Sunday 30 August 2015

بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط - قیصرِ روم کے نام خط


۴۔ قیصر شاہ روم کے نام خط
صحیح بخاری میں ایک طویل حدیث کے ضمن میں اس گرامی نامہ کی نص مروی ہے، جسے رسول اللہﷺ نے ہِرَقْل شاہ روم کے پاس روانہ فرمایا تھا۔ وہ مکتوب یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی جانب سے ہرقْل عظیم روم کی طرف !
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ تم اسلام لاؤ سالم رہو گے۔ اسلام لاؤ اللہ تمہیں تمہارا اجر دوبار دے گا۔ اور اگر تم نے روگردانی کی تو تم پر اَرِیْسییوں (رعایا ) کا (بھی )گناہ ہوگا۔ اے اہل ِ کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پوجیں۔ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں۔ اور اللہ کے بجائے ہمارا بعض بعض کو رب نہ بنائے۔ پس اگر لوگ رخ پھیریں تو کہہ دو کہ تم لوگ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔( صحیح بخاری ۱/۴، ۵)
اس گرامی نامہ کو پہنچانے کے لیے دِحْیَہ بن خلیفہ کلبی کا انتخاب ہوا۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط سربراہ بصری کے حوالے کردیں۔ اور وہ اسے قیصر کے پا س پہنچادے گا۔ اس کے بعد جوکچھ پیش آیا ا س کی تفصیل صحیح بخاری میں ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ ا ن کا ارشاد ہے کہ ابو سفیان بن حرب نے ان سے بیان کیا کہ ہِرَقل نے اس کو قریش کی ایک جماعت سمیت بلوایا۔ یہ جماعت صلح حدیبیہ کے تحت رسول اللہﷺ اور کفار قریش کے درمیان طے شدہ عرصہ امن میں ملک شام کی تجارت کے لیے گئی ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایلیاء (بیت المقدس ) میں اس کے پاس حاضر ہوئے۔ (اس وقت قیصر اس بات پر اللہ کا شکر بجالانے کے لیے حمص سے ایلیاء (بیت المقدس) گیا ہوا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھو ں اہل ِ فارس کو شکست فاش دی۔ (دیکھئے صحیح مسلم ۲/۹۹) اس کی تفصیل یہ ہے کہ فارسیوں نے خسرو پرویز کو قتل کرنے کے بعد رومیوں سے ان کے مقبوضہ علاقوں کی واپسی کی شرط پر صلح کرلی۔ اور وہ صلیب بھی واپس کردی جس کے متعلق نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ اسی پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دی گئی تھی۔ قیصر اس صلح کے بعد صلیب کو اصل جگہ نصب کرنے اور اس فتح مبین پر اللہ کا شکر بجالانے کے لیے ۶۲۹ء یعنی۷ ھ میں ایلیاء (بیت المقدس ) گیا تھا۔)
ہرقل نے انھیں اپنے دربار میں بلایا۔ اس وقت اس کے گرداگرد روم کے بڑے بڑے لوگ تھے۔ پھر اس نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلا کر کہا کہ یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے اس سے تمہارا کونسا آدمی سب سے زیادہ قریبی نسبی تعلق رکھتا ہے؟ ابو سفیان کا بیان ہے کہ میں نے کہا : میں اس کا سب سے زیادہ قریب النسب ہوں۔ ہرقل نے کہا : اسے میرے قریب کردو۔ اور اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کرکے اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھادو۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ میں اس شخص سے اس آدمی (نبیﷺ ) کے متعلق سوالات کروں گا۔ اگر یہ جھوٹ بولے توتم لوگ اسے جھٹلادینا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر جھوٹ بولنے کی بدنامی کا خوف نہ ہوتا تو میں آپ کے متعلق یقینا جھوٹ بولتا۔
ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس کے بعد پہلا سوال جو ہرقل نے مجھ سے آپ کے بارے میں کیا وہ یہ تھا کہ تم لوگوں میں اس کا نسب کیسا ہے ؟
میں نے کہا : وہ اونچے نسب والا ہے۔
ہرقل نے کہا : تو کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا اس کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : اچھا تو بڑے لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا کمزوروں نے؟
میں نے کہا : بلکہ کمزوروں نے۔
ہرقل نے کہا : یہ لوگ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں ؟
میں نے کہا : بلکہ بڑھ رہے ہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس دین سے برگشتہ ہوکر مرتد بھی ہوتا ہے ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : اس نے جو بات کہی ہے کیا اسے کہنے سے پہلے تم لو گ اس کو جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا وہ بد عہدی بھی کرتا ہے ؟
میں نے کہا: نہیں۔ البتہ ہم لوگ اس وقت اس کے ساتھ صلح کی ایک مدت گزار رہے ہیں معلوم نہیں اس میں وہ کیا کرے گا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس فقرے کے سوامجھے اور کہیں کچھ گھُسیڑ نے کا موقع نہ ملا۔
ہرقل نے کہا : کیاتم لوگوں نے اس سے جنگ کی ہے ؟
میں نے کہا: جی ہاں۔
ہرقل نے کہا : تو تمہاری اور اس کی جنگ کیسی رہی ؟
میں نے کہا : جنگ ہمارے اور اس کے درمیان ڈول ہے۔ وہ ہمیں زک پہنچالیتا ہے اور ہم اسے زک پہنچالیتے ہیں۔
ہرقل نے کہا : تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے ؟
میں نے کہا : وہ کہتا ہے : صرف اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ کرو۔ تمہارے باپ دادا جو کچھ کہتے تھے اسے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز ، سچائی ، پرہیز ، پاک دامنی اور قرابت داروں کے ساتھ حسن ِ سلوک کا حکم دیتا ہے۔
اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: تم اس شخص (ابو سفیان) سے کہو کہ میں نے تم سے اس شخص (نبیﷺ ) کا نسب پوچھا تو تم نے بتا یا کہ وہ اونچے نسب کا ہے۔اور دستور یہی ہے کہ پیغمبر اپنی قوم کے اونچے نسب میں بھیجے جاتے ہیں۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی ؟ تم نے بتلایا کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی اور نے کہی ہوتی تو میں یہ کہتا کہ یہ شخص ایک ایسی بات کی نقالی کر رہاہے جواس سے پہلے کہی جاچکی ہے۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ تم نے بتلایا کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزراہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنے باپ کی بادشاہت کا طالب ہے۔
اور میں نے یہ دریافت کیا کہ کیا جو بات اس نے کہی ہے اسے کہنے سے پہلے تم لوگ اسے جھوٹ سے مُتّہم کرتے تھے ؟ تو تم نے بتایا کہ نہیں۔ اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں پرتوجھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے۔
میں نے یہ بھی دریافت کیا کہ بڑے لوگ اس کی پیروی کررہے ہیں یا کمزور ؟ تو تم نے بتایا کہ کمزورں نے اس کی پیروی کی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ پیغمبر وں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص برگشتہ ہوکرمرتد بھی ہوتا ہے ؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی بشاشت جب دلوں میں گھس جاتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا وہ بدعہدی بھی کرتا ہے ؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں۔ اور پیغمبر ایسے ہی ہوتے ہیں۔وہ بدعہدی نہیں کرتے۔
میں نے یہ بھی پوچھا کہ وہ کن باتوں کا حکم دیتا ہے ؟ تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیتا ہے۔ بت پرستی سے منع کرتا ہے۔ اور نماز ، سچائی اور پرہیزگاری وپاکدامنی کا حکم دیتا ہے۔
تو جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تویہ شخص بہت جلد میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک ہوجائے گا۔ میں جانتا تھا کہ یہ نبی آنے والا ہے ، لیکن میرا یہ گمان نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو اس سے ملاقات کی زحمت اٹھاتا۔ اور اگر اس کے پاس ہوتا تو اس کے دونوں پاؤں دھوتا۔
اس کے بعد ہرقل نے رسول اللہﷺ کا خط منگا کر پڑھا۔ جب خط پڑھ کر فارغ ہوا تو وہاں آوازیں بلند ہوئیں اور بڑا شور مچا۔ ہرقل نے ہمارے بارے میں حکم دیا اور ہم باہر کردیے گئے۔ جب ہم لوگ باہر لائے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابو کبشہ* کے بیٹے کا معاملہ بڑا زور پکڑگیا۔ اس سے تو بنو اَصْفَرْ *(رومیوں) کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ اس کے بعد مجھے برابر یقین رہا کہ رسول اللہﷺ کا دین غالب آکر رہے گا۔ یہاں تک کہ اللہ نے میرے اندر اسلام کو جاگزیں کردیا۔( صحیح بخاری ۱/۴ ، صحیح مسلم ۲/۹۷- ۹۹)
*ابو کبشہ کے بیٹے سے مراد نبیﷺ کی ذات گرامی ہے۔ ابو کبشہ رجزبن غالب خزاعی کی کنیت ہے۔ یہ وہب بن عبد مناف کا نانا تھا۔ اور وہب نبیﷺ کے نانا تھے۔ ابو کبشہ مشرک تھا۔ شام گیا تو نصرانی ہو گیا۔ جب نبیﷺ نے قریش کے دین کی مخالف کی ، اور حنیفیہ لے کر آئے تو آپ کی تنقیص کے لیے اس کے ساتھ تشبیہ دی۔ اور اس کی طرف منسوب کیا۔ (دلائل النبوۃ بیہقی ۱/۸۲، ۸۳، سیرت نبویہ لابی حاتم ص ۴۴) بہرحال ابو کبشہ غیر معروف شخص ہے۔ اور عرب کا دستور تھا کہ جب کسی کی تنقیص کرنی ہوتی تو اسے اس کے آباء واجداد میں سے کسی غیر معروف شخص کی طرف منسوب کردیتے۔
*بنوالاصفر (اصفر کی اولاد۔ اوراصفر کے معنی زرد ، یعنی پیلا ) رومیوں کو بنوالاصفر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ روم کے جس بیٹے سے رومیوں کی نسل تھی وہ کسی وجہ سے اصفر (پیلے ) کے لقب سے مشہور ہوگیا تھا۔
یہ قیصر پر نبیﷺ کے نامہ ٔ مبارک کا وہ اثر تھا جس کا مشاہدہ ابو سفیان نے کیا۔ اس نامۂ مبارک کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ قیصر نے رسول اللہﷺ کے اس نامہ ٔ مبارک کو پہنچانے والے، یعنی دِحْیہ کلبیؓ کو مال اور پارچہ جات سے نوازا ، لیکن حضر ت دِحیہؓ یہ تحائف لے کر واپس ہوئے تو حُسْمیٰ میں قبیلہ جذام کے کچھ لوگو ں نے ان پر ڈاکہ ڈال کر سب کچھ لوٹ لیا۔ حضرت دِحیہ مدینہ پہنچے تو اپنے گھر کے بجائے سیدھے خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔