Saturday 29 August 2015

غزوہ احد میں فتح یا شکست - ایک جائزہ


اس غزوے کے انجام کے بارے میں بڑی طول طویل بحثیں کی گئی ہیں کہ آیا اسے مسلمانوں کی شکست سے تعبیر کیا جائے یا نہیں ؟ جہاں تک حقائق کا تعلق ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ جنگ کے دوسرے راؤنڈ میں مشرکین کو بالاتری حاصل تھی۔ اور میدان جنگ انہیں کے ہاتھ تھا۔ جانی نقصان بھی مسلمانوں ہی کا زیادہ ہوا۔ اور زیادہ خوفناک شکل میں ہوا۔ اور مسلمانوں کا کم از کم ایک گروہ یقینا شکست کھاکر بھاگا۔ اور جنگ کی رفتار مکی لشکر کے حق میں رہی۔ لیکن ان سب کے باوجود بعض امور ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم اسے مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کرسکتے۔
ایک تو یہی بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ مکی لشکر مسلمانوں کے کیمپ پر قابض نہیں ہوسکا تھا۔ اور مدنی لشکر کے بڑے حصے نے سخت اتھل پتھل اور بد نظمی کے باوجود فرار نہیں اختیار کیا تھا بلکہ انتہائی دلیری سے لڑتے ہوئے اپنے سپہ سالار کے پاس جمع ہوگیا تھا۔ نیز مسلمانوں کا پلہ اس حد تک ہلکا نہیں ہوا تھا کہ مکی لشکر ان کا تعاقب کرتا۔ علاوہ ازیں کوئی ایک بھی مسلمان کافروں کی قید میں نہیں گیا۔ نہ کفار نے کوئی مال غنیمت حاصل کیا ، پھر کفار جنگ کے تیسرے راونڈ کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ حالانکہ اسلامی لشکرابھی کیمپ ہی میں تھا ، علاوہ ازیں کُفار نے میدان جنگ میں ایک یا دودن یا تین دن قیام نہیں کیا حالانکہ اس زمانے میں فاتحین کا یہی دستور تھا۔ اور فتح کی یہ ایک نہایت ضروری علامت تھی۔ مگر کفار نے بالکل جھٹ پٹ واپسی اختیار کی۔ اور مسلمانوں سے پہلے ہی میدان جنگ خالی کردیا۔ نیز انہیں ذریت اور مال لوٹنے کے لیے مدینے میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہوئی حالانکہ یہ شہر چند ہی قدم کے فاصلے پر تھا۔ اور فوج سے مکمل طور پر خالی اور ایک دم کھُلا پڑا تھا۔ راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔
ان ساری باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ قریش کو زیادہ سے زیادہ صرف یہ حاصل ہوا کہ انہوں نے ایک وقتی موقعے سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ذرا سخت قسم کی زک پہنچادی۔ ورنہ اسلامی لشکر کو نرغے میں لینے کے بعد اسے کلی طور پر قتل یا قید کرلینے کا جو فائدہ انہیں جنگی نقطۂ نظر سے لازما ًحاصل ہونا چاہیے تھا اس میں وہ ناکام رہے اور اسلامی لشکر قدرے بڑے خسارے کے باوجود نرغہ توڑ کر نکل گیا۔ اور اس طرح کا خسارہ تو بہت سی دفعہ خود فاتحین کو برداشت کرنا پڑ تا ہے، اس لیے اس معاملے کو مشرکین کی فتح سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
بلکہ واپسی کے لیے ابو سفیان کی عجلت اس بات کی غماز ہے کہ اسے خطرہ تھا کہ اگر جنگ کا تیسرا دور شروع ہوگیا تو اس کا لشکر سخت تباہی اور شکست سے دوچار ہوجائے گا۔ اس بات کی مزید تائید ابو سفیان کے اس موقف سے ہوتی ہے جو اس نے غزوہ حمراء الاسد کے تئیں اختیار کیا تھا۔
ایسی صورت میں ہم اس غزوے کو کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست سے تعبیر کرنے کے بجائے غیر منفصل جنگ کہہ سکتے ہیں۔ جس میں ہر فریق نے کامیابی اور خسارے سے اپنااپنا حصہ حاصل کیا۔ پھر میدان جنگ سے بھاگے بغیر اور اپنے کیمپ کو دشمن کے قبضہ کے لیے چھوڑے بغیر لڑائی سے دامن کشی اختیار کرلی۔ اور غیر منفصل جنگ کہتے ہی اسی کو ہیں۔ اسی جانب اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی اشارہ نکلتا ہے :
وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْ‌جُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْ‌جُونَ (۴: ۱۰۴)
''قوم (مشرکین ) کے تعاقب میں ڈھیلے نہ پڑو۔ اگر تم اَلَم محسوس کررہے ہو تو تمہاری ہی طرح وہ بھی اَلَم محسوس کررہے ہیں اور تم لوگ اللہ سے اس چیز کی امید رکھتے ہو جس کی وہ امید نہیں رکھتے ۔''
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ضرر پہنچانے اور ضرر محسوس کرنے میں ایک لشکر کو دوسرے لشکر سے تشبیہ دی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ دونوں فریق کے موقف متماثل تھے۔ اور دونوں فریق اس حالت میں واپس ہوئے تھے کہ کوئی بھی غالب نہ تھا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔