یعلیٰ بن اُمیہؓ کو ملکِ یمن کی جانب روانہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس آخری وصیت کو پورا کریں کہ ملکِ عرب میں مسلمانوں کے سوا کوئی یہودی اورکوئی نصرانی نہ رہنے پائے،چونکہ مسلمان صدیق اکبرؓ کی خلافت کے سوا دو برس دوسرے اعاظم امور کی انجام دہی میں مصروف رہے کہ اس وصیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پورا کرنے کاا بھی تک موقعہ نہ مل سکا تھا۔
مکمل تحریر >>

خلافت

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں مرتدین عرب اور مدعیان نبوت کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہو چکا تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی برس یعنی 12 ہجری میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ 13 ہجری (633 عیسوی) میں شام پر حملہ ہوا۔ اور اسلامی فوجیں تمام اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا ابھی آغاز ہی تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عنان خلافت اپنے ہاتھ میں لی تو سب سے ضروری کام انہی مہمات کا انجام دینا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم ان واقعات کی تفصیل لکھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے فارس و شام سے کیا تعلقات تھے۔
9 ہجری میں رومیوں نے خاص مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کیں۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود پیش قدمی کر کے مقام تبوک تک پہنچے تو ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اگرچہ اسی وقت عارضی طور سے لڑائی رک گئی لیکن رومی اور غسانی مسلمانوں کی فکر سے کبھی غافل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ مدینہ پر چڑھ نہ آئیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت مشہور ہوا کہ آپ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی تو ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر کہا کہ کچھ تم نے سنا! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا؟ کہیں غسانی تو نہیں چڑھ آئے۔

اسی حفظ ماتقدم کے لئے 11 ہجری میں رسول اللہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سردار بنا کر شام کی مہم پر بھیجا۔ اور چونکہ ایک عظیم الشان سلطنت کا مقابلہ تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بڑے بڑے نامور صحابہ مامور ہوئے کہ فوج کے ساتھ جائیں۔ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ نے بیمار ہو کر انتقال فرمایا۔ غرض جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو عرب کی یہ حالت تھی کہ دونوں ہمسایہ سلطنتوں کا ہدف بن چکا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام پر لشکر کشی کی تو فوج سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں سے جو شخص مارا جائے گا شہید ہو گا۔ اور جو بچ جائے گا مدافع عن الدین ہو گا۔ یعنی دین کو اس نے دشمنوں کے حملے سے بچایا ہو گا۔ اس واقعات سے ظاہر ہو گا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کام شروع کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس کی تکمیل کی اس کے کیا اسباب تھے ؟ اس تمہیدی بیان کے بعد ہم اصل مطلب شروع کرتے ہیں۔
عراق کی یہ فتوحات خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بڑے کارناموں پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں تھا۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہمات عراق کا خاتمہ کر دیا ہوتا۔ لیکن چونکہ ادھر شام کی مہم درپیش تھی اور جس زور شور سے وہاں عیسائیوں نے لڑنے کی تیاریاں کی تھی اس کے مقابلے کا وہاں پورا سامان نہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربیع الثانی 13 ہجری (634 عیسوی) میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بھیجا کہ فوراً شام کو روانہ ہوں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اپنا جانشین کرتے جائیں۔ ادھر خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روانہ ہوئے اور عراق کی فتوحات دفعتہً رک گئیں۔
(جغرافیہ نویسوں نے عراق کے دو حصے کئے ہیں یعنی جو حصہ عرب سے ملحق ہے ، اس کو عراق عرب اور جو حصہ عجم سے ملحق ہے اس کو عراق عجم کہتے ہیں۔ عرا ق کی حدوداربعہ یہ ہیں شمال میں جزیرہ جنوب میں بحر فارس، مشرق میں خوزستان اور مغرب میں دیار بکر ہے جس کا مشہور شہر موصل ہے اور دارالسلطنت اس کا بغداد ہے اور جو بڑے بڑے شہر اس میں آباد ہیں وہ بصرہ کوفہ واسطہ وغیرہ ہیں۔
ہمارے مؤرخین کا عام طریقہ یہ ہے کہ وہ سنین کو عنوان قرار دیتے ہیں لیکن اس میں یہ نقص ہے کہ واقعات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلاً ایران کی فتوحات لکھتے آ رہے ہیں کہ سنہ ختم ہوا چاہتا ہے اور ان کو اس سنہ کے تمام واقعات لکھنے ہیں۔ اس لیے قبل اس کے کہ ایران کی فتوحات تمام ہوں یا موزوں موقع پر ان کا سلسلہ ٹوٹے شام و مصر کے واقعات کو جو اسی سنہ میں پیش آئے تھے چھیڑ دینا پڑتا ہے۔ اس لئے میں نے ایران کی تمام فتوحات کو ایک جا شام کو ایک جا اور مصر کو ایک جا لکھا ہے )۔
مکمل تحریر >>

واقعہَ حدیبیہ - 6 ہجری

6 ہجری میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، حدیبیہ پہنچ کر حضورﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکہ بھیجا۔ قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روک رکھا۔ اور جب کئی دن گزر گئے تو یہ مشہور ہو گیا کہ وہ شہید کر دیئے گئے۔ رسول اللہ نے یہ سن کر صحابہ سے جو تعداد میں چودہ سو تھے جہاد پر بیعت لی۔ اور چونکہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی تھی، یہ واقعہ بیعت الشجرۃ کے نام سے مشہور ہوا۔ قرآن مجید کی اس آیت میں " لقد رضی اللہ عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ" اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور آیت کی مناسبت سے اس کو بیعت رضوان بھی کہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بیعت میں شامل تھے ۔
قریش کو اصرار تھا کہ رسول اللہ مکہ میں ہر گز داخل نہیں ہو سکتے۔ بڑے رد و بدل کے بعد ان شرائط پر معاہدہ ہوا کہ اس دفعہ مسلمان الٹے واپس جائیں۔ اگلے سال آئیں۔ لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں، معاہدہ میں یہ شرط بھی داخل تھی کہ دس برس تک لڑائی موقوف رہے۔ اور اس اثناء میں اگر قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ کے ہاں چلا جائے تو رسول اللہ اس کو قریش کے پاس واپس بھیج دیں۔ لیکن مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص قریش کے ہاتھ آ جائے تو ان کو اختیار کہ اس کو اپنے پاس روک لیں۔ اخیر شرط چونکہ بظاہر کافروں کے حق میں زیادہ مفید تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہایت اضطراب ہوا۔ معاہدہ ابھی لکھا نہیں جا چکا تھا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی جائے۔ انہوں نے سمجھایا کہ رسول اللہ جو کچھ کرتے ہیں اسی میں مصلحت ہو گی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تسکین نہیں ہوئی۔ خود رسول اللہ کے پاس گئے اور اس طرح بات چیت کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! کیا آپ رسول خدا نہیں ہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! بے شک ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کیا ہمارے دشمن مشرک نہیں ہیں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ضرور ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! پھر ہم اپنے مذہب کو کیوں ذلیل کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا کے حکم کے خلاف نہیں کرتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ گفتگو اور خصوصاً انداز گفتگو اگرچہ خلاف ادب تھا، چنانچہ بعد میں ان کو سخت ندامت ہوئی۔ اور اس کے کفارہ کے لئے روزے رکھے۔ نفلیں پڑھیں، خیرات دی، غلام آزاد کئے ، (طبری 6 )۔

تاہم سوال و جواب کی اصل بناء اس نکتہ پر تھی کہ رسول کے کون سے افعال انسانی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور کون سے رسالت کے منصب سے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تمام باتوں کو منصب نبوت سے الگ سمجھتے تھے ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امتیاز مراتب کی جرات اس وجہ سے ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعدد احکام میں جب انہوں نے دخل دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر ناپسندیدگی نہیں ظاہر کی۔ بلکہ متعدد معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی تائید کی۔ قیدیان بدر، حجاب ازواج مطہرات، نماز بر جنازہ منافق، ان تمام معاملات میں وحی جو آئی اس تفریق اور امتیاز کی وجہ سے فقہ کے مسائل پر بہت اثر پڑا۔ کیونکہ جن چیزوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات منصب رسالت کی حیثیت سے نہ تھے ان میں اس بات کا موقع باقی رہا۔ کہ زمانے اور حالات موجودہ کے لحاظ سے نئے قوانین وضع کئے جائیں۔ چنانچہ اس معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زمانے اور حالات کی ضرورتوں سے بہت سے نئے نئے قاعدے وضع کئے جو آج حنفی فقہ میں بکثرت موجود ہیں۔

غرض معاہدہ صلح لکھا گیا اور اس پر بڑے بڑے اکابر صحابہ کے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی داخل تھے دستخط ثبت ہوئے۔ معاہدہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا کہ مجھ پر وہ سورۃ نازل ہوئی جو مجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیتیں پڑھیں " انا فتحنا لک فتحاً مبیناً" (صحیح بخاری واقعہ حدیبیہ)
محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان اور کفار بالکل الگ الگ رہتے تھے۔ صلح ہو جانے سے آپ میں میل جول ہوا۔ اور رات دن کے چرچے اسلام کے مسائل اور خیالات روزبروز پھیلتے گئے۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ دو برس کے اندر اندر جس کثرت سے لوگ اسلام لائے 18 برس قبل کی وسیع مدت میں نہیں لائے تھے۔ (فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 ذکر حدیبیہ)۔ جس بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صلح کی تھی اور لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فہم میں نہ آ سکی، وہ یہی مصلحت تھی۔ اور اسی بناء پر خدا نے سورۃ فتح میں اس صلح کو فتح سے تعبیر کیا۔
مکمل تحریر >>

غزوۃَ احد - 3 ہجری

غزوہ احد میں تیراندازوں کے جگہ سے ہٹنے کے بعد خالد نے دفعتاً عقب سے بڑے زور و شور کے ساتھ حملہ کیا۔ مسلمان چونکہ ہتھیار ڈال کر غنیمت میں مصروف ہو چکے تھے۔ اس ناگہانی زد کو نہ روک سکے ، کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر پتھروں اور تیروں کی بوچھاڑ کی۔ یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ پیشانی پر زخم آیا اور رخساروں میں مغفر کی کڑیاں چبھ گئیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک گڑھے میں گر پڑے۔ اور لوگوں کی نظر سے چھپ گئے۔ اس برہمی میں یہ غُل پڑ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مارے گئے۔ اسی خبر نے مسلمانوں کے استقلال کو متزلزل کر دیا۔ اور جو جہاں تھا وہیں سراسیمہ ہو کر رہ گیا۔
تمام روایتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو کچھ تو ایسے سراسیمہ ہوئے کہ انہوں نے مدینہ آ کر دم لیا۔ کچھ لوگ جان پر کھیل کر لڑتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد جینا بیکار ہے۔ بعضوں نے مجبور و مایوس ہو کر سپر ڈال دی کہ اب لڑنے سے کیا فائدہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس تیسرے گروہ میں تھے۔ علامہ طبری میں بسند متصل جس کے رواۃ حمید بن سلمہ، محمد بن اسحاق، قاسم بن عبد الرحمٰن بن رافع ہیں، روایت کی ہے کہ اس موقع پر جب انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چند مہاجرین اور انصار کو دیکھا کہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے ہیں، تو پوچھا کہ بیٹھے کیا کرتے ہو، ان لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ نے جو شہادت پائی۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے کہ رسول اللہ کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے تم بھی انہی کی طرح لڑ کر مر جاؤ۔ یہ کہہ کر کفار پر حملہ آور ہوئے اور شہادت حاصل کی (طبری 4)۔ قاضی ابو یوسف نے خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ انس بن نضر میرے پاس سے گزرے اور مجھ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کیا گزری۔ میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ شہید ہوئے۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ شہید ہوئے تو ہوئے خدا تو زندہ ہے۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے کھینچ لی۔ اور اس قدر لڑے کہ شہادت حاصل کی (کتاب الخراج )۔ ابن ہشام میں ہے کہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ میں ستر زخم کھائے۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اخیر تک کس قدر صحابہ ثابت قدم رہے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف سات انصار اور دو قریشی یعنی سعد اور طلحہ رہ گئے تھے۔ نسائی اور بیہقی میں بسند صحیح منقول ہے کہ گیارہ انصار اور طلحہ کے سوا اور کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہیں رہا تھا۔ محمد بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 14 آدمیوں کا نام لیا ہے۔ اسی طرح اور بھی مختلف روایتیں ہیں (یہ پوری تفصیل فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 میں ہے )۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ان روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ لوگ جب ادھر ادھر پھیل گئے تو کافروں نے دفعتاً عقب سے حملہ کیا۔ اور مسلمان سراسیمہ ہو کر جو جہاں تھا وہ وہیں رہ گیا۔ پھر جس طرح موقع ملتا گیا لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچتے گئے۔
بہرحال یہ امر تمام روایتوں سے ثابت ہے کہ سخت برہمی کی حالت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان جنگ سے نہیں ہٹے۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زندہ ہونا معلوم ہوا تو فوراً خدمت میں پہنچے۔ طبری اور سیرت ہشام میں ہے۔
" پھر جب مسلمانوں نے رسول اللہ کو دیکھا تو آنحضرت کے پاس پہنچے اور آپ لوگوں کو لے کر پہاڑ کے درہ پر چڑھ گئے اس وقت آپ کے ساتھ حضرت علی، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر بن العوام اور حارث بن صمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے۔ "
علامہ بلاذری صرف ایک مؤرخ ہیں جنہوں نے انساب الاشراف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حال میں یہ لکھا ہے :یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان لوگوں میں تھے جو احد کے دن بھاگ گئے تھے۔ لیکن خدا نے ان کو معاف کر دیا۔ "علامہ بلاذری نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنی خلافت کے زمانے میں لوگوں کے روزینے مقرر کئے تو ایک شخص کے روزینے کی نسبت لوگوں نے کہا اس سے زیادہ مستحق آپ کے فرزند عبد اللہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس کا باپ احد کی لڑائی میں ثابت قدم رہا تھا۔ اور عبد اللہ کا باپ (یعنی حضرت عمر) نہیں رہا تھا۔ لیکن یہ روایت قطع نظر اس کے درایۃً غلط ہے ، کیونکہ معرکہ جہاد سے بھاگنا ایک ایسا ننگ تھا۔ جس کو کوئی شخص علانیہ تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ اصول روایت کے لحاظ سے بھی ہم اس پر اعتبار نہیں کر سکتے ، علامہ موصوف نے جس رواۃ کی سند سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ان میں عباس بن عبد اللہ الباکسائے اور فیض بن اسحاق ہیں اور دونوں مجہول الحال ہیں۔ اس کے علاوہ اور تمام روایتیں اس کے خلاف ہیں۔
اس بحث کے بعد ہم پھر اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں۔ خالد ایک دستہ فوج کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف بڑھے ، رسول اللہ اس وقت تیس (30) صحابہ کے ساتھ پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے۔ ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند مہاجرین اور انصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اور ان لوگوں کو ہٹا دیا۔ (سیرۃ ابن ہشام -5 و طبری 1)۔ ابو سفیان سالار قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ اس گروہ میں محمد ہیں یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اشارہ کیا کہ کوئی جواب نہ دے۔ ابو سفیان نے پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا نام لے کر کہا کہ یہ دونوں اس مجمع میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے کچھ جواب نہ دیا تو بولا کہ "ضرور یہ لوگ مارے گئے "۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رہا نہ گیا، پکار کر کہا " او دشمن خدا! ہم سب زندہ ہیں" ابو سفیان نے کہا اعل ھبل " اے ہبل (ایک بت کا نام تھا) بلند ہو" رسول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا جواب دو اللہ اعلیٰ و اجل یعنی خدا بلند و برتر ہے۔ (سیرت ہشام و طبری 5)
مکمل تحریر >>

غزوہَ بدر - 2 ہجری

سن 1 ہجری (623 عیسوی) سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعات اور حالات در حقیقت سیرۃ نبوی کے اجزاء ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جو لڑائیاں پیش آئیں غیر قوموں سے جو معاہدات عمل میں آئے وقتاً فوقتاً جو انتظامات جاری کئے گئے ، اشاعت اسلام کے لئے جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان میں سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شرکت کے بغیر انجام پایا ہو، لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر تمام واقعات پوری تفصیل کے ساتھ لکھے جائیں تو کتاب کا یہ حصہ سیرۃ نبوی سے بدل جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ کارنامے گو کتنے ہی اہم ہوں لیکن چونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلسلۂ حالات سے وابستہ ہیں، اس لئے جب قلمبند کئے جائیں گے تو تمام واقعات کا عنوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نامی قرار پائے گا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارنامے ضمناً ذکر میں آئیں گے۔ اس لئے ہم نے مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ یہ واقعات نہایت اختصار کے ساتھ لکھے جائیں۔ اور جن واقعات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاص تعلق ہے ان کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا جائے۔ اس صورت میں اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارنامے نمایاں ہو کر نظر نہ آئیں گے۔ کیونکہ جب تک کسی واقعہ کی پوری تصویر نہ دکھائی جائے اس کی اصل شان قائم نہیں رہتی تاہم اس کے سوا اور کوئی تدبیر نہ تھی۔
اب ہم اختصار کے ساتھ ان واقعات کو لکھتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب مدینہ کو ہجرت کی تو قریش کو خیال ہوا کہ اگر مسلمانوں کا جلد استیصال نہ کر دیا جائے تو وہ زور پکڑ جائیں گے۔ اس خیال سے انہوں نے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کیں۔ تاہم ہجرت کے دوسرے سال تک کوئی قابل ذکر معرکہ نہیں ہوا، صرف اس قدر ہوا کہ دو تین دفعہ قریش چھوٹے چھوٹے گروہ کے ساتھ مدینہ کی طرف بڑھے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خبر پا کر ان کو روکنے کے لئے تھوڑی تھوڑی سی فوجیں بھیجیں اور وہ وہیں رک گئے۔

غزوہ بدر سن 2 ہجری (624 عیسوی)
2 ہجری (624 عیسوی) میں بدر کا واقعہ پیش آیا جو نہایت مشہور معرکہ ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ اس معرکہ میں رائے و تدبیر، جانبازی و پامردگی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست و بازو رہے۔ لیکن ان کی شرکت کی مخصوص خصوصیات یہ ہیں :
(1) قریش کے تمام قبائل اس معرکہ میں آئے۔ لیکن بنو عدی یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبیلے میں سے ایک متنفس بھی شریک جنگ نہیں ہوا۔ (طبری کبیر میں ہے : ولم یکن بقی من قریش بطن الانفر منھم نا سالاناس الا بنی عدی بن کعب لم یخرج رجل واحد )۔ اور یہ امر جہاں تک قیاس کیا جا سکتا ہے صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رعب و ذات کا اثر تھا۔
(2)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ان کے قبیلے اور حلفاء کے 12 آدمی شریک جنگ تھے۔ جن کے نام یہ ہیں : زید، عبد اللہ بن سراقہ، عمرو بن سراقہ، واقد بن عبد اللہ، خولی بن ابی خولی، عامر بن ربیعہ، عامر بن بکیر، خالد بن بکیر، ایاس بن بکیر، عاقل بن بکیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔
(3)سب سے پہلے جو شخص اس معرکہ میں شہید ہوا وہ مھجع حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام تھا۔ (ابن ہشام )۔
(4) عاصی بن ہشام بن مغیرہ جو قریش کا ایک معزز سردار اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ماموں تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ (ابن حریر و استیعاب)۔
یہ بات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصیات میں شمار کی گئی ہے کہ اسلام کے معاملات میں قرابت اور محبت کا اثر ان پر کبھی غالب نہیں آ سکتا تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ اس کی پہلی مثال ہے۔
اس معرکہ میں مخالف کی فوج سے جو لوگ زندہ گرفتار ہوئے ان کی تعداد کم و بیش 70 تھی۔ اور ان میں اکثر قریش کے بڑے بڑے سردار تھے۔
اس بناء پر یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام صحابہ سے رائے لی۔ اور لوگوں نے مختلف رائیں دیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ اپنے ہی بھائی بند ہیں، اس لئے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اختلاف کیا اور کہا کہ اسلام کے معاملے میں رشتہ اور قرابت کو دخل نہیں۔ ان سب کو قتل کر دینا چاہیے۔ اور اسطرح کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے عزیز کو آپ قتل کر دے۔ علی عقیل کی گردن ماریں، حمزہ عباس کا سر اڑائیں، اور فلاں شخص جو میرا عزیز ہے اس کا کام میں تمام کروں (طبری 5)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شان رحمت کے اقتضاء سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پسند کی۔ اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
ما کان لنبی ان یکون لہ اسرٰی حتیٰ یثخن فی الارض الخ
مکمل تحریر >>

ولادت، جوانی کے حالات

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی سے 40 برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت اور بچپن کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرو بن عاص کی زبانی ایک روایت نقل کی ہے۔ کہ میں چند احباب کے ساتھ ایک جلسہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتہً غُل اٹھا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ خطاب کے گھر بیٹا ہوا ہے۔ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیدا ہونے پر غیر معمولی خوشی کی گئی تھی۔ ان کے سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں اور کیونکر معلوم ہوتے۔ اس وقت کس کو خیال تھا کہ یہ جوان آگے چل کر فاروق اعظم ہونے والا ہے۔ تاہم نہایت تشخیص اور تلاش سے کچھ کچھ حالات بہم پہنچے جن کا نقل کرنا ناموزوں نہ ہو گا۔

سن رشد پہنچ کر ان کے باپ خطاب نے ان کو جو خدمت سپرد کی وہ اونٹوں کو چرانا تھا۔ یہ شغل اگرچہ عرب میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قومی شعار تھا لیکن خطاب نہایت بے رحمی کے ساتھ ان سے سلوک کرتے۔ تمام دن اونٹ چرانے کا کام لیتے اور جب کبھی تھک کر دم لینا چاہتے تو سزا دیتے۔ جس میدان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ مصیبت انگیز خدمات انجام دینی پڑتی تھی۔ اس کا نام ضجنان تھا۔ جو مکہ معظمہ کے قریب قدید سے 10 میل کے فاصلہ پر ہے۔ خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو ان نہایت عبرت ہوئی، آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ اللہ اکبر ایک وہ زمانہ تھا کہ میں نمدہ کا کرتہ پہنے ہوئے اونٹ چرایا کرتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تو باپ کے ہاتھ سے مار کھاتا۔ آج یہ دن ہے کہ خدا کے سوا میرے اوپر کوئی حاکم نہیں۔ (طبقات ابن سعد)۔

شباب کا آغاز ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً معمول تھے ، عرب میں اس وقت جن چیزوں کی تعلیم دی جاتی تھی اور جو لازمہً شرافت خیال کی جاتی تھیں، نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری تھی، نسب دانی کا فن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں موروثی چلا آتا تھا، جاحظ نے کتاب البیان والبتیین میں بہ صریح لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے باپ اور دادا نفیل تینوں بڑے نساب تھے (طبقات ابن سعد، مطبوعہ مصر ص 117-122)، غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان میں جیسا کہ ہم ابھی لکھ آئے ہیں سفارت اور منافرۃ یہ دونوں منصب موروثی چلے آتے تھے اور ان کے انجام دینے کے لیے انساب کا جاننا سب سے مقدم امر تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انساب کا فن اپنے باپ سے سیکھا۔ جاحظ نے تصریح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو ہمیشہ اپنے باپ خطاب کا حوالہ دیتے تھے۔

پہلوانی اور کشتی کے فن میں بھی کمال حاصل تھا، یہاں تک کہ عکاظ کے دنگل میں معرکے کی کشتیاں لڑتے تھے ، عکاظ جبل عرفات کے پاس ایک مقام تھا جہاں سال کے سال اس غرض سے میلہ لگتا تھا کہ عرب کے تمام اہل فن جمع ہو کر اپنے کمالات کے جوہر دکھاتے تھے اس لیے وہی لوگ یہاں پیش ہو سکتے تھے جو کسی فن میں کمال رکھتے تھے۔ نابغہ، زبیانی، حسان بن ثابت، قیس بن ساعدہ، خنساء جن کو شاعری اور ملکۂ تقریر میں تمام عرب مانتا تھا، اسی تعلیم گاہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت علامہ بلاذری نے کتاب الاشراف میں با سند روایت نقل کی ہے کہ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فن میں پورا کمال حاصل کیا تھا۔

شہسواری کی نسبت ان کا کمال عموماً مسلم ہے۔ جاحظ نے لکھا ہے کہ وہ گھوڑے پر اچھل کر سوار ہوتے تھے اور اس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جلد بدن ہو جاتے تھے۔ قوت تقریر کی نسبت اگرچہ کوئی مصرح شہادت موجود نہیں لیکن یہ امر تمام مؤرخین نے باتفاق لکھا ہے کہ اسلام لانے سے پہلے قریش نے ان کو سفارت کا منصب دے دیا تھا۔ اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میں کمال رکھتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شاعری کا نہایت عمدہ مذاق رکھتے تھے اور تمام مشہور شعراء کے چیدہ اشعار ان کو یاد تھے اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ یہ مذاق انہوں نے جاہلیت میں ہی عکاظ کی تعلیم گاہ میں حاصل کیا ہو گا۔ کیونکہ اسلام لانے کے بعد وہ مذہبی اشغال میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اس قسم کے چرچے بھی چنداں پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ اور یہ وہ خصوصیت تھی جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ علامہ بلاذری نے بہ سند لکھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو قریش کے تمام قبیلے میں 17 آدمی تھے ، جو لکھنا جانتے تھے ، ان میں ایک عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ (فتوح البلدان بلاذری )۔

ان فنون سے فارغ ہو کر وہ فکر معاش میں مصروف ہوئے ، عرب میں معاش کا ذریعہ زیادہ تر تجارت تھا۔ اس لئے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا۔ اور یہی شغل ان کی بہت بڑی ترقیوں کا سبب ہوا، وہ تجارت کی غرض سے دور دور ملکوں میں جاتے تھے۔ اور بڑے بڑے لوگوں سے ملتے تھے۔ خود داری، بلند حوصلگی، تجربہ کاری، معاملہ دانی، یہ تمام اوصاف جو ان میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہو گئے تھے ، سب انہی سفروں کی بدولت تھے ، ان سفروں کے حالات اگرچہ نہایت دلچسپ اور نتیجہ خیز ہوں گے لیکن افسوس ہے کہ کسی مؤرخ نے ان پر توجہ نہیں کی۔ علامہ مسعودی نے اپنی مشہور کتاب " مروج الذہب" میں صرف اس قدر لکھا ہے کہ :
"عمر بن خطاب نے جاہلیت کے زمانے میں عراق اور شام کے جو سفر کئے ان سفروں میں جس طرح وہ عرب و عجم کے بادشاہوں سے ملے اس کے متعلق بہت سے واقعات ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب اخبار الزمان اور کتاب الاوسط میں لکھا ہے۔ "
علامہ موصوف نے جن کتابوں کا حوالہ دیا اگرچہ وہ فن تاریخ کی جان ہیں۔ لیکن قوم کی بد مذاقی سے مدت ہوئی ناپید ہو چکیں۔علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ میں نے صرف اس غرض سے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان حالات کا پتہ لگ سکے۔ قسطنطنیہ کے تمام کتب خانے چھان مارے۔ لیکن کچھ کامیابی نہیں ہوئی۔ محدث بن عساکر نے " تاریخ دمشق" میں جس کی بعض جلدیں میری نگاہ سے گزریں ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سفر کے بعض واقعات لکھے ہیں۔ لیکن ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔
مختصر یہ کہ عکاظ کے معرکوں اور تجارت کے تجربوں نے ان کو تمام عرب میں روشناس کرا دیا اور لوگوں پر ان کی قابلیت کے جوہر روز برزر کھلتے گئے۔ یہاں تک کہ قریش نے ان کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا۔ جب کوئی پرخطر معاملہ پیش آتا تو انہی کو سفیر بنا کر بھیجتے۔
مکمل تحریر >>

قبولِ اسلام

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ستائیسواں سال تھا کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے اور اسلام کی صدا بلند ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز بالکل نامانوس نہیں رہی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید اسلام لائے۔ سعید کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن فاطمہ سے ہوا تھا۔ اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہو گئیں۔ اسی خاندان میں ایک اور معزز شخص نعیم بن عبد اللہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے۔ ان کے کانوں میں جب یہ صدا پہنچی تو سخت برہم ہوئے۔ یہاں تک کہ قبیلے میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے۔ لبینہ ان کے خاندان میں ایک کنیز تھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کو بے تحاشہ مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے ذرا دم لے لوں تو پھر ماروں گا۔ لبینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا تھا زد و کوب سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتا تھا اترتا نہ تھا۔ ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بد دل نہ کر سکے۔ آخر مجبور ہو کر فیصلہ کیا کہ (نعوذ باللہ) خود بانی اسلام کا قصہ پاک کر دیں، تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف چلے۔ کارکنان قضا نے کہا :
ع : آمد آں یارے کہ ماہم خواستیم
راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبد اللہ مل گئے۔ ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر تو ہے ؟ بولے کہ " محمد کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں۔ " انہوں نے کہا کہ " پہلے اپنے گھر کی خبر لو، خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں۔ " فوراً پلٹے اور بہن کے ہاں پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں۔ ان کی آہٹ پا کر چپ ہو گئیں۔ اور قرآن کے اجزاء چھپا لئے لیکن آواز ان کے کانوں میں پڑ چکی تھی۔ بہن سے پوچھا کہ یہ کیا آواز تھی۔ بہن نے کہا کہ کچھ نہیں۔ بولے کہ نہیں میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریبان ہو گئے۔ اور جب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی۔ یہاں تک کہ ان کا بدن لہو لہان ہو گیا۔ اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا کہ " عمر! جو بن آئے کرو۔ لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا۔ " ان الفاظ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل پر خاص اثر کیا۔ بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے بدن سے خون جاری تھا۔ یہ دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ۔ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن کے اجزاء لا کر سامنے رکھ دیئے۔ اٹھا کر دیکھا تو یہ سورۃ تھی۔
سبح للہ ما فی السموت والارض و ھو العزیز الحکیم۔
ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے امنوا باللہ و رسولہ تو بے اختیار پکار اٹھے کہ اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمداً رسول اللہ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ارقم کے مکان میں جو کوہ صفا کی تلی میں واقع تھا پناہ گزین تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آستانہ مبارک پر پہنچ کر دستک دی۔ چونکہ شمشیر بکف گئے تھے۔ اور اس تازہ واقعہ کی کسی کو اطلاع نہ تھی اس لیے صحابہ کو تردد ہوا۔ لیکن حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آنے دو۔ مخلصانہ آیا ہے۔ تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا " کیوں عمر کس ارادہ سے آیا ہے ؟" نبوت کی پر رعب آواز نے ان کو کپکپا دیا۔ نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا کہ " ایمان لانے کے لئے " آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے۔ اور ساتھ ہی تمام اصحاب نے مل کر زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ (نساب الاشراف بلاذری و طبقات ابن سعد و اسد الغابہ ابن عساکر و کامل ابن الاثیر)۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے نے اسلام کی تاریخ میں نیا دور پیدا کر دیا۔ اس وقت تک 40، 50 آدمی اسلام لا چکے تھے۔ عرب کے مشہور بہادر حضرت حمزہ سید الشہداء نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ تاہم اپنے مذہبی فرائض علانیہ نہیں ادا کر سکتے تھے۔ اور کعبہ میں تو نماز پڑھنا بالکل ناممکن تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کے ساتھ دفعۃً یہ حالت بدل گئی۔ انہوں نے اپنا اسلام ظاہر کیا۔ کافروں نے اول اول ان پر بڑی شدت کی۔ لیکن وہ برابر ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جا کر نماز ادا کی۔ ابن ہشام نے اس واقعہ کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی ان الفاظ میں روایت کیا۔
فلما اسلم عمر قاتل فریشاً حتی صلی عند الکعبۃ و صلینا معہ۔
"جب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے تو قریش سے لڑے ، یہاں تک کہ کعبہ میں نماز پڑھی اور ان کے ساتھ ہم نے بھی پڑھی۔ "
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام کا واقعہ سنہ نبوی کے چھٹے سال میں واقع ہوا۔
مکمل تحریر >>

عمر رضی اللہ عنہ کی ہجرت

اہل قریش ایک مدت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دعویٰ کو بے پروائی کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ لیکن اسلام کو جس قدر شیوع ہوتا جاتا تھا ان کی بے پروائی غصہ اور ناراضی سے بدلتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب ایک جماعت کثیر اسلام کے حلقے میں آ گئی تو قریش نے زور اور قوت کے ساتھ اسلام کو مٹانا چاہا۔ حضرت ابو طالب کی زندگی تک تو علانیہ کچھ نہ کر سکے۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد کفار ہر طرف سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جس جس مسلمان پر قابو ملا اس طرح ستانا شروع کیا کہ اگر اسلام کے جوش اور وارفتگی کا اثر نہ ہوتا تو ایک شخص بھی اسلام پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ حالت پانچ چھ برس تک رہی اور یہ زمانہ اس سختی سے گزارا کہ اس کی تفصیل ایک نہایت درد انگیز داستان ہے۔

اسی اثناء میں مدینہ منورہ کے ایک معزز گروہ نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو کفار کے ستم سے نجات نہیں مل سکتی وہ مدینہ کو ہجرت کر جائیں۔ سب سے پہلے ابو سلمہ عبد اللہ بن اشہل رضی اللہ تعالیٰ عنہم پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مؤذن اور عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجرت کی۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیس آدمیوں کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا۔ صحیح بخاری میں 20 کا عدد مذکور ہے۔ لیکن ناموں کی تفصیل نہیں۔ ابن ہشام نے بعضوں کے نام لکھے اور وہ یہ ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جن لوگوں نے ہجرت کی زید بن خطاب، سعید بن زید بن خطاب، خنیس بن حذافہ سہمی، عمرو بن سراقہ، عبد اللہ بدن سراقہ، واقد بن عبد اللہ تمیمی، خولی بن ابی خولی، مالک بن ابی خولی، لیاس بن بکیر، عاقل بن بکیر، عامر بن بکیر، خالد بن بکیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ ان میں سے زید حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی، سعید بھتیجے ، خنیس داماد اور باقی دوست احباب تھے۔
مدینہ منورہ کی وسعت چونکہ کم تھی، مہاجرین زیادہ تر قبا میں (جو مدینہ سے دو تین میل ہے ) قیام کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہیں رفاعہ بن عبد المنذر کے مکان پر ٹھہرے۔ قباء کو عوالی بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی فرد و گاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد اکثر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ہجرت کی۔ یہاں تک کہ (662 عیسوی) 13 نبوی میں جناب رسالت صلی اللہ علی و سلم نے مکہ چھوڑا اور آفتاب رسالت مدینہ کے افق سے طلوع ہوا۔

مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین کے رہنے سہنے کا انتظام کیا۔ انصار کو بلا کر ان میں اور مہاجرین میں برادری قائم کی جس کا اثر یہ ہے کہ جو مہاجر جس انصاری کا بھائی بن جاتا انصاری مہاجر کو اپنی جائیداد، اسباب، نقدی تمام چیزوں میں آدھا آدھا بانٹ دیتا تھا۔ اس طرح تمام مہاجرین اور انصار بھائی بھائی بن گئے۔ اس رشتہ کے قائم کرنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم طرفین کے رتبہ اور حیثیت کا فرق مراتب ملحوظ رکھتے تھے ، یعنی جو مہاجر جس درجے کا ہوتا اسی رتبے کے انصاری کو اس کا بھائی بناتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلامی بھائی
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جس کا بھائی قرار دیا، ان کا نام عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا، جو قبیلہ بنو سالم کے سردار تھے (سیرت ابن ہشام حافظ ابن حجر نے بھی اصایہ میں ابن سعد کے حوالہ سے عتبان ہی کا نام لکھا ہے)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تشریف لانے پر بھی اکثر صحابہ نے قباء ہی میں قیام رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہیں مقیم رہے۔ لیکن یہ معمول کر لیا کہ ایک دن ناغہ دے کر بالالتزام آنحضرت صلی اللہ علی و سلم کے پاس جاتے اور دن بھر خدمت اقدس میں حاضر رہتے۔ ناغہ کے دن یہ بندوبست کیا تھا کہ ان کے برادر اسلامی عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اور جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سنتے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر روایت کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری نے متعدد ابواب مثلاً العلم، باب النکاح وغیرہ میں ضمناً اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔
مدینہ پہنچ کر اس بات کا وقت آیا کہ اسلام کے فرائض و ارکان محدود اور معین کئے جائیں کیونکہ مکہ معظمہ میں جان کی حفاظت ہی سب سے بڑا فرض تھا، یہی وجہ تھی کہ زکوٰۃ، روزہ، نماز جمعہ، نماز عیدین، صدقہ فطر کوئی چیز وجود میں نہیں آئی تھی۔ نمازوں میں بھی یہ اختصار تھا کہ مغرب کے سوا باقی نمازوں میں صرف دو دو رکعتیں تھیں۔ یہاں تک کہ نماز کے لئے اعلان کا طریقہ بھی نہیں معین ہوا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا انتظام کرنا چاہا۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں نماز کے اعلان کے لئے بوق اور ناقوس کا رواج تھا۔ اس لئے صحابہ نے یہی رائے دی، ابن ہشام نے روایت کی ہے کہ یہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تجویز تھی۔ بہرحال یہ مسئلہ زیر بحث تھا، اور کوئی رائے قرار نہیں پائی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ نکلے اور انہوں نے کہا کہ ایک آدمی اعلان کرنے کے لیے کیوں نہ مقرر کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی وقت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان)۔
یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ اذان نماز کا دیباچہ اور اسلام کا بڑا شعار ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے اس سے زیادہ کیا فخر کی بات ہو سکتی ہے کہ یہ شعار اعظم انہی کی رائے کے موافق قائم ہوا۔
مکمل تحریر >>

عمر رضی اللہ عنہ - نام و نسب

سلسلہ نسب یہ ہے کہ عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک۔
اہل عرب عموماً عدنان یا قحطان کی اولاد ہیں۔ عدنان کا سلسلہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ عدنان کے نیچے گیارہویں پشت میں فہر بن مالک بڑے صاحب اقدار تھے۔ ان ہی کی اولاد ہے جو قریش کے لقب سے مشہور ہے۔ قریش کی نسل میں دس شخصوں نے اپنے زور لیاقت سے بڑا امتیاز حاصل کیا، اور ان کے انتساب سے دس جدا نامور قبیلے بن گئے۔ یعنی ہاشم، امیہ، نوفل، عبد الدار، اسد، تیم، مخزوم، عدی، جمح، سمح، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عدی کی اولاد سے ہیں۔ عدی کے دوسرے بھائی مرۃ تھے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اجداد سے ہیں۔ اس لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔
قریش چونکہ خانہ کعبہ کے مجاور بھی تھے۔ اس لئے دنیاوی جاہ و جلال کے ساتھ مذہبی عظمت کا چھتر بھی ان پر سایہ فگن تھا۔ تعلقات کی وسعت اور کام کے پھیلاؤ سے ان لوگوں کے کاروبار کے مختلف صیغے پیدا ہو گئے تھے۔ اور ہر صیغے کا اہتمام جدا تھا۔ مثلاً خانہ کعبہ کی نگرانی، حجاج کی خبر گیری، سفارت، شیوخ قبائل کا انتخاب، فصل مقدمات، مجلس شورا وغیرہ وغیرہ، (عدی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جد اعلیٰ تھے ) اس صیغوں میں سفارت کے صیغے کے افسر تھے۔ یعنی قریش کو کسی قبیلے کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آتا تو یہ سفیر بن کر جایا کرتے۔ (یہ تمام تفصیل عقد الفرید باب فضائل عرب میں ہے )۔ اس کے ساتھ منافرہ کے معرکوں میں ثالث بھی ہوا کرتے تھے۔ عرب میں دستور تھا کہ برابر کے دو رئیسوں میں سے کسی کو افضلیت کا دعویٰ ہوتا تو ایک لائق اور پایہ شناس ثالث مقرر کیا جاتا۔ اور دونوں اس کے سامنے اپنی اپنی ترجیح کے دلائل بیان کرتے۔ کبھی کبھی ان جھگڑوں کو اس قدر طور ہوتا کہ مہینوں معرکے قائم رہتے۔ جو لوگ ان معرکوں میں حکم مقرر کئے جاتے ان میں معاملہ فہمی کے علاوہ فضاحت اور زور تقریر کا جوہر بھی درکار ہوتا، یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسلاً بعد نسل چلے آتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جد امجد
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دادا نفیل بن عبد العزیٰ نے اپنے اسلاف کی طرح ان خدمتوں کو نہایت قابلیت سے انجام دیا اور اس وجہ سے بڑے عالی رتبہ لوگوں کے مقدمات ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے آتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جد امجد عبد المطلب اور حرب بن امیہ میں جب ریاست کے دعویٰ پر نزاع ہوئی تو دونوں نے نفیل ہی کو حکم مانا۔ نفیل نے عبد المطلب کے حق میں فیصلہ کیا۔
نفیل کے دو بیٹے تھے۔ عمرو، اور خطاب ۔ عمرو معمولی لیاقت کے آدمی تھے۔ لیکن ان کے بیٹے زید جو نفیل کے پوتے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کے شخص تھے۔ وہ ان ممتاز بزرگوں میں تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعثت سے پہلے اپنے اجتہاد سے بت پرستی کو ترک کر دیا تھا۔ اور موحد بن گئے تھے۔ ان میں زید (زید کا مفصل حال اسد الغابہ کتاب الاوائل اور معارف ابن قنیبہ میں ملے گا) کے سوا باقیوں کے یہ نام ہیں۔ قیس بن ساعدہ، ورقہ بن نوفل۔
زید بت پرستی اور رسوم جاہلیت کو علانیہ برا کہتے تھے اور لوگوں کو دین ابراہیمی کی ترغیب دلاتے تھے۔ اس پر تمام لوگ ان کے دشمن ہو گئے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد خطاب سب سے زیادہ سرگرم تھے۔ خطاب نے اس قدر ان کو تنگ کیا کہ وہ آخر مجبور ہو کر مکہ معظمہ سے نکل گئے۔ اور حراء میں جا رہے۔ تاہم کبھی کبھی چھپ کر کعبہ کی زیارت کو آتے۔ زید کے اشعار آج بھی موجود ہیں۔ جن سے ان کے اجتہاد اور روشن ضمیری کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ دو شعر یہ ہیں :
ارباً واحداً ام الف ربِ
ادین اذا تقسمت الامور
ترکت اللات والعزیٰ جمیعاً
کذلک یفعل الرجل البصیر
ایک خدا کو مانوں یا ہزاروں کو؟ جب کہ امور تقسیم ہو گئے۔ میں نے لات اور عزیٰ (بتوں کے نام تھے ) سب خیر باد کہا اور سمجھدار آدمی ایسا ہی کرتا ہے۔

خطاب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد قریش کے ممتاز آدمیوں میں سے تھے (کتاب المعارف ابن قتیبہ)۔ قبیلہ عدی اور بنی عبد الشمس میں مدت سے عداوت چلی آتی تھی اور چونکہ بنو میں خطاب بھی شامل تھے ، مجبور ہو کر بنو سہم کے دامن میں پناہ لی۔ عدی کا تمام خاندان مکہ معظمہ میں مقام صفا میں سکونت رکھتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے بنو سہم سے تعلق پیدا کیا تو مکانات بھی انہی کے ہاتھ بیچ ڈالے۔ لیکن خطاب کے متعدد مکانات صفا میں باقی رہے جن میں سے ایک مکان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وراثت میں پہنچا تھا۔ یہ مکان صفا اور مروہ کے بیچ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ڈھا کر حاجیوں کے اترنے کے لیے میدان بنا دیا۔ لیکن اس سے متعلق بعض دکانیں مدت تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان کے قبضے میں رہیں۔ (تاریخ مکہ للارزقی۔ ذکر رباع بن بنی عدی بن کعب)۔ خطاب نے متعدد شادیاں اونچے گھرانوں میں کیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں کا نام خنتمہ تھا، جو ابن ہشام بن المغیرۃ کی بیٹی تھیں، مغیرۃ اس رتبہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی سے لڑنے کے لئے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام انہی سے متعلق ہوتا تھا۔ اسی مناسبت سے ان کو صاحب الاعنہ کا لقب حاصل تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی کے پوتے تھے۔ مغیرہ کے بیٹے ہشام بھی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا تھے۔ ایک ممتاز آدمی تھے۔
مکمل تحریر >>

جنگِ الیس

اس شکست نے جو قبیلہ بکر بن وائل کو اپنے ہم قوم اور ہم وطن لوگوں کے ہاتھوں کے اٹھانی پڑی تھی عراق کے عربی النسل عیسائیوں کو آتش زیر پا کر دیا۔ انہوں نے طیش میں آ کر مسلمانوں سے ایک بار پھر جنگ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اپنا سردار بنو عجلان کے ایک شخص عبد السود عجلی کو بنایا اورحیرہ و ابلہ کے درمیان مقام الیس پر فوجیں اکٹھی کرنے لگے۔ ساتھ ہی دربار ایران سے مدد کی درخواست بھی کی۔ وہاں سے بہن جازویہ کو حکم ملا کہ وہ بھاری جمعیت لے کر عیسائیوں کی مدد کو پہنچے۔ یہ احکا م ملنے پر بہمن جاذویہ نے مناسب خیال کیا کہ وہ مسلمانوں سے فیصلہ کن مقابلہ کرنے کے لیے شہنشاہ اردشیر سے بالمشافہ گفتگو کرے۔ اس نے فوج کی کمان ایک سردار جابان کے سپرد کر کے اسے ہدایت کی کہ وہ فوج لے کر الیس جائے لیکن جہاں تک ممکن ہو دربا ر ایران سے اس کی واپسی تک جنگ کا آغاز نہ کیا جائے۔ خود وہ شہنشاہ سے مشورہ کرنے کے لیے روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ شہنشاہ اردشیر بیمار ہے۔ وہ وہیں ٹھہر گیا لیکن جابان کو کوئی ہدایت نہ بھیجی۔ ادھر جابان نے الیس پہنچ کر عیسائی فوجوں کے متصل پڑائو ڈال لیا اور انہیں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے متعلق مشورے دینے لگا۔
خالدؓ کو معلو م تھا کہ عیسائیوں کی مدد کے لیے ایرانیو ں کا لشکر بھی جابان کے زیر سرکردگی میدان جنگ میں موجود ہے۔ انہیں صرف عربی النسل عیسائیوں سے مقام الیس میں اجتماع کی خبر ملی تھی۔ وہ اپنا لشکر لے کر پہلے حفیر پہنچے اور یہ اطمینان کر نے کے بعد کہ ان کے مقرر کر دہ اعمال وہاں کا نظم ونسق کامیابی سے چلارہے ہیں اور پشت کی جانب سے کسی حملے کااندیشہ نہیں دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ الیس پہنچتے ہی انہوں نے عیسائیوں کو موقع تیاری کا دیے بغیر ان سے لڑائی چھیڑ دی۔ یہ حملہ اس قدر اچانک ہوا کہ عیسائی بالکل نہ سنبھل سکے اور پہلے ہی ہلے میں ان کا سالار قیس بن مالک مارا گیا۔ جب جابان نے محسوس کیا کہ عیسائیوں کی صفوں میں اضطراب پیدا ہونے لگا ہے تو وہ ایرانی فوج کاایک دستہ لے کر آگے بڑھا اور جوش انگیز جملوں سے عیسائیوں کی ہمت بندھانے لگا اورانہیں جم کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرنے لگا۔ اس کے مقرر کیے ہوئے آدمی عیسائیوں کی صفوں میں اعلا ن کرتے پھرتے تھے کہ بہمن جازویہ ان کی مدد کے لیے عنقریب ایک لشکر جرار لے کر پہنچنے والا ہے۔ اس کے آنے تک پامردی سے مسلمانوں کامقابلہ جاری رکھیں اورتمام خطرات کو نظر انداز کر کے بہادروں کی طرح میدان جنگ میں ڈٹے رہیں۔ چنانچہ عیسائی سنبھل گئے اورانہوں نے بڑی جرات اور دلیری سے مسلمانوں کے پیہم حملوں کو روکنااور ان کا مقابلہ کرنا شروع کیا۔ یہ عزم و ثبات اور صبر و استقلال دیکھ کر خالدؓ حیران رہ گئے اور انہوں نے مسلمانوںکو جوش دلایا کہ وہ ایک بارپھر بھرپور طاقت سے دشمن پر حملہ شروع کر دیں۔
عیسائیوں کو لڑتے ہوئے بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کی امیدوں کا واحد سہارا بہمن جاذویہ تھا۔ کیونکہ اس کے آنے تک ایرانی فوج ان سے مل کر جنگ میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔ لیکن بہمن کا کہیں پتا نہ چتھا۔ جابان بھی حیران تھاکہ کیا کرے کیانہ کرے۔ ادھر مسلمانوں کا دباو برابر بڑھتا چلا جا رہا تھا اور ان کے مقابلے میں عیسائیوں کی کوئی پیش نہ جا رہی تھی۔ آخر دشمن کی طاقتوں مے جواب دے دیا۔ ایک ایک کر کے ان کی صفیں ٹوٹنے لگیںَ اور وہ میدان جنگ سے فرار ہونے لگے۔ خالدؓ نے یہ دیکھ کر فوج میں اعلان کر دیا کہ بھاگنے والوں کا تعاقب کیا جائے اور انہیں زندہ پکڑ کر ان کے سامنے حاضر کیاجائے۔ صرف اسی شخص کو قتل کیا جائے جو کسی طرح قابو میں نہ آیئ اور مزاحمت پر آمادہ ہو جائے۔ چنانچہ مسلمانو ں اور ان کے مددگار عراقی عربوں نے جو اسلامی فوج میں شامل تھے ایسا ہی کیا اور عیسائی گروہ در گروہ میدان جنگ میں لائے جانے لگے۔
جابان کی ایرانی فوجوں نے جنگ شروع ہونے سے پہلے کھانا تیار کیا تھا اور وہ اطمینان سے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ مسلمان بلائے ناگہانی کی طرح ان پر آٓپڑے اور وہ کھانا اسی طرح چھوڑ کر فرار ہو گئے خالد ؓ نے اپنی فوج سے کہا:
’’یہ کھانا اللہ نے تمہارے لیے تیار کرایا تھا اب تم مزے سے اسے کھائو‘‘۔
مسلمان دستر ؒوانوں کے اردگرد بیٹھ کر اور کھانا شروع کر دیا۔ عجیب عجیب کھانے تھے جنہیں مسلمانوںنے کبھی دیکھ تھا نہ چکھا تھا۔ وہ کھاتے جاتے تھے اوراللہ کا شکر ادا کرتے جاتے تھے۔ جس نے انہیں بے مانگے ان نعمتوں سے نوازا تھا۔
الیس کے قریب دریائے فرات اور دریائے باوقلی کے سنگم پر ایک شہر امغیشیایا منیشیا آباد تھا جو آباد ی کی کثرت اور مال و دولت کی فراوانی میں حیرہ کا ہم پلہ تھا۔ اس کے باشندو ں نے بھی الیس کی جنگ میں عیسائیوں اور ایرانیوں کی مدد کی تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد خالدؓ نے اس قصبے کا رخ کر کے اسے فتح کر لیا۔ یہاں سے بھی مسلمانوں کو کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا اورجس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مال غنیمت میں ہر سوار کے حصے میں علاوہ ا پنے حصے کے جو اسے ملا تھا پندرہ سو درہم آئے۔
اس کے بعد خالدؓ نے مال غنیمت کا پانچواں حصہ اور ان جنگوں میں گرفتار ہونے والے قیدی حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کر دیے۔ انہیں کے ہمراہ ہی بنی عجل کے ایک شخص جندل کو بھی بھیجاگیا جس نے الیس کی فتح مال غنیمت اور قیدیوں کی کثرت اور خالدؓ کے کارناموں کا حال بالتفصیل حضرت ابوبکرؓ سے بیان کیا۔ یہ واقعات سن کر انہوں نے فرمایا :
عورتیں اب خالدؓ جیسا شخص پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔
مکمل تحریر >>

ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نظامِ حکومت

اسلام نے حکومت کا جو نظام تجویز کیا تھا ابوبکرؓ کو مفتوحہ ممالک میں اسے پوری طرح رائج کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ عراق میں خالدؓ بن ولید نے بلدیاتی نظم و نسق کا کام خود وہاں کے باشندوں کے سپرد کر رکھا تھا۔ مسلمان صرف عام نگرانی اور سیاسی امور کی نگہداشت کرتے تھے۔ اس طرح کوئی باقاعدہ منظم حکومت معرض وجود میں نہ آ سکی۔ جنگی صورت حال کے پیش نظر ایک عبوری طرز حکومت اختیار کر لیا گیا اور پیشتر توجہ جنگی امور کی تکمیل پر دی گئی۔
شام کا حال بھی عراق سے مختلف نہ تھا۔ شورائی نظام حکومت یہاں کے باشندوں کے لیے اسلام کی طرح بالکل نئی چیز تھا۔ فتوحات اسلامیہ کے وقت یہاں مطلق العنانی دور دورہ تھا۔ شہنشاہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا اور من مانی کرتا تھا۔ پادری اور راہب شہنشاہ کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے اور مطلق العنانی کو جائز ٹھہرانے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملاتے تھے۔ ایک طرف حکومت کے دباؤ دوسری طرف مذہبی پیشواؤں کے وعظ کے نتیجے میں عوام الناس اپنے فرماں رواؤں کو انتہائی تقدیس کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے تھے اور انہیں ان کے آگے سجدہ کرنے میں بھی باک نہ تھا۔ اسلامی فتوحات کے موقع پر جب انہوں نے ایسے نظام حکومت کا مشاہدہ کیا جس کی بنیاد عدل و انصاف اور شوریٰ پر تھی اور جہاں اس شاہی کروفر اور رعب و دبدبہ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جسے دیکھنے کے وہ صدیوں سے عادی تھے تو ان کے دل بے اختیار اسلام کی طرف مائل ہونے شروع ہوئے اور انہوں نے بڑی گرمجوشی سے مسلمانوں کا خیر مقدم کیا۔ اسلام کی طرف لوگوں کے اس میلان کے باعث مسلمانوں کی سلطنت بڑھتی ہی چلی گئی اور اس کے ڈانڈے ایک طرف ہندوستان اور دوسری طرف افریقہ سے جا ملے۔ مسلمان جہاں بھی گئے حق و صداقت، عدل و انصاف اور ایمان و صداقت کا علم لہراتے ہوئے گئے اور حریت و مساوات اور محبت و شفقت کے بیج ہر زمین میں بو دئیے۔
ابوبکرؓ کو اتنی مہلت نہ مل سکی کہ وہ عرب اور دوسرے مفتوحہ علاقے میں اسلامی نظام حکومت کاملاً رائج کر سکتے۔ ان دنوں اس سلسلے میں جو کام ہوا وہ ابتدائی نوعیت کا تھا۔ بعد میں آنے والے خلفاء کے عہد میں سلطنت نے جس طرح منظم صورت اختیار کر لی تھی اور جس طرح باقاعدہ محکموں کا قیام عمل میں آ چکا تھا اس طرح ابوبکرؓ کے عہد میں نہ تھا۔ ان کے عہد میں نہ حکومت نے باقاعدہ تنظیمی شکل اختیار کی تھی اور نہ مختلف محکمے قائم ہوئے تھے۔
اس کے دو طبعی سبب تھے:
اول یہ کہ ابوبکرؓ کا عہد پچھلے تمام زمانوں سے مختلف تھا اور انہیں بالکل نئے سرے سے ایسے وقت میں ایک حکومت کی تشکیل کرنی پڑی تھی۔ جب پچھلی تہذیبیں دم توڑ چکی تھیں اور ان کی جگہ ایک نئی تہذیب نے لے لی تھی۔ عقائد کے لحاظ سے ایک انقلاب آ چکا تھا اور جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا تھا۔ فکر و نظر کے انداز بدل چکے تھے اور معاشرے میں زبردست تبدیلی آ چکی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں قلیل وقفے کے اندر ایک بالکل نیا نظام حکومت رائج کرنا کس قدر دشوار امر تھا۔
منظم حکومت عمل میں نہ آنے کا دوسرا سبب یہ تھا کہ وہ زمانہ حرب و پیکار کا تھا۔ ابوبکرؓ کی حکومت عسکری حکومت کہلانے کی زیادہ مستحق تھی۔ جنگ و جدل کے مواقع پر مقررہ نظم و نسق کا قیام تک ناممکن ہوتا ہے چونکہ ایسے علاقے میں ایک منظم حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکے جہاں اسلام سے قبل نظم و نسق کا وجود ہی نہ تھا۔
خلافت کے بعد ابوبکرؓ کوسب سے پہلے مرتدین کا سامنا کرنا پڑا اور پہلا سال ان کی بغاوتیں فر وکرنے میں گزر گیا۔ ابھی مرتدین سے جنگوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ایرانیوں سے جھڑپیں شروع ہو گئیں اور ابوبکرؓ کی توجہ عراق کی طرف منعطف ہو گئی۔ عراق میں کامل امن و امان نہ ہوا تھا کہ شام پر چڑھائی کا مسئلہ در پیش ہو گیا۔ اس صورت میں نظام حکومت وسیع بنیادوں پر قائم کرنا اور اس کی تفاصیل طے کرنا ناممکن تھا۔ اس وقت ابوبکرؓ کے سامنے دو بڑے مقصد تھے اور انہیں کی تکمیل میں وہ ہمہ تن مشغول رہتے تھے۔ اول مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر کے انہیں دشمن کے مقابلے کے لیے تیار کرنا، دوم دشمن پر فتح حاصل کر کے وسیع اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنا۔
ابوبکرؓ کی عسکری حکومت کا نظام اس بدوی طریق کے زیادہ قریب تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے بھی پہلے قبائل عرب میں رائج تھا۔ اس وقت حکومت کے پاس کوئی منظم لشکر موجود نہ تھا بلکہ ہر شخص اپنے طور پر جنگی خدمات کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا تھا۔ جب طبل جنگ پر چوٹ پڑتی اور لڑائی کا اعلان کر دیا جاتا توقبائل ہتھیار لے کر نکل پڑتے اور دشمن کی جانب کوچ کر دیتے۔ ہر قبیلے کا سردار ہی اپنے قبیلے کی قیادت کے فرائض انجام دیتا تھا۔ ان کی عورتیں بھی انہیں ہمت دلانے اور جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے ساتھ ہوتی تھیں۔ سامان رسد اور اسلحہ کے لیے وہ مرکزی حکومت کی طرف نہ دیکھتے تھے بلکہ خود ہی ان چیزوں کا انتظام کرتے تھے۔ حکومت کی طرف سے انہیں تنخواہ بھی ادا نہ کی جاتی تھی بلکہ وہ مال غنیمت ہی کو اپنا حق الخدمت سمجھتے تھے۔
میدان جنگ میں جو مال غنیمت حاصل ہوتا تھا اس کا 4/5 حصہ جنگ میں حصہ لینے والوں کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا تھا اور پانچواں حصہ خلیفہ کی خدمت میں دار الحکومت ارسال کر دیا جاتا تھا جسے وہ بیت المال میں جمع کر دیتا تھا۔ خمس کے ذریعے سے سلطنت کے معمولی مصارف پورے کیے جاتے تھے اور مدینہ کے مفلس و قلاش اور محتاج لوگوں کی امداد کی جاتی تھی۔ ابوبکرؓ کی خواہش تھی کہ جونہی خمس مدینہ پہنچے اسے تقسیم کر دیا جائے اور ایک درہم بھی آئندہ کے لیے اٹھا نہ رکھا جائے۔ بعض لوگوں نے ان کے سامنے تجویز پیش کی کہ بیت المال پر پہرے دار مقرر کیے جائیں لیکن انہوں نے یہ تجویز نامنظور کر دی کیونکہ بیت المال میں کچھ بچتا ہی نہ تھا جس کی حفاظت کے لیے پہرے دار مقرر کیے جاتے۔

ابوبکرؓ کی حکومت کا نظام نہایت سادہ اور بدویانہ طرز کا تھا۔ اپنے عہد کی منظم او رمتمدن سلطنتوں کا رنگ انہوں نے بالکل قبول نہ کیا۔ عہد رسالت سے اتصال کے باعث ان کا عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے بڑی حد تک مشابہ ہے۔ ابوبکرؓ بھولے سے بھی وہ کام نہ کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند کرتے تھے اور وہ کام کرنا سعادت سمجھتے تھے جو آپ نے کیا تھا لیکن وہ جامد مقامدین کی طرح نہ تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نمونہ اختیار کرنے کی وجہ سے ان کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھل چکا تھا۔ یہی اجتہاد تھا جس کے باعث اللہ نے ان کے ذریعے سے عراق اور شام فتح کرائے اور ان کے ہاتھ سے ایسی متحدہ سلطنت کی بنیاد رکھوائی جس کا دستور العمل احکام الٰہی اور شوریٰ پر مبنی تھا۔ وہ افراط و تفریط سے ہمیشہ پاک اور اللہ کے نور سے حصہ لے کر ہمیشہ صراط مستقیم پر گامزن رہے۔ یہ خیال ہر وقت ان کے دل میں جاگزیں رہتا تھا کہ جہاں وہ بندوں کے سامنے جواب دہ ہیں وہاں اللہ کے سامنے بھی جواب دہ ہیں او روہ قیامت کے دن ان سے ان کے تمام اعمال کا حساب لے گا۔ اللہ اور بندوں کے ساتھ جواب دہی کا یہی تصور تھا جس نے ہمیشہ آپ کو صراط مستقیم پر گامزن کیے رکھا اور ان کا ایک قدم ایک لمحے کے لیے بھی جادہ استقامت سے ہٹنے نہ پایا۔
ابوبکرؓ کے بعد اسلامی حکومت مختلف ادوار میں سے گزرتی رہی۔ عمرؓ بن خطاب نے ایرانی اور رومی سلطنتوں کا نظام حکومت سامنے رکھ کر مختلف شعبوں کی تشکیل کی لیکن کتاب اللہ اور اس کی مقررہ حدود سے مطلق تجاوز نہ کیا۔ عثمانؓ اور علیؓ کے عہد میں عمرؓ کا مقررہ طرز حکومت ہی جاری رہا۔ خلافت راشدہ کے بعد جب سلطنت امویوں کے ہاتھ میں آئی تو شورائی طرز حکومت کی جگہ موروثی بادشاہی نے لے لی۔ عباسیوں کے زمانے میں بھی موروثی بادشاہی کا سلسلہ قائم رہا۔ عباسیوں کے عہد میں سلطنت پر اہل روم اور اہل ایران کا اثر اس قدر بڑھ گیا کہ خلفاء ان کے ہاتھوں میں بے بس ہو کر رہ گئے۔ا یران اور روم کی مکمل فتح عمرؓ اور عثمانؓ کے عہد میں ہوئی تھی۔ لیکن اس وقت سلطنت پر عجمی باشندوں کا ثر بہت کم تھا۔ امویوں کے عہد میں ان کا اثر قدرے بڑھا مگر سلطنت عربی رنگ میں رنگی رہی۔ عباسیوں نے چونکہ خلافت اہل ایران کی مد دسے حاصل کی تھی۔ اس لیے ان کے عہد میں ان لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا اور آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ خلفاء ان کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلیاں بن کر رہ گئے۔
اس اثناء میں علماء اسلام، جن میں اکثریت غیر عربوں کی تھی، حکومت کے لیے قواعد اور تفاصیل مرتب کرنے میں مصروف رہے۔ ان علماء میں اکثر اختلاف ہو جاتا تھا جو بعض اوقات بڑھتے بڑھتے فساد اور شورش کی صورت اختیار کر لیتا تھا اور حاکم وقت کو سختی سے اسے فرو کرنا پڑتا تھا۔ کتنا بڑا فرق تھا ابوبکرؓ کی اور امویوں اور عباسیوں کی حکومتوں میں۔ اول الذکر حکومت بالکل سادہ تھی لیکن اس کی وجہ سے ایک دن کے لیے بھی ملک کے امن و امان میں خلل نہ پڑا۔ موخر الذکر حکومتیں شان و شوکت کے لحاظ سے جواب نہ رکھتی تھی، بڑے بڑے علماء و فضلاء حکومت کا آئین تیار کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن اندرونی بغاوتوں نے ان سلطنتوں کو ایک دن کے لیے چین سے نہ بیٹھنے دیا اور یہ ہمیشہ داخلی جھگڑوں اور خانہ جنگیوں ہی میں مصروف رہیں۔
ابوبکرؓ کا ایمان تھا کہ جس طرح ہمیں ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دہ ہونا پڑے گا اسی طرح امور سلطنت کی انجام دہی کے سلسلے میں وہ بندوں کے سامنے بھی جواب دہ ہیں۔ اللہ اور بندوں کی اسی جواب دہی کے ڈر سے وہ جب بھی کسی اہم کام میں ہاتھ ڈالتے اللہ کے احکام کو پیش نظر رکھتے اور لوگوں کے سامنے وہ معاملہ رکھ کر ان سے بھی مشورہ لیتے۔ اسی طرح جب کوئی معاملہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا تو جب تک اس کے بارے میں خوب غور و فکر نہ کر لیتے اور اس کے نتائج و عواقب کو اچھی طرح جانچ نہ لیتے فیصلہ نہ فرماتے۔ مرض الموت میں بھی ان کا طرز عمل یہی رہا او ر وہ برابر مسلمانوں کی آئندہ فلاح و بہبود کے طریقوں پر غور فرماتے رہے۔ اسی دوران میں مثنیٰ شیبانی عراق سے مدینہ آئے اور باریابی کی اجازت چاہی تو انہوں نے باوجود حد درجہ ضعف و نقاہت کے انہیں اپنے پاس بلوا لیا اور بڑے غور سے ان کی معروضات سنیں۔ اسی وقت عمرؓ کو حکم دیا کہ شام ہونے سے پیشتر مثنیٰ کی مدد کے لیے مسلمانوں کا لشکر عراق روانہ کر دیا جائے۔ غرض اس طرح ابوبکرؓ زندگی کے آخری سانس تک اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں مصروف رہے۔

ابوبکرؓ کا قیام جس مکان میں تھا وہ بہت معمولی اور دیہاتی طرز کا تھا ۔ اگر وہ چاہتے تو خلافت کے بعد اس کی حالت درست کر سکتے تھے لیکن خلافت کے پورے عہد میں مکان جوں کا توں رہا اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ آئی۔ اسی طرح مدینہ کا مکان بدستور پہلی ہیئت پر قائم رہا۔ خلافت کے بعد چھ مہینے تک وہ روزانہ پیدل سخ سے مدینہ آتے تھے اور شاذ و نادر ہی کبھی گھوڑا استعمال کرتے تھے۔ خلافت سے پہلے وہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ جب خلافت کا کام بڑھا اور سلطنت کی ذمہ داریاں زیادہ ہوئیں تو تجارت کے لیے وقت دینا مشکل ہو گیا۔ اس لیے انہوں نے لوگوں سے فرمایا کہ انصرام سلطنت اور تجارت کا کام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا۔ چونکہ رعایا کی دیکھ بھال اور اس کی خبر گیری تجارت سے زیادہ ضروری ہے اس لیے میرے اہل و عیال کے واسطے اتنا وظیفہ مقرر کر دیا گیا جس سے ان کا اور ان کے اہل و عیال کا گزارہ چل سکے۔ لیکن جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو حکم دیا، جو وظیفہ میں نے بیت المال سے لیا ہے وہ سارے کا سارا واپس کر دو، اس کی ادائی کے لیے میری فلاں زمین بیچ دی جائے اور آج تک میں نے مسلمانوں کا جو مال اپنے اوپر خرچ کیا ہے اس زمین کو فروخت کر کے وہ پوری کی پوری رقم ادا کر دی جائے۔ چنانچہ جب ان کی وفات کے بعد عمرؓ خلیفہ ہوئے اور وہ رقم ان کے پاس پہنچی تو وہ رو پڑے اور کہا:
ابوبکرؓ! تم نے اپنے جانشین کے سر پر بہت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے۔
جو شخص ان اعلیٰ صفات اور خصائل کا مال ہو اسے آخر کس چیز کا ڈر ہو سکتا تھا اور کس شخص کی مجال تھی کہ ان پر زبان طعن دراز کرتا۔ تمام مسلمانوں بلکہ سارے عرب میں ان کی عقل و خرد ، اصابت رائے، صدق مقال ، ایمان و اخلاص اور قربانی و ایثار کے بے نظیر جذبے کی وجہ سے ان کا بیحد احترام کیا جاتا تھا۔ اگرچہ ان صفات حسنہ سے ان کی زندگی کا کوئی بھی دور خالی نہ رہا لیکن ان کا اظہار جس طرح خلافت کی ذمہ داریاں تفویض ہونے کے بعد ہوا پہلے نہ ہو سکا۔ انہیں باتوں کو دیکھتے ہوئے کسی بھی شخص نے ان بلند مقاصد کے بارے میں شک نہ کیا اور کسی بھی جانب سے ان کے احکام کی بجا آوری میں کسی قسم کے تردد کا اظہار نہ کیا گیا۔

عُمال خلافتِ صدیقی

حضرت ابوبکرصدیقؓ کے عہدِ خلافت میں امین الملت حضرت ابو عبیدؓہ بن الجراح بیت المال کے افسر اورمہتمم تھے،محکمہ قضا حضرت فاروق اعظمؓ کے سپرد تھا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عثمان غنی کو کتابت اور دفتر کا کام سپرد تھا، ان حضرات میں سے جب کوئی موجود نہ ہوتا تو دوسرا جو کوئی موجود ہوتا اس کام کو انجام دے لیتا تھا ،مکہ معظمہ میں حضرت عتابؓ بن اسید عامل تھے،جن کا انتقال اُسی روز ہوا جس روز حضرت ابوبکرؓ نے وفات پائی،طائف کے عامل حضرت عثمان بن العاصؓ تھے،صنعا میں مہاجربن اُمیہؓ اورحضرت موت میں زیاد بن لبیدؓ عامل تھے،صوبہ غولان میں یعلیٰ بن اُمیہؓ ،یمن میں ابو موسیٰ اشعریؓ،جند میں معاذ بن جبلؓ ،بحرین میں علاء بن حضرمیؓ،دومۃ الجندل میں عیاض بن غنمؓ،عراق میں مثنیٰ بن حارثؓ عامل یا گور نر کے عہدے پر مقرر تھے،ابو عبیدہؓ بن الجراح آخر میں سپہ سالاری کی خدمت میں مامور ہوکر شام کی طرف بھیجے گئے تھے،یزید بن ابی سفیانؓ،عمرو بن العاصؓ،شرجیلؓ بن حسنہ بھی سپہ سالاری کی خدمات پر ملک شام میں مصروف تھے ،خالد بن ولید خلافت صدیقی میں سپہ سالارِ اعظم کے عہدے پر فائز اورخلافتِ صدیقی سے وہی نسبت رکھتے تھے جو رستم کو کیکاؤس وکیخسرو کی سلطنت سے تھی۔
اولاد وازواج
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی پہلی بیوی قتیلہ بنت عبدالعزیر ی تھی،جس سے عبداللہ بن ابی بکر اوراُن کے بعد اسماء بنت ابی بکرؓ (عبداللہ بن زبیرؓ کی والدہ) پیدا ہوئے،دوسری بیوی آپ کی اُم رومان تھیں،ان کے بطن سے عبدالرحمن بن ابی بکرؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ پیدا ہوئے،جب حضرت ابوبکر صدیق مسلمان ہوئے،توپہلی بیوی کے مسلمان ہونے کے بعد بھی آپ نے دو نکاح اور کئے ایک اسماء بنتِ عمیسؓ کے ساتھ جو جعفر بن ابی طالب کی بیوہ تھیں، اُن کے بطن سے محمد بن ابی بکرؓ پیدا ہوئے،دوسرا نکاح حبیبہ بنتِ خارجہ انصاریہؓ سے جو قبیلہ خزرج سے تھیں ،ان کے بطن سے ایک بیٹی اُم کلثوم آپ کی وفات کے بعد پیدا ہوئیں۔

مرض الموت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے وظیفے کا بھی خیال آیا۔ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر ہدایت کی کہ میں نے دور خلافت میں بیت المال سے جو رقم لی تھی اسے واپس کر دیا جائے اور اس غرض سے میری فلاں زمین بیچ کر اس سے حاصل شدہ رقم بیت المال میں جمع کرا دی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب کی وصیت کے مطابق ان کے متعلقین نے بیت المال سے لی ہوئی رقم عمرؓ کو لوٹائی تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اللہ ابوبکرؓ پر رحم فرمائے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد کسی بھی شخص کو ان پر اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ نہ آئے۔
وفات کے وقت ابوبکرؓ کے پاس ایک بھی دینار یا درہم نہ تھا۔ انہوں نے ترکے میں ایک غلام، ایک اونٹ اور ایک مخملی چادر چھوڑی۔ اس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد ان چیزوں کو عمرؓ کے پاس بھیج دیا جائے۔ وصیت کے مطابق جب یہ چیزیں عمرؓ کے پاس پہنچیں تو وہ رو پڑے اور کہا:
ابوبکرؓ نے اپنے جانشین پر بہت سخت بوجھ ڈال دیا ہے۔
مکمل تحریر >>