Saturday 29 August 2015

حضرت حمزہ کی شہادت


ادھر حضرت حمزہؓ بھی بپھرے ہوئے شیر کی طرح جنگ لڑرہے تھے۔ اور بے نظیر مار دھاڑ کے ساتھ قلب لشکر کی طرف بڑھے اور چڑھے جارہے تھے۔ ان کے سامنے سے بڑے بڑے بہادر اس طرح بکھر جاتے تھے جیسے چومکھی ہوا میں پتے اُڑرہے ہوں۔ انہوں نے مشرکین کے علمبرداروں کے صفائے میں نمایاں رول ادا کرنے کے علاوہ ان کے بڑے بڑے جانبازوں اور بہادروں کا بھی حال خراب کر رکھا تھا لیکن صد حیف کہ اسی عالم میں ان کی شہادت واقع ہوگئی۔ مگر انہیں بہادروں کی طرح رُو در رُو لڑ کر شہیدنہیں کیا گیا بلکہ بزدلوں کی طرح چھپ چھپا کر بے خبری کے عالم میں مارا گیا۔

حضرت حمزہؓ کا قاتل وحشی بن حرب تھا۔ ہم ان کی شہادت کا واقعہ اسی کی زبانی نقل کرتے ہیں۔ اس کا بیان ہے کہ میں جُبیر بن مُطْعم کا غلام تھا۔ اور ان کا چچا طُعیمہ بن عِدِی جنگ بدر میں مارا گیا تھا۔ جب قریش جنگ احد پر روانہ ہونے لگے تو جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا : اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہؓ کو میرے چچا کے بدلے قتل کردو تو تم آزاد ہو۔ وحشی کا بیان ہے کہ (اس پیش کش کے نتیجے میں ) میں بھی لوگوں کے ساتھ روانہ ہوا۔ میں حبشی آدمی تھا۔اور حبشیوں کی طرح نیزہ پھینکنے میں ماہر تھا۔ نشانہ کم ہی چوُکتا تھا۔ جب لوگو ں میں جنگ چھڑ گئی تو میں نکل کر حمزہ کو دیکھنے لگا۔ میری نگاہیں انہی کی تلاش میں تھیں۔ بالآخر میں نے انہیں لوگوں کی پہنائی میں دیکھ لیا۔ وہ خاکستری اونٹ معلوم ہورہے تھے۔ لوگوں کو درہم برہم کرتے جارہے تھے، ان کے سامنے کو ئی چیز ٹک نہیں پاتی تھی۔
واللہ ! میں ابھی ان کے ارادے سے تیار ہی ہورہا تھا اور ایک درخت یا پتھر کی اوٹ میں چھپ کر انہیں قریب آنے کا موقع دیناچاہتا تھا کہ اتنے میں سباع بن عبد العزیٰ مجھ سے آگے بڑھ کر ان کے پاس جاپہنچا۔ حمزہؓ نے اسے للکارتے ہوئے کہا : او شرمگاہ کی چمڑی کا ٹنے والی کے بیٹے ! یہ لے۔ اور ساتھ ہی اس زور کی تلوار ماری کہ گویا اس کا سر تھا ہی نہیں۔
وحشی کا بیان ہے کہ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا نیزہ تولا اور جب میری مرضی کے مطابق ہوگیا تو ان کی طرف اچھال دیا۔ نیزہ ناف کے نیچے لگا اور دونوں پاؤں کے بیچ سے پار ہو گیا۔ انہوں نے میری طرف اٹھنا چاہا۔ لیکن مغلوب ہوگئے میں نے ان کو اسی حال میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ اس کے بعد میں نے ان کے پاس جاکر اپنا نیزہ نکال لیا۔ اور لشکر میں واپس جاکر بیٹھ گیا۔ (میرا کام ہوچکا تھا ) مجھے ان کے سوا کسی اور سے سروکار نہ تھا۔ میں نے انہیں محض اس لیے قتل کیا تھا کہ آزاد ہو جاؤں۔ چنانچہ جب مکہ آیا تو مجھے آزادی مل گئی۔ ابن ہشام ۲ ٌ/۶۹-۷۲ صحیح بخاری ۲/۵۸۳ وحشی نے جنگ طائف کے بعد اسلام قبول کیا۔ اور اپنے اسی نیزے سے دور صدیقی میں جنگ یمامہ کے اندر مَسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔ رومیوں کے خلاف جنگ ِ یر موک میں بھی شرکت کی۔
اللہ کے شیر اور رسولﷺ کے شیر حضرت حمزہؓ کی شہادت کے نتیجے میں مسلمانوں کو جو سنگین خسارہ اور ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا اس کے باوجود جنگ میں مسلمانوں ہی کا پلہ بھاری رہا۔ حضرت ابو بکر وعمر ، علی وزبیر ، مصعب بن عُمیر ، طلحہ بن عبید اللہ ، عبد اللہ بن جحش ، سعد بن معاذ ، سعد بن عبادہ ، سعد بن ربیع اور نضر بن انس وغیرہم نے ایسی پامردی وجانبازی سے لڑائی لڑی کہ مشرکین کے چھکے چھوٹ گئے۔حوصلے ٹوٹ گئے اور ان کی قوتِ بازو جواب دے گئی۔
اپنی جان فروش شہبازوں میں ایک اور بزرگ حضرت حَنْظَلۃ الغَسیلؓ جو آج ایک نرالی شان سے میدانِ جنگ میں تشریف لا ئے ہیں - آپ اسی ابو عامر راہب کے بیٹے ہیں جسے بعد میں فاسق کے نام سے شہرت ملی۔ اور جس کا ذکر ہم پچھلے صفحات میں کر چکے ہیں۔ حضرت حنظلہ نے ابھی نئی نئی شادی کی تھی۔ جنگ کی منادی ہوئی تو وہ بیوی سے ہم آغوش تھے۔ آواز سنتے ہی آغوش سے نکل کر جہاد کے لیے رواں دواں ہوگئے۔ اور جب مشرکین کے ساتھ میدانِ کارزار گرم ہوا تو ان کی صفیں چیر تے پھاڑتے ان کے سپہ سالار ابو سفیان تک جاپہنچے اور قریب تھاکہ اس کاکام تمام کردیتے۔ مگر اللہ نے خود ان کے لیے شہادت مقدر کررکھی تھی۔ چنانچہ انہوں نے جوں ہی ابو سفیان کو نشانے پر لے کر تلوار بلند کی شَدّاد بن اوس نے دیکھ لیا اور جھٹ حملہ کردیا جس سے خود حضرت حنظلہؓ شہید ہوگئے۔
جبل رماۃ پر جن تیر اندازوں کو رسول اللہﷺ نے متعین فرمایا تھا انہوں نے بھی جنگ کی رفتار مسلمانوں کے موافق چلانے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ مکی شہسواروں نے خالد بن ولید کی قیادت میں اور ابو عامر فاسق کی مدد سے اسلامی فوج کا بایا ں بازو توڑ کر مسلمانوں کی پشت تک پہنچنے اور ان کی صفوں میں کھلبلی مچاکر بھر پور شکست سے دوچار کرنے کے لیے تین بار پُر زور حملے کیے۔ لیکن مسلمان تیر اندازوں نے انہیں اس طرح تیروں سے چھلنی کیا کہ ان کے تینوں حملے ناکام ہو گئے۔( فتح الباری ۷/۳۴۶)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔