Sunday 30 August 2015

عمرہ سے حلال ہونے کے لئے قربانی اور بالوں کی کٹائی


رسول اللہﷺ معاہدہ ٔ صلح لکھوا کر فارغ ہوچکے تو فرمایا : اٹھو ! اور اپنے اپنے جانور قربان کردو ، لیکن واللہ کوئی بھی نہ اٹھا۔ حتیٰ کہ آپﷺ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔ مگر پھر بھی کوئی نہ اٹھا تو آپ اُم سلمہ ؓ کے پاس گئے۔ اور لوگوں کے اس پیش آمدہ طرزِ عمل کا ذکر کیا۔ ام المومنین نے کہا : یارسول اللہ! کیا آپﷺ ایسا چاہتے ہیں ؟ تو پھر آپﷺ تشریف لے جایئے اور کسی سے کچھ کہے بغیر چُپ چاپ اپنا جانور ذبح کردیجیے۔ اور اپنے حجام کو بلا کر سر منڈا لیجئے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ باہر تشریف لائے۔ اور کسی سے کچھ کہے بغیر یہی کیا۔ یعنی اپنا ہَدی کا جانور ذبح کردیا۔ اور حجام بلا کر سرمنڈا لیا۔ جب لوگوں نے دیکھا تو خود بھی اٹھ کر اپنے اپنے جانور ذبح کردیے۔ اور اس کے بعد باہم ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔ کیفیت یہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا فرطِ غم کے سبب ایک دوسرے کو قتل کردیں گے۔ اس موقعہ پر گائے اور اونٹ سات سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیے گئے۔ رسول اللہﷺ نے ابو جہل کا ایک اونٹ ذبح کیا۔ جس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مشرکین جل بھن کر رہ جائیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے سرمنڈانے والوں کے لیے تین بار مغفرت کی دعا کی۔ اور قینچی سے کٹانے والوں کے لیے ایک بار۔ اسی سفر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت کعب بن عجرہ کے سلسلے میں یہ حکم بھی نازل فرمایا کہ جو شخص اذّیت کے سبب اپنا سر (حالت احرام میں ) منڈالے وہ روزے یا صدقے یا ذبیحے کی شکل میں فدیہ دے۔

اس کے بعد کچھ مومنہ عورتیں آگئیں۔ ان کے اولیاء نے مطالبہ کیا کہ حدیبیہ میں جو صلح مکمل ہوچکی ہے اس کی روسے انہیں واپس کیا جائے ، لیکن آپ نے یہ مطالبہ اس دلیل کی بنا پر مسترد کردیا کہ اس دفعہ کے متعلق معاہدے میں جو لفظ لکھاگیا تھا وہ یہ تھا :
(( وعلی أن لا یأتیک منا رجل وإن کان علی دینک إلا رددتہ علینا))
''اور (یہ معاہدہ اس شرط پر کیا جارہا ہے کہ ) ہمارا جو آدمی آپ کے پاس جائے گا آپ اسے لازما ً واپس کر دیں گے، خواہ وہ آپ ہی کے دین پر کیوں نہ ہو۔''(صحیح بخاری۱/۳۸۰)
لہٰذا عورتیں اس معاہدے میں سرے سے داخل ہی نہ تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلے میں یہ آیت بھی نازل فرمائی :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَ‌اتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْ‌جِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ‌ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَ‌هُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ‌ (۶۰: ۱۰ )
یعنی ''اے اہل ایمان جب تمہارے پاس مومنہ عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو ان کا امتحان لو۔ اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے۔ پس اگر انہیں مومنہ جانو تو کفار کی طرف نہ پلٹاؤ۔ نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال ہیں۔ البتہ ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دیے تھے اسے واپس دے دو۔ (پھر ) تم پر کوئی حرج نہیں کہ ان سے نکاح کر لو جب کہ انہیں ان کے مہر ادا کرو۔ اور کافرہ عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھو۔''
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب کوئی مومنہ عورت ہجرت کرکے آتی تو رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں اس کا امتحان لیتے کہ
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِ‌كْنَ بِاللَّـهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِ‌قْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِ‌ينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْ‌جُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُ‌وفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ‌ لَهُنَّ اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (۶۰: ۱۲)
یعنی''اے نبی ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں آئیں اور اس بات پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی ، چوری نہ کریں گی ، زنانہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیا ن سے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی معروف بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی توان سے بیعت لے لو۔ اور ان کے لیے اللہ سے دعائے مغفرت کرو۔ یقینا اللہ غفور رحیم ہے۔ )''
چنانچہ جو عورتیں اس آیت میں ذکر کی ہوئی شرائط کی پابندی کا عہد کرتیں۔ آپ ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کر لی ، پھر انہیں واپس نہ پلٹا تے۔
اس حکم کے مطابق مسلمانوں نے اپنی کافرہ بیویوں کو طلاق دے دی۔ اس وقت حضرت عمر کی زوجیت میں دوعورتیں تھیں جو شرک پر قائم تھیں۔ آپ نے ان دونوں کوطلاق دے دی ، پھر ایک سے معاویہ نے شادی کرلی اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔