Saturday 29 August 2015

بنو قریظہ سے متعلق متفرق واقعات


بنو قریظہ کی اس تباہی کے ساتھ بنو نضیر کا شیطان اور جنگ ِ احزاب کا ایک بڑا مجرم حیی بن اخطب بھی اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ یہ شخص اُم المومنین حضرت صفیہ ؓ جن سے غزوہ خیبر کے بعد حضور ﷺ نے نکاح کیا 'کا باپ تھا۔
بنو نجار کی ایک خاتون کے متعلق حضرت ام المنذر سلمیٰ بنت قیس نے گزارش کی کہ سموأل قرظی کے لڑکے رفاعہ کو ان کے لیے ہبہ کردیا جائے۔ ان کی بھی گزارش منظور ہوئی۔ اور رفاعہ کو ان کے حوالے کردیا گیا۔ انہوں نے رفاعہ کو زندہ رکھا۔ اور وہ بھی اسلام لاکر شرفِ صحبت سے مشرف ہوئے۔چند اور افراد نے بھی اسی رات ہتھیار ڈالنے کی کارروائی سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔ لہٰذا ان کی بھی جان ومال اور ذریت محفوظ رہی۔
ارباب سیر نے مقتولین کی تعد 600 سے زائد بیان کی ہے لیکن صحاح میں 400 ہے۔ان میں صرف ایک عورت تھی ۔ اس نے حضرت خَلاّد بن سُویدؓ پر چَکیّ کا پاٹ پھینک کر انہیں قتل کردیا تھا اسی کے بدلے اسے قتل کیا گیا۔
جب بنو قریظہ کاکام تمام ہوچکا تو بندہ ٔ صالح حضرت سعد بن معاذؓ کی اس دعا کی قبولیت کے ظہور کا وقت آگیا جس کا ذکر غزوۂ احزاب کے دوران آچکا ہے۔ چنانچہ ان کا زخم پھوٹ گیا۔ اس وقت وہ مسجد نبوی میں تھے۔ نبیﷺ نے ان کے لیے وہیں خیمہ لگوادیا تھا تاکہ قریب ہی سے ان کی عیادت کرلیا کریں۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ زخم ان کے لبہ (سینے)سے پھوٹ کر بہا۔ مسجد میں بنو غفار کے بھی چند خیمے تھے۔ وہ یہ دیکھ کر چونکے کہ ان کی جانب خون بہہ کر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا : خیمہ والو ! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے ہماری طرف آرہا ہے ؟ دیکھا تو حضرت سعد کے زخم سے خون کی دھاررواں تھی ، پھر اسی سے ان کی موت واقع ہوگئی۔( صحیح بخاری ۲/۵۹۱)
امام ترمذی نے حضرت انسؓ سے ایک حدیث روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذؓ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین نے کہا : ان کا جنازہ کسی قدر ہلکا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اسے فرشتے اٹھا ئے ہوئے تھے۔( جامع ترمذی ۲/۲۲۵)
بنو قریظہ کے محاصرے کے دوران ایک مسلمان شہید ہوئے جن کا نام خَلاّد بن سُوَیْد ہے۔ یہ وہی صحابی ہیں جن پر بنوقریظہ کی ایک عورت نے چکی کا پاٹ پھینک مارا تھا۔ ان کے علاوہ حضرت عکاشہ کے بھائی ابو سنان بن محصن نے محاصرے کے دوران وفات پائی۔

متعدد ارباب سیر نے حضور ﷺ کا قریظہ کے قیدیوں میں سے ایک یہودی عورت ریحانہ کو لونڈی کے طور پر اپنے حرم میں داخل کرنے کا لکھا ہے ۔ عیسائی مورخین نے نے اسکو نہایت ناگوار صورت میں پیش کیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرے سے یہ واقعہ ہی غلط ہے۔
ریحانہ کے حرم میں داخل ہونے کی تمام روایتیں واقدی اور ابن اسحاق سے ماخوذ ہیں ، اسی واقدی نے بتصریح بیان کیا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو حضور ﷺ نے انکو آزاد کرکے ان سے نکاح کیا ۔ ابن سعد نے واقدی کی جو روایت نقل کی ہے اس میں خود ریحانہ کے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں " پھر آنحضرت ﷺ نے مجھکو آزاد کردیا اور مجھ سے نکاح کر لیا۔
اسکے علاوہ حافظ ابن حجر نے اصابہ میں محمد بن الحسن کی تاریخ مدینہ سے جو روایت نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں
ریحانہ قرظیہ جو آنحضرت ﷺ کی زوجہ محترمہ تھیں اس مکان میں رہتی تھیں۔
(ابن کثیر جلد 5 صفحہ 305)
مزید حافظ ابن مندہ کی کتاب طبقات الصحابہ تمام محدیثین ما بعد کا ماخذ ہے' اس میں یہ الفاظ ہیں :
ریحانہ کو گرفتار کیا اور پھر آزاد کردیا تو وہ اپنے خاندان میں چلی گئیں اور وہیں پردہ نشین ہو کر رہیں۔
حافظ ابن حجر اس عبارت کو نقل کرکے لکھتے ہیں 'اور یہ بڑی مفید تحقیق ہے جس سے ابن اثیر نے غفلت کی "۔
(الصابہ فی احوال الصحابہ ذکر ریحانہ، جلد 4 صفحہ 309)
حافظ ابن مندہ کی عبارت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے انکو آزاد کردیا اور وہ اپنے خاندان میں جا کر پردہ نشین ہو کر رہیں۔
مولانا شبلی نعمانی سیرت النبی میں اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہی محقق واقعہ ہے اور اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ حرم نبوی میں آئیں تب بھی قطعا وہ منکوحات میں تھیں کنیز نا تھیں۔

یہ غزوہ ذی قعدہ میں پیش آیا پچیس روز تک محاصرہ قائم رہا۔ ابن ہشام ۲/۲۳۷، ۲۳۸ غزوے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو: ابن ہشام ۲/۲۳۳ تا ۲۷۳ صحیح بخاری ۲/۵۹۰، ۵۹۱ زاد المعاد ۲/۷۲، ۷۳، ۷۴، مختصر السیرۃ للیشخ عبد اللہ ص ۲۸۷ ،۲۸۸، ۲۸۹، ۲۹۰۔اللہ نے اس غزوہ اور غزوہ ٔ خندق کے متعلق سورۂ احزاب میں بہت سی آیات نازل فرمائیں۔ اور دونوں غزووں کی اہم جزئیات پر تبصرہ فرمایا۔ مومنین ومنافقین کے حالات بیان فرمائے۔ دشمن کے مختلف گروہوں میں پھوٹ اور پست ہمتی کا ذکر فرمایا۔ اور اہل کتاب کی بدعہدی کے نتائج کی وضاحت کی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔