Saturday 29 August 2015

احد اور مدینہ کے درمیان شب گزاری


اسکے بعد آپﷺ نے ''شیخان'' نامی ایک مقام تک پہنچ کر لشکر کا معائنہ فرمایا۔ جو لوگ چھوٹے یا ناقابل ِ جنگ نظر آئے انہیں واپس کر دیا۔ ان کے نام یہ ہیں : حضرت عبد اللہ بن عمر، اسامہ بن زید، اسید بن ظہیر ، زید بن ثابت ، زید بن ارقم، عرابہ بن اوس ، عَمرو بن حزم ، ابو سعید خدری ، زید بن حارثہ انصاری اور سعد بن حبہ رضی اللہ عنہم ۔ اسی فہرست میں حضرت براء بن عازبؓ کا نام بھی ذکر کیا جاتا ہے لیکن صحیح بخاری میں ان کی جو روایت مذکور ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اُحدکے موقعے پر لڑائی میں شریک تھے۔
البتہ صغر سنّی کے باوجو د حضرت رافع بن خدیج اور سمُرہ بن جُنْدُب رضی اللہ عنہما کو جنگ میں شرکت کی اجازت مل گئی۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ حضرت رافع بن خدیجؓ بڑے ماہر تیر انداز تھے، اس لیے اُنہیں اجازت مل گئی۔ جب اُنہیں اجازت مل گئی تو حضرت سمرہ بن جندبؓ نے کہا کہ میں تورافع سے زیادہ طاقتور ہوں ، میں اسے پچھاڑ سکتا ہوں۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپﷺ نے اپنے سامنے دونوں سے کشتی لڑوائی اور واقعتا سمرہؓ نے رافعؓ کو پچھاڑ دیا، لہٰذ ا انہیں بھی اجازت مل گئی۔

یہیں شام ہوچکی تھی۔ لہٰذا آپﷺ نے یہیں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور یہیں رات بھی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ پہرے کے لیے پچاس صحابہ رضی اللہ عنہم منتخب فرمائے جو کیمپ کے گرد وپیش گشت لگاتے رہتے تھے۔ ان کے قائد محمد بن مسلمہ انصاریؓ تھے۔ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے کعب بن اشرف کوٹھکانے لگانے والی جماعت کی قیادت فرمائی تھی۔ ذکوانؓ بن عبد اللہ بن قیس خاص نبیﷺ کے پاس پہرہ دے رہے تھے۔
طلوع ِ فجر سے کچھ پہلے آپ پھر چل پڑے اور مقام ''شوط'' پہنچ کر فجر کی نماز پڑھی۔ اب آپﷺ دشمن کے بالکل قریب تھے اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ یہیں پہنچ کر عبد اللہ بن اُیّ منافق نے بغاوت کردی، اور کوئی ایک تہائی لشکر، یعنی تین سو افراد کو لے کر یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ کیوں خواہ مخواہ اپنی جان دیں۔ اس نے اس بات پر بھی احتجاج کا مظاہرہ کیا کہ رسول اللہﷺ نے اس کی بات نہیں مانی اور دوسروں کی بات مان لی۔
یقینا ً اس علیحدگی کا سبب وہ نہیں تھا جو اس منافق نے ظاہر کیا تھا کہ رسول اللہﷺ نے اس کی بات نہیں مانی ، کیونکہ اس صورت میں جیش ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہاں تک اس کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اسے لشکر کی روانگی کے پہلے ہی قدم پرالگ ہوجاناچاہیے تھا۔ اس لیے حقیقت وہ نہیں جو اس نے ظاہر کی تھی بلکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اس نازک موڑ پر الگ ہوکر اسلامی لشکر میں ایسے وقت اضطراب اور کھلبلی مچانا چاہتا تھا جب دشمن اس کی ایک ایک نقل و حرکت دیکھ رہا ہو ، تاکہ ایک طرف تو عام فوجی نبیﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں اور جو باقی رہ جائیں ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور دوسری طرف اس منظر کو دیکھ کر دشمن کی ہمت بندھے اور اس کے حوصلے بلند ہوں۔ لہٰذا یہ کارروائی نبیﷺ اور ان کے مخلص ساتھیوں کے خاتمے کی ایک مؤثر تدبیر تھی جس کے بعداس منافق کو توقع تھی کہ اس کی اور اس کے رفقاء کی سرداری وسربراہی کے لیے میدان صاف ہو جائے گا۔
قریب تھا کہ یہ منافق اپنے بعض مقاصد کی برآری میں کامیاب ہو جاتا ، کیونکہ مزید دوجماعتوں، یعنی قبیلہ اوس میں سے بنوحارثہ اور قبیلہ خزرج میں سے بنوسلمہ کے قد م بھی اکھڑ چکے تھے اور وہ واپسی کی سوچ رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دستگیری کی اور یہ دونوں جماعتیں اضطراب اور ارادۂ واپسی کے بعد جم گئیں۔ انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
إِذْ هَمَّت طَّائِفَتَانِ مِنكُمْ أَن تَفْشَلَا وَاللَّـهُ وَلِيُّهُمَا ۗ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١٢٢﴾ (۳: ۱۲۲)
''جب تم میں سے دو جماعتوں نے قصد کیا کہ بُزدلی اختیار کریں ، اور اللہ ان کا ولی ہے ، اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔''
بہر حال منافقین نے واپسی کا فیصلہ کیا تو اس نازک ترین موقعے پر حضرت جابرؓ کے والدحضرت عبد اللہ بن حرامؓ نے انہیں ان کا فرض یا ددلانا چاہا۔ چنانچہ موصوف انہیں ڈانٹتے ہوئے ، واپسی کی ترغیب دیتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلے کہ آؤ ! اللہ کی راہ میں لڑو یاد فاع کرو۔ مگر انہوں نے جواب میں کہا : اگر ہم جانتے کہ آپ لوگ لڑائی کریں گے تو ہم واپس نہ ہوتے۔ یہ جواب سن کر حضرت عبد اللہ بن حرام یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ او اللہ کے دشمنو! تم پر اللہ کی مار۔ یاد رکھو ! اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے مستغنی کردے گا۔
انہی منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ‌ يَوْمَئِذٍ أَقْرَ‌بُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ ﴿١٦٧﴾ (۳: ۱۶۷ )
''اور تاکہ اللہ انہیں بھی جان لے جنہوں نے منافقت کی ، اور ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں لڑائی کرو یادفاع کرو تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم لڑائی جانتے تو یقینا تمہاری پیروی کرتے۔ یہ لوگ آج ایمان کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب ہیں۔ منہ سے ایسی بات کہتے ہیں جو دل میں نہیں ہے اور یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے ۔''

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔