Saturday 29 August 2015

خندق عبور کرنے کی کوشش


محاصرین نے ایک طرف خندق کا محاصرہ کر رکھا تھا تو دوسری طرف اس غرض سے مدینہ پر حملہ کرنا چاہا کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ ؓ کے اہل و عیال یہیں قلعوں میں پناہ گزیں تھے، محاصرین خندق کو عبور نہیں کر سکتے تھے اس لئے دور سے تیر اور پتھر برساتے تھے، آنحضر ت ﷺ نے خندق کے مختلف حصوں پر فوجیں تقسیم کر دی تھیں جو محاصرین کے حملوں کامقابلہ کرتی تھیں ، ایک حصہ خود آپﷺ کے اہتمام میں تھا،
مشرکین کی طرف سے حملہ کا یہ انتظام کیا گیا تھا کہ قریش کے مشہور جنرل یعنی ابو سفیان، خالدبن ولید، عمرو بن العاص، ضرار بن الخطاب ، جبیرہ کا ایک ایک دن مقرر ہوا، ہر جنرل اپنی باری کے دن پوری فوج کو لے کر لڑتا تھا، خندق کو عبور نہیں کر سکتے تھے لیکن خندق کا عرض چونکہ زیادہ نہ تھااس لئے باہر سے پتھر اور تیر برساتے تھے چونکہ اس طریقہ میں کامیابی نہیں ہوئی اس لئے قرار پایا کہ اب عام حملہ کیا جائے، تمام فوجیں یکجا ہوئیں، قبائل کے تمام سردار آگے آگے تھے ، خندق ایک جگہ اتفاقاً کم عریض تھی، یہ موقع حملہ کے لئے انتخاب کیا گیا۔
چنانچہ ان کی ایک جماعت نے جن میں عَمرو بن عبدِوُدّ، عکرمہ بن ابی جہل اور ضرار بن خطاب وغیرہ تھے اس تنگ مقام سے خندق پار کرلی۔ اور ان کے گھوڑے خندق اور سلع کے درمیان میں چکر کاٹنے لگے۔ ادھرسے حضرت علیؓ چند مسلمانوں کے ہمراہ نکلے اور جس مقام سے انہوں نے گھوڑے کدائے تھے اسے قبضے میں لیکر ان کی واپسی کا راستہ بند کردیا۔ اس پر عَمرو بن عبدِوُدّ نے مبارَزَت کے لیے للکار۔ وہ ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا، جنگ بدر میں زخمی ہو کر واپس چلا گیا تھا اور قسم کھائی تھی کہ جب تک انتقام نہ لوں گا بالو ں میں تیل نہ ڈالوں گا، اس وقت اس کی عمر نوے برس تھی تا ہم سب سے پہلے وہی آگے بڑھا اور عرب کے دستور کے مطابق پکارا کہ مقابلہ کوکون آتا ہے؟
حضرت علیؓ دو دو ہاتھ کرنے کے لیے مد مقابل پہنچے۔ اور ایک ایسا فقرہ چست کیا کہ وہ طیش میں آکر گھوڑے سے کود پڑا۔ اور اس کی کوچیں کاٹ کر ، چہرہ مار کر حضرت علیؓ کے دوبدو آگیا۔ بڑا بہادر اور شہ زور تھا۔ دونوں میں پُر زور ٹکر ہوئی۔ ایک نے دوسرے پر بڑھ بڑھ کر وار کیے۔ بالآخرحضرت علیؓ نے اس کا کام تمام کردیا۔ باقی مشرکین بھاگ کر خندق پار چلے گئے۔ وہ اس قدر مرعوب تھے کہ عکرمہ نے بھاگتے ہوئے اپنا نیزہ بھی چھوڑ دیا۔
حملہ کا دن بہت سخت تھا، تمام دن لڑآئی جاری رہی، کفار ہرطرف سے تیر اور پتھر برسا رہے تھے اور ایک دن کے لئے بارش تھمنے نہ پاتی تھی، یہی دن ہے جس کا ذکر اکثر احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی مسلسل چار نمازیں ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء قضاء ہوئیں، مسلسل تیر اندازی اور سنگباری سے جگہ سے ہٹنا نا ممکن تھا، جب دونوں جماعتیں متفرق ہوکر اپنی اپنی جگہ واپس ہوئیں تو آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو اذان کا حکم دیا، پہلے ظہر کی اقامت کہی گئی اور آپﷺ نے نماز پڑھی، پھر ہر نماز کے لئے علحٰدہ علحٰدہ اقامت کہی گئی اور آپﷺ اور صحابہ کرامؓ نے قضاء نمازیں پڑھیں اور آپﷺ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے ہمیں نماز وسطٰی یعنی عصر سے بعض رکھا ، اﷲ ان کے شکموں اور قبروں میں آگ بھردے،
(طبقات ابن سعد)
مسند احمد اور مسند شافعی رحمہ اللہ میں مروی ہے کہ مشرکین نے آپﷺ کو ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی سے مصروف رکھا۔ چنانچہ آپﷺ نے یہ ساری نمازیں یکجاپڑھیں۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ ان روایتوں کے درمیان تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جنگِ خندق کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ پس کسی دن ایک صورت پیش آئی ، اور کسی دن دوسری۔( شرح مسلم للنووی ۱/۲۲۷)
یہیں سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ مشرکین کی طرف سے خندق عبور کرنے کی کوشش اور مسلمانوں کی طرف سے پیہم دفاع کئی روز تک جاری رہا۔ مگر چونکہ دونوں فوجوں کے درمیان خندق حائل تھی، اس لیے دست بدست اور خونریز جنگ کی نوبت نہ آسکی ، بلکہ صرف تیر اندازی ہوتی رہی۔
اسی تیر اندازی میں فریقین کے چند افراد مارے بھی گئے ... لیکن انہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، یعنی چھ مسلمان اور دس مشرک جن میں سے ایک یا دوآدمی تلوار سے قتل کیے گئے تھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔