Sunday 30 August 2015

صلح اور دفعاتِ صلح


قریش نے صورتِ حال کی نزاکت محسوس کرلی۔ لہٰذا جھٹ سُہیل بن عَمرو کو معاملات صلح طے کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اور یہ تاکید کردی کہ صلح میں لازما ً یہ بات طے کی جائے کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ عرب یہ کہیں کہ آپﷺ ہمارے شہر میں جبراً داخل ہوگئے۔ ان ہدایات کو لے کر سہیل بن عمرو آپﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ نبیﷺ نے اسے آتا دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا۔ تمہارا کا م تمہارے لیے سہل کردیا گیا۔ اس شخص کو بھیجنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ قریش صلح چاہتے ہیں۔ سُہیل نے آپﷺ کے پاس پہنچ کر دیر تک گفتگو کی۔ اور بالآخر طَرفَین میں صلح کی دفعات طے ہوگئیں جو یہ تھیں:
1. رسول اللہﷺ اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس جائیں گے۔ اگلے سال مسلمان مکہ آئیں گے۔ اور تین روز قیام کریں گے۔ ان کے ساتھ سوار کا ہتھیار ہوگا۔ میانوں میں تلواریں ہوں گی۔ اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا۔
2. دس سال تک فریقین جنگ بندرکھیں گے۔ اس عرصے میں لوگ مامون رہیں گے۔ کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا۔
3. جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکے گا۔ اور جو قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکے گا۔ جو قبیلہ جس فریق میں شامل ہوگا اس فریق کا ایک جزو سمجھا جائے گا۔ لہٰذا ایسے کسی قبیلے پر زیادتی ہوئی تو خود اس فریق پر زیادتی متصور ہوگی۔
4. قریش کا جو آدمی اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر - یعنی بھاگ کر- محمد ﷺ کے پاس جائے گا محمدﷺ اسے واپس کردیں گے ، لیکن محمدﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص - پناہ کی غرض سے بھاگ کر - قریش کے پاس آئے گا قریش اسے واپس نہ کریں گے۔
اس کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بلایا کہ تحریر لکھ دیں۔ اور یہ املا کرایا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس پر سہیل نے کہا: ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہے ؟ آپ یوں لکھئے : باِسْمِک اللہمَّ (اے اللہ تیرے نام سے ) نبیﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ یہی لکھو۔ اس کے بعد آپ نے یہ املا کرایا۔ یہ وہ بات ہے جس پر محمد رسول اللہ نے مصالحت کی۔ اس پر سہیل نے کہا : اگر ہم جانتے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں تو پھر ہم نہ تو آپ کو بیت اللہ سے روکتے ، اور نہ جنگ کرتے ، لیکن آپﷺ محمد بن عبد اللہ لکھوایئے۔ آپﷺ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں اگر چہ تم لوگ جھٹلاؤ۔ پھر حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ محمد بن عبد اللہ لکھیں۔ اور لفظ ''رسول اللہ '' مٹادیں ، لیکن حضرت علیؓ نے گوارا نہ کیا کہ اس لفظ کو مٹائیں۔ لہٰذا نبیﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے مٹادیا۔ اس کے بعد پوری دستاویز لکھی گئی۔
پھر جب صلح مکمل ہوچکی تو بنو خُزاعہ رسول اللہﷺ کے عہدوپیمان میں داخل ہوگئے۔ یہ لوگ درحقیقت عبدالمطلب کے زمانے ہی سے بنوہاشم کے حلیف تھے جیسا کہ آغازِ کتاب میں گزرچکا ہے۔ اس لیے اس عہدوپیمان میں داخلہ درحقیقت اسی قدیم حلف کی تاکید اور پختگی تھی۔ دوسری طرف بنو بکر قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہوگئے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔