Sunday 30 August 2015

حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح


حضرت زینبؓ حضوراکرم ﷺ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں، حضور ﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام اور لے پالک حضرت زیدؓ بن حارثہ سے نکاح کے لئے انہیں پیام دیا ، حضرت زینب ؓ اور اُن کے بھائی عبداللہ بن جحش نے خاندانی شرافت کی بناء پر انکار کردیا ، حضور ﷺ کے اصرار پر اُنھوں نے سوچنے کے لئے کچھ مہلت مانگی، اسی دوران سورۂ احزاب کی آیت ۳۶ نازل ہوئی:
" اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہ ہوگیا"
( سورۂ احزاب : ۳۶ )
اس کے بعد وہ نکاح پر راضی ہوگئے ، مورخین کے مطابق زینبؓ کا تعلق ایک متمول خاندان سے تھا اور وہ زبان کی بھی ذرا تیز تھیں ، چنانچہ زیدؓ سے ان کا ساتھ خوشگوار ثابت نہیں ہوا ، دونوں میاں بیوی کے درمیان اکثر ناگوار حالات پیدا ہو جاتے اور حضور ﷺ ہمیشہ مداخلت کر کے ان میں مفاہمت کرتے، آخر کار حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی، آنحضرت ﷺکو اس کا بے حد افسوس ہوا، اب وہ اس کی تلافی کرنا چاہتے تھے اس لئے کہ حضرت زینبؓ نے آپﷺ کے حکم پر اس رشتہ کو قبول کیا تھا اور دل جوئی کی یہی صورت تھی کہ خود نکاح فرما لیں ، اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دے دی ؛لیکن آپﷺ خاموش تھے اس لئے کہ عرب میں منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح حرام سمجھا جاتا تھا، اس موقع پر سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۳۷ نازل ہوئی:
" اور اے پیغمبر ! اس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر اللہ نے احسان کیا اورتم نے بھی احسان کیا اور کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ کرتے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا ؛لیکن تم لوگوں سے ڈرتے تھے ؛حالانکہ اللہ ہی اس کا مستحق ہے کہ اس سے ڈرو، پھر جب زیدؓ نے اس سے معاملہ پورا کردیا (یعنی طلاق دے دی ) تو ہم نے تم سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مومنوں کے لئے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں ( کے ساتھ نکاح کرنے ) میں کچھ تنگی نہ رہے ؛جبکہ وہ ان سے معاملہ پورا کردیں ( یعنی طلاق دے دیں ) اور اللہ کا حکم تو ہونے ہی والا تھا"
( سورۂ احزاب : ۳۷)
اس آیت میں اللہ نے آپ کا نکاح حضرت زینب سے کردینے کا بھی ذکرکیا ،حضور ﷺ کی خادمہ حضرت سلمیٰ ؓ بشارت لے کر حضرت زینبؓ کے پاس گئیں اور بعد میں حضورِ اکرمﷺ بلا اذن حضرت زینبؓ کے گھر میں داخل ہوئے، انہوں نے عرض کیا: آپﷺ بغیر گواہ اور خطبہ کے تشریف لائیں ہیں ، فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نکاح کیا اور جبرئیل ؑ گواہ ہیں۔
اس واقعہ کے بعد منافقین نے کہنا شروع کیا:یہ رسول ایک طرف تو بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام قرار دیتے ہیں اور دو سری طرف خود اپنی بہو سے نکاح کرتے ہیں، اس پر سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۴۰ نازل ہوئی، فرمایا گیا:
" محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ؛بلکہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ، اللہ ہر چیز سے واقف ہے " ( سورۂ احزاب ۴۰ )
اب تک زیدؓ عام طور پر زیدؓ بن محمد( ﷺ)کہلاتے تھے، سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵ میں یہ فرمایا:
" ( اے ایمان والو ) اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا کرو کہ اللہ کے نزدیک انصاف کی بات یہی ہے ، بس اگر تم ان کے باپوں کے نام نہ جانتے ہو تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جوبات تم سے غلط ہوگئی ہو تو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں اور لیکن جو دل کے ارادے سے کرو ( اس سے بازپرس ہوگی ) اور اللہ بخشنے والا (اور) مہربان ہے "
( سورۂ احزاب :۵)
اس حکم کے بعد انہیں اپنے باپ کی نسبت سے زیدؓ بن حارثہ پکارا جانے لگا۔حضرت زینبؓ کی وفات ۲۰ ہجری میں بہ عہد خلافت حضرت عمرؓ فاروق ہوئی ، حضرت عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ، اس کے بعد ازواج مطہرات سے دریافت کیا کہ کون قبر میں داخل ہوگا، انہوں نے کہا : وہ شخص جو ان کے گھر میں داخل ہوا کرتا تھا(چنانچہ اسامہؓ ، محمد بن عبدا للہ بن جحش ، عبد اللہ بن ابی احمد بن جحش نے ان کو قبر میں اتارا)۔
( سیرت النبی شبلی نعمانی جلد اول )

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔