Saturday 29 August 2015

شھداء کی جمع اور تدفین




اس موقعے پر رسول اللہﷺ نے خود بھی شہداء کا معائنہ فرمایا۔ اور فرمایا کہ میں ان لوگوں کے حق میں گواہ رہوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی کیا جاتا ہے۔ اسے اللہ قیامت کے روز اس حالت میں اٹھائے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہو گا۔ رنگ تو خون ہی کا ہوگا لیکن خوشبو مشک کی خوشبو ہوگی۔( ایضاً ۲/۹۸)
کچھ صحابہؓ نے اپنے شہداء کو مدینہ منتقل کرلیا تھا۔ آپﷺ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے شہیدوں کو واپس لاکر ان کی شہادت گاہوں میں دفن کریں، نیز شہداء کے ہتھیار اور پوستین کے لباس اتار لیے جائیں ،پھر انہیں غسل دیئے بغیر جس حالت میں ہوں اسی حالت میں دفن کردیا جائے۔ آپﷺ دودوتین تین شہیدوں کو ایک ہی قبر میں دفن فرمارہے تھے۔ اور دودوآدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں اکٹھا لپیٹ دیتے تھے۔ اور دریافت فرماتے تھے کہ ان میں سے کس کو قرآن زیادہ یاد ہے۔ لوگ جس کی طرف اشارہ کرتے اسے لحد میں آگے کرتے اور فرماتے کہ میں قیامت کے روز ان لوگوں کے بارے میں گواہی دوں گا(صحیح بخاری مع فتح الباری ۳/۲۴۸ حدیث نمبر ۱۳۴۳، ۱۳۴۶، ۱۳۴۷، ۱۳۴۸، ۱۳۵۳، ۴۰۷۹)
عبد اللہ بن عمرو بن حرام اور عمرو بن جموحؓ ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے ، کیونکہ ان دونوں میں دوستی تھی۔( صحیح بخاری ۲/۵۸۴ زاد المعاد ۲/۹۸ 3 زاد المعاد ۲/۹۴)
حضرت حنظلہؓ کی لاش غائب تھی۔ تلاش کے بعد ایک جگہ اس حالت میں ملی کہ زمین سے اوپر تھی اور اس سے پانی ٹپک رہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتلایا کہ فرشتے انہیں غسل دے رہے ہیں۔ پھر فرمایا: ان کی بیوی سے پوچھو کیا معاملہ ہے ؟ ان کی بیوی سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے واقعہ بتلایا۔ یہیں سے حضرت حنظلہ کا نام غَسیل الملائکہ (فرشتوں کے غسل دیے ہوئے ) پڑگیا۔( یہ ابن شاذان کی روایت ہے۔ دیکھئے: مختصر السیرۃ للشیخ عبدا للہ ص ۲۵۵)
رسول اللہﷺ نے اپنے چچا حضرت حمزہ کا حال دیکھا تو سخت غمگین ہوئے۔ آپ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ تشریف لائیں ، وہ بھی اپنے بھائی حضرت حمزہؓ کو دیکھنا چاہتی تھیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان کے صاحبزادے حضرت زبیرؓ سے کہا کہ انہیں واپس لے جائیں۔ وہ اپنے بھائی کا حال دیکھ نہ لیں مگر حضرت صفیہؓ نے کہا : آخر ایسا کیوں ؟ مجھے معلوم ہوچکاہے کہ میرے بھائی کا مثلہ کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اللہ کی راہ میں ہے اس لیے جو کچھ ہوا ہم اس پر پوری طرح راضی ہیں۔ میں ثواب سمجھتے ہوئے ان شاء اللہ ضرور صبر کروں گی۔ اس کے بعد وہ حضرت حمزہؓ کے پاس آئیں۔ انہیں دیکھا۔ ان کے لیے دعا کی۔ إنا للہ پڑھی اور اللہ سے مغفرت مانگی۔ پھر رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ انہیں حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کے ساتھ دفن کردیا جائے۔ وہ حضرت حمزہؓ کے بھانجے بھی تھے اور رضاعی بھائی بھی۔
حضرت ابن مسعودؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب پر جس طرح روئے اس سے بڑھ کر روتے ہوئے ہم نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے انہیں قبلے کی طرف رکھا۔ پھر ان کے جنازے پر کھڑے ہوئے اور اس طرح روئے کہ آواز بلند ہوگئی۔
درحقیقت شہداء کا منظر تھا ہی بڑا دلدوز اورزہرہ گزار۔ چنانچہ حضرت خباب بن ارتؓ کا بیان ہے کہ حضرت حمزہؓ کے لیے ایک سیاہ دھاریوں والی چادر کے سوا کوئی کفن نہ مل سکا۔ یہ چادر سر پر ڈالی جاتی تو پاؤں کھُل جاتے۔ اور پاؤںپر ڈالی جاتی تو سر کھُل جاتا۔ بالآخر چادر سے سر ڈھک دیا گیا اور پاؤں پر اذخرگھاس ڈال دی گئی۔ یہ بالکل موج کے ہم شکل ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔ بہت سے مقامات پر چائے میں ڈال کر پکائی جاتی ہے۔ عرب میں اس کا پودا ہاتھ ڈیڑھ ہاتھ سے لمبا نہیں ہوتا۔ جبکہ ہندوستان میں ایک میٹر سے بھی لمبا ہوتا ہے۔مسند احمد ، مشکوٰۃ ۱/۱۴۰
حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ مُصعب بن عُمیرؓ کی شہادت واقع ہوئی - اور وہ مجھ سے بہتر تھے - انہیں ایک چادر کے اندر کفنایا گیا۔ حالت یہ تھی کہ اگر ان کا سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے۔ اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ ان کی یہی کیفیت حضرت خبابؓ نے بھی بیان کی ہے اور اتنا مزید اضافہ فرمایا ہے کہ (اس کیفیت کو دیکھ کر ) نبیﷺ نے ہم سے فرمایا کہ چادر سے ان کا سر ڈھانک دو اور پاؤں پر اِذخر ڈال دو۔( صحیح بخاری ۲/۵۷۹،۵۸۴ مع فتح الباری ۳/۱۷۰ حدیث نمبر ۱۲۷۶ ، ۳۸۹۷ ، ۳۹۱۳، ۳۹۱۴ ، ۴۰۴۷ ، ۴۰۸۲ ، ۶۴۳۲، ۶۴۴۸)

امام احمد کی روایت ہے کہ احد کے روز جب مشرکین واپس چلے گئے تو رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : برابر ہوجاؤ۔ ذرا میں اپنے رب عزوجل کی ثناء کروں۔ اس حکم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کے پیچھے صفیں باندھ لیں۔ اور آپﷺ نے یوں فرمایا :
''اے اللہ !تیرے ہی لیے ساری حمد ہے۔ اے اللہ ! جس چیز کو تو کشادہ کردے اسے کوئی تنگ نہیں کرسکتا۔ اور جس چیز کو تو تنگ کردے اسے کوئی کشادہ نہیں کرسکتا۔ جس شخص کو تو گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔اور جس شخص کو تو ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔ جس چیز کو توروک دے اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ اور جو چیز تو دے دے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ جس چیز کو تو دور کردے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا۔ اورجس چیز کو تو قریب کردے اسے کوئی دور نہیں کرسکتا۔اے اللہ ! ہمارے اوپر اپنی برکتیں رحمتیں اور فضل ورزق پھیلا دے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے برقرار رہنے والی نعمت کا سوال کرتا ہوں۔ جو نہ ٹلے اور نہ ختم ہو۔ اے اللہ! میں تجھ سے فقر کے دن مددکا اور خوف کے دن امن کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ ! جو کچھ تونے ہمیں دیا ہے اس کے شر سے اور جو کچھ نہیں دیا ہے اس کے بھی شر سے تیری پناہ چاہتاہوں۔ اے اللہ! ہمارے نزدیک ایما ن کو محبوب کردے۔ اور اسے ہمارے دلوں میں خوشنما بنا دے۔ اور کفر ، فسق اور نافرمانی کو ناگوار بنادے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں کردے۔ اے اللہ ! ہمیں مسلمان رکھتے ہوئے وفات دے اور مسلمان ہی رکھتے ہوئے زندہ رکھ۔ اور رسوائی اور فتنے سے دوچار کیے بغیر صالحین میں شامل فرما۔ اے اللہ ! تو ان کا فروں کو مار اور ان پر سختی اور عذاب کر جو تیرے پیغمبروں کو جھٹلاتے اور تیری راہ سے روکتے ہیں۔ اے اللہ ! ان کافروں کو بھی مار جنہیں کتاب دی گئی۔ یا الٰہ الحق ! ''(بخاری ، الادب المفرد ، مسند احمد ۳/۳۲۴)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔