Sunday 30 August 2015

٤ ھجری - شراب کی حرمت


شراب کے قطعی حرام ہو نے کے حکم کے بارے میں اختلاف ہے،۴ ھ ، ۶ھ ، ۸ ھ تینوں سنین کے بارے میں روایتیں ملتی ہیں، محمد حسین ہیکل کے بیان کے مطابق زیادہ تر سیرت نگاروں نے صلح حدیبیہ کے بعد ۶ ہجری کو ترجیح دی ہے، ابن حجر عسقلانی نے ۸ ہجری کو درست مانا ہے، علامہ قسطلانی نے مواہب لدینہ میں لکھا ہے کہ شراب کی حرمت ۴ ہجری میں غزوہ اُحد کے بعد غزوہ بنی نضیر کے ایام میں نازل ہوئی، اس کتاب میں ۴ ہجری میں حُرمت شراب کا ذکر کیا گیا ہے،
عرب میں شراب لوگوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور اس کا پینا اور پلانا باعث فخر سمجھاجاتاتھا، مدینہ منورہ چونکہ نخلستانی علاقہ تھا اس لئے یہاں مکہ کے مقابلہ میں اس کا رواج کچھ زیادہ ہی تھا، اسلام جو عقل کو انسان کے لئے بہترین عطیہ خداوندی قرار دیتا ہے اس غارت گر عقل و حواس کو کیسے گوارا کرسکتا تھا تاہم جو چیز اہل عرب کے رگ و پئے میں سرایت کر چکی تھی یک لخت اس کو روک دینا بھی قرین مصلحت نہ تھا، اس لئے بڑی حکمت کے ساتھ تدریجاًاس کی ممانعت کے احکام اترے ، اس کے ساتھ ساتھ جوُّئے کی بھی ممانعت کردی گئی،سب سے پہلے سورۂ نحل کی آیت ۶۷ میں اس کا ذکر آیا ہے ، یہ آیت اس وقت اُتری تھی جب شراب حرام نہیں تھی اس لئے حلال چیزوں کے ساتھ اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے؛ لیکن اس میں سکّراً کے بعد رزقاً حسناً ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شراب رزق حسن نہیں ہے ، نیز یہ سورت مکی ہے جس میں شراب کے بارے میں نا پسندیدگی کا اظہار ہے ، پھر مدنی سورتوں میں بتدریج اس کی حرمت نازل ہوگئی،ایک بار حضرت عمرؓ اور حضرت معاذؓ بن جبل نے آنحضرت ﷺ سے شراب کے بارے میں پوچھا کیوں کہ اس سے دولت کی بربادی کے ساتھ ساتھ عقل میں فتور پیدا ہو رہا تھا ، اس پر سورہ ٔ بقرہ کی آیت نمبر ۲۱۹ نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا:
" (اے پیغمبر!) لوگ تم سے شراب اور جوُّئے کا حکم دریافت کرتے ہیں، ( ان سے ) کہہ دو کہ ان دونوں میں بڑا گنا ہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کا گناہ ( اور نقصان ) ان کے فائدے سے کہیں زیادہ ہے"
(سورہ ٔ بقرہ : ۲۱۹ )
اس آیت کے نزول سے صحابہ کرام میں شراب اور جوّے کے نقصانات اور گناہ کا احساس پیدا ہو گیا، حضرت عمرؓ کے سامنے جب یہ آیت تلاوت کی گئی تو دعا مانگی" ائے اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لئے واضح احکام نازل فرما ،ایک دن آنحضرت ﷺ نے خطبہ دیا: ائے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام کرنے کا اشارہ دیا ، عنقریب اس کی حُرمت کا حکم آئے گا لہٰذا جس کے پاس شراب ہے اُسے بیچ کر نفع حاصل کر لے،اُسی زمانہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنے دوستوں کی ضیافت کی اور خوب شراب لنڈھائی ، حالت نشہ میں نماز مغرب بھی پڑھی گئی تو امام نے ( جو کہ خود بھی حالت نشہ میں تھا ) سورۂ قُل یا ایھا الکافرون کے لا کو حذف کر دیا ، اس موقع پر سورۂ نساء کی آیت نمبر ۴۳ نازل ہوئی:
" اے ایمان والو ! جب تم نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ یہاں تک کہ سمجھنے لگو کہ منہ سے کیا کہتے ہو"
( سورہ نسا : ۴۳)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرامؓ نے اس تدریجی حکم پر اوقات نماز میں شراب نوشی بالکل ترک کر دی،ایک رات حضرت عتبانؓ بن مالک نے اپنے چند دوستوں کی دعوت کی، اونٹ ذبح کیا گیا اور کباب و شراب کا اہتمام ہوا، نشہ کی حالت میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگے، حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص نے فی البدیہہ قصیدہ میں رئیس انصاری کی ہجو کی، ایک انصاری نے اونٹ کی ہڈی سے ان کا سر پھاڑ دیا ، حضرت سعدؓ زخمی حالت میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے ، انصاری کی شکایت کی،یہ حالت دیکھ کر حضرت عمرؓ نے جو وہاں موجود تھے ، بارگاہ رب العزت میں دعا کی، اے اللہ ! شراب کے بارے میں واضح احکام نازل فرما، اس لئے کہ شراب تو مال و عقل دونوں کی دشمن ہے ، اس پر سورۂ مائدہ کی آیات ۹۰ تا ۹۲ نازل ہوئیں جن میں شراب کے قطعی حرام ہونے کا ذکر ہے:
" ائے ایمان والو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تا کہ تم فلاح پاؤ (۹۰) شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کر ا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ۔(۹۱)اور تم اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو ، اگر اعتراض کروگے تو یہ جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے ( ۹۲) ( سورۂ مائدہ )
ان آیات کے نازل ہونے کے بعد شراب اور جوئے کی قطعی حرمت کا اعلان ہوگیا، جب منادی حضرت ابو طلحہ ؓ کے مکان پر سے گزرا تو اس وقت ان کے مکان پر محفل ناؤ و نوش برپا تھی ، انھوں نے حضرت انس ؓ بن مالک سے کہا ، ذرا سننا ‘ کیا اعلان ہے ، معلوم ہوا کہ شراب کی حُرمت کا اعلان ہے ، حکم دیا کہ شراب کے مٹکے اٹھا ؤ اور باہر لے جا کر توڑ دو، شراب کے رسیوں نے بے تامل شراب کے خُم توڑ ڈالے اور اس روز یہ حال تھا کہ مدینہ کی گلیوںمیں شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی، بعض لوگوں نے اس پر ازراہ اعتراض کہا کہ" اگر یہ (شراب ) گندگی ہی ہے تو ان لوگوں کا کیا حشر ہوگا جنھوں نے غزؤہ بدر اور اُحد میں بھی شراب پی رکھی تھی؟ (حیات محمدﷺ - محمد حسین ہیکل) ، اس(اعتراض ) پر یہ آیت نازل ہوئی…
" جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ(پہلے) کھا پی چکے جب کہ انھوں نے پرہیز کیا اور ایمان لائے اور اچھے کام کئے پھر پرہیز کیا اور ایمان لائے پھر پرہیز کیا اور نیکی کی اور اﷲ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے"
(سورہ مائدہ :۹۳)
(سیرت احمد مجتبیٰ)

3 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

سب کی سب من گھرت باتیں ہیں ۔
اللہ کا دین ہرگز ایسا نہیں ہے ۔ قرآن نے کہہ دیا کہ تمہارے لیے گناہ ہے تو کیا کسی کی مجال ہے ایسا سوچے اور جب حکم ہوا آپ کو کہا گیا کہ ان سے کہہ دو حرام ہے گناہ ہے نقصان ہے ۔ بات ختم ۔ یہ ہوتی ہیں محکم آیات ۔
بات کردی تو تسلیم کرنا ہی ہم پر واجب ہے تحقیق کرنا نہیں تحقیق کرنا دنیاوی باتوں پر واجب ہے جیسی باتیں آپ سب نے کہی اس کے بارے میں تحقیق کرو۔
شراب اگر حلال ہوتی تو ان سے پہلے نبیوں پر بھی حلال ہوتی لیکن کہیں بھی کوئی بھی حوالہ نہیں آیا اگر حلال ہوتی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں بھی حلال ہوتی لیکن اُن کے مذہب میں بھی حرام ہے ۔ لیکن وہ پیتے ہیں تو پیتے تو اب مسلمان بھی ہیں گناہ ہے سو ہے ۔
ہمیں تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زمانہ جہالت میں لوگ بیٹیوں اوربہنوں سے نکاح کرتے تھے
وہ کافر تھے مسلمان نا تو کبھی تب ویسے تھے نہ کبھی آپ محمد ص کے آنے کے بعد ایسے ہوئے۔ جو جاہل تھے وہ آج بھی جاہل ہیں اور تاقیامت رہیں گے وہی لوگ منکر ہیں ۔
قرآن پڑھیں للہ قرآن پڑھیں اُسے سمجھیں اللہ سے دل لگائیں الرحمٰن ۔ علم القرآن ۔ وہ رحمٰن ہے وہ ہی علم دے گا قرآن کا آپ شروع تو کریں ۔
ایسی باتیں ہرگز مت پھیلائیں جو ایک تہمت کے جسی ہوں ۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

شراب کتنے ہجری میں حرام ہوے

Asghar Baig نے لکھا ہے کہ

شراب کتنے ہجری میں حرام ہوئی
اس پر 2۔ 4 اور 8 ہجری اس لئے جواب ملتے ہیں کیونکہ قرآن میں سورۃ البقرہ میں 2 ہجری میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا کہ اس (شراب) میں فائدے کی نسبت خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔ اس کے بعد سورۃ النساء میں تقریباً 4 ہجری اس کے بارے میں حکم ہوا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جاو۔ اس کے بعد سورۃ المائدہ میں اس سے قطعاً باز رہنے کا حکم صادر ہو گیا جو کہ تقریباً 8 ہجری کا واقعہ ہے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔