Saturday 29 August 2015

مسلمانوں کی مجلسِ شورٰی کا فیصلہ



جیسے ہی مخبرین کے ذریعے آپ صلى الله عليه و سلم کواطلاع ملی کہ دشمن ان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کررہاہے ، آپ صلى الله عليه و سلم نے حسب سابق صحابہ کی مجلس شوریٰ منعقدکی اور دفاعی منصوبے پر صلاح مشورہ کیا۔ حضرت سلمان ؓ فارسی ایرانی النسل ہونے کی وجہ سے خندق کے طریقہ سے واقف تھے، انھوں نے رائے دی کہ کھلے میدان میں نکل کی مقابلہ کرنا مصلحت نہیں، ایک محفوظ مقام میں لشکر جمع کیا جائے اور ایک خندق کھود لی جائے، تمام لوگوں نے اس رائے کو پسند کیا، مدینہ میں تین جانب مکانات اور نخلستان کا سلسلہ تھا جو شہر پناہ کا کام دیتا تھا، صرف شامی رُخ کھلا ہواتھا۔ یہ بڑی باحکمت دفاعی تجویز تھی۔ چونکہ مدینہ شمال کے علاوہ باقی اطراف سے حَرّے (لاوے کی چٹان ) پہاڑوں اور کھجور کے باغات سے گھِرا ہوا ہے۔ اور نبیﷺ ایک ماہر اور تجربہ کار فوجی کی حیثیت سے یہ جانتے تھے کہ مدینے پر اتنے بڑے لشکر کی یورش صرف شمال ہی کی جہت سے ہوسکتی ہے، اس لیے آ پﷺ نے صرف اسی جانب خندق کھدوائی۔آنحضرت ﷺ نے تقریبا تین ہزار صحابہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل کراس مقام میں خندق کھودنے کی تیاریاں شروع کیں، خندق کی گہرائی پانچ گز رکھی گئی۔
ذیقعدہ ۵ ہجری کی ۸ تاریخ تھی، آنحضرت ﷺ نے حدود قائم کئے، داغ بیل ڈال کر دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم کی، حضور ﷺبہ نفس نفیس ان مجاہدوں کے ساتھ خندق کھودنے میں شریک تھے، کئی کئی دن فاقہ سے گزر رہے تھے اس پر بھی اسلام کے شیدائیوں کا جوش ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا، ہاتھوں سے مٹی کھودتے اور پیٹھوں پر اس کو لاد لاد کر پھینکتے تھے اور آواز میں آواز ملا کر یہ شعر گاتے تھے !
" ہم ہیں جنھوں نے محمد(ﷺ) کے ہاتھ پر اس عہد پر بیعت کی ہے کہ جب تک جان میں جان ہے ہم خدا کی راہ میں لڑتے جائیں گے۔
( جامع ترمذی)
رسول اللہﷺ اس کام کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ اور عملاً اس میں پوری طرح شریک بھی رہتے تھے۔ صحیح بخاری ہی میں ایک روایت حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ خندق سے مٹی ڈھورہے تھے۔ یہاں تک کہ غبار نے آپﷺ کے شکم کی جلد ڈھانک دی تھی۔
مسلمان ایک طرف اس گرمجوشی کے ساتھ کام کررہے تھے تو دوسری طرف اتنی شدت کی بھوک برداشت کررہے تھے کہ اس کے تصور سے کلیجہ شق ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ (اہل خندق) کے پاس دومٹھی جَو لایا جاتا تھا۔ اور ہیک دیتی ہوئی چکنائی کے ساتھ بنا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا۔ لوگ بھوکے ہوتے تھے۔ اور یہ حلق کے لیے بد لذت ہوتا تھا۔ اس سے مہک پھُوٹتی رہتی تھی۔( صحیح بخاری ۲/۵۸۸)
ابو طلحہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے بھوک کا شکوہ کیا اور اپنے شکم کھول کر ایک ایک پتھر دکھلائے ، رسول اللہﷺ نے اپنا شکم کھولا آپ نے دوپتھر باندھے ہوئے تھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔