Saturday 29 August 2015

احد کے بعد فوجی مہمات


مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر احد کی ناکامی کا بہت برا اثر پڑا۔ ان کی ہوا اکھڑ گئی ، اور مخالفین کے دلوں سے ان کی ہیبت جاتی رہی۔ اس کے نتیجے میں اہل ِ ایمان کی داخلی اور خارجی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ مدینے پر ہرجانب سے خطرات منڈلانے لگے۔ یہود ، منافقین اور بدّوؤں نے کھُل کر عداوت کا مظاہرہ کیا، اور ہر گروہ نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی۔ بلکہ یہ توقع باندھ لی کہ وہ مسلمانوں کاکام تمام کرسکتا ہے۔ اور انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ سکتا ہے۔
چنانچہ اس غزوے پر ابھی دومہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ بنو اَسَد نے مدینے پر چھا پہ مارنے کی تیاری کی۔ پھر صفر ۴ھ میں عضل اور قارہ کے قبائل نے ایک ایسی مکارانہ چال چلی کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جامِ شہادت نوش کرنا پڑا۔ اور ٹھیک اسی مہینے میں رئیس بنوعامر نے اسی طرح کی ایک دغابازی کے ذریعے ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہادت سے ہمکنار کرایا۔ یہ حادثہ بئر معونہ کے نام سے معروف ہے۔ اس دوران بنو نَضِیر بھی کھُلی عداوت کا مظاہرہ شروع کر چکے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ربیع الاول ۴ھ میں خود نبی کریمﷺ کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ ادھر بنو غطفان کی جرأت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے جمادی الاولیٰ ۴ ھ میں مدینے پر حملہ کا پروگرام بنایا۔
غرض مسلمانوں کی جو ساکھ غزوہ احد میں اُکھڑ گئی تھی اس کے نتیجے میں مسلمان ایک مدت تک پیہم خطرات سے دوچار رہے ،, لیکن وہ تو نبی کریمﷺ کی حکمت بالغہ تھی جس نے سارے خطرات کا رُخ پھیر کر مسلمانوں کی ہیبت ِ رفتہ واپس دلادی۔ اور انہیں دوبارہ مجد وعزت کے مقامِ بلند تک پہنچا دیا۔ اس سلسلے میں آپ کا سب سے پہلا قدم حمراء الاسد تک مشرکین کے تعاقب کا تھا۔ اس کارروائی سے آپ کے لشکر کی آبروبڑی حد تک برقراررہ گئی۔ کیونکہ یہ ایسا پر وقار اور شجاعت پر مبنی جنگی اقدام تھا کہ مخالفین خصوصاً منافقین اور یہود کا منہ حیرت سے کھُلے کا کھلا رہ گیا۔ پھر آپﷺ نے مسلسل ایسی جنگی کارروائیاں کیں کہ ان سے مسلمانوں کی صرف سابقہ ہیبت ہی بحال نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہو گیا۔ اگلے صفحات میں انہی کا کچھ تذکرہ کیا جارہا ہے۔
۱۔ سریۂ ابو سلمہ:
جنگ اُحد کے بعد مسلمانوں کے خلاف سب سے پہلے بنو اسد بن خزیمہ کا قبیلہ اٹھا۔ اس کے متعلق مدینے میں یہ اطلاع پہنچی کہ خُویلِد کے دو بیٹے طلحہ اور سلمہ اپنی قوم اور اپنے اطاعت شعاروں کو لے کر بنو اسد کو رسول اللہﷺ پر حملے کی دعوت دیتے پھر رہے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے جھٹ ڈیڑھ سو انصار ومہاجرین کا ایک دستہ تیار فرمایا۔ اور حضرت ابو سلمہؓ کو اس کا عَلَم دے کر اور سپہ سالار بنا کر روانہ فرمادیا۔ حضرت ابو سلمہؓ نے بنو اسد کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی ان پر اس قدر اچانک حملہ کیا کہ وہ بھاگ کر اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ مسلمانوں نے ان کے اونٹ اور بکریوں پر قبضہ کرلیا۔ اورسالم وغانم مدینہ واپس آگئے۔ انہیں دوبُدو جنگ بھی نہیں لڑنی پڑی۔
یہ سریہ محرم ۴ ھکا چاند نمودار ہونے پر روانہ کیاگیاتھا۔ واپسی کے بعد حضرت ابو سلمہؓ کا ایک زخم -جو انہیں اُحد میں لگا تھا - پھُوٹ پڑا اور اس کی وجہ سے وہ جلد ہی وفات پاگئے۔( زادا لمعاد ۲/۱۰۸)
۲۔ عبد اللہ بن اُنیسؓ کی مہم:
اسی ماہ محرم ۴ ھ کی ۵ / تاریخ کو یہ خبر ملی کہ خالد بن سفیان ہُذلی مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے فوج جمع کررہا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس کے خلاف کارروائی کے لیے عبداللہ بن اُنیسؓ کو روانہ فرمایا۔
عبد اللہ بن اُنیسؓ مدینہ سے ۱۸ روز باہر رہ کر ۲۳/ محرم کو واپس تشریف لائے۔ وہ خالد کو قتل کرکے اس کا سر بھی ہمراہ لائے تھے۔ جب خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر انہوں نے یہ سر آپﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں ایک عصا مرحمت فرمایا۔ اور فرمایاکہ یہ میرے اور تمہارے درمیان قیامت کے روز نشانی رہے گا۔ چنانچہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ یہ عصا بھی ان کے ساتھ ان کے کفن میں لپیٹ دیا جائے۔( زادالمعادد ۲/۱۰۹۔ابن ہشام ۲/۶۱۹ ، ۶۲۰ )

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔