Sunday 30 August 2015

١ ھجری سے ٦ ھجری تک کے چیدہ چیدہ واقعات - حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام


یکم ہجری سے چھے ہجری تک کی سیرت سے پیش کی گئی تفصیل میں ابھی تک غزوات و سرایا کا تذکرہ ہی پیش کیا گیا۔ ہم نے ضروری سمجھا ہے کہ اس دوران پیش آنے والے دوسرے اہم واقعات کی بھی ضروری تفصیل پیش کردی جائے۔

حضرت سلمانؓ فارسی کا قبول اسلام
حضرت سلمانؓ فارسی جو ایران کے رہنے والے تھے اور تلاش حق میں سرگرداں تھے حضور ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے پانچ روز بعد مدینہ تشریف لائے اور اسلام قبول کیا، ان کامجوسی نام ماہ بہ تھا، وہ ایران کے ایک موضع جئے کے رہنے والے تھے ، بعض نے دام ہرمز لکھا ہے، بچپن ہی سے مذہب کی طرف جھکاؤ تھا، آخر آتش کدہ کے خادم خاص بن گئے، آگ کوذرا سی دیر کے لئے بھی بجھنے نہ دیتے تھے
الله تعالیٰ جس کے نصیب میں ہدایت لکھ دیتا ہے تو اس کے لیے ہدایت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔ اور ہدایت کی توفیق انہی لوگوں کو ملتی ہے جو راہ حق کے متلاشی ہوں اور تعصب اور تنگ نظری سے پاک ہوں ۔ حضرت سلمان فارسی کا باپ پیشہ کے اعتبار سے کاشت کار تھا اور مذہباً آتش پرست تھا۔ ان کے باپ نے ایک مرتبہ ان کو اپنی زرعی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے بھیجا، راستہ میں عیسائیوں کی عبادت گاہ تھی ،یہ اس کے اندر چلے گئے او ران کے طریقہٴ عبادت کو دیکھ کر متاثر ہوئے، وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے ( حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کچھ نہ کچھ اس وقت تک زندہ ہوں گی بعد میں تو عیسائیوں نے عبادت گاہوں کو موسیقی او رشرکیہ عقائد پھیلانے کا مرکز بنالیا) سلمان فارسی رضی الله عنہ شام تک وہیں رہے، واپس آکر باپ کو پورا حال سنایا او رکہا کہ ان کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے ۔ باپ نے تردید کی اور بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن یہ اصرار کرتے رہے کہ آتش پرستی سے عیسائیوں کا دین بہتر ہے ۔ جب باپ کو خدشہ ہوا کہ یہ آبا واجداد کا مذہب چھوڑ دیں گے تو اس نے ان کو گھرمیں قید کر دیا۔ کسی طرح حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ گھر سے فرار ہو کر ایک قافلہ کے ساتھ شامل چلے گئے، جو عیسائیوں کے دین کا مرکز تھا ، وہ عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کے پاس رہنے لگے ۔
حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فرماتے ہیں یہ شخص بد دیانت او ردنیا پرست نکلا، لوگوں کو صدقہ وخیرات کی ترغیب دلاتا اور جو اموال صدقہ کی مدمیں آتے وہ خود رکھ لیتا اور مسکینوں کو کچھ نہ دیتا۔ اس کی موت کے بعد حضرت سلمان رضی الله عنہ نے اس کے ماننے والوں کو اس کی حقیقت بتائی اور اس کے گھر میں رکھے ہوئے سونے چاندی سے بھرے ہوئے سات مٹکے دکھائے تو وہ لوگ بڑے برہم ہوئے او ران کے دل سے اس پادری کی وہ وقعت نکل گئی، انہوں نے اس کو دفن بھی نہ کیا ،بلکہ اس کی لاش کو سولی پر چڑھا دیا او رپتھر مار مار کر چورا کر دیا۔

اس کے بعد دوسرا پادری اس منصب پر فائز ہوا، حضرت سلمان رضی الله عنہ فرماتے ہیں ” یہ دوسرا شخص اس پہلے شخص سے بہت افضل تھا اور دنیا سے بے رغبت تھا، مجھے اس سے محبت ہو گئی اور ایک عرصہ تک اس کے ساتھ گر جا میں رہا ۔ موت کے وقت اس نے وصیت کی کہ اب تم فلاں شخص کے پاس چلے جاؤ، کیوں کہ اس کے سوا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرنے والا کوئی اورمیرے علم میں نہیں ہے، جو شہر موصل میں رہتا تھا، میں تلا ش کرتا ہوا اس تک جاپہنچا۔ یہ شخص بھی عابد وزاہد تھا، میں اس کے ساتھ رہنے لگا۔“

جب اس شخص کی وفات کا وقت آیا تو اس نے کسی اور کا پتہ بتا دیا جو شہر نصیبین میں رہتا تھا۔ حضرت سلمان فارسی اس کے پاس رہتے رہے،پھر اس کی بھی موت آگئی اور وہ شہرعموریا کے کسی عابد کا پتہ بتا گیا، حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ اس کے پاس رہنے لگے او رکمانے کا مشغلہ بھی اختیار کر لیا اورکچھ مال بھی جمع ہو گیا، جب اس عموریا والے پادری کو موت نے آگھیرا تو حضرت سلمان فارسی نے اس سے دریافت کیا اب بتائیے میں آپ کے بعد کہاں جاؤں؟
اس پر اس نے جواب دیا کہ ” بیٹا! اب تو میرے علم میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کے دین پر پوری طرح قائم ہو ۔“ (کیوں کہ عیسائیت میں شرکیہ عقائد داخل ہو چکے تھے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا اور خدا کا بیٹاکہنے لگے تھے ) اس پادری نے حضرت سلمان فارسی سے کہا کہ ” اب تم الله کے آخری نبی صلی الله علیہ وسلم کی آمد کا انتظا رکرو، کیوں کہ ان کے تشریف لانے کا زمانہ قریب آچکا ہے، وہ عرب میں تشریف لائیں گے او رایک ایسے شہر کی طرف ہجرت کریں گے، جس کے دونوں طرف کنکریلی زمین ہو گی اور اس شہر میں کھجوروں کے باغات ہوں گے ۔ ان کی ایک نشانی یہ ہو گی کہ ہدیہ قبول فرمائیں گے اور صدقہ نہ کھائیں گے۔ اور ان کی نبوت کی ایک علامت یہ ہو گی کہ ان کے دونوں کاندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ لہٰذا تم عرب چلے جاؤ“ یہ کہہ کر اس پادری نے آخرت کا راستہ لیا اور حضرت سلمان فارسی عرب پہنچنے کی تدبیریں سوچنے لگے ۔ عرب کے کچھ لوگ تجارت کے لیے عموریا پہنچ گئے ،حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے ا پنے ساتھ عرب لے چلو، میں تمہیں معاوضہ کے طور پر یہ بکریا ں اورگائیں دو ں گا۔ وہ لوگ انہیں ساتھ لے چلے او روادی القری پہنچ کر انہوں نے دھوکہ کیا اور حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ کو اپنا غلام ظاہر کرکے فروخت کر ڈالا، خریدنے والے شخص نے مدینہ کے ایک یہودی کے ہاتھ ان کو فروخت کر دیا، جو قبیلہ بنو قریظہ کا فرد تھا۔ وہ انہیں مدینہ لے گیا۔
حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ ”مدینہ کو دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہی وہ شہر ہے جہاں نبی آخر الزمان صلی الله صلی الله علیہ وسلم ہجرت فرما کر تشریف لائیں گے۔“ حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے انتظار میں ایک ایک دن گن رہے تھے کہ وہ مبارک گھڑی آپہنچی اور سید الانبیاء صلی الله علیہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ حاضر ہوئے او رپادری کی بتائی ہوئی تمام علامات دیکھ لیں جب مہر نبوت دیکھنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک اٹھا دی، حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھ لی او راسلام قبول کر لیا۔

اسلام تو قبول کر لیا، لیکن یہودی کی غلامی سے آزادی کا مسئلہ تھا، اس نے کہا کہ تمہاری آزادی کے لیے یہ شرط ہے کہ تم تین سو کھجوروں کے پودے لگاؤ، جب وہ تمام درخت پھل دے دیں او رتم چالیس اوقیہ یعنی تقریباً پونے سات سیر سونا ادا کر دو تو تمہیں غلامی سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

حضرت رسول مقبول صلی الله علیہ وسلم نے اس باغ میں جاکر اپنے مبارک ہاتھوں سے 300 پودے لگا دیے اور پھر یہ معجزہ ہوا کہ سارے درختوں نے اسی سال پھل دے دیا، جب کہ کھجور کے پودے میں پانچ سال میں پھل آتا ہے ۔

رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم کے پاس انڈے کے برابر کہیں سے سونا آگیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کو بلا کر فرمایا ” یہ لے جاؤ اور تمہارے ذمہ جو سونا واجب الادا ہے، وہ ادا کرو۔ “ حضرت سلمان رضی الله عنہ نے عرض کیا“ یا رسول الله! اتنے تھوڑے سے سونے میں چالیس اوقیہ کا وزن کیسے پورا ہو گا؟“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” یقین رکھو، الله تعالیٰ تمہیں اسی سے سبک دوش فرما دے گا۔“ چناں چہ ایسا ہی ہوا، جب اس یہودی نے سونے کی اس ڈلی کو تولا تو پورا وزن نکلا او ران کو آزادی مل گئی ۔ حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں آں حضرت صلی الله عیہ وسلم کی خدمت میں رہنے لگا اور غزوہٴ خندق میں شریک ہوا۔ یہ تمام تفصیل حضرت سلمان فارسی کی زبانی جمع الفوائد، شمائل ترمذی اور طبقات ابن سعد سے نقل کی گئی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔