Saturday 29 August 2015

بنو معونہ کا المیہ


جس مہینے رجیع کا حادثہ پیش آیا ٹھیک اسی مہینے بئر معونہ کا المیہ بھی پیش آیا ، جو رجیع کے حادثہ سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔
اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو براء عامر بن مالک ، جو مُلاعِب ُالاسُنّہ (نیزوں سے کھیلنے والا ) کے لقب سے مشہور تھا ، مدینہ خدمت نبوی میں حاضر ہوا۔ آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی ، اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا۔ لیکن دُوری بھی اختیار نہیں کی ، اس نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ اپنے اصحاب کو دعوتِ دین کے لیے اہلِ نجد کے پاس بھیجیں تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کرلیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: مجھے اپنے صحابہ کے متعلق اہلِ نجد سے خطرہ ہے۔ ابو براء نے کہا : وہ میری پناہ میں ہوں گے۔ اس پر نبیﷺ نے ابن اسحاق کے بقول چالیس اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ستر آدمیوں کوبھیج دیا - ستر ہی کی روایت درست ہے - اور منذربن عَمرو کو جو بنو ساعدہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ''معتق للموت '' (موت کے لیے آزاد کردہ ) کے لقب سے مشہور تھے۔ ان کا امیر بنادیا۔ یہ لوگ فضلاء ، قراء اور سادات واخیارِ صحابہ تھے۔ دن میں لکڑیاں کاٹ کر اس کے عوض اہل صُفّہ کے لیے غلہ خریدتے اور قرآن پڑھتے پڑھاتے تھے، اور رات میں اللہ کے حضور مناجات ونماز کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس طرح چلتے چلاتے معونہ کے کنوئیں پر جا پہنچے۔ یہ کنواں بنو عامر اور حرہ بنی سلیم کے درمیان ایک زمین میں واقع ہے۔ وہاں پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُمِ سُلیم کے بھائی حرام بن ملحان کو رسول اللہﷺ کا خط دے کر اللہ کے دشمن عامر بن طفیل کے پاس روانہ کیا لیکن اس نے خط کو دیکھا تک نہیں اور ایک آدمی کو اشارہ کردیا جس نے حضرت حرام کو پیچھے سے اس زور کا نیزہ مارا کہ وہ نیزہ آر پار ہوگیا۔ خون دیکھ کر حضرت حرام نے فرمایا : اللہ اکبر ! ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔
اس کے بعد فوراً ہی اس اللہ کے دشمن عامر نے باقی صحابہؓ پر حملہ کرنے کے لیے اپنے قبیلہ بنی عامر کو آواز دی۔ مگر انہوں نے ابو براء کی پناہ کے پیش نظر اس کی آواز پر کان نہ دھرے۔ ادھر سے مایوس ہوکر اس شخص نے بنو سلیم کو آواز دی۔ بنو سلیم کے تین قبیلوں عصیہ ، رعل اور ذکوان نے اس پر لبیک کہا۔ اور جھٹ آکر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا محاصرہ کرلیا۔ جواباً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی لڑائی کی مگر سب کے سب شہید ہوگئے۔ صرف حضرت کعب بن زید بن نجارؓ زندہ بچے۔ انہیں شہد اء کے درمیان سے زخمی حالت میں اٹھا لایا گیا۔ اور وہ جنگ خندق تک حیات رہے۔ ان کے علاوہ مزید دوصحابہ حضرت عَمرو بن امیہ ضمری اور حضرت مُنذر بن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما اونٹ چرارہے تھے۔ انہوں نے جائے واردات پر چڑیوں کو منڈلاتے دیکھا تو سیدھے جائے واردات پر پہنچے۔ پھر حضرت منذر تو اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مشرکین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اور حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری کو قید کرلیا گیا لیکن جب بتایا گیا کہ ان کا تعلق قبیلہ ٔ مُضَر سے ہے تو عامر نے ان کی پیشانی کے بال کٹواکر اپنی ماں کی طرف سے -جس پر ایک گردن آزاد کرنے کی نذر تھی- آزاد کردیا۔
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمریؓ اس دردناک المیے کی خبر لے کر مدینہ پہنچے۔ سَتّرافاضل مسلمین کی شہادت کا المیہ جس نے جنگ اُحد کا چرکہ تازہ کردیا۔ اور وہ بھی اس فرق کے ساتھ کہ شہداء احد تو ایک کھُلی ہوئی اور دوبدو جنگ میں مارے گئے تھے ، مگر یہ بیچا رے ایک شرمناک غداری کی نذر ہوگئے۔
(ابن ہشام ۲/۱۸۳تا ۱۸۸ ، زاد المعاد ۲/۱۰۹ ،۱۱۰ صحیح بخاری ۲/۵۸۴ ، ۵۸۶)
رسول اللہﷺ کو معونہ اور رجیع کے ان المناک واقعات سے جوچند ہی دن آگے پیچھے پیش آئے تھے۔ اس قدر رنج پہنچا ، اور آپ اس قدر غمگین ودلفگار ہوئے (ابن سعد نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ جس قدر اہل بئر معونہ پر غمگین ہوئے میں نے کسی اور پر آپ کو اتنا زیادہ غمگین ہوتے نہیں دیکھا۔ (۲/۵۴))کہ جن قوموں اور قبیلوں نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ غدر وقتل کا یہ سلوک کیا تھا آپﷺ نے ان پر ایک مہینے تک بددعا فرمائی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے آپﷺ کے صحابہ کو بئر معونہ پر شہید کیا تھا۔ آپ نے ان پر تیس روز تک بددعا کی۔ آپ نماز فجر میں رعل ، ذکوان لحیان اور عُصَیَّہ پر بددعا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی معصیت کی۔ صحیح بخاری ۲/۵۸۶، ۵۸۷، ۵۸۸)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔